حیدرآباد

قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر وزارت اقلیتی بہبود کی مداخلت

قادیانیوں کو جو خود کو”احمدیہ مسلم“ کہلانا پسند کرتے ہیں کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے آندھراپردیش وقف بورڈ کی جانب سے ایک قرارداد کی منظوری کے ضمن میں مودی حکومت کی وزارت اقلیتی بہبود کی جانب سے وضاحت طلبی پر مسلمانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

حیدرآباد: قادیانیوں کو جو خود کو”احمدیہ مسلم“ کہلانا پسند کرتے ہیں کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے آندھراپردیش وقف بورڈ کی جانب سے ایک قرارداد کی منظوری کے ضمن میں مودی حکومت کی وزارت اقلیتی بہبود کی جانب سے وضاحت طلبی پر مسلمانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق قادیانیوں کی جانب سے 20 /مئی کو وزارت سے نمائندگی کی گئی جس میں ادعا کیا گیا کہ چند وقف بورڈس احمدیہ برادری کی مخالفت کررہے ہیں اور ان کی برادری کو خارج از اسلام قرار دیتے ہوئے قراردادیں منظور کررہے ہیں۔

وزارت نے اس مکتوب کی نقل چیف سکریٹری آندھرا پردیش کو روانہ کرتے ہوئے ان سے اس معاملہ میں مداخلت کرنے کی خواہش کی۔ بتایا جاتا ہے کہ وزارت نے سخت الفاظ میں تحریر کردہ مکتوب میں وقف بورڈ کی قرارداد کو نفرت کی مہم قرار دیا جو ملک بھر میں پھیل سکتی ہے۔

مکتوب میں کہا گیا کہ یہ قرارداد احمدیہ برادری کے خلاف بڑے پیمانہ پر ایک نفرت انگیز مہم قرار پاتی ہے اور وقف بورڈ کسی برادری بشمول احمدیوں کی مذہبی شناخت کا تعین کرنے کا نہ ہی دائرہ اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی وہ اس کا مجاز ہے۔ یاد رہے کہ متحدہ آندھرا پردیش میں 2012 ء میں وقف بورڈ نے ساری احمدیہ برادری کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی تھی۔

اس قرارداد کو آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں چالینج کیا گیا تھا جس پر عدالت العالیہ نے اس قرار داد کو عبوری طور پر معطل کردیا تھا۔ وزارت نے قادیانیوں کے ادعا کی بنیاد پر کہا کہ ہائی کورٹ کے احکام کے باوجود موجودہ علحدہ آندھرا پردیش کے وقف بورڈ نے اس کے صدر نشین کی دستخط کے تحت ایک اور ادعا کیا ہے۔

اس دعویٰ کے مطابق وقف بورڈ نے جاریہ سال فبروری میں ایک اور قرارداد یہ بیان کرتے ہوئے منظور کی کہ جمعیتہ العلماء ہند کے فتویٰ مورخہ 26 /مئی 2009 کی رو سے قادیانی برادری کو کافر قرار دیا گیا ہے۔ قادیانیوں کی احمدیہ مسلم جماعت انڈیا نے مرکز سے کی گئی اپنی نمائندگی میں کہا کہ یہ قرارداد ہمارے حقوق کے قطعی منافی ہے اور وقف بورڈ کی اس طرح کی سرگرمیاں امتیازی اور قانون وقف اور بھارتی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے جو ہمارے خلاف نفرت انگیز مہم کے مترادف ہے۔

وزارت کے مکتوب میں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ قانون وقف 1995 بھارت میں اوقافی جائیدادوں کی دیکھ بھال اور اس کے انتظام کے لئے مدون کردہ قانون ہے اور یہ ریاستی وقف بورڈس کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی منادی کرے۔

قانون کی دفعات کے تحت اور ریاستی حکومت کے ادارہ کے طور پر ریاستی وقف بورڈ ریاستی حکومت کی منظورہ ہدایات جاری کرسکتا ہے اور اس کو کوئی اختیار نہیں کہ کسی غیر سرکاری فاعل کی جانب سے جاری کردہ فتوؤں پر توجہ دے۔

وزار ت نے یہ محسوس کیا کہ وقف بورڈ نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے اور اس کو اس طرح کے احکام جاری کرنے کا حق نہیں ہے خاص کر جب اس سے ایک مخصوص برادری کے خلاف دشمنی عدم رواداری پیدا ہوسکتی ہے۔ اس خصوص میں ارباب وقف بورڈ سے ربط پیدا کرنے پر بتایا گیا کہ قادیانیوں کے خلاف ایک قرارداد متحدہ آندھرا پردیش میں منظور کی گئی تھی تاہم اس کے بعد کوئی قرارداد منظور نہیں کی گئی ہے۔

وزارت اقلیتی بہبود کے مکتوب سے متعلق بتایا گیا کہ انہیں تاحال ایسی کوئی مراسلت موصول نہیں ہوئی ہے‘ ممکن ہے کہ ریاستی حکومت کو یہ مکتوب موصول ہوا ہوگا۔ وقف بورڈ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ مکتوب کی موصولی کے بعد وقف بورڈ اس خصوص میں وضاحت کرے گا۔