محمد نعیم الدین خطیب
آزاد نگر ملی جلی آبادی والی بستی تھی۔یہاں سبھی ذاتوں کے لوگ رہتے تھے۔نچلی ذاتوں پر کچھ پابندیاں تھیں۔ اسی بستی میں ایک سادہ سی مسجد تھی جہاں قلندر شاہ امامت کرتے تھے۔بستی کے چوپال پرلوگ بیٹھتے،دنیا بھرکی باتیں کرتے۔ جب بھی قلندرشاہ کا گزر ہوتا لوگ احتراماً کھڑے ہوجاتے، سبھی ذاتوں کے لوگ اپنے بچوں اوربیماروں کے لیے دعا کا پانی لینے آتے۔ قلندر شاہ مسجد میں بیٹھ کر مصلیان کودینی مسائل بتاتے،دن اورماہ گزرتے رہے۔ پھر بستی میں بیرونی لوگوں کی آمد اور سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ دعا کا پانی لینے والے بچوں کودعا پھکوانے والے کم ہونے لگے۔ قلندر شاہ چوپال سے گزرتے تو لوگ احتراماً کھڑے ہونے کی بجائے منہ موڑلیتے۔ بستی میں مسلمان،مسجد، اذان، جہاد کو لے کر چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں۔ چودہ سو سال سے اذان کی آواز سے آشنا کانوں کواذان سے شکایت ہونے لگی۔ اخبارات میں مہنگائی، بیروزگاری،بھکمری‘ کرپشن کی بجائے ماب لیچنگ،لوجہاز، تبدیلی‘ مذہب،یکساں سول کوڈجیسے موضوعات چھانے لگے۔ مسلمانوں سے ہمدردی جتانے والے بھی مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہونے سے کترانے لگے۔ ہم جیسے لوگ نئی نئی مسجدیں بنانے، اوراپنی اپنی جماعتوں میں مصروف رہے۔لیکن قلندرشاہ نے بستی میں پھیلتی نفرت کی بو سونگھ لی۔ حکومت بھی کھلّم کھلا نفرتی بیانوں کی حمایت میں بولنے لگی۔ سیدھے سادے لوگ نفرتی پروپگنڈے کا شکار ہوکر اندھ بھگت بننے لگے۔ قلندرشاہ حالات کو لے کر خاصے بے چین تھے۔ آخرایک دن ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ مسلمانوں کے دیگر لوگوں سے تجارتی‘ سماجی‘ سیاسی‘ معاشی‘تعلیمی سبھی قسم کے تعلقات ہیں لیکن دینی تعلقات نہیں ہیں، ہم اپنی مسجدوں‘ خانقاہوں‘ مدرسوں میں بند ہوگئے ہیں۔ ہم دیگر اقوام سے مذہبی تعلقات (گفتگو) رکھنے میں کتراتے ہیں۔ ہم شادی بیاہ میں‘عقد کی محفل میں دیگر اقوام کومسجد میں بلاتے ہیں، لیکن دین کی معلومات اور اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے مسجد میں کوئی محفل نہیں سجاتے۔ رسولؐ کا ارشاد ہے کہ اللہ کا حکم لوگوں تک پہنچاؤ چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔ ”اے قلندر تیرے سینے میں تو 6666آیات محفوظ ہے، لیکن توتو بس اپنی ریاضت،عبادت اور مجاہدے میں مست ہے۔ اللہ کے ان بندوں تک اللہ کا پیغام کون پہنچائے گا؟“ یہ سوچ سوچ کراپنی داڑھی پکڑپکڑکرقلندر شاہ خوب روئے۔ حق کا پیغام بندگان خدا تک پہنچانے کا عزم لے کر خدا سے صبر، استقامت اورپامردی کی دعا کی۔عصر کی اذان ہوئی تو مسجد میں مصلیان آنے لگے، ان میں سیدصاحب دیگرزبانیں اچھے سے بول سکتے تھے۔خانصاحب کی دیگر لوگوں سے خاصی علیک سیلک تھی۔ شیخ صاحب بھی دیگرلوگوں میں مقبول تھے۔قلندرشاہ نے تینوں کو رکنے کے لیے کہا۔ نماز کے بعدرقت آمیز دعاکے ساتھ یہ قافلہ بستی کے لوگوں سے ملنے روانہ ہوا۔ پہلا گھر سکھ رام کا تھا۔ مسجد کے بڑے مولانا (امام صاحب) سکھ رام کے دروازے پر کھڑے تھے۔ 62سالہ سکھ رام کی زندگی میں یہ پہلاموقع تھا، اتنی پاکیزہ ونورانی شخصیت کودیکھ کر بہت خوش ہوا اور امام صاحب کے پیروں پرگرنے لگا، امام صاحب نے آگے بڑھ کراسے گلے لگالیا اوربڑی محبت سے سمجھایا کہ سرجھکانے کے لیے ایک اللہ ہی کافی ہے۔ تم تو تمام انسانوں کے باپ آدامؑ کی اولاداور میرے بھائی ہو۔ اتنی پاکیزہ شخصیت کے گلے لگ کر سکھ رام سکھی ہوگیا۔ پانچ دس منٹ گفتگو چلتی رہی۔ امام صاحب نے سکھ رام کے حالات اورمسائل دریافت کیے۔ اتنے میں سکھ رام کی بہو اپنے ننھے بچے کو لے کر آئی۔ امام صاحب نے بچے کے سرپر ہاتھ پھیرا اوردعائیں دیں۔ اطراف کے چند لوگ بھی شامل گفتگو ہوئے۔دوران ِ گفتگو سیدصاحب کی زبان دانی‘ خانصاحب اورشیخ صاحب کی جان پہچان بہت کام آئی اس طرح چارپانچ گھروں سے ملاقات کی گئی۔ عز م کیاگیا کہ بستی کے تمام ہی لوگوں سے دینی ملاقاتیں کی جائیں گی۔ چندماہ بعد طئے کیا گیا کہ مسجد پریچئے پروگرام لیا جائے گا۔ تمام ہی لوگوں کو مسجد آنے کی دعوت دی گئی۔72سالہ دھنی لال خوش تھا کہ اسے پہلی بارمسجد بلایا گیا۔ گنپت اپنے مسلم دوستوں کے نکاح کے لیے کئی بار مسجد گیاتھالیکن اسے مسجد کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ نوجوان راکیش کوبتایاگیا تھا کہ مسجد میں ہتھیار رکھے جاتے ہیں، مارنے اور کاٹنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ راکیش نے طے کیا کہ وہ مسجد کے ہرحصے کودیکھے گا، لیکن مسجد میں نہ تو ہتھیارتھے نہ جہادی ٹریننگ کا انتظام نہ ہی مرنے مارنے کے منصوبے۔ یہاں تواللہ کے سامنے جھکنے،انسانوں سے محبت کرنے‘ ان کی خدمت کرنے اور قربانی دینے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ تمام ہی حاضرین کومسجد، قرآن، اذان‘ نماز،وضو کی تفصیلی معلومات دی گئیں۔ انھیں مسجد کے حصے اور ان کی اہمیت بتائی گئی۔ درمیان میں چائے، بسکٹ سے خاطر تواضع کی گئی۔ چند ہی مہینوں میں بستی کا ماحول خوشگوار ہوگیا۔ اب بستی کا بوڑھا ہویا جوان مسجد، اذان، نماز کے بارے میں کسی بھی جھوٹی کہانی سننے کا روادارنہ تھا، کیوں کہ مسجدان کے لیے ہر وقت کھلی تھی۔ ناممکن نہیں کہ ان کے دل کا دریچہ بھی کھل جائے۔ بس ایک قلندرشاہ کوان تک پہنچنے کی دیر ہے۔٭٭٭
٭٭٭