گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
موجودہ ہندوستان‘پاکستان‘بنگلہ دیش وسری لنکا پر مشتمل سابقہ غیر منقسم ہندوستان میں باہر سے یوں تو کئی بادشاہ‘حملہ آور اور حکمران آئے اور اس خطہ کو مسخر کرنے اور یہاں کے افراد کو زیر نگیں کرنے میں اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کیں لیکن جب اُن کی شمع حیات بجھ گئی تو اب ان میں سے کچھ کا تو کام ونام یاد کیا جاتا ہے اور کچھ تو ایسے ہیں جن کا فقط نام رہ گیا ہے۔
ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔپادشاہ قادری
معتمد سید الصوفیہ اکیڈمی ‘پرنسپل ایس ‘ایم ‘وی کالج حیدرآباد
موجودہ ہندوستان‘پاکستان‘بنگلہ دیش وسری لنکا پر مشتمل سابقہ غیر منقسم ہندوستان میں باہر سے یوں تو کئی بادشاہ‘حملہ آور اور حکمران آئے اور اس خطہ کو مسخر کرنے اور یہاں کے افراد کو زیر نگیں کرنے میں اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کیں لیکن جب اُن کی شمع حیات بجھ گئی تو اب ان میں سے کچھ کا تو کام ونام یاد کیا جاتا ہے اور کچھ تو ایسے ہیں جن کا فقط نام رہ گیا ہے اورکچھ تو ایسے ہیںکہ ان کاتو نام ونشان تک مٹ گیا ہے مگر آنے والوں میں ‘باہر سے آکر یہاں کی سرزمین کو اپنانے والوں میں‘ اوریہیں بس جانے والوں میں‘ ایسے لوگ بھی تھے کہ جن کی مقبولیت خالق و مخلوق کے نزدیک کل بھی تھی اور آج بھی ہے بلکہ کل جس قدر تھی اس میں دن بہ دن مزید اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے‘کون تھے وہ لوگ؟کیوں آئے تھے؟ اب کہاں رہتے ہیں وہ؟جی ! وہ لوگ اولیاء اللہ تھے‘جو پیغام حق کے ساتھ بندگانِ خدا کو محبت الٰہی کا جام پلانے اور امن عالم کا انتظام کرنے کے لئے آئے تھے اور صدیاں گذرجانے کے بعد آج بھی وہ مخلوق کے سینوں کے اندر دلوں میں موجود اور اپنی مزاروں میں زندہ ہیں؎
سرکارِمدینہ کی اُلفت میں جو مرتے ہیں
اللہ کے وہ بندے زندہ ہیں مزاروں میں
ایسے ہی باخدا‘اولیاء اللہ میں پہلے پہل سرزمین ہند پر آنے والے ایک دائمی محبوب الخلق حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ بھی ہیں جو عرف عام میں داتا علی ہجویریؒ یا ’’حضرت داتاگنج بخشؒ ‘‘ کے معروف لقب سے پچھلے ایک ہزار سال سے مخلوق خدا کے دلوں پر حکومت کررہے ہیں آپکا آستانہ’’داتادربا‘‘ اور وہ شہر جس میں آپ آرام فرماہیں’’داتا کی نگری‘‘کہلاتا ہے جس سے مراد عہد حاضر میں ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کا سرحدِ ہندوستان سے قریب ترین واقع مشہور شہر’’لاہور‘‘ہے۔
آپ کی شُہرت کا سبب آپ کے روحانی فیضانِ مسلسل کے علاوہ سارے عالم میں علم تصوف پر آپ کے قلم خوش رقم سے منصّہ شہود پر جلوہ گر ہونے والی وہ ایک ہزار سالہ قدیم فارسی تصنیف بھی ہے جس کو ’’تصوف‘‘کے بنیادی اور ابتدائی مآخذمیں شمار کیا جاتا ہے اور جواپنے انوکھے نام ’’کشف المحجوب‘‘ (Unveiling the secret)کی وجہ سے پچھلی دس صدیوں سے تشنگان علم تصوف کی بلا لحاظ مقام وعلاقہ‘عقیدہ ومسلک‘زبان ولغت پیاس بُجھاتی آرہی ہے کیوںکہ دنیا کی بے شمار زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہوچکاہے۔
آپ کی تعلیمات ‘فکر اور خدمات کو سمجھنے اور آپ کے پیغام کو پانے کیلئے اس کتاب کا بغور مطالعہ ہی کافی ہے یہاں تک کہ اس کے بارے میں کہنے والوں نے کہاکہ اگر کسی کو حالات کی ناسازگاری کے سبب سچا پیر کامل میسر نہیں تو یہ کتاب اس کے لئے پیر کا بدل بننے کی صلاحیت رکھتی ہے اس سے اس کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے البتہ اصلی پیر کی شخصیت اور اس کے فیضان کی اثرپذیری اپنی جگہ مسلم ہے ہم اس مضمون میں کتاب کے بجائے صاحب کتاب پر مختصراًتعارفی کلمات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں تاکہ حدیث پاک صالحین کا ذکر گناہوں کا کفارہ ہے کی برکتیں ہمارے دامن کو میسر ہوں ۔
آپ کی کنیت ابوالحسن ‘اصل نام :علی‘ولدیت: عثمان‘ نسبت سکونت کے باعث الجلابی‘الہجویری ‘الغزنوی کہلاتے ہیں‘ مسلکاً : حنفی ‘نسباًحسنی سادات سے ہیں والد کی طرف سے سیدنا امام حسن ؓبن سید نا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے سلسلہ نسب جاملتا ہے۔سن ولادت: بعض تذکرہ نگاروں نے ۴۰۰ھ م ۱۰۰۹ء لکھا ہے اس وقت سلطان محمود غزنوی کا عہد ِ حکومت چل رہا تھا۔
آپ کی تربیت والدین کے زیر سایہ بہترین انداز میں ہوئی چونکہ خودوالدین دین دار اور علوم ظاہروباطن سے سرفراز تھے اس لئے اپنے بیٹے کو بھی صاحب علم وفضل بنانے میں کوئی کمی نہ کی گھر کاماحول خالص علمی ودینی تھا جس کااثر قبول کرتے ہوئے خوب علمی استفادہ کیا ونیز اس وقت شہر غزنی میں کئی مدارس ومراکز تعلیم وتربیت کی موجودگی کا بھی بیحد فائدہ اُٹھایا حصول علم کے ساتھ عبادت کا شوق وذوق صغر سنی ہی سے مزاج میں موجود تھا۔
مروجہ علوم ‘عربی‘فارسی‘فقہ ‘حدیث‘تفسیر ‘منطق ‘فلسفہ وغیرہ پر مہارت ودسترس ودیگر علوم ظاہری وباطنی کے اکتساب میں بڑی محنت وجانفشانی سے کام لیا جن اساتذہ سے شرف تلمذ رہا ان میں ابوالفضل محمد بن الحسن الختلیؒ‘شیخ ابوالقاسم عبد الکریم بن ہوازن القشیریؒ‘امام ابوالعباس بن محمد اشقانیؒ ‘شیخ ابوسعید ابوالخیر ؒ‘خواجہ مظفر احمد بن احمد بن حمدانؒ ‘ابوالعباس احمد بن محمد قصابؒ ابوجعفر محمد بن مصباح صدلانی باب فرغانیؒ حضرت عبد اللہ بن علی الداغستانیؒ ‘حضرت شیخ ابوالقاسم بن علی بن عبد اللہ گرگانیؒ کے نام قابل ذکر ہیں ۔
اس فہرست میں سب سے آخر میں ذکر کئے گئے حضرت گرگانیؒ آپ کے سب سے پہلے استاد بتائے جاتے ہیں جن سے آپ نے درسی علوم حاصل کئے اور سب سے زیادہ استفادہ کیا اور مندرجہ بالا اسمائے گرامی میں سر فہرست حضرت ابوالفضل محمد بن حسن ختلیؒ جو علوم عقلیہ ونقلیہ کے ماہر استاذ ہونے کے علاوہ ایک شیخ کامل تھے اور ولایت کے بلند درجہ پر فائز تھے سلسلہ جنیدیہ کے شیوخ میں امتیازی شان کے حامل اور اپنے ہمعصر بزرگوں میں اس قدر اونچے مقام پر تھے کہ کوئی اور آپ کا ہم پلہ وہمسر نہ تھا اس بزرگ سے آپ نے منسلک ہوکر سید الطائفہ حضرت شیخ المشائخ جنید بغدادیؒ سے منسوب سلسلہ جنیدیہ سے اپنے آپ کو وابستہ کرلیا اور تزکیہ قلب وتصفیہ باطن کی مزید منزلیں طئے کرنے کے لئے راہ سلوک پر گامزن ہوگئے۔
اپنی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں آپ نے اپنے پیر و مرشد سے حاصل کردہ فیوض وبرکات روحانی کاجابجا تذکرہ فرمایا ہے کرامات وحالات کے علاوہ صوفیہ کے مختلف اصطلاحات ومقامات پر بھی کشف المحجوب میں سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ونیز ساری تفصیلات کو قرآن وحدیث کی روشنی میں شریعت مطہرہ کے تحت ثابت کیاہے اس لئے تصوف پر اہل تصوف کے نزدیک اس کتاب کی بڑی قدر ومنزلت ہے ۔
حضرت داتا گنج بخشؒ نے مختلف مقامات کی سیر وسیاحت کی خراسان‘ نیشاپور‘ آذربئیجان‘ طوس‘ سرخس ماوراء النہر‘ فرغانہ‘ حوزستان ‘ببرستان‘ بخارا‘ اَہواز‘ کرمان‘ فارس‘ دمشق‘ بغداد سے ہوتے ہوئے آپ لاہور تشریف لائے۔اس وقت یہاں آبادی کم تھی فلک یوس عمارتیں نہیں تھیں ۔اسلام قبول کرنے والوں کی مختصر تعداد آپ سے پہلے آنے والے مبلغین کی وجہ سے موجود تھی تاہم آپ کی آمد کے بعد اس میں روزافزوں اضافہ ہونے لگا اورپھر ایک مسجد کی ضرورت پیش آئی اس طرح لاہور کی پہلی مسجد آپ نے تعمیر کی اور ایک درسگاہ بھی قائم کی جس میں طلبہ کو درس دیا کرتے بعض وجوہات نے اس کام کو آگے جاری رکھنے نہ دیا۔
آپ کی طبیعت میں سخاوت فیاض دریادلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی سب سے زیادہ جو لقب آپ کے لئے مشہور ومعروف ہو وہ گنج بخش ہے جسکی وجہ بتاتے ہوئے بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ چونکہ یہ لقب اللہ کے اک اور مقبول ومحبوب ولی حضرت خواجہ معین الدین چشتی ہند الولی سلطان الہند عطائے رسول غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے نکلاہوا ہے اسی لئے اس قدر مشہور ہوا چنانچہ تقریباًہر تذکرہ نویس نے اس واقعہ کو لکھا ہے کہ جب حضور غریب نواز ؒاجمیر شریف تشریف لارہے تھے تو راستہ میں آپ نے مزار پاک حضرت سید علی ہجویریؒ پر لاہور میں چلہ کیا اور فیضان علم وعرفان پاکر واپس چلے تو روانگی کے وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ شعر آگیا؎
گنج بخشِ فیض ِعالم مظہر نور خدا
ناقصاں راپیر کامل‘کاملاں رارہنما
آپ کے ہاتھوں بے شمار افراد نے اپنے آپ کو اسلام سے وابستہ کیا آپ نے دیار غیر میں آکر اپنے اخلاق کردار اور عقیدۂ توحید کے انوار سے روحانی فیضان کچھ اس انداز سے پھیلایاکہ دیکھتے ہی دیکھتے سارا علاقہ نغماتِ توحیدد ورسالت سے گونج اُٹھا ۔اگر ایسا کہاجائے تو بیجانہ ہوگا کہ ہندوستان میں آکر حضور غریب نوازؓ نے تبلیغ واشاعت اسلام کی جوعظیم خدمت انجام دی اس کاآغاز (موجودہ سرحدِ ہند پر) سرزمینِ لاہور سے حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش علیہ الرحمہ نے کردیا تھا اور اسی کی تکمیل بعد کے ادوار میں غریب نوازسرکارؒ اور آپ کے خلفاء ؒ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ ‘حضرت خواجہ حمید الدین ناگوریؒ وغیرھم اور ان کے سلاسل مبارکہ میں آنے والے مزید خلفاء حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ ‘حضرت سیدعلی احمد صابر کلیریؒ‘ حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی ؒ‘حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ ‘حضرت خواجہ برہان الدین غریب ؒ ‘حضرت خواجہ سراج الدین اودھی ؒ ‘حضرت خواجہ سید محمد حسینی المعروف بہ بندہ نواز ؒ ‘حضرت خواجہ کمال الدین علامہ ؒ‘حضرت علاء الحق لاہوریؒ‘ حضرت سید جہانگیر اشرف سمنانی ؒ ‘وغیرہم نے کی چنانچہ آج سارا برصغیر اور اس کا چپہ چپہ محبانِ اولیاء اللہ سے آباد اور فیضانِ اولیاء اللہ سے شاد نظر آتاہے جو پچھلی ہزار سالہ تاریخی خدمات کانتیجہ ہے جو اولیائے اسلام علمائے کرام ومشائخ عظام نے انجام دیں جس میں سب سے زیادہ حصۃ سلسلہ چشتیہ بہشتیہ کے بزرگوں کا ہے ونیز سلسلہ قادریہ ونقشبندیہ اور سہروردیہ سے نکلنے والی الگ الگ شاخوں سے وابستہ بزرگانِ دین اور ان کے متبعین‘ معتقدین‘ ومتوسلین‘ مریدین ومستفیدین نے ملک کے طول وعرض کے کونے کونے میں پہنچ کراپنے روحانی تصرفات کو بروئے کارلاتے ہوئے باطل شکن بن کر ماضی میں جو انوار اسلام کے لئے میدان صاف کیا اور راہ ہموار کی تھی موجودہ دور میں اس پوری طاقت وقوت کویاتو دنیا طلبی واناپرستی کے عفریت نے تباہ کردیا یا فرقہ بندی اور بدعقیدگی کے بھوت نے برباد کردیا اب ہمارا سارا زور اپنی علمی وروحانی طاقتوں کو نکھارنے سنوارنے کے بجائے آپسی مسائل پر ایک دوسرے کونیچا اور بے عزت کرنے میں صرف ہورہا ہے ۔الامان والحفیظ۔
وصال:حقیقی اہل تصوف جو اپنے خالق ومالک سے محبت کی اعلیٰ منزلوں میں فنائیت کے درجے میں رہتے ہیں ان کے لئے موت دراصل اختتام زندگی نہیں بلکہ عربہ مقولہ الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب (موت ایک پُل ہے جو ایک چاہنے والے (بندہ)کو ایک چہیتے (رب)سے ملادیتی ہے)کے مطابق وصل ہے اسی لئے اہل اللہ کی وفات کے لئے لفظ ’’وصال‘‘استعمال کیاجاتاہے ۔؎
موت کو سمجھا ہے ناداں اختتام ِزندگی
یہ ہے شامِ زندگی صبحِ دوام زندگی
اس ولی کامل کا وصال بعمر(۶۵)سال ہوا اکثر مورخین نے سنہ وصال ۴۶۵ح لکا ہے اس حساب سے اس سال ۱۴۴۵ھ میں آپ (۹۸۰)واں عرس شریف بڑے تزک واحتشام سے منعقد ہورہا ہے۔ماہ صفرکی (۱۸)تاریخ سے سالانہ عرس شریف ہوا کرتا ہے جس میں بغیر کسی دعوت کے ملک کے کونے کونے سے ہزاروں لاکھوں زائرین حاضر ہوکر اپنے دامن سعادتوں سے بھرلیا کرتے ہیں۔
حضرت داتا گنج بخشؒ سے بہت ساری کرامات بھی منسوب ہیں چنانچہ جب آپ کی بناء کردہ جدید مسجد کے قبلہ کی سمت درست نہیں ہے کہ کر اعتراض کیا گیا تو سب کو بلواکر آپ نے نماز کی امامت کروائی اور کہا قبلہ رُخ دیکھو تو سب نے دیکھا کہ بالکل اُسی سمت کعبۃ اللہ نظرآرہا ہے اور اس طرح سمتِ قبلہ کے درست ہونیکی تصدیق ہوگئی جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے حضرت داتا گنج بخش ؒ کی لاج رکھنے کے لئے درمیان سے سارے حجابات اُٹھادئے۔اسی طرح دودھ سے متعلق بھی مشہور آپ کی کرامت آپ کی حین حیات وقوع پذیر ہوئی تھی جس کے باعث کئی سوافراد داخل اسلام ہوگئے تھے۔بعد از وصال تاحال کرامات کے ظہور کا سلسلہ جاری وساری ہے جس سے عقیدت مندفیضیاب بھی ہوتے ہیںجس کی ایک داستان ہے جو ایک الگ مستقل مضمون کی متقاضی ہے ۔سفینۃ الاولیاء کے مصنف کے مطابق جو شخص آپ کے مزار پُر انوار پر حاضر ہوکر اللہ سے دعاء کرتا ہے تو اسکی دعائیں قبول ہوتی ہیں چنانچہ ہر زمانے کے کبار اولیاء آپ کے دربار میں حاضر ہوتے رہے ہیں اور فیضان سے مالامال ہوتے رہے ہیں۔آپ کے وصال کو تقریباًایک ہزار سال ہورہے ہیں اور زمانہ قدیم سے یہ بات مشہور ہے کہ لاہور میں کوئی بھوکا نہیں سوتا کیوںکہ آپ کے آستانہ سے سال کے ۱۲ مہینے لنگر شریف کا روزانہ سلسلہ جاری رہتا ہے جس سے بلا لحاظ مذہب وملت و فکرو عقیدہ دن رات سب فیضیاب ہوتے ہیں۔اس مقام پر ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد حاضر ہوا کرتے اور سکون قلب کی دولت‘ بارگاہِ رب العزت سے قبولیت ِ دعاء کی نعمت کے حصول سے کامیاب ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ عالم اسلام کو اہل اللہ کے فیوض وبرکات سے مالامال فرمائے اور ہمیں اُن کے بارے میں جاننے اور ان کی قدر کرنے اور جو موجودہ زمانے کے صالحین ہے ان کی صحبت اختیار کرنے اور فیضیاب ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین وآلہ واصحابہ اجمعین۔
(اخذ واستفادہ: سیرت حضرت داتا گنج بخشؒ :علامہ شمس الدین چشتیؒ‘کشف المحجوب :حضرت داتا گنج بخشؒ‘ مشکوۃ النبوۃ: حضرت سید غلام علی شاہ قادری ؒودیگر کتب تاریخ وسیراولیاء اللہ )
٭٭٭