ہندوستان میں مسلمانوں کی مساوات کا سوال ہنوزایک افسانہ۔سروے رپورٹ میں انکشاف
بہار، مغربی بنگال، آسام اوریوپی کے اقلیتی اضلاع میں مسلمانوں کی پسماندگی پر ایک آڈٹ رپورٹ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے نعرہ کو تارتارکردیتی ہے اورکہتی ہے کہ مسلمانوں کی مساوات کاسوال ہندوستان میں اب بھی ایک افسانہ ہے۔
پٹنہ: بہار، مغربی بنگال، آسام اوریوپی کے اقلیتی اضلاع میں مسلمانوں کی پسماندگی پر ایک آڈٹ رپورٹ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے نعرہ کو تارتارکردیتی ہے اورکہتی ہے کہ مسلمانوں کی مساوات کاسوال ہندوستان میں اب بھی ایک افسانہ ہے۔
ویب سائٹ ’دی مسلم مرر‘ کی اطلاع کے مطابق آڈٹ میں ان دس اضلاع پر توجہ مرکوز کی گئی جن میں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی تقریباً14.1 ملین ہے جوضلع کی مجموعی آبادی کا52 فیصد حصہ ہے۔پریس کلب آف انڈیا‘نئی دہلی میں 15۔ اپریل2023کویہ آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی۔
رپورٹ میں جن دس اضلاع پرتوجہ مرکوز کی گئی ہے ان میں بہارکے 4(ارڑیہ، پورنیہ، کشن گنج‘ کٹیہار) آسام کے دو(دھوبری، کوکراجھار)، مغربی بنگال کے 2(مالدہ، مرشدآباد) اوریوپی کے2(شراوستی اوربلرام پور) شامل ہیں۔ان دس اضلاع میں تقریباً1.4کروڑ مسلمان ہیں یا ہندوستان کی جملہ مسلم آبادی کا5 فیصد حصہ یہاں بستاہے۔
رپورٹ کے مطابق10 منتخب اضلاع میں مسلم آبادی، ملک کے دیگرخطوں کی بہ نسبت بنیادی وسائل اورسہولتوں سے زیادہ محروم ہے۔ رپورٹ میں سرکاری اسکیموں کی تقسیم میں مسلمانوں کے ساتھ منظم امتیازی سلوک کواجاگرکیاگیاہے۔
ان اضلاع میں پردھان منتری گرامین آواس یوجنا(پی ایم جی اے وائی) کے استفادہ کنندگان میں مسلمان صرف31.20 فیصد تھے۔ جوکہ مسلم آبادی کے جملہ اوسط سے17.5 فیصد کم ہیں۔
یہ رپورٹ اس غلط فہمی کودورکرتی ہے کہ پسماندہ مسلمانوں کو متناسب حصہ ملاہے۔ انہیں ایک ضلع میں صرف 31.20 الاٹمنٹ ملے جوکہ آبادی کا48فیصد حصہ بنتاہے۔ باقی اضلاع میں بھی ان کاحصہ بہت کم تھا۔