مذہب

یاد پھر آنے لگا ہے سانحہ عثمانؓ کا

آپ کی مزاج میں جو نرمی اور صلہ رحمی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے مروان بن حکم وغیرہ نے آپ کے صاف وشفاف کردار کو داغدار کرنا چاہا جسکی تفصیلات کتب سیرت وتاریخ میں بھی آئی ہیں۔

ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔپادشاہ قادری
معتمد سید الصوفیہ اکیڈمی ‘پرنسپل ایس ‘ایم ‘وی کالج حیدرآباد

ایام عیدِ قرباں ختم ہوتے ہی سارے اہل ایمان کو یاد آنے لگتا ہے وہ سانحہ جس نے امت میں فرقہ بندی کے دروازے کھول دئے جی ہاں‘! وہ واقعہ جس کی کسک پچھلے چودہ سو سال سے اہل ایمان محسوس کرتے آرہے ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۱۱ھ میں وصال فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اول خلیفہ رسول اللہ ﷺ کے طور پر خلافت کی ذمہ داریاں نبھانے لگے خلیفہ اول کی وفات شریف کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے دوسرے خلیفۂ رسول اللہ ﷺ کی حیثیت سے تقریباً ۱۰ سال قصر خلافت کو آباد رکھا اور پھر ۲۴ھ کے اوائل میں ایک غیر مسلم کے ہاتھوں شہید ہوکر واصل بحق ہوئے تو مسند خلافت پر متمکن ہوکر جنہوں نے تیسرے خلیفۂ رسول اللہ ﷺ کی شناخت کے ساتھ تقریباً بارہ سال امور خلافت کی گراں بار ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی نبھایا ‘وہی آج ہماری بزم خیال میں جلوہ آراء ہیں۔

وہ جنھیں دو ہجرتوں کی وجہ سے صاحب ِہجرتین بھی کہتے ہیں اورحضور ﷺ کی دوشہزادیوں حضرت بی بی رقیہ ؓ اور حضرت بی بی ام کلثوم ؓ سے یکے بعد دیگرے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے باعث ذو النورین بھی کہتے ہیں‘ کامل الحیاء والایمان جن کا لقب ہے تو حضرت عثمان بن عفان جن کا اسم گرامی ہے‘وہ جو عظیم عاشق و قاری ٔ قرآن بھی ہیں اور امت کو ایک قرآن پر جمع کرنے والے جامع ِقرآن بھی‘آپ ہی وہ حضرت عثمانؓ ہیں ۔جن کے اسلام لانے پر مسلمانوں کی گنتی چار تک پہنچ گئی اسی لئے آپ کو سابقون الاولون میں امتیاز ی شان کے ساتھ جانا جاتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوہرے دامادِ ذیشان ‘ایک طرف شوہر حضرت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی حضرت ابوالعاص بن ربیع ؓ کے ہم زلف ہیں تو دوسری طرف شوہربتول سید ہ فاطمہ بنت سید الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی مولائے کائنات حیدرکرار صاحب ذوالفقار حضرت سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم آپ کے ہم زلف ہیں۔وہ عثمانؓ جنہوں نے دودو بار اپنے لئے حضور ﷺ سے جنت کا مژدہ سنا‘امت کے لئے اپنے مال سے کئی بار سہولتیں پہنچا کر رسول مقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کیا‘قرآن میں سابقون الاولون پڑھیں تو حضرت عثمانؓ یاد آئیں ‘بیعت رضوان کا مضمون پڑھیں تو حضرت عثمانؓ یادآئیں ‘راہ خدامیں دریا دلی کے ساتھ مال خرچ کرنے کی بات ہو تو آیا ت قرآنی میں حضرت عثمانؓ کا جلوہ نظر آنے لگے سورۃ فتح کی آخری آیت پڑھیں تو رحماء بینھم میں حضرت عثمان ؓکی مثالی سیرت نمونہ بن کر ذہن وفکر میں سماجائے اور نظروں میں پھر جائے۔وقاروتمکنت شرم وحیاء کا ذکر جھڑجائے تو بھی حضرت عثمانؓ ہی کی صورت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے ۔

آپ کی مزاج میں جو نرمی اور صلہ رحمی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے مروان بن حکم وغیرہ نے آپ کے صاف وشفاف کردار کو داغدار کرنا چاہا جسکی تفصیلات کتب سیرت وتاریخ میں بھی آئی ہیں جس کے باعث کچھ لوگ معاذاللہ حضرت عثمانؓ پر تنقید اورآپ کی تنقیص کرتے ہوئے جرم کے مرتکب ہوئے یا ہوتے ہیں مثلاً مصنف ’’خلافت وملوکیت ‘‘ نے اپنی تحریر سے حضرت عثمان غنی ؓ کی سیرت میں سے منفی پہلووں کو تلاشنے کی ناکام کوشش کی اور موجودہ دور میں سوشیل میڈیا اور یوٹیوب وغیرہ پر ایسا مواد خود کو اہل سنت سے منسوب کرنے والے بعض گنے چنے افراد کی جانب سے پھیلایا جاتا ہے جس کے سننے یا پڑھنے کے بعد نئی نسل کے ذہن مثاثر ہوجاتے ہیں۔

حقائق کو توڑ مڑوڑ کر بہت سارے امور کو درمیان میں سے حذف کرتے ہوئے اپنی مقصد براری کے لئے یہ مذموم سونچ رکھنے والے افراد کسی بھی حد تک گرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ایسے سارے معاملات میں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دامن کو ہر قسم کے داغ دھبے اور آلودگی سے پاک ماننا شعارِاہل سنت وجماعت رہا ہے جس میں متقدمین ومتاخرین محدثین ومحققین سب متفق ہیں آپ کے بارے میں کسی طرح کی لب کشائی اللہ ورسول ﷺ کی ناراضگی کا موجب ہے۔اللہ ہم سب کو اس بلا سے بچائے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں حضرت عثمانؓاور آپ کی شخصیت ونیز عظمت واہمیت کو سمجھا جائے نہ کہ ساتھ والوں کے غلط کرتوتوں کے باعث آپ کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

مثلاً مروان بن حکم یا اس جیسے مطلب پرست‘خود غرض ‘دنیادار‘ حکومت کے لالچی ‘اقتدار کے بھوکے اور سیاست کے زہریلے کیڑوں کی حرکتوں نے آپ کے بارہ سالہ دور خلافت کے نصف آخر یعنی بعد کے چھ سال کو فتنوں سے بھر دیا حالانکہ ابتدائی چھ سالہ دور بیحد کامیاب رہا تاہم مروان بن حکم اور اس کے دیگر بعض شر پسند رفقاء نے پہلے تو اپنا اثر ورسوخ ساری مملکت کے مختلف اہم شہروں میں مضبوط کرلیا اور پھر اس کے بعد ایسے گُل کھلائے اور ایسی فتنہ انگیزیاں کیں کہ۔الامان والحفیظ‘ حضرت عثمانؓ کی امن پسندی‘وقتل وقتال سے پرہیز والی مزاج نے اُن فتنوں کی سرکوبی کے لئے بہت کچھ کیا تاہم شرپسندوں کی لگائی ہوئی آگ بہت پھیل چکی تھی پانی سر سے اوپر ہونے لگا تھا بالآخر اُن نامساعد حالات میں مولائے کائنات حیدرکرار سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے خلیفہ سوم کی حفاظت کے لئے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کو ان کے اپنے خالو جان کی حفاظت پر مامور کیا لیکن دنگائیوںنے خلافتِ اسلامی کی اس عظیم چادر کو تار تار کردیا جس کو حضرات ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے بعد حضرت عثمان غنیؓ اوڑ ھے ہوئے تھے ۔

اس سانحہ کے بعد سے امت میں پھر کبھی ویسا اتفاق واتحاد نہیں ہوا جو اس سے پہلے تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں دامادخلیفہ ٔ سوم حضرت سیدنا عثمانؓ نے اور خلیفہ ٔ چہارم حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے دور خلافت میں اپنی آخری سانس تک اس قصر خلافت کی حفاظت کے لئے نہ صرف مقدور بھی کوششیں کیں بلکہ اپنے خون کا ایک ایک قطرہ بہادیا اور دونوں شہید ہوگئے مگر اس وقت سے فرقہ بندی کی جو بیماری اس امت کو لگی ہے وہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی بعد کے ادوار میں ہونے والی جنگوں نے تو سانحۂ کربلا بپا کیا اور شہادت سیدناامام حسین ؓ کا صدمہ جانکاہ امت نے دیکھا ۔

ایسے میں ایک سچے مسلمان کا فریضہ یہ ہے کہ حضرات خلفائے راشدینؓ واہل بیت کرامؓ سے رشتہ محبت استوار بلکہ مضبوط رکھے اور کسی بھی خلیفۂ برحق کے بارے میں بدظنی وبدگمانی سے خود بھی بچے اور دوسروں کو بھی بچائے حضرت سیدنا عثمان غنیؓ کے بارے میں کیا وہ ارشاد رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو یاد نہیں رہا کہ عثمانؓ کو آج کے بعد کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا ،کیا یہ ارشاد رسالت مآب ﷺ بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ عثمانؓ کو میں نے یکے بعد دیگر ے اپنی دوبیٹیاں دی ہیں اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد ایک انھیں دیتا جاتا‘ حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کے بارے میں بغض رکھنے والے کی نماز جنازہ تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں پڑھی ۔

آج بھی اگر کوئی ذرہ برابر بھی حضرت عثمان غنی ؓ سے بد گمان ہوتو بیشک وہ اللہ ورسول ﷺ کے پاس مردود ومذموم بن جائے گا۔ جنھیں اللہ تعالیٰ رضی اللہ عنہم ورضواعنہ کا مژدہ سنا یا ہو ان کے متعلق اپنے ذہن وعقیدہ اور فکر ونظر کو کوئی آلودہ کرتا ہے تو اس سے یہی کہا جائے گا کہ سورج پر مٹی پھینکنے والوں کی مٹی سورج کا تو کچھ نہیں بگاڑتی البتہ خود مٹی پھینکنے والوں کے لئے وہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔جب بھی کبھی کوئی سیرت حضرت عثمانؓ میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرے تو اس وقت سطور بالا میں مذکورہ ارشادات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا دیگر روایتوں میں وارد آپکے فضائل ومناقب کو پڑھ لیا کریں تاکہ دلوں کا غبار دور ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب صحابی خلیفہ سوم حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ سے متعلق بد گمانی سے بچ سکیں ۔

آخر میں چند اشعار کے ذریعہ نذرانہ عقیدت بشان حضرت عثمان غنی ؓ نذر قارئین ہیں جس پر مضمون کا اختتام عمل میں آئے گا۔؎

کِتنا اُونچا حق نے رُتبہ کردیا عثمانؓ کا
تذکرہ قرآن میں ہے جابجا عثمانؓ کا
وصف مَیں لکھنے لگا ہوں باوفا عثمانؓ کا
ذہن میں آتا ہے اِک اِک واقعہ عثمانؓ کا
یاد پھر آنے لگا ہے سانحہ عثمانؓ کا
اور پھر ہونے لگا ہے غم ہرا عثمانؓ کا
اہلِ سُنت والجماعت کا عقیدہ ہے یہی
ہے بہ ترتیبِ خلافت مرتبہ عثمانؓ کا
جیسے اہلِ حق کیا کرتے رہے ہیں آج تک
ہم بھی کرتے ہی رہیں گے تذکرہ عثمانؓ کا
چار تک گنتی مسلمانوں کی پُوری ہوگئی
داخلِ اسلام ہونا جب ہوا عثمانؓ کا
٭٭٭