بھارتسوشیل میڈیا

آہ!سلاطین آصفیہ کے چشم و چراغ، سقوط حیدرآباد کے عینی شاہد، پرنس مکرم جاہ بہادر

نظام ثامن میر برکت علی خان صدیقی عرف مکرم جاہ بہادر 6/اکتوبر 1933 ء کو حلافت پیالیس نائس (فرانس) شہزادی برار در شہوار کے بطن سے پیدا ہوئے۔

صدیوں میں وہ پیدا ہوتا ہے کہتے ہیں جسے مرد کامل
جو فخر سلاسل ہوتا ہے جو نازش زندان ہوتا
مشعل وہی بجھتی ہے پہلے جو ناز شبستاں ہوتی ہے
اس گل ہی کو توڑا جاتا ہے جو زیب گلستاں ہوتا ہے

سلاطین آصفیہ کے چشم و چراغ، سقوط حیدرآباد کے چشم دید گواہ پرنس میر برکت علی خان کا 89 برس کی عمر میں ترکی کے استنبول میں انتقال ہوگیا۔ نظام ثامن میر برکت علی خان صدیقی عرف مکرم جاہ بہادر 6/اکتوبر 1933 ء کو حلافت پیالیس نائس (فرانس) شہزادی برار در شہوار کے بطن سے پیدا ہوئے۔

مکرم جاہ بہادر کا بچپن بیلا وسٹا پیالیس موجودہ عمارت اڈمنسٹریٹیو اسٹاف کالج آف انڈیا میں گزرا۔ ان کی ابتدائی تعلیم حیدرآبادمیں ہوئی۔ انہوں نے دون اسکول دہرا دون اور برطانیہ کے ہارّو، پیٹر ہاؤز اور کیمبرج جیسے اداروں سے تعلیم پائی۔ پرنس مکرم جاہ نے لندن اسکول آف اکنامکس اور رائل ملٹری اکیڈیمی سانڈھرسٹ میں بھی تربیت پائی تھی۔

شہزادی درشہوار‘ خلافت عثمانیہ کے آخری تاجدار سلطان عبدالمجید دوم کی دختر تھیں۔ یوں تو آصف جاہ سلطنت کے آخری فرماں روا میر عثمان علی خان نے 14/جون 1954 ء کو پرنس مکرم جاہ بہادر کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا مگر کہا جاتا ہے کہ جب 1937 ء کو میر عثمان علی خان کی بادشاہت کا سلور جوبلی جشن جوبلی ہال باغ عامہ میں منایا جارہا تھا، میر عثمان علی خان نے اپنی مسند پر 3 سالہ پرنس مکرم جاہ بہادر کو بٹھاکر بڑی دیر تک انہیں تکتے رہے تھے اور تب ہی سے یہ مانا جانے لگا تھا کہ میر عثمان علی خان بہادر اپنے پوتے کو اپنا جانشین دیکھنا چاہتے ہیں۔

پرنس مکرم جاہ بہادر نے پانچ شادیاں کی تھیں۔ ان کی پہلی اہلیہ ترکی کی معروف خاتون پرنسس اسریٰ برجن تھیں۔ بعدازاں انہوں نے یکے بعد دیگر پرنسس ہیلن سائمنس (عائشہ)‘ مس ترکی منولیہ عنور‘ جمیلہ بولاروس (مراقش) اور پرنسس عائشہ آرچیڈی سے شادیاں کیں۔ انہیں عظمت جاہ،صاحبزادی شہریار اور اعظم جاہ صاحبزادہ حیات ہیں، الیگزنڈر علی خان صدیقی ، عمر جاہ اور نیلوفر زرین اولادیں ہوئیں۔ عمر جاہ کا انتقال ہوچکا ہے۔

1948 ء میں سقوط حیدرآباد کے بعد بھی میر عثمان علی خان سے اعزازات نہیں چھینے گئے تھے اور بعدازاں انہیں راج پرمکھ بھی بنایا گیا تھا۔ میر عثمان علی خان کے 24 /فبروری 1967 ء کو انتقال کے فوری بعد یعنی یکم مارچ 1964 ء کو ہی حکومت ہند نے پرنس مکرم جاہ بہادر کو دستور ہند کے آرٹیکل 366 (22) کے تحت حیدرآباد کا فرماں روا تسلیم کیا تھا۔ یاد رہے کہ آزادی کے بعد مختلف شاہی ریاستوں کو جوڑ کر یونین آف انڈیا قائم کرتے ہوئے حکومت نے رجواڑوں کی حکمرانی کو تسلیم کیا تھا اور ان کے اعزازات کو برقرار رکھا تھا۔

حکومت ہند کی جانب سے انہیں صرف خاص کے طور پر وظائف بھی دئیے جاتے تھے۔ یہ وظیفہ پرنس مکرم جاہ بہادر کو بھی حاصل ہوتا رہا بعدازاں اندرا گاندھی کی حکومت نے اس کو برخاست کردیا۔ جید صحافی جناب انعام الرحمن غیور نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ پرنس مکرم جاہ بہادر نہایت ہی ذہین و فطین تھے اور انہیں کئی علوم پر عبور حاصل تھا، حتیٰ کہ وہ قرآن مجید کا بھی خاطر خواہ علم رکھتے تھے اور اپنے دلائل سے دوسروں کو قائل کروادیا کرتے تھے۔

پرنسس درشہوار نے اپنے فرزند کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی تھی اور ان کے لئے آصفی کوٹھی بولارم میں ایک خصوصی اسکول قائم کیا تھا اور اس اسکول کے لئے مدرسہ عالیہ سے کچھ بچوں کا انتخاب کرکے وہاں بھیجا گیا تھا جن میں قابل ذکر راشد آذر، ریاض الدین انصاری اور ان کے بھائی افتخار احمد انصاری شامل تھے۔ وہ انگریزی کے ایک اچھے مقرر بھی تھے۔ بہت زیادہ منکسرالمزاج اور آداب کا بڑا خیال رکھنے والے تھے۔

ان کی ہمیشہ سے یہی کوشش ہوتی تھی کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ وہ وقت کے بہت پابند تھے، کئی فنون نرینہ میں وہ ماہر تھے اور کشتی کی باضابطہ تربیت بھی حاصل تھی۔ انہیں ایک خاص داؤ آتا تھا جس کو سجدہ داؤ کہا جاتا تھا، اس داؤ میں جب مخالف کو پچھاڑدیا جاتا تو وہ سجدہ کی حالت میں زمین پر گرجاتا۔ جناب غیور نے بتایا کہ اندرا گاندھی کے دور تک پرنس مکرم جاہ جب دہلی جاتے تھے تو پرائم منسٹر ریسیڈنس میں ہی توقف کیا کرتے تھے۔ پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی ان کا بہت اکرام کرتے تھے۔

راجیو گاندھی جب بہ حیثیت وزیر اعظم حیدرآباد کا دورہ کرنا چاہتے تھے تو انہوں نے پرنس مکرم جاہ سے ملاقات کی خواہش کرتے ہوئے ملاقات کا وقت طلب کیا تھا جس پر پرنس مکرم جاہ نے کہلوا بھیجا کہ ان کے حیدرآباد پہنچنے پر وہ خود ہی ان سے ملاقات کریں گے۔ لیک ویو گیسٹ ہاؤز میں اس وقت کے چیف منسٹر این ٹی راما راؤ کی موجودگی میں پرنس اور راجیو گاندھی کی ملاقات ہوئی۔ بتایاجاتا ہے کہ وہ برطانیہ میں فوجی تربیت پانے کے بعد بھارتی فوج میں بھی اپنی خدمات انجام دینا چاہتے تھے مگر حکومت ہند نے محض اس لئے اجازت نہیں دی تھی کہ فوج میں خدمات انجام دیتے ہوئے انہیں کچھ ہوجاتا تو عالمی سطح پر حکومت کو جوابدہی کرنا پڑتا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے انہیں اپنے اس ارادہ سے باز آجانے کی کامیاب ترغیب دی تھی۔ پرنس مکرم جاہ کے بقول ہی پنڈت نہرو انہیں اپنا ذاتی سفارتی قاصد یا کسی مسلم ملک میں انہیں بھارت کا سفیر بنانا چاہتے تھے۔پرنس مکرم جاہ کو گاڑیوں کابیحد شوق تھا۔ آج بھی ان کی رہائش گا چیریان پیالس جو ان کی حیدرآباد میں قیام گاہ ہے، کئی ونٹیج گاڑیاں موجود ہیں۔

انہوں نے ایک مرتبہ وزیر اعظم ہند کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے بذریعہ سڑک ترکی کا سفر کرنے کے اپنے منصوبہ کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ وہ جیپ کے ذریعہ پاکستان اور پھر سمرقند، بخارہ، سوویت یونین اور ترکی کا سفر کرنا چاہتے تھے۔ نظام نے اس دورہ کے بارے میں بتاتے ہوئے سمرقند اور بخارہ سے ان کے پدری و مادرانہ تعلقات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اپریل 1968 ء میں وزیر اعظم کی جانب سے انہیں جواب موصول ہوا جس میں انہوں نے نظام ثامن کی کوششوں کی ستائش کی اور تاخیر سے جواب دینے پر معذرت خواہی کرتے ہوئے اپنی نیک تمنائیں پیش کیں اور دیگر باتوں کے یہ بھی لکھا کہ سفر کا بھارتی حصہ بہت زیادہ تند ہوگا۔۔

اس قدر طویل سفر کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اپنا مناسب خیال رکھیں۔ بدقسمتی سے یہ سفر نہیں ہوسکا۔ میر برکت علی خان جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک میں گزارا مگر انہیں حیدرآباد اور حیدرآبادیوں سے بڑا لگاؤ تھا۔ وہ حیدرآبادیوں کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر حالات نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی کئی جائیدادوں کو تعلیم کے لئے وقف کردیا تھا۔ ان کی جانب سے قائم کئے گئے ٹرسٹس کے ذریعہ کئی تعلیمی ادارے چلائے جاتے ہیں۔

وہ جب کبھی حیدرآباد آتے، اپنے ٹرسٹ کی سرگرمیوں کا بہ نفس نفیس جائزہ لیتے اور اپنے زرین مشوروں سے نوازا کرتے تھے۔ ان کی یہی خواہش تھی کہ ان کی آخری آرام گاہ حیدرآباد میں ہی ہو۔حیدرآباد اور ملک کے مختلف مقامات پر ان کی بہت سی جائیدادیں ہیں۔ فلک نما پیالیس اور خلوت پیالیس بھی ان ہی کی نگرانی میں تھے۔ انہوں نے اپنے لئے مکہ مسجد میں واقع مقابر آصفیہ میں اپنے والد کے پہلو میں دفن ہونا پسند کیا تھا۔

ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے مکہ مسجد میں ہی ان کی تدفین کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ ماہر ہیرٹیج و تاریخ جناب محمد صفی اللہ نے سرکاری اعزازات کے ساتھ آخری رسومات انجام دینے کا فیصلہ کرنے پر چیف منسٹر مسٹر کے چندر شیکھر راؤ سے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ شہر میں کسی بڑے پروجیکٹ کو ان سے موسوم کیا جائے۔

a3w
a3w