مضامین

اسمبلی انتخابات: رائے دہندوں کا فیصلہ محفوظ

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک کی پانچ ریا ستوں کے اسمبلی انتخابات کا مر حلہ مکمل ہو گیا۔ رائے دہندوں نے اپنا فیصلہ محفوظ کر دیا ہے۔ 3 ڈسمبر 2023کو ووٹوںکی گنتی کے بعد نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ ، میزورم اور تلنگانہ میں 7 نومبر تا 30 نومبر کے دوران مختلف تواریخ میں ان ریاستوں میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے انتخابات منعقد کئے گئے۔ووٹنگ کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے کمیشن کی جانب سے غیر معمولی اقدامات کئے گئے۔ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے انتخابی مہم بھی زور دار انداز میں چلائی گئی۔ ریاستی اسمبلیوں کے ان انتخابات کو اس لئے بھی اہمیت حاصل ہو گئی کہ آئندہ چند مہینوں میں لوک سبھا کا الیکشن ہونے والا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں نے اسی لئے ان اسمبلی انتخابات کو لوک سبھا کے الیکشن کا سیمی فائنل قرار دیا ہے۔ یہ مانا جا رہا ہے کہ جس پارٹی کو ان ریاستوں میں حکومت سازی کا موقعہ ملے گا وہ آئندہ سال مرکز میں بھی حکومت بناسکے گی۔ سارے ملک کی نظریں اس وقت ان پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج پر لگی ہوئی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ راجستھان میں دوبارہ کانگریس حکومت تشکیل دے سکے گی یا پھر بی جے پی راجستھان میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے گی۔ مدھیہ پردیش میں جہاں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے وہاں کیا اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور کانگریس ، مدھیہ پردیش میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ چھتیس گڑھ میں کانگریس اس وقت حکومت کر رہی ہے ،آیا وو دوبارہ اقتدار پر واپس آئے گی یا پھر بی جے پی کو وہاں کا میابی ملے گی۔ میزورم میں مخلوط حکومت بنے گی یا کسی ایک سیاسی پارٹی کو عوام کا اعتماد حاصل ہوگا۔ تلنگانہ میں جہاں 30 نومبر کو رائے دہی ہوئی ہے 3 ڈسمبر کو معلوم ہوگا کہ تیسری مرتبہ بی آر ایس تلنگانہ میں حکومت بنا سکے گی یا پھر کانگریس کا مقدر چمکنے والا ہے۔ ان ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کی خصوصیت یہ رہی کہ تمام ہی سیاسی پارٹیوں نے آخری وقت تک عوام کو رجھانے اور لبھانے کا اپنا آزمودہ طریقہ اختیار کیا۔ عوام سے مختلف نوعیت کے وعدے کئے گئے۔ سیاسی قائدین نے ایک دوسرے پر الزامات کی بھی بوچھاڑ کر دی۔ اپنی کارکردگی کو پیش کرکے ووٹ حاصل کرنے کے بجائے مخالف پارٹی کے امیدواروں پر شخصی حملے کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کے لئے جارحانہ تیور دکھاتے ہوئے قائدین نے اپنی تقاریر میں ایسی باتیں بھی کہہ دیں جو ہماری دیرینہ روایات کے خلاف ہیں۔ الیکشن میں سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی حریف ہو تی ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کی دشمن نہیں ہو تیں۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ الیکشن میں مختلف پارٹیاں حصہ لیتی ہیں اور اپنے انتخابی ایجنڈے کو عوام کے سامنے رکھ کر ان سے ووٹ مانگتی ہیں۔ عوام کے درمیان بھی اختلاف رائے کی پوری گنجائش ہے، لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے مدمقابل اس طرح کھڑی ہو جاتی ہیں کہ اس سے عوام کے درمیان بھی تلخیاں بڑھ جاتی ہے اور بعض وقت خون خرابے کی بھی نوبت آجاتی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ہر پارٹی کو حق ہے کہ وہ مناسب انداز میں عوام کے سامنے اپنی بات رکھے، لیکن ووٹوں کے حصول کے لئے دھونس دھاندلی کا سہارالینا پورے جمہوری عمل کو متا ثر کر دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ان دنوں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے یہ سب کیا جا رہا ہے۔
سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ان پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں کا میابی کے لیے جس انداز میں انتخابی مہم چلائی گئی اس پر عوام کی جانب سے کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے عہدہ و منصب کا لحاظ کئے بغیر اپوزیشن پارٹی کے قائدین کو نشانہ ملامت بناتے ہوئے انہیں گھیرنے کی جو کوشش کی ہے اس سے اس عہدہ جلیلہ کی توہین ہوئی ہے جس پر وہ فائز ہیں۔ وہ کسی ایک پارٹی کے قائد نہیں ہیں بلکہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہونے کے ناطے قوم کے قائد ہیں۔بی جے پی کے دیگر قائدین نے بھی وزیر اعظم کا انداز اختیار کرتے ہوئے عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی پوری کوشش کی۔ خاص طور پر تلنگانہ میں انتخابی مہم کے دوران یوپی کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ اور آسام کے چیف منسٹر ہمنت بسوا سرما نے جو زہر اُ گلا ہے اس سے ان کے حقیر مفادات کی تکمیل تو ہو سکتی ہے لیکن سماجی تانے بانے میں جو خلل پیدا ہوتا ہے، اسے سدھارنے کے لیے کئی دہے لگ جا تے ہیں۔ بی جے پی نے اپنی انتخابی جیت کو درج کرانے کے لیے اسمبلی انتخابات میں ایسے متنازعہ موضوعات کو چھیڑا ہے جس کا ریاستوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ دعوی کیا گیا کہ بی جے پی کو تلنگانہ میں حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو یہاں کے ہندوو¿ں کو ایودھیا کا مفت درشن کرنے موقع دیا جائے گا۔ یہ بھی ادعا کیا گیا کہ ریاست میں بی جے پی حکومت کے بنتے ہی شہر حیدرآباد کا نام تبدیل کرتے ہوئے اسے بھاگیہ نگر کا نام دیا جائے گا۔ مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار میں جو چار فیصد تحفظات دیے گئے ہیں، اسے ختم کر دیا جائے گا۔ مسائل پر گفتگو کرنے کے بجائے بی جے پی نے عوام کو حساس موضوعات میں الجھا کر ووٹ بٹورنے کی کوشش کی ہے۔ اس بات کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں ہیں کہ بی جے پی تلنگانہ میں کوئی مضبوط موقف حاصل کر سکے گی۔ مدھیہ پردیش میں اس کی حکومت ختم ہونے کی پیش قیاسی کی جا رہی ہے۔ راجستھان میں بھی اس کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ وہ محض اپنے وجود کا احساس دلانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ کر ناٹک میں شرمناک شکست کے بعد بی جے پی کے لئے اب کہیں سے بھی کا میابی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ خاص طور پر انڈیا الائنس کے قیام کے بعد بی جے پی کی سیاسی بقاءداو¿ پر لگ گئی ہے۔ 2014 کے لوک سبھا الیکشن کے بعد بی جے پی نے کانگریس مکت کا نعرہ دیا تھا۔ لیکن حالیہ عرصہ میں کانگریس کی کا میابی کا جو سلسلہ چل پڑا ہے، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے عوام اب بی جے پی کو ملک سے بھگانا چاہتی ہیں۔ پانچ ریاستوں میں بھی بی جے پی کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں۔ یہ مانا جا رہا تھاکہ بی جے پی ہندوتوا کے نعرہ کی بنیاد پر ایک لمبے عرصے تک اقتدار کے مزے لوٹتی رہے گی ۔ لیکن اس کی تنگ نظر پالیسیوں سے عوام بدظن ہو چکے ہیں۔ گز شتہ نو سال کے دوران کیا کچھ وعدے نہیں کیے گئے، لیکن کوئی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ غریبوں کے بینک اکاونٹ میں پندرہ لاکھ روپئے حکومت کی جانب سے جمع کرانے کا وعدہ کیا گیا لیکن غریب اس کے انتظار میں اتنا طویل عرصہ گزارچکے ہیں۔ ہر سال دولاکھ نوجوانوں کو روزگار دینے کا تیقن دیا گیا ۔ یہ بھی خواب بن کر رہ گیا۔ اب اسمبلی انتخابات کے موقع پر بھی بی جے پی کوئی ٹھوس منصوبہ یا پروگرام کے ساتھ عوام کے درمیان نہیں آئی بلکہ اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف شکایتوں اور الزامات کا پٹارا کھول کر وہ اقتدار کے سنگھاسن پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔بی جے پی قائدین کی جوشیلی تقاریر کا عوام پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا ہے۔وہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔اس لئے کسی بھی ریاست میں بی جے پی حکومت بننے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اس کا اثر آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن پر بھی پڑے گا۔ سیکولر پارٹیاں ایک متحدہ پلیٹ فارم پر آتی ہیں تو مرکز سے بی جے پی کا اقتدار چھین لیا جا سکتا ہے۔
ملک میں ہوئے پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں عوام کا رجحان اس مرتبہ کانگریس کی طرف زیادہ رہا۔ یہ پیش قیاسی کی جا رہی ہے کہ کانگریس کم ازکم تین ریاستوں میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومت سے عوام نالاں ہیں۔ مخالف حکومت لہرکا فائدہ کانگریس کو ہوگا۔ راجستھان میں اس وقت کانگریس کی حکومت ہے۔ چند مہینوں پہلے تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ وہاں کانگریس قائدین کے درمیان جا ری رسہ کشی کا بی جے پی فائدہ اٹھائے گی ۔ کانگریس قائدین نے الیکشن کے آتے ہی اپنے گھر کو سدھار لیا ہے، اس لیے توقع کی جا رہی ہے وہاں دوسری مرتبہ کانگریس عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ چھتیس گڑھ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ سب سے دلچسپ مقابلہ تلنگانہ میں ہے۔ یہاں بر سراقتدار پارٹی بی آر ایس کا کانگریس اور بی جے پی سے مقابلہ ہے۔ اگرچکہ بی جے پی کا موقف کمزور نظر آرہا ہے۔ لیکن اس کی سیاسی طاقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آر ایس ایس ، اس کی پشت پر ہے۔ بی جے پی نے اپنی پوری طاقت تلنگانہ کی انتخابی مہم میں جھونک دی ہے۔ کانگریس نے غیر متوقع طور پر بہت کم عرصہ میں اپنی طاقت کو منوایا ہے۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ کانگریس دوسرے مقام پر آجائے گی۔ اب بی آر ایس کا راست مقابلہ کانگریس سے ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ تلنگانہ میں بھی مخالف حکومت لہر کا پایا جا نا ہے۔ بی آر ایس ( سابق ٹی آر ایس ) نے علحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد دومرتبہ حکومت بنائی ہے۔ تیسری مرتبہ وہ حکومت بنانے کے لئے جان توڑ کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ تیسری مرتبہ عوام کے درمیان جانے پر عوام حکومت سے دس سال کا حساب پوچھیں گے۔ دس سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا۔ بی آر ایس حکومت نے اپنی دو معیاد کے دوران بہت ساری فلاحی اسکیمیں چلائیں اور ترقیاتی کام کیے، لیکن بہت سارے وعدے وفا نہ ہوئے۔ اس لیے حکومت سے ناراضگی کا پہلو بہت واضح طور پر سامنے آ رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ناراضگی کا عنصر حکومت کی تبدیلی کا ذریعہ تو نہیں بن جائے گا۔ کانگریس ریاست کے تمام طبقات کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔کانگریس نے تلنگانہ کے عوام سے جو چھ وعدے کئے ہیں اس پر بھی عوام خوش نظر آرہے ہیں۔ تلنگانہ میں بی آر ایس کی کامیابی ہو یا کانگریس کی جیت اس میں مسلمانوں کا اہم رول ہوگا۔ ریاست کے 13فیصد مسلم رائے دہندوں نے اگر متحدہ طور پر اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہو تو اس کے بڑے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا بھی ماننا ہے کہ تلنگانہ میںمسلمانوں کے ووٹ ہی کسی پارٹی کی کا میابی یا ناکامی میں اہم کردار ادا کریں گے۔
یہ بھی اس ملک کی جمہوریت کا کمال ہے کہ الیکشن کے موقع پر سیاسی پارٹیاں ایسے ایسے وعدے کرتی ہیں کہ یہ خود ان کے گلے کی ہڈّی بن جا تے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سیاسی پارٹیوں کو یہ انتباہ دیا تھا کہ وہ رائے دہندوں کو ”ریوڑی“ دینے کا سلسلہ بند کریں۔ لیکن الیکشن کے آتے ہی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ریوڑی دینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مجوزہ الیکشن میں بھی سب ہی پارٹیوں نے اس معاملے میںبڑی فراخ دلی کا ثبوت دیا ہے۔ ہر پارٹی کا انتخابی منشور وعدوں کی سوغات سے بھرا ہوا ہے۔ ان وعدوں کی تکمیل کے لیے پیسہ کہاں سے لایا جائے گا، اس کا کوئی واضح جواب سیاسی پارٹیوں کے پاس نہیں ہے۔ سیاسی پارٹیاں جانتی ہیں کہ عوام کو طفل تسلیاں دے کر ان سے ووٹ حاصل کر لیے جائیں اور الیکشن کے بعد ان وعدوں کو اس طرح فراموش کر دیا جائے کہ کوئی وعدہ یاد بھی نہ رہے۔ 3 ڈسمبر تک انتظار کیجئے اور دیکھئے کہ رائے دہندوں نے کس پارٹی کے حق میں اپنا فیصلہ دیا ہے۔ عوام کا فیصلہ ہی جمہوریت میں قبول اور منظور کیا جاتا ہے۔
٭٭٭

a3w
a3w