آندھراپردیش

جمہوریت کی بقاء کیلئے عدلیہ پر عوام کا اعتماد ضروری : چیف جسٹس آف انڈیا

چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) این وی رمنا نے ہفتہ کے روز کہا کہ اگر عوام کا اعتماد اور بھروسہ عدلیہ سے ختم ہوجائے تو جمہوریت کی بقا انتہائی مشکل میں پڑ جائے گی۔

وجئے واڑہ: چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) این وی رمنا نے ہفتہ کے روز کہا کہ اگر عوام کا اعتماد اور بھروسہ عدلیہ سے ختم ہوجائے تو جمہوریت کی بقا انتہائی مشکل میں پڑ جائے گی۔

جسٹس این وی رمنا جو آئندہ ہفتہ سی جے آئی کے عہدہ سے سبکدوش ہونے والے ہیں، کہا کہ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ عدلیہ سے عوام کا اعتماد اور بھروسہ ختم ہونے نہ پائے، اگر عدلیہ پر سے عوام کا اعتماد اور بھروسہ اٹھ جائے یا اگر عدلیہ کی کارکردگی ختم ہوجائے تو پھر ملک میں جمہوریت کی بقا پر سوالیہ نشان پیدا ہوجائے گا۔

چیف جسٹس آف انڈیا نے یہاں وجئے واڑہ میں کورٹ کا مپلکس کے افتتاح کے بعد خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ اس افتتاحی تقریب میں آندھرا پردیش کے چیف منسٹر جگن موہن ریڈی، اے پی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پرشانت کمار مشرا، عدالت العالیہ اور دیگر عدالتوں کے ججس شریک تھے۔

جسٹس رمنا نے کہا کہ بحیثیت چیف جسٹس انہوں نے اپنی میعاد کے دوران ججس کی مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات پر توجہ مرکوز رکھی۔ ان کی میعاد میں مختلف ہائیکورٹ میں 250 ججس کا تقرر کیا گیا۔ ان کی دیڑھ سالہ میعاد کے دوران ججس کی مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات اور انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانا دو ایسے کام تھے جو ان کے ایجنڈہ کی فہرست میں نمایاں تھے۔

انہوں نے کہا کہ بحیثیت سی جے آئی ان کی میعاد کے دوران258 ججس کے تقررات کے گئے۔ سپریم کورٹ میں 12 اور مختلف ہائی کورٹ کے15 چیف جسٹس کا بھی تقرر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سماج کے تمام طبقات بالخصوص خواتین اور پسماندہ طبقات کو عدلیہ میں مناسب نمائندگی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مرکز، ریاستوں میں عدالت کی عمارتوں کی تعمیر کیلئے فنڈس فراہم کرے۔

اگرچیکہ مرکز سے کچھ مخالفت ضرور ہوئی ہے مگر چند وزرائے اعلیٰ بالخصوص مغربی بنگال، آندھرا پردیش اور ٹاملناڈو کے چیف منسٹرس نے میری تجویز وموقف کی حمایت کی اور مرکز سے مطالبہ کیا کہ وہ فنڈس مہیا کرائے۔ اس مسئلہ پر حمایت پر انہوں نے اظہار تشکر کیا۔ جسٹس رمنا کا احساس ہے کہ زیرالتواء مقدمات جن کی بہت بڑی تعداد ہے، سے نمٹنا عدالیہ کے سامنے سب سے اہم اور بڑا مسئلہ ہے۔

ان مقدمات کے التواء کے کئی اسباب وعلل ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر اپنی یہ بات دہرائی کہ متعلقہ کیس کے وکلا اور ججس اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ان مقدمات کی تیزی کے ساتھ یکسوئی کریں۔ انہوں نے کہا کہ مختصر وقت میں عوام کو انصاف دلانے کی ضرورت ہے کیونکہ عدلیہ کا مقصد بھی یہی ہے کہ عوام کو تیز انصاف مل سکے۔

a3w
a3w