’’خربوزہ‘‘:ایک معصوم پھل

حمید عادل
’’ خربوزہ‘‘ ہم بہت شوق سے کھاتے ہیں ، ’’ خر‘‘ کے لفظی معنی گدھے یا بیوقوف کے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم خربوزہ کھاکر خر مستی پر اتر آتے ہیں۔ویسے میاںخربوزے کے مکمل معنوں کا جہاں تک تعلق ہے ’’ خر‘‘ کے معنی ’’بڑا‘‘ اور ’’ بزہ‘‘ کے معنی ’’میٹھا اور خوشبودار میوہ ‘‘ کے ہیں ۔ اس میوے کے تعلق سے دو مثالیں بڑی معروف ہیں۔ ایک تو ہے ’’ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘‘اور دوسری ’’ خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر نقصان خربوزے ہی کا ہوتاہے ۔‘‘
’’ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ‘‘ کی مثال تب تب استعمال ہوتی ہے جب جب کوئی بندہ کسی کی صحبت یا سنگت میں رہ کر اسی کے رنگ میں رنگ جاتا ہے ۔مذکورہ مثال کا مطلب یہی ہے کہ آدمی، آدمی کو دیکھ کراس کا رنگ ہی نہیں ڈھنگ بھی اختیار کرلیتا ہے یا پھر یہ کہ صحبت کا اثر برابر ہر کسی پر مرتب ہوتا ہے لیکن چمن بیگ کا اپنا ہی خیال ہے ،وہ کہتے ہیں :
’’ خربوزے کے رنگ پکڑنے کوحضرت انسان نے کچھ اور ہی رنگ دے دیاہے… غالباً خربوزہ اپنے ساتھی خربوزے کی قربت پا کر فرط مسرت سے ایساسرشار ہوجاتا ہے کہ اس کی رنگت نکھر آتی ہے، اور اس طرح اس کے رنگ پکڑنے کو ہم محض صحبت کا اثر سمجھ بیٹھے ہیں۔
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
مرزا غالبؔ
اپنوں کو دیکھ کر خوش ہونے کا جہاں تک تعلق ہے آج حضرت انسان اس کیفیت سے کوسوں دور نظر آتا ہے،کسی اپنے کو اپنے قریب دیکھ کریا پاکر رنگ پکڑنے کی بجائے اس کا تورنگ ہی اڑ جاتا ہے ۔ بلکہ کبھی کبھی تو اس کے چہرے پر ایک رنگ آتا ہے تو دوسرا جاتا ہے۔وہیں میاںخربوزے کو دیکھیے جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اسے اکیلے رہنا قطعی پسند نہیں ہے،چنانچہ جیسے ہی اس کے قریب کوئی خربوزہ رکھ دیا جاتا ہے ،اس کی رنگت میں غیر معمولی فرق آجاتا ہے ۔ یقین نہ آئے تو آپ بازار سے خربوزے خرید کر گھر لائیں اور پھر کچھ دیر کے لیے ایک خربوزے کو دیگر خربوزوں سے جدا کردیں اور پھراس کی رنگت کا اور گروپ کی شکل میں موجود دیگر خربوزوں کا جائزہ لیں ۔ آپ کو تنہا خربوزے کے مقابلے میں گروپ کی شکل میں موجود خربوزوں کی رنگت کافی نکھری نکھری نظر آئے گی، ایسے جیسے میاں خربوزے نے ’’فیر اینڈ لولی‘‘ بلکہ مرد حضرات کا رنگ روپ نکھارنے کے لیے استعمال ہونے والی ’’ فیر اینڈ ہینڈسم ‘‘ کریم شاہ رخ خاں کی طرح استعمال کرلی ہو…
’’ خربوزہ ، چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر، نقصان خربوزے کا ہی ہے ۔‘‘اس مثال کاسیدھا سا مطلب یہی ہے کہ ہر حال میں کمزور کی شکست ہوتی ہے ۔یہاں بھی چمن بیگ کا اپنا ہی خیال ہے ، وہ کہتے ہیں:
’’ چھری اور خربوزے کے تحت بہت ساری مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن اس مثال کے لیے سب سے زیادہ موضوع شوہر اور بیوی معلوم ہوتے ہیں۔جی ہاں! زندگی کے ہر موڑ پر ، ہر لڑائی اور بحث و تکرار میںبیچارہ شوہر’’ خربوزہ‘‘ تو بیوی ’’چھری‘‘ ثابت ہوتی ہے! شوہر کی بدنصیبی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ چھری نما بیوی کے ہاتھوں مرتے دم تک کٹتا ہی رہتا ہے ۔‘‘
بلاشبہ ’’خربوزہ‘‘قدرت کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے…چنانچہ کسی خوبصورت گنبد کی طرح نظر آنے والے اس پھل کی طرف ہر کوئی بے ساختہ لپکتا ہے ۔ اس کے نازک بدن پر ایسے پراسرار نقش و نگار ہوتے ہیں کہ کونسی لکیر کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہورہی ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔ خربوزے پر موجود لکیریں ،بھول بھلیوں سے کم نہیں ہوتیںلیکن خدارا آپ خربوزے پر موجود ان لکیروں کی تحقیق میں اپنا وقت برباد نہ کریں ، ذہنی توازن کھودینے کا خطرہ ہے جب کہ ہم نہیں چاہتے کہ آپ اپنا ذہنی توازن کھوکر اپنے دونوں ہاتھوں میں خربوزہ تھامے ناچتے کودتے دھوم مچاتے پھریں!
خربوزے پر پھیلی ہوئی پراسرار لکیروں کے تعلق سے ہماری رائے ہے، وہ یہ ہے کہ آڑھی ٹیڑھی لکیریں کچھ اور نہیں بلکہ دنیا ہے جو آج تک کسی کو سمجھ میںآئی ہے اور نہ ہی آئے گی، یا پھر کبھی کبھی لگتا ہے کہ جیسے یہ لکیریںکوئی ’’کوڈ ورڈس‘‘ ہیں یا پھرکسی خاص خزانے کو پانے کا نقشہ ہیں ۔شکر ہے کہ خود ساختہ عامل حضرات کی نظراس طرف نہیں گئی ورنہ وہ لیموں اور ناریل کی طرز پر خربوزے کے ساتھ بھی کھلواڑ ضرورکرتے!
خربوزے کو اگر درمیان سے چاک کریں تو اس کے پیٹ میں موجود بیجوں کے گچھے، اس کی آنتیں معلوم ہوتی ہیں۔ انہیں اچھی طرح کھنگالنے یا دھونے کے بعد بیج برآمد ہوتے ہیں۔یوں تو بیج تربوز میں بھی ہوتے ہیں لیکن خربوز، تربوز کی بہ نسبت زیادہ شریف النفس ، معصوم اور بااخلاق پھل واقع ہوا ہے ،کیونکہ تربوز کے گودے میں جا بجا بیج پیوست ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اسے کھانے والے کو بریک پر بریک لینا پڑتا ہے، جب کہ خربوزے کے معاملے میںایسا قطعی نہیں ہے، آپ اسے کسی نرم نوالے کی طرح بآسانی نگل سکتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ تربوز کے مقابلے میں خربوزے کے بیج سے مغز حاصل کرنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ پہلے تو بیجوں کو اچھی طرح دھونے کے بعدسکھانا پڑتا ہے جب سوکھ جائیں تو پھر ہر بیج کو باری باری دانتوںتلے دباناپڑتا ہے تاکہ وہ اپنا منہ کھول سکیں۔ اگر بیج نے اپنا منہ کھول دیا ہے تو پھر اس کے منہ میں ہاتھ بلکہ انگلی ڈال کر اس کے مغز کو زبان کی نذرکیاجاسکتا ہے جومسلسل کوششوں کے بعد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ثابت ہوتا ہے ۔
قصہ مختصر یہ کہ خربوزے کے بیج سے مغز حاصل کرنے کے لیے کافی مغز ماری کرنی پڑتی ہے ۔اس ساری کارروائی کے دوران غیر معمولی صبرو تحمل اور بھرپورتوجہ کے ساتھ ساتھ ماہرانہ حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے ۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کڑی محنت اور جدوجہدکے بعدجب خربوزے کے بیج کو چیرا جاتاہے تو پتہ چلتاہے کہ وہ کسی غریب کے بٹوے کی طرح خالی ہے ۔یہ دلخراش نظارہ دیکھ کر آدمی کے نہ صرف دانت بلکہ اس کی زبان بھی کھٹی ہوجاتی ہے۔
خربوزے کے بیج سے مغز حاصل کرنے کے دوران ایک اور نازک مرحلہ اس وقت آتا ہے جب’’ ہاتھ آیا منہ نہ لگا‘‘ کے مصداق خربوزے کے بیج کامغز ہاتھوں سے پھسل کرنیچے گر جاتاہے۔اس وقت آدمی کی حالت دیدنی ہوتی ہے…یوں لگتا ہے جیسے اس کے ہاتھوں سے دنیا کی عظیم نعمت چھوٹ گئی ہے اور اسے اس وقت تک چین نصیب نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اسے ڈھونڈ نہ لے…
ہمارا دیرینہ مشاہدہ وتجربہ ہے کہ خربوزہ کے بیج کا مغز حاصل کرنے والا عموماً اپنی ساری توجہ مغز حاصل کرنے میں جھونک دیتا ہے حتیٰ کہ اس کوشش میںوہ بڑے سے بڑے غم اور بڑی سے بڑی پریشانی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ۔اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتاہے جیسے خربوزے کے بیج سے مغز حاصل کرنے کے علاوہ اس کی زندگی کا اور کوئی مقصد ہی نہیں رہ گیاہے ۔ وہ دیوانہ وار بیجوں کو دانتوں تلے دباتا جاتاہے اور زیرے نما مغز حاصل کرتا جاتا ہے۔ اس عمل سے حیرت انگیز طور پر اسے عجیب طرح کا اطمینان قلب حاصل ہوتا جاتاہے۔
اس پس منظر میںہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرکسی کو کوئی پریشانی لاحق ہوجائے اور وہ اس پریشانی سے نجات چاہے تو پھر اپنے گھر میں وافر مقدار میںخربوزے کے بیج رکھے ۔جی ہاں! قلب وذہن کوتفکرات سے آزاد کرنے میں خربوزے کے بیج بڑے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ کسی کی محبوبہ کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی ہو یا پھر کوئی عاشق اپنی محبوبہ سے چانٹا کھا گیا ہو، بیوی سے ناچاقی ہو یا پھرآپ کی رقم کسی نے اڑا لی ہو ، آپ کسی سے پٹ گئے ہوں یا کاروبار میں شدید نقصان ہوچکا ہو ، آپ کسی موذی مرض میں مبتلا ہوگئے ہوں یا پھرآپ کسی حادثے کا شکار ہوگئے ہوں ۔ آپ صرف خربوزے کے بیج اپنی ہتھیلی پر رکھیں اور باری باری انہیں دانتوں تلے دباتے چلے جائیں، ان شا اللہ یہ اور اس قبیل کی دیگر پریشانیوں سے آزاد ہوجائیں گے۔
بچپن میں ہم اپنے ساتھ خربوزے کے بیج بڑے شوق سے اسکول لے جایا کرتے تھے ، استاد محترم پڑھایا کرتے تھے اور ہم پچھلی نشستوں پر بیٹھے خربوزے کے بیج کا مغز نگلاکرتے تھے۔
ایک دن استاد محترم نے ہمیں خربوزے کے بیج دانتوں تلے دباتے دیکھ لیا تو گرج کر بولے ’’ کیا کر رہے ہو؟‘‘ ہم نے بنا کچھ کہے انہیں خربوزے کے بیج جیب سے نکال کر پیش کردیے ۔جنہیںدیکھتے ہی ان کا سارا غصہ کافور ہوگیا،انہوں نے ہمیں سزا دینے کی بجائے ہم سے خربوز کے بیج مانگے اور چپ چاپ اپنی کرسی پر جا کر براجمان ہوگئے اور پھرباری باری خربوزے کے بیجوں کو دانتو ں تلے دبانے میں ایسے منہمک ہوگئے کہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں ؟
خربوزہ کے بیج سے مغز حاصل کرنے کے چکر میں ہم خود، خود کو فراموش کربیٹھتے ہیں۔حال ہی میںہم خربوزے کے بیج دانتوں تلے دباتے دباتے 12کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرتے ہوئے دفتر سے کب گھر پہنچ گئے پتا ہی نہیں چلا…
دو ستو!خربوزہ جہاں ہمیں یہ پیام دیتا ہے کہ یہ ظالم دنیا چھری بن کر خربوزہ نماکمزوروں کو کاٹ دیتی ہے تو اس کے بیج چپکے چپکے انسان کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ کسی بھی چیز کو حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا اوریہ کہ حرکت ہی میں برکت ہے …
۰۰۰٭٭٭۰۰۰