سیاستمضامین

طارق فتح کی موت ‘خس کم جہاں پاک

مولانا سید احمد ومیض ندوی نقشبندی

کچھ خوش نصیب بندے وہ ہوتے ہیں جن کی زندگی بھی قابل رشک اور موت بھی قابل رشک ہوتی ہے ۔ لیکن کچھ بد نصیب وہ ہوتے ہیں جو دھرتی پر بوجھ بنے ہوتے ہیں ان کی زندگی لعنت زدہ اور موت عبرتناک ہوتی ہے۔ وہ جب تک زندہ رہتے ہیں مغلظات بکتے رہتے ہیں ان کا منھ سوائے گندگی اور غلاظت کے کچھ نہیں اگلتا۔ غداری ان کا شیوہ اور دین و ایمان کے دشمنوں کا آلۂ کار بننا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ وہ دنیا کے چند سکوں کی خاطر دشمنانِ خدا و رسول کے ہاتھوں کھلونا بنے رہنے کو اپنے لیے باعث افتخار باور کرتے ہیں۔ ضمیر فروشی سے ایمان فروشی تک کے طویل سفر کے دوران انہیں بار بار ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گزشتہ دنوں جب ملعون و گستاخ متنازعہ کالم نگار و صحافی بدنام زمانہ مصنف طارق فتح کے طویل علالت کے بعد واصل جہنم ہونے کی اطلاع سوشل میڈیا پر آئی تو احقر کے ذہن میں مذکورہ بالا خیالات گردش کرنے لگے ۔ سچ ہے کہ خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی طارق فتح کی زندگی بھی عبرتناک تھی اور موت اس سے زیادہ عبرتناک ۔ خدا و رسول اور الله کے سچے دین کی شان میں گستاخی کا انجام ایسا ہی عبرتناک ہوتا ہے ۔ کینسر جیسے موذی مرض سے ایک طویل عرصہ تک جو جھنے کے بعد وہ دنیا سے رخصت ہوا۔ الله تعالی نے دنیا ہی میں اسے ذلت کا نشان بنادیا کہ انتقال کے بعد کینیڈا میں اسے دفنانے کے لیے جس قبرستان بھی لے جایا گیا وہاںکے ذمہ داروں نے تدفین کی اجازت دینے سے معذرت کردی۔ وہ دنیا سے رسوا ہوکرراہی ملک عدم ہوا۔ قدم قدم پر اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا کسی نے سچ کہا
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
سارے عالمِ اسلام میں عیدالفطر کی خوشیاں منائی جارہی تھیں کہ الله تعالی نے ملعون طارق فتح کی موت کی شکل میں مسلمانوں کی خوشیوں کو چار چاند لگادئیے۔ طارق فتح کسی دوسرے مذہب کو اپناکر اسلام کے خلاف زہر اگلتا تو بات اتنی تشویشناک نہ ہوتی لیکن اس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دینِ اسلام کے خلاف جو شرمناک مہم چلائی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ ایسے گستاخوں کی موت عالمِ اسلام کے لیے مژدۂ جانفزا ہے اسلام دشمنوں کے زوال اور ان کی موت سے اہلِ اسلام میں خوشی کی لہر دوڑنا فطری بات ہے۔ خدا و رسول کے کسی دشمن کی موت پر نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند اور دیگر مخلوقات بھی سکون محسوس کرتے ہیں چنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ ایک مرتبہ ایک جنازہ گزرا تو آپﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا یا تو وہ راحت پانے والا ہے یا اس سے دوسروں کو راحت ملنے والی ہے۔ صحابہؓ نے اس کا مطلب دریافت فرمایا تو آپ نے فرمایا: جب مومن بندہ انتقال کرتا ہے تو وہ دنیا کی تکلیفوں اور مشکلات سے راحت پاتا ہے اور جب کوئی فاسق و فاجر انتقال کرتا ہے تو اس سے بندگانِ خدا اور الله کی زمین راحت پاتی ہے۔ اسی طرح کتابوں میں ابن ابو داؤد نامی ایک گمراہ اور بدعتی شخص کے بارے میں آتا ہے کہ جب اس کا انتقال ہوا تو لوگوں نے امام احمد بن حنبلؒ سے دریافت کیا کہ اگر اس بدعتی گمراہ شخص کے ماننے والوں پر کوئی مصیبت آئے تو کیا اس پر خوش ہونا گناہ ہے؟ امام صاحب نے فرمایا : ایسی حالت میں کوئی کیوں نہ خوش ہوگا۔ اسی طرح عہدِ صحابہؓ میں جب ایک خارجی شیعہ مخدج کا انتقال ہوا تو امیر المؤمنین حضرت علیؓ نے سجدۂ شکر ادا کیا ۔ جس ملعون نے اپنی پوری زندگی شانِ رسالت میں گستاخی اور دینِ اسلام کے خلاف پروپیگنڈے میں کھپائی ہو اس کی موت پر کیوں نہ خوشی ہوگی۔
طارق فتح ایک عرصہ سے کینسر جیسے موذی مرض کا شکار رہ کر آخر 73 سال کی عمر میںدنیا سے چل بسا ۔ اس کے ناپاک وجود سے دنیا پاک ہوگئی اب ایسا نہیں کہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے ضمیر فروش نام نہاد مسلمانوں کا سلسلہ ہمیشہ ختم ہوجائے گا تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمیشہ سے ضمیر فروشوں کا وجود رہا ہے۔ جن نام نہاد ضمیر فروشوں کا قبلہ محض متاع دنیا ہوتی ہے ان کے لیے ضمیر و ایمان کا سودا کوئی بڑی بات نہیں۔
طارق فتح 20؍نومبر 1949ء کو کراچی کے ایک پنجابی مسلم گھرانے میں پیدا ہو ا جو تقسیم ہند کے بعد بمبئی سے ہجرت کرکے کراچی آیا تھا اس نے کراچی یونیورسٹی میں حیاتیاتی کیمیا ئی تعلیم حاصل کی وہ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں بائیں بازو کے نظریات سے متأثر رہا اس وقت پاکستان میں فوجی حکومت تھی فتح کو دوبار جیل بھی جانا پڑا۔ 1977ء میںجنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں اس پر ملک سے غداری کا الزام لگا۔ اخبارات میں کالم نگاری پر امتناع عائد کیا گیا۔ 1987ءمیں کینیڈا شفٹ ہونے سے قبل اس نے کچھ برس سعودی عرب میں بھی گزارے۔ اگر چہ اس نے کراچی یونیورسٹی سے بائیو کیمسٹری کی تعلیم حاصل کی تھی لیکن اس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافتی سرگرمیوں سے کیا۔ 1970ء میںوہ ایک پاکستانی ٹی وی چینل کے لیے تحقیقاتی صحافت کرنے سے پہلے اخبار کراچی سن کے لیے رپورٹنگ کرتا رہا۔ اس دوران اسے دو بار جیل جانا پڑا۔ بعد ازاں پاکستان چھوڑ کر وہ سعودی عرب میں جا بسا وہ اپنے اسلام دشمن نظریات اور دین مخالف رجحانات کے سبب سعودی عرب میں زیادہ عرصہ تک ٹک نہ سکا بالآخر 1980ء کی دہائی کے اوائل میں وہ کینیڈا منتقل ہوا جہاں اس نے ایک سیاسی کارکن صحافی اور ٹیلی ویژن میزبان کےطور پر کام کرنا شروع کیا۔ دین بیزاری اسلام دشمنی اور اسلام کے خلاف زہر اگلتے رہنا اس کی خمیر کا حصہ بن گیا تھا وہ ایک بے دین اور لبرل کارکن تھا وہ ہمیشہ مذہب اور سیاست کی علیحدگی کا پرزور حامی رہا، شرعی قوانین کا سخت مخالف اور اسلام کی ایک لبرل ترقی پسند شکل کی وکالت کرتا تھا وہ خود کو پاکستان میں پیدا ہونے والا ایک ہندوستانی اور اسلام میں پیدا ہونے والا ایک پنجابی کہا کرتا تھا۔ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی اسلامی ثقافت کا سخت ناقد تھا اسلام مخالف گفتگو اور بیانات کے سبب اسلام دشمن طاقتیں طارق فتح کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوب استعمال کرتی رہی۔ ہندوستان کا گودی میڈیا طارق فتح کی خوب حوصلہ افزائی کرتا تھا اور اپنے ڈبیٹ شو میں اسے اسلام پر اعتراض اور شعائر اسلام کا مذاق اڑانےکا بھرپور موقع دیا جاتا تھا ۔ ملک کا ایک کٹر اسلام مخالف اور فرقہ پرستانہ ذہنیت کا حامل نیوز چینل ’’فتح کا فتوی ‘‘نامی اس کا ایک پروگرام چلاتا تھا ہندوستان کے اسلام دشمن فرقہ پرست اور آر ایس ایس نواز افراداس کی خوب پذیرائی کرتے تھے۔ 2014ء اور 2019ء کے انتخابات کے موقع پر ملک کی فرقہ پرست سیاسی جماعتوں نے اس کا بھر پور استعمال کیا۔
کینیڈا میں اس نے مختلف سیاسی صحافتی اور تصنیفی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ طویل عرصہ سے وہ کینیڈا کی ایک سیاسی این ڈی پی کے رکن کے طور پر کام کرتا رہا۔ 1995 ء کے صوبائی انتخابات میں اس نے اسکار بوروناتھ میں پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں وہ اونٹاریو کے این ڈی پی رہنما کے لیے کام کرتا رہا۔1996ء -2006ء تک اس نے CTSاور ویژن ٹی وی پر ٹورنٹو میں شائع ہونے والے ایک ہفتہ وار کرنٹ افیئرز ڈسکشن شو مسلم کرونیکل کی میزبانی کی۔ فروری 2011ء میں فتح کو نارتھ امریکن مسلم فاؤنڈیشن (NAMF)کے شہریار شیخ کے ساتھ مباحثہ کرنا تھا جب شیخ نے فتح کو مباحثہ کرنے کا کھلا چیلنج دیا تو فتح نے آخری لمحات میں مباحثہ منسوخ کردیا اور حاضر ہونے سے گریز کیا۔
طارق فتح کی بیٹی نتاشا فتح ٹوئٹر پر اس کی موت کی خبر دیتے ہوئے اسے پنجاب کا شیر، ہندوستان کا بیٹا ‘ کینیڈا کا عاشق ، سچ بولنے والا اور انصاف کے لیے لڑنے والا قرار دیا ہے۔ حیرت ہے جو شخص اپنے مذہب کا نہ ہوا وہ کسی علاقہ کا شیر یا کسی ملک کا بیٹا یا عاشق کیسےہوسکتا ہے ؟۔ جس نے اپنے خالق سے انصاف نہ کیا ہو وہ انصاف کے لیے لڑنے والا کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اور جس نے سب سے بڑی سچائی اسلام کی حقانیت سے منھ پھیرلیا ہو وہ سچ بولنے والا کیوں کر قرار دیا جاسکتا ہے۔ طارق فتح کو اس کے متنازعہ مذہب مخالف بیانات اور بھڑکاؤ خطابات کے سبب کئی بار جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ سال رواں فتح نے ٹوئیٹ کیا تھا کہ کچھ لوگوں نے اس کا سر قلم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اس سے قبل 2017ء میں ایک مسلم تنظیم نے فتح کا سر قلم کرنے والے کو 10لاکھ روپیے انعام دینے کا اعلان کیا تھا ۔ کوئی شخص چاہے کتنا ہی گیا گزار ہوا اپنے وطن سے دلی محبت رکھتا ہے لیکن فتح ہمیشہ اپنے وطن کا ناقد رہا ہے۔ وہ پاکستان کے توہین مذہبی قوانین کی علانیہ مخالفت کرتا تھا اور بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریک کا حامی تھا۔ اسلام دشمنی و دشنام طرازی شانِ رسات میں گستاخی امت مسلمہ کی تحقیر و تفرقہ بازی اور مسلمانوں کے ساتھ تمسخر جیسی باتیں اس کی زندگی کا حصہ بن گئی تھیں۔
طارق فتح جیسے دریدہ دہن ماضی میں بھی پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ بھی پیدا ہوتے رہیں گے اس سے اسلام کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔ اسلام اپنی پاکیزہ تعلیمات اور وحی الہی پر مبنی ہدایات اور ربانی خصوصیات کے سبب دنیا میں روشنی پھیلاتا رہا او رپھیلاتا رہے گا۔ اسلام وہ چراغ نہیں جسے پھونکوں سے بجھایا جاسکے۔ یہ خدا کا واحد دین برحق ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی ۔ اس کے مٹانے کے دعویدار خود دنیا سے مٹ گئے لیکن دین اسلام پر کوئی حرف نہیں آیا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰