کلواکنٹلہ کویتا
رکن تلنگانہ قانون ساز کونسل وصدر بھارت جاگرتی
ہندوستان کی 29ویں ریاست کی حیثیت سے تلنگانہ ایک خود مختار ریاست بن چکی ہے، آج عوام کی امنگوں کے مطابق تیز رفتار ترقی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ بہت سے چیلنجوں اور مسائل پر قابو پاتے ہوئے، ہم نے ہر شعبے کو تشکیل دے کر پورے ملک کے لئے ترقی کا ایک ماڈل تیار کیا ہے۔ ریاست تلنگانہ جس نے بہت سی رکاوٹوں کو عبور کیا ہے ، پورے ہندوستان کے لئے ایک مثال ہے۔
آج ہم ایک ایسے عظیم مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں پورا ملک تلنگانہ کی انقلابی ترقی کی بات کر رہا ہے۔ تلنگانہ ریاست ملک کی کئی ریاستوں سے ترقی کے معاملہ میں مقابلہ کر رہی ہے جو دہائیوں پہلے تشکیل دی گئی تھیں۔ ریاست تلنگانہ کی قیادت ہندوستان کے عوام کے لئے امید کی کرن بن گئی ہے جو کئی دہائیوں سے حل طلب مسائل سے نبرد آزما تھی ۔ یہ ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے کہ ریاست تلنگانہ ان پہلی چار تا پانچ ریاستوں میں سے ایک ہے جو ملک کے لئے مالیاتی اعزاز رہی ہیں۔ ہندوستان میں انسانی وسائل اور قدرتی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ملک کے حکمرانوں کے پاس ایک قومی وژن کے ساتھ سیاسی وژن کا فقدان ہے جو ملک میں وفاقیت کی روح کو بسائے ہوئے تمام ریاستوں کی مجموعی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ اس کمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ دور میں وزیر اعلیٰ کے سی آر جو ایک مدبر سیاستداں ،اور انسانی ہمدردی کے جذبہ سے سرشار شخصیت ہیں ، ملک کے سیاسی نظام ،اور جمہوریت کے اصولوں اور دستور کی وفاقی روح کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھتے ہوئے اس ملک کی ترقی میں سیاسی ،معاشی ،اقتصادی ،لسانی ،تہذیبی غرض یہ کہ ہر پہلو سے اپنا کردار ادا کیا ہے جن کے ذریعہ قومی اور سیاسی فقدان کے اس خلاء کو پر کیا جاسکتا ہے ۔وزیر اعلی کے سی آر جنہوں نے ٹی آر ایس کو بی آر ایس میں تبدیل کرتے ہوئے قومی سیاست میں بہ بانگ دہل داخلہ کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے عنان اقتدار کے حامل حکمرانوں کو اپنی سونچ اور فکر بدلنے پر مجبور کردیا ہے جس کی مثال وزیر اعلی کے سی آر کے حالیہ دورہ مہاراشٹرا کے بعد کسانوں کوان کی فصلوں پر معاوضہ کے اعلان کے لئے حکومت کا مجبور ہونا ہے ۔
وزیر اعلی کے سی آر انسانی ہمدردی اور رواداری کی جیتی جاگتی مثال ہیں ،ان کے یہاں آنے والاکوئی بھی شخص انصاف سے محروم نہیں ہوتا اور وہ بلا کسی تاخیر ان کے یہاں انصاف کی دہائی مانگنے والوں کو بروقت راحت فراہم کرتے ہیں ، غریب اور رعایا پرور حکمراں کے سی آر کی وزیر اعلی کے عہدہ سے ہٹ کر نجی زندگی بھی انسانیت دوستی کی عظیم مثال ہے ،کے سی آر حقدار کو اس کا حق دلانے کے لئے خواہ کیسی سے کیسی جدوجہد کرنی پڑے کرگذرتے ہیں ،ریاست تلنگانہ کی تشکیل بھی حقداروں کے جائز حقوق کی فراہمی پر مبنی کامیاب جدوجہد تھی ۔ ایک ایسا شخص جو ہمیشہ عوام کے لئے کچھ اچھا کرنے کی مسلسل جستجو کرے اور ریاست کی معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی معیشت کو مضبوط کرنے اور انہیں خود مکتفی بنانے کی حکمت عملی کے ساتھ میدان عمل میں آئے تو وہ شخصیت وزیر اعلی کے سی آر کی تصویر کے طور پر ہمارے ذہنوں میں ابھر جاتی ہے ۔
وزیر اعلیٰ کے سی آر چاہتے ہیں کہ سماج کا ہر فرد خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو بلا لحاظ مذہب و فرقہ مساوی ترقی کرے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سماج کے تمام طبقات کی ترقی میں اقلیتوں کو بھی شامل کیا ہے تاکہ وہ بھی حکومت کی اسکیمات کے ثمرات سے مستفید ہوں ۔وزیر اعلی کے سی آر کا یہ احساس ہے کہ مسلمان دوسرے درجہ کے شہری ہرگز نہیں ہیں وہ ان کے حقوق و مفادات کو اتنی ہی اہمیت اور ترجیح دیتے ہیں جتنا کہ اس ملک کے دوسرے شہریوں کے حقوق کو ترجیح دی جاتی ہے ۔
کے سی آر کاشمار ان سیاستدانوں میںنہیں ہوتا جو مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک سمجھتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان جنہوں نے اس ملک کی ترقی اور اس کی آزادی میں اہم کردارادا کیا انہیں بھی ترقی کے مساوی مواقع دستیاب ہوں اوراسی کے تحت وہ قومی سطح پر بھی اقلیتوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کے لئے بھی جدوجہد میں مصروف ہیں، اسی حصہ کے طور پر انہوں نے مسلم تحفظات کا معاملہ، تلنگانہ اسمبلی میں قرارداد پیش و منظور کرتے ہوئے مرکز کو روانہ کیا اور اس معاملہ میں اپنی سنجیدگی کا ثبوت پیش کیا اور اس معاملہ میں ان کی حکمت عملی پر مبنی جدو جہد جاری ہے۔
وزیر اعلی کے سی آر کے قومی سیاست میں داخلہ کی اہم وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اس ملک کے کسانوں اور سماج کے تمام طبقات کی بیک وقت ترقی کو ممکن بنا سکیں۔خود وزیر اعلی کے سی آر کا بھی یہ احساس ہے کہ اگر نیت ٹھیک ہو اور خلوص دل سے کام کیا جائے تو اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے ۔ وزیر اعلیٰ کے سی آر نے تلنگانہ ریاست میں اقلیتوں کو سماج کے دیگر طبقات کے ساتھ تعلیمی اور معاشی طور پر ترقی دینے کے لئے کئی ایک قدم اٹھائے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کے سی آر کا سب سے اہم کارنامہ تلنگانہ مائینا ریٹی ریسیڈنشیل اسکولس کا قیام ہے،جس کے ذریعہ اقلیتوں خاص طور پر مسلم بچوں کو تعلیم سے ہم آہنگ کرتے ہوئے انہیں ترقی کی منازل طئے کروائی جاسکیں،جس کے نتیجہ میں وہ معاشی طور پر خود مکتفی بن سکیں گے اور خاندانوں سے غربت کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی رہائش اور طعام کے لئے عالیشان عمارتوں کا انتخاب اور تغذیہ بخش غذاء کی فراہمی جس کا مینو خود وزیر اعلیٰ کے سی آر نے اپنی شخصی دلچسپی سے ڈیزائین کیا ہے ۔ان تعلیمی اداروں میں قابل اساتذہ کے ذریعہ معیاری تعلیم کی فراہمی اورقیام وطعام کی سہولتیں بھی ان غریب طلبہ کو فراہم کرتے ہوئے پہلی بار انہیں اپنے گھریلو مسائل او ربھاری فیس کی عدم ادائیگی کے خوف سے دور کیا اور ایک شاندار تعلیمی ماحول فراہم کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقلیتی اقامتی تعلیمی اداروں کے طلبہ نہ صرف بہتر تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ پیش کررہے ہیں بلکہ آئی اے ایس کے امتحانات میں کوالیفائی ہونے کے ساتھ ساتھ ناسا کے خلائی تحقیقی مشن سے بھی مربوط ہورہے ہیں۔وزیر اعلیٰ کے سی آر نے اقلیتی تعلیمی ا داروں میں 204 اسکولوں کے منجملہ97 اسکولس لڑکیوں کے لئے قائم کئے کیونکہ ان کا یہ احساس ہے کہ ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے اور ایک لڑکی کی تعلیم پورے خاندان کی تعلیم کے مماثل ہے۔وزیراعلیٰ جو ایک اقلیت دوست انسان ہیں،نے ٹی آر ایس کے اقتدار پر آنے کے فوری بعد ایک مسلمان محمد محمود علی کو نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر مال کا قلمدان دیتے ہوئے جہاں اپنی اقلیت دوستی کا بھر پور ثبوت فراہم کیا وہیں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو بھی بحال کرنے کا کام کیا ۔ٹی آر ایس کی دوسری معیاد کے لئے اقتدار پر آنے کے بعد پھر ایک مرتبہ اسی مسلمان وزیر کو وزیر داخلہ کا عہدہ سونپتے ہوئے اقلیتوں پر اپنے اٹوٹ اعتماد کا اظہار کیا ۔
ملک بھر میںریاست تلنگانہ جیسے لاء اینڈ آرڈر کی مثال کہیںاور نہیں ملتی۔ متحدہ ریاست آندھرا پردیش میں جہاں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی ابتر تھی،فسادات کا دور دورہ تھا ، کرفیو کا نفاذ عام بات تھی، تلنگانہ حکومت نے وزیر اعلی کے سی آر کی قیادت میں ایک منظم لاء اینڈ آرڈر فراہم کرتے ہوئے فسادات سے پاک ملک کی سرفہرست ریاست بنائی۔ خواتین کو تحفظ کی فراہمی کے تئیں شی ٹیمزکا قیام عمل میں لایا ۔ نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانے کے مقصد سے ملک کے سب سے باوقار پولیس کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کی تعمیر۔ ریاست میں 10 لاکھ سی سی کیمرے حفاظتی نظام کو مضبوط بنانے کے لئے لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی اور جدید تکنیک سے منشیات کے خاتمے کے لئے ایک خصوصی یونٹ قائم کیا ہے اور سماج دشمن سرگرمیوں پر آہنی ہاتھ ڈالا ہے۔ مختلف مذاہب اور ثقافتی روایات کے مرکز کے طور پر، ریاستی حکومت تمام مذاہب کو یکساں احترام دیتی ہے۔ ہندو، مسلم،سکھ عیسائی اتحاد کو پروان چڑھایا اور تلنگانہ کی روایتی گنگا جمنی تہذیب کا احیاء کیا جو ملک بھر میں ایک مثالی کلچر کے طور پر ان کا منفرد کارنامہ اور ان کی سیکولر نظریات کی ترجمانی ہے ۔ حکومت کی طرف سے پیش کردہ پروگراموں، اسکیموں اور مراعات کے ساتھ، مسلم نوجوان سماجی اور اقتصادی طور پر ہر ایک قدم پر چڑھ کر اپنے مستقبل کے مقاصد کو بہتر بنا رہے ہیں۔ کے سی آر حکومت نے اقلیتوں کی ترقی کے لئے کئی فلاحی اسکیموں جیسے گروکلس، اوورسیز اسکالرشپ، ائمہ اور موذنین کے اعزازیہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے موثر اقدامات کئے ہیں۔ حکومت، اقلیتوں کے تہواروں جیسے رمضان اور کرسمس کا سرکاری طور پر اہتمام کرتی ہے اور مستحق افراد میں کپڑوں کی تقسیم عمل میں لاتے ہوئے عید کے موقع پر ان کی خوشیوں میںاضافہ کرتی ہے اوراس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ان کی ہر طرح سے حمایت کی جائے ۔ تلنگانہ حکومت نے حیدرآباد میں مسلم یتیموں کے لئے 39 کروڑ کی لاگت سے انیس الغربا کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا ہے جو تعمیر کے آخری مرحلہ میں ہے۔اسی طرح راجستھان کے اجمیر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒکی مقدس درگاہ پر تلنگانہ سے آنے والے زائرین کی سہولت کے لئے ایک رباط (ریسٹ ہاؤس) کی تعمیر جس پر پانچ کروڑ کا تخمینہ طئے پایا ہے کو روبہ عمل لا رہی ہے ۔وزیر اعلیٰ کے سی آر نے لسانی تعصب سے پرے ہوکر اردو کو نہ صرف دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا ہے بلکہ اس پر عمل آوری کو بھی یقینی بنایا ۔
اقلیتی طلباء کو اورسیز اسکالر شپس کی فراہمی بھی وزیر اعلی کے سی آر کا ایک منفرد اور قابل ستائش کا رنامہ ہے جو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے اقلیتی طلباء کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے جس کے تحت 20 لاکھ روپئے فی طالب علم نا قابل واپسی فراہم کئے جاتے ہیں ۔تاحال ریاستی حکومت نے 2701 طلباء کو 435 کروڑ روپئے ادا کرچکی ہے۔ اسی طرح ریاست کے مسلمانوںکی فلاح و بہبود اور غریب مسلم خواتین کی شادیوںمیں حائل مالی مسائل جیسی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے وزیراعلیٰ کے سی آر نے شادی مبارک اسکیم پیش کرتے ہوئے ریاست کے غریب خاندانوں کے سرپرست کاجو اہم کردار نبھایا ہے آج ہمیں اس طرح کی اسکیمیں ملک بھرکی دیگر ریاستوں میںدوردور تک نظر نہیں آتیں۔ بیٹی کی شادی کے اخراجات کے لئے 1 لاکھ116 روپئے حکومت کی مالی امداد کے طور پر 8 سال کی مدت میں 10 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہو چکے ہیں۔
کے سی آر نے اپنے وعدے کے مطابق بے روزگاروں کو روزگار فراہم کیا۔ سرکاری ملازمتوں کے علاوہ 30 لاکھ پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریاں فراہم کیں۔ آئی ٹی سیکٹر میں بھی بڑی تعداد میں نوجوانوں کو روزگار سے جوڑا گیا۔ ریاست میں رہنے والے غریب گھر کے ہرفرد کوتعلیم اور معاشی اعتبار سے اسٹرانگ بنانا وزیراعلیٰ کے سی آرکی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
ریاست تلنگانہ کے پہلے چیف منسٹر نے ریاست تلنگانہ کے قیام کے پہلے ہی گھنٹے سے تحریک کی امنگوں کو عملی جامہ پہنایا اوربہتر حکمرانی کر رہے ہیں ۔ تلنگانہ حکومت انتخابات سے قبل نہ صرف انتخابی منشور میں مذکور اسکیمات پر عمل آوری کرتے ہوئے تمام لوگوں کی ہمہ گیر ترقی کے لئے اقدامات کررہی ہے بلکہ کئی دیگر شاندار اسکیمات کو بھی شامل کیا گیا ہے جن کاانتخابی منشور میںذکر تک نہیں تھا ۔ ’’سنہری تلنگانہ‘‘ کی ترقی کی طرف اس سفر نے ملک کو ایک انقلابی تحریک بخشی ہے۔ساڑھے آٹھ سال کے قلیل عرصے میں سی ایم کے سی آر کی قیادت میں تلنگانہ ریاستی حکومت نے فلاح و بہبود میں ایک سنہری دور رقم کیا ہے ۔ دیگر طبقات کی طرح اقلیتیں بھی ریاست تلنگانہ میں شاندار ترقی کر رہے ہیں،جس کی مثال ملک میں کہیں اور نہیں ملتی۔ تلنگانہ ریاست نے جو شاندار کامیابیاں حاصل کیں وہ کے سی آر حکومت کی کارکردگی کا ثبوت ہے۔
ترقی، امن، بھائی چارہ، خوش حالی اور روزگار کے لئے بی آر ایس کے ساتھ تعاون کریںاور کے سی آر کے ہاتھ مضبوط کریں۔ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر اور ملک کی معیشت کو پٹری پر لانے اس کے ساتھ ساتھ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور کسانوں کا درد رکھنے والے وزیر اعلیٰ جناب کے سی آر کا ساتھ دیں اور بی آر ایس کے ساتھ بھارت کی ترقی کا نیا سفر شروع کریں، جو وعدوں پر نہیں صرف کام پر یقین رکھتا ہے۔