حیدرآباد

وقف ترمیمی قانون، بی آر ایس کی ایوانِ بالا میں شدید مخالفت، حکومت کی سازش ناقابلِ قبول:محمود علی

اپنے ایک صحافتی بیان میں محمد محمود علی نے کہا کہ بی آر ایس سربراہ کے. چندرشیکھر راؤ ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد اور سیکولرازم کے علمبردار رہے ہیں۔ ان کی قیادت میں تلنگانہ میں دس سالہ حکومت گنگا جمنی تہذیب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی عملی تصویر رہی۔

حیدرآباد: سابق وزیر داخلہ محمد محمود علی نے وقف ترمیمی قانون کو مسلمانوں کی مذہبی آزادی میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی آر ایس پارٹی اس سیاہ قانون کی بھرپور مخالفت کرتی ہے اور راجیہ سبھا میں اس کے خلاف ووٹ دیا گیا۔

متعلقہ خبریں
جامعتہ المؤمنات مغلپورہ میں خواتین کیلئے دس روزہ دینی و اسلامی کورس کا آغاز
نرمی انبیاء کی صفت ہے، اسی سے معاشرہ جوڑتا ہے: مولانا محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
اکیڈیمکلی گلوبل نے حیدرآباد میں پہلا تجرباتی مرکز قائم کیا
حیدرآباد: نوجوان نسل ملک کی سب سے بڑی طاقت ہے: مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
اردو جرنلسٹس فیڈریشن کا ایوارڈ فنکشن، علیم الدین کو فوٹو گرافی میں نمایاں خدمات پر اعزاز

اپنے ایک صحافتی بیان میں محمد محمود علی نے کہا کہ بی آر ایس سربراہ کے. چندرشیکھر راؤ ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد اور سیکولرازم کے علمبردار رہے ہیں۔ ان کی قیادت میں تلنگانہ میں دس سالہ حکومت گنگا جمنی تہذیب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی عملی تصویر رہی۔

انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ ایک مسلم ادارہ ہے، جس کے انتظامات صرف مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہونے چاہئیں۔ وقف اراضیات میں حکومت کی مداخلت ناقابلِ قبول ہے۔ بی جے پی حکومت نے اکثریت کے بل بوتے پر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں وقف ترمیمی بل کو منظور کروا کر اسے قانون کی شکل دی ہے، جس کا مقصد صرف مسلمانوں اور اوقافی جائیدادوں کو نشانہ بنانا ہے۔

بی آر ایس کے رکن راجیہ سبھا سریش ریڈی نے بھی ایوان میں بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ درگاہیں ہندو مسلم اتحاد کی علامت ہیں، جہاں 55 فیصد غیر مسلم اور 45 فیصد مسلمان حاضری دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفاق پیدا کرنے کی کوشش ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔

محمد محمود علی نے مزید کہا کہ اگر وقف بورڈ کو عدالتی اختیارات دیے جاتے تو وقف اراضیات پر ناجائز قبضے نہ ہوتے۔ اوقافی جائیدادیں قوم و ملت کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لیے ہمارے اسلاف کے قیمتی عطیات ہیں، لیکن وقف بورڈ کو آج تک مکمل اختیارات نہیں دیے گئے جس کی وجہ سے ان جائیدادوں کا تحفظ ممکن نہ ہو سکا۔

انہوں نے بی جے پی حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے وقف معاملات کو منظم کرنے کے نام پر ایک سیاسی کھیل کھیلتے ہوئے مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں کو ہڑپنے کی سازش کی ہے۔ یہ قانون غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے، جو مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو سلب کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر تنظیموں نے اس قانون کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون کی متعدد دفعات پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ان پر عبوری حکم التواء جاری کیا ہے۔

چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی قیادت میں تین رکنی بینچ نے مرکزی وقف کونسل اور وقف بورڈ میں کسی بھی تقرری پر روک لگاتے ہوئے حکم دیا کہ عدالت کی اگلی سماعت تک ان دفعات پر عمل نہ کیا جائے۔

آخر میں محمد محمود علی نے کہا کہ ہمیں عدلیہ پر مکمل بھروسہ ہے اور یقین ہے کہ مسلمانوں کو انصاف ضرور ملے گا۔ وقف جائیدادیں مسلمانوں کی ملکیت ہیں، نہ کہ حکومت کی۔ حکومت فوری طور پر اس سیاہ قانون کو واپس لے اور مسلمانوں کی ترقی و فلاح کے لیے وقف اراضیات کا تحفظ اور استعمال یقینی بنائے۔