طنز و مزاحمضامین

’’ سموسہ سا کوئی نہیں…‘‘

حمیدعادل

’’ سموسوں میں آلو تو نظر ہی نہیں آ رہے ہیں۔‘‘
بعد افطار ہم نے سموسہ کھاتے ہوئے کہا…
’’ چپ چاپ کھا لیں،جس طرح کابلی پلاؤ میں کابل نہیں ہوتا، پائن ایپل میں ایپل نہیں ہوتا،آلو بخارے میں آلو نہیں ہوتا، ویجیٹیبل میں ٹیبل نہیں ہوتا اورشامی کباب میں شام نظر نہیں آتا،اسی طرح کچھ سموسوںمیں آلو نہیں ہوتا ….‘‘ ایک ہی سانس میں پھول بانو نے اتنا سنا ڈالا کہ ہمارا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور سموسہ ہمارے ہاتھ سے چھوٹ گیا … ہم سمجھے کہ اتنا سب کچھ سننے کے بعدہمیں مزید کچھ سننا نہ پڑے گا … لیکن ہماری پلیٹ میں پڑے سموسوں کو ایک جھٹکے سے اٹھاکر جاتے جاتے کہنے لگیں:’’کیا جمہوری ملک میں آپ کوجمہوریت نظر آرہی ہے ؟چلے ہیں سموسے میں آلو تلاش کرنے …‘‘
پھول بانونے جتنی باتیں سنائیں،ساری درست تھیں لیکن پتا نہیں انہیں آلو سے کیوں بیر ہے،ہمیشہ وہ بنا آلو کے سموسے بناتی ہیں…حد تو یہ کہ آلو کے پراٹھوں میں تک آلو نہیں ہوتا…صرف نام ہوتاہے’’ آلو کے پراٹھے‘‘…کہتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے لیکن سارا کھیل تو نام ہی کا ہے …اب یہی دیکھیے کہ 2019ء میں کرناٹک کے ایک جلسے میں راہول گاندھی نے تین نام لے کرکیا کہہ دیا سب چوروں کے نام مودی ،مودی ،مودی کیسے ہیں؟ پھرکیا تھا،جن کا نام نہیں لیا گیا ، انہوں نے بھی ان پر کیس ٹھونک دیا کہ راہول نے ہمیں چور کہا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انہیں دو سال کی سزا سنا دی گئی، دیکھتے ہی دیکھتے پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کردی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے انہیںسرکاری بنگلے سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا … جب کہ قتل اور کسی کی عزت کو پامال کرنے والے سنگین مقدمات برسہا برس چلتے ہیں اور بیچارے سنی دیول کو بھری عدالت میں چیخ چیخ کر کہنا پڑتا ہے :’’تاریخ پر تاریخ ،تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ ، تاریخ پر تاریخ ملتی رہی ہے ،لیکن انصاف نہیں ملامائی لارڈ،انصاف نہیں ملا،ملی ہے تو صرف یہ تاریخ …‘‘
خیر…بات آلو اور سموسے کی ہورہی تھی … سموسہ بھلاکسے نہیں پسند؟ بلا شبہ کوئی بھی سموسہ اپنے دیوانوں کو مخاطب کرکے فخریہ انداز میں یہ شعرپڑھ سکتا ہے :
اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں مری رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں
روایتی سنیکس میں شامل سموسہ نہ صرف مہمانوں کو سروربخشتا ہے بلکہ یہ بھوک کے وقت پیٹ بھرنے کا آسان سا سمجھوتہ بھی ہے…اگر کوئی بندہ گھر سے باہر ہے اوربھوک ستا رہی ہے توروٹی کے ساتھ سبزی ٹھیک رہے گی یا گوشت؟ویج بریانی منگوائی جائے یا نان ویج بریانی کا آرڈر دیا جائے؟ایسے مشکل سوالات سے پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی… بس سموسہ منگوالیں ، سب کچھ اس میں مل جائے گا اورکبھی بھی کہیں بھی اسے آرام سے کھایا جاسکتا ہے ۔
اچھا موسم ہو یا شام کی چائے، سموسے وہ پسندیدہ اسنیکس ہیں جسے ہر گھر میں شوق سے کھایا جاتا ہے، لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ سموسے فروخت کرنے والے یومیہ لاکھوں روپے کما سکتے ہیں؟بنگلور کے ندھی سنگھ اور شیکھر ویر سنگھ نے اپنا سموسوں کا بزنس ایک چھوٹی سی دکان سے 2016 میں شروع کیا، دونوں نے اس بزنس کے لیے اپنی اچھی خاصی نوکریاں چھوڑدیں اور اپنے برانڈ کا نام ’’سموسہ سنگھ‘‘ رکھا اور پھر ’’ سموسہ سنگھ‘‘ ’’ سنگھ از کنگ‘‘کی طرح ہٹ بلکہ سوپر ہٹ ثابت ہوا… اب یہ جوڑا سالانہ 45 کروڑ روپئے کماتا ہے،جو تقریباً یومیہ بارہ لاکھ روپئے بنتے ہیں…مشکوک حیدرآبادی کوحیرت اس بات پر ہے کہ سابق میں پکوڑے فروخت کرنے کو ملازمت کہنے والے معزز سیاست داں سموسے سے ہونے والی غیر معمولی آمدنی پر دیش واسیوں کو سموسہ فروخت کرنے کا قیمتی مشورہ کیوں نہیں دے رہے ہیں ؟
بات سموسے اور پکوڑے کی چل پڑی ہے ،تو ہمیں پڑوسی ملک یاد آرہا ہے جہاں ’’پکوڑوں کے ساتھ مل کر سموسوں کے خلاف سازش ‘‘کی گویا تحریک چل پڑی ہے … پاکستان میںسموسہ مزاح ہی مزاح میں ’’سموسہ تحریک‘ ‘کا عنوان بن گیا … جہاں ایک ڈاکٹر اسے ’’سموسے سے بچاؤ ‘‘ کے مقصد کے تحت چلا رہے ہیں جبکہ سموسے کو پسند کرنے والے ’’سموسہ بچاو‘‘تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پاکستانی ٹائم لائنز پر ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے ڈاکٹر محمدعفان قیصرسموسے میں 400 کیلوریز ، اسے پکانے والے تیل کے بار بار استعمال کی وجہ سے خلاف صحت ہونے اور دیگر پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کو صحت بچانے کے مشورے دینے لگے تو محبان سموسہ کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور انہوں نے ڈاکٹر کے خلاف ہی مورچہ کھول دیا لیکن ڈاکٹر صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے، دوسری جانب’’محبان سموسہ‘‘ نے نہ صرف ان کی باتوں کو خاطر میں نہیں لا یا، بلکہ انہیں ’’سموسے کے خلاف سازش‘‘ کا ملزم ٹھہرا دیا… سموسے کے خلاف اور سموسے کے حق میں چھڑ ی اس انوکھی اور دلچسپ جنگ میں سموسے سے صحت کو ہونے والے نقصانات بتانے والے ڈاکٹر عفان نے اپنے تازہ ویڈیو پیغام میں سموسہ ہاتھ میں تھامے ہوئے جہاں اپنی مہم کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا وہیں اپنی بات پر قائم رہنے کے آہنی عزم کا اظہار بھی کرڈالا…جواب میں ’’ذرا سوچیے‘‘ کے تحت دعوت فکر دینے والے محبان سموسہ نے ’’پکوڑوں کے ساتھ مل کر سموسوں کے خلاف سازش‘‘کا ڈاکٹرصاحب پر الزام عائد کردیا …سموسہ سے باز رکھنے کی کاوش کرنے والے عفان قیصر کے جواب میں ایک صارف نے لکھا کہ ’ ’رمضان آنے دیں، اس بار آپ پر بہت ساری نگاہیں ہوں گی۔ہم سموسہ پرست آپ کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کی کوشش کریں گے۔‘‘ جذبات کی رو میں بہہ کر ایک صارف نے تویہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’پاکستان کے اک اک شہر، گاوں، قصبے، گلی، محلے میں لالو رہے نہ رہے سموسے میں آلو اور اُس کے چاہنے والے سدارہیں گے۔‘‘سموسہ مخالف اور محبان سموسہ کے درمیان کشیدگی کے بعد ابہام کا شکار ہونے والی صورت حال کو واضح کرنے اور نتیجہ خیز بنانے کی کوشش ہوئی تو ایک صارف نے لکھا کہ ’ ’ہمیں سموسے کابائیکاٹ کرنے کے بجائے سموسے کو صحت کے لیے کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے،اس پہلو پر غور کرنا چاہیے۔‘‘
قصہ مختصر یہ کہ پاکستانی ٹائم لائنز پر سموسے اور اس سے متعلق گفتگو طبی فوائد ونقصانات اور مزاح تک ہی محدودنہیں رہی بلکہ یہ سموسہ اورسموسہ کریٹیکس کے دو ٹرینڈز کی بنیاد بھی ڈال گئی …
دوستو! حیدرآباد کے گلی کوچوں میں ان دنوں اڈلی ، دوسے کی بڑی دھوم ہے۔ایک دور وہ بھی تھا جب اڈلی، دوسے کو حیدرآبادمیں مریضوں کی غذا سے تعبیر کیا جاتا تھا لیکن اب یہ حال ہے کہ سبھی ’’ مریض اڈلی ‘‘ اور مریض دوسہ ‘‘ بن بیٹھے ہیں۔ چاکنا کو زیادہ تر لوگ چکھنابھول چکے ہیں اور نہاری کو جو ’’ تن کی شکتی، من کی شکتی‘‘ کا نعرہ مار کر نہار منہ کھا اور پی لیا کرتے تھے، اب بہت کم لوگ اس جانب متوجہ ہو رہے ہیں… یعنی پایہ کے پائے اکھڑ چکے ہیں تو چاکنا کو حیدرآباد سے بھاگنا پڑرہا ہے… لیکن یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ پیزا اور برگر کے دور میں بھی سموسہ اپنی پہچان بنائے ہوئے ہے، پہلے کی بہ نسبت مہنگا ضرور ہوچکا ہے لیکن اس میں بیچارے سموسے کا کیا قصور؟ …قصور تو اس شخص کا بھی نہیں تھا جس نے بھوک کی شدت کی بدولت کسی ہوٹل میں سموسہ بنا اجازت کے اٹھا لیا اورکھانے لگا …اور اس جرم میں اسے قتل کردیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مدھیہ پردیش میں مقتول دکان میں داخل ہوا اور بغیر اجازت سموسہ اٹھا کر کھانا شروع کردیا جس پر دکان دار نے ناراضگی کا اظہار کیا اور اسے ڈانٹا… مقتول بدستور سموسمہ کھاتا رہا جس پر مالک کو غصہ آیا اور اس نے مقتول کے سر پر ڈنڈے سے وار کیا جو اس کی موت کی وجہ بن گیا…
ہائے !کیا دور آگیاہے کہ انسانی زندگی ایک سموسے سے بھی سستی ہوگئی ہے …
سموسے پیاز کے بھی بنتے ہیں لیکن جو بات آلو کے سموسے میں ہے ، وہ پیاز کے سموسے میں کہاں؟ اور پھرآلو میں وٹامن اے اور ڈی کے سوا تمام غذائی اجزا پائے جاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ زندگی کے لیے ضروری خواص کی وجہ سے کوئی دوسری جنس آلو کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔آم کے تعلق سے کہی جانے والی یہ کہاوت ’’ آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘ آلو پر بھی صادق آتی ہے … آلو کے چھلکوں کو اگر دودھ یا اس سے بنی مصنوعات میں ملا کر کھایا جائے تو وٹامن اے اور ڈی بھی حاصل ہو جاتے ہیں، یوں آپ کو غذائیت سے بھرپور بنیادی خوراک میسرآ سکتی ہے…آلو ہے توبراعظم امریکہ کی پیداوار ،لیکن ہمارے ہاں اس کا استعمال ہزار طرح سے کیا جاتا ہے اور اب ہندوستانی کاشتکار کو یہ باور کروانا کہ آلو بدیسی فصل ہے، مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔2017ء میں ایک خبر آئی تھی کہ چین چاند پر آلو اگائے گا…. اس کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ آیا چاند کی سطح پر کیڑے اور آلو کے پودے بچ پاتے ہیں یا نہیں۔چین کے مطابق اس سے جو نتائج برآمد ہوں گے اس سے اس بات کا پتا چل سکے گا کہ مستقبل میں وہاں انسانی زندگی کس حد تک ممکن ہو سکے گی …’’چ ‘‘سے چین، مذکورہ اطلاع کو دینے والے اخبار کا نام’’ چ‘‘ ہی سے ’’ چانگ قنگ پوسٹ‘‘ اور جہاںآلو اگائے جانے والے ہیں، وہ جگہ بھی ’’چ ‘‘سے چاند ہے … اس خبر کو پڑھ کر’’ چ‘‘ سے چمن بیگ ’’چ‘‘ سے چہک اٹھے ’’توکیا چاند پر اگائے جانے والا آلو ، آلو نہ رہ کر ’’ چ‘‘ سے ’’ چالو‘‘ اور چاند پر بننے والاسموسہ ’’چموسہ‘‘کہلائے گا؟‘‘
چمن بیگ کی باتیں چمن بیگ جانیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ جہاں آلو ہوگا، وہاں سموسہ بھی ہوگا… آلو سموسے کا ساتھ، چولی دامن کا ساتھ ہے ،سموسے کا تعلق بنیادی طور پر ایران کی قدیم سلطنت سے ہے۔ یہ تو نہیں پتا کہ پہلی بار اسے تکونا کب بنایا گیا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کا نام سموسہ فارسی زبان کے لفظ ’’سنبوساگ ‘‘سے ماخوذ ہے… سنتے ہیں کہ برِصغیر میں ابنِ بطوطہ اور محمد بن تغلق سموسوں کو شوق سے کھایا کرتے تھے،جس میں قیمہ، بادام، پستہ اور اخروٹ بھرا جاتا تھا اور پلاؤ کے ساتھ تناول فرمایا جاتا تھا…لیکن عام آدمی تک رسائی کی خاطر اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں اور آج تکونی شکل میں آلو اور پیاز کا سموسہ ہر شہر، ہر گاوں،ہرہوٹل اور نکڑ پر دستیاب ہے …
چمن بیگ جو سموسے کے حد درجہ شوقین ہیں ، کہتے ہیں :’’سموسہ سا کوئی نہیں،میرے سینے میں دل نہیں سموسہ دھڑکتا ہے۔‘ ‘ موصوف سموسے کی محبت میں مزید فرماتے ہیں : ’’مجھ ہی پر کیا منحصر ہے ،سارے ملک پر سموسہ چھایا ہوا ہے …ہندوستان کا نقشہ دیکھو، سموسے کی طرح تکونی ہے….شاید اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے برسوں سے کرپٹ نیتا،اسے مسلسل کھائے جارہے ہیں ، جیسے ملک نہ ہوا کوئی سموسہ ہوا…‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰