بھارتسوشیل میڈیا

مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اجلاس۔ کمسنی کی شادیوں کے خلاف مہم پر اظہارتشویش

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ(اے آئی ایم پی ایل بی) کا اجلاس لکھنو میں اتوار کے دن دارالعلوم ندوۃ العلماء میں منعقد ہوا۔ بورڈ کے ارکان عاملہ کی تعداد51ہے۔مجلس عاملہ اجلاس کی صدارت بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے کی۔

لکھنو: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ(اے آئی ایم پی ایل بی) کا اجلاس لکھنو میں اتوار کے دن دارالعلوم ندوۃ العلماء میں منعقد ہوا۔

متعلقہ خبریں
مسلمان فلسطین اور ملک کے پارلیمانی الیکشن کے لئے دعا کا اہتمام کریں : صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ
وسطی افریقہ کے ایک سرسبزو شاداب ملک زامبیا میں چند دن
ہند۔ امریکہ۔ سعودی۔ امارات، ریلوے معاملت کا اعلان متوقع
مین اسٹریم میڈیا کے لیے افرادسازی وقت کی اہم ضرورت : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
مدارس اور خانقاہوں کے ذریعہ بورڈ کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایا جائے گا: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

بورڈ کے ارکان عاملہ کی تعداد51ہے۔مجلس عاملہ اجلاس کی صدارت بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے کی۔

اجلاس میں ملک بھر سے مجلس عاملہ کے ارکان نے شرکت کی۔ اس موقع پر بہت سے پہلوؤں پر تفصیل سے گفتگو ہوئی جن میں یونیفارم سول کوڈ اور ملک کے مختلف عدالتوں میں چل رہے مسلم پرسنل لا سے متعلق مقدمات کا جائزہ لیا گیا۔

میٹنگ میں بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، نائب صدور مولانا ارشد مدنی، مولانا فخر الدین اشرف،پروفیسر سید علی نقوی، جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، مولانا فضل الرحیم مجددی، مولانا محمود مدنی، مولا نا سجاد نعمانی، مولانا مصطفی رفاعی جیلانی، اسد الدین اویسی، مولانا خالد رشید فرنگی محلی، مولانا ولی فیصل رحمانی، ڈاکٹرقاسم رسول الیاس، کمال فاروقی، یوسف حاتم مچھالہ ایڈوکیٹ، مولانا سید بلال حسنی ندوی، مولانا عتیق احمد بستوی، شمشاد احمد ایڈوکیٹ، طاہر حکیم ایڈوکیٹ، ڈاکٹر مونسہ بشریٰ خصوصی طور پر شریک تھے۔شرکاء نے کئی تجاویز منظورکیں۔

حکومت سے،محب وطن شہریوں سے، قانون دانوں، سیاسی رہ نماؤں اور میڈیا کے لوگوں سے درد مندانہ اپیل کی گئی کہ وہ نفرت کی اس آگ کو پوری قوت کے ساتھ بجھانے کی کوشش کریں اور اس کو ہوا دینے سے بچیں، ورنہ یہ آگ آتش فشاں بن جائے گی اور ملک کی تہذیب، اس کی نیک نامی، اس کی ترقی اور اس کی اخلاقی وجاہت سب کو جلاکر رکھ دے گی۔لاقانونیت عوام کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف، بہر حال قابل مذمت ہے۔

اس کو روکنا حکومت کا اور تمام باشندگان ملک کا فریضہ ہے۔عبادتگاہوں سے متعلق قانون 1991 کوقانون رکھنا حکومت کافریضہ ہے اور اسی میں ملک کا مفاد ہے۔ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ مسلمانوں کو اوقاف سے محروم کرنے کے کسی بھی اقدام سے بازرہے۔

مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ اپنے اوقاف کی حفاظت کی کوشش مقامی طورپر بھرپورکریں۔آسام کی حکومت نے کمسنی کی شادیوں کے سلسلہ میں مسلم خاندانوں کی گرفتاری کا جوآغازکیا ہے وہ انتہائی قابل تشویش ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک کوئی اقدام نہ کرے۔

بورڈ کے اجلاس نے مسلمانوں کو متوجہ کیا کہ مسلمان ہونے کا مطلب اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حوالے کرنا ہے۔ اس لیے بہ حیثیت مسلمان ہم سب کا فریضہ ہے کہ ہم شریعت کے قانون پر عمل کریں۔ عورتوں کے ساتھ انصاف، بوڑھوں کے ساتھ حسن سلوک، شادی بیاہ میں فضول خرچی سے پر ہیز اور سادگی کا لحاظ رکھیں۔

اپنے معاملات کو اپنے قاضیوں، مذہبی رہ نماؤں کے سامنے رکھ کر اپنے مسائل حل کریں۔ شریعت نے جن باتوں کو حرام اور گناہ قرار دیا ہے ان سے بچیں، چاہے قانون میں اس کی ممانعت نہ ہو، جیسے نشہ، نکاح کے بغیر مرد وعورت کا جسمانی تعلق، سود، ہم جنسی، شوہریا بیوی سے بے جاطریقہ پر پیسہ وصول کرنا، طلاق کے بعد بیوی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا۔

یہ ساری باتیں کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتیں اور نہ ملک کا قانون ہمیں ان پر مجبور کرتا ہے۔ چاہے قانون کسی خلاف شریعت بات کی اجازت دیتا ہو اور اس میں کسی شخص کا فائدہ ہو، لیکن ایک مسلمان کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔