حیدرآبادسوشیل میڈیا

نئے روسٹر پوائنٹس میں مسلم تحفظات 4 فیصد نہیں بلکہ صرف 3 فیصد!

درج فہرست قبائیل کے لئے پہلے سے موجود 6 فیصد تحفظات کو بڑھا کر 10 فیصد کرنے کے سلسلہ میں حکومت تلنگانہ کی جانب سے کی گئی عملی پہل میں راست تقررات کے لئے جاری کردہ نئے روسٹر پوائنٹس میں مسلمانوں کے لئے محفوظ نشستوں کو 4 سے گھٹا کر3فیصد کردیا گیا ہے۔

حیدرآباد: مسلمانوں کو تلنگانہ میں 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کا وعدہ تو وفا نہیں ہوسکا مگر درج فہرست قبائیل کے لئے پہلے سے موجود 6 فیصد تحفظات کو بڑھا کر 10 فیصد کرنے کے سلسلہ میں حکومت تلنگانہ کی جانب سے کی گئی عملی پہل میں راست تقررات کے لئے جاری کردہ نئے روسٹر پوائنٹس میں مسلمانوں کے لئے محفوظ نشستوں کو 4 سے گھٹا کر3فیصد کردیا گیا ہے۔

ممکن ہے یہ سہو دانستہ نہیں ہو مگر اس کی اصلاح ضروری ہے۔ورنہ غیر محسوس طریقہ سے مسلمانوں کے تحفظات کی شرح ایک فیصد گھٹ جائے گی۔ یاد رہے کہ ریاستی حکومت نے درج فہرست قبائیل کے لئے تحفظات کی شرح کو 6 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کردیا ہے اور اس خصوص میں چیف سکریٹری سومیش کمار کی کی ایماء پر محکمہ نظم و نسق عامہ (خدمات۔ڈی) کی جانب سے تلنگانہ اسٹیٹ اینڈ سب آرڈینیٹ سرویس رولز 1969 کے قواعد کے قاعدہ 22 میں ترمیم کے ضمن میں ایک جی او ایم ایس نمبر 130 مورخہ 9-11-2022 جاری کیا گیا۔

اس کی مطابعت میں محفوظ زمروں کے لئے ایک تا 100 نشستوں کا تعین کرتے ہوئے نئی روسٹر پوائنٹس بھی جاری کئے گئے ہیں جس میں مسلمانوں کے لئے محفوظ زمرہ بی سی۔ ای کے تحت صرف تین نشستیں 19، 44 اور 94 ہی مختص کی گئیں جب کہ مسلمانوں کے لئے 19، 44، 69 اور 94 کی نشستیں محفوظ ہونی چاہئے تھی۔

نظر ثانی شدہ روسٹر پوائنٹس میں 69 نمبر پر(نشست) بی سی۔ ای کے بجائے بی سی۔بی کو مختص کردیا گیا جس کے باعث بی سی۔بی کیلئے مختص تحفظات میں غیر واجبی طور پر ایک فیصد کا اضافہ ہوجائے گا اور مسلمانوں کے لئے ایک فیصدکی کمی ہوجائے گی۔

ممکن ہے اس بے قاعدگی کے باعث قانونی کشاکش بھی شروع ہوجائے۔ پروفیسر محمد انصاری صدر مائنارٹیز رائٹس پروٹیکشن کمیٹی نے اعلی حکام کی اس کوتاہی پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے مختص تحفظات کی شرح 4 فیصد سے گھٹ کر 3 فیصد ہی رہ جائے گی اور کئی مواقع پر جہاں 3 مسلمانوں کا تقرر ہونا چاہئے وہاں پر صرف 2 مسلمانوں کا ہی تقرر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ روسٹر پوائنٹس میں پائی جانے والی اس خامی کی باعث 90 جائیدادوں میں صرف 2 اور 100 جائیدادوں میں صرف 3 مسلمانوں کا ہی تقرر ہوگا۔ اگر اس کی فوری اصلاح کرتے ہوئے نئے روسٹر پوائنٹس جاری نہیں کئے جائیں گے تو مسلمانوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی اور حکومت فوری اس جانب توجہ نہیں دیتی ہے تو ہمیں قانونی جدوجہد بھی شروع کرنی پڑے گی۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ روسٹر پوائنٹس پر نظر ثانی کرنے والے عہدیداروں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی جانی چاہئے تاکہ آئندہ اس طرح کی غلطیوں کا احتمال نہ رہے۔انہوں نے کہا کہ خاص کر تعلیم میں اکثر مواقع پر مسلم تحفظات میں مناسب طور پر تحفظات پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے۔ اس خصوص میں بھی ہماری جدوجہد جاری ہے۔ یاد رہے کہ تشکیل تلنگانہ سے قبل تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے صدر نے مسلمانوں کے لئے تحفظات کی موجودہ شرح 4 فیصد کو بڑھا کر 12 فیصد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

اس وقت جب ان سے اس پر عمل آوری کے امکانات کے بارے میں استفسار کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ 12 فیصد تحفظات کو یقینی بنانے کے لئے اسمبلی میں قرارداد منظور کرتے ہوئے مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالنے اور ضرورت پڑنے پر دہلی میں احتجاج منظم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا مگر اقتدار کے حصول کے بعد وہ اپنے وعدہ کو وفا کرنے کے لئے کوئی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا مگر اپریل 2017 ء میں ٹی آر ایس حکومت نے مسلمانوں اور درج فہرست قبائیل کے لئے تحفظات کو 4 فیصد اور 6 فیصد سے بڑھا کر 12 فیصد اور 10 فیصد کرنے کے لئے ایک بل منظور کیا تھا۔

ان دو برادریوں کے لئے تحفظات کی شرح کو اس لئے بڑھایا گیا تھا کہ تقسیم ریاست کے بعد نئی ریاست میں درج فہرست قبائیل کی آبادی کا تناسب 7.11 فیصد سے بڑھ کر 9.08 فیصد ہوگیا تھا جب کہ مسلمانوں کا تناسب 9.56 فیصد سے بڑھ کر 12.68 فیصد ہوگیا جب کہ ان دنوں ریاست میں ان برادریوں کی شرح آبادی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

درج فہرست قبائل کیلئے وعدہ کے مطابق حکومت نے تحفظات کی شرح کو 6 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کردیا ہے مگر مسلمانوں کیلئے تحفظات میں اضافہ پر خاموشی اختیار کرلی گئی ہے۔ ممکن ہے اگر ریاست کے مسلمانوں کی جانب سے اس کو موقع غنیمت جان کر مسلمانوں کیلئے بھی تحفظات کو 4 فیصد سے بڑھا کر 12 فیصد کرنے کیلئے تحریک شروع کی جاتی ہے تو اس کے ثمر آور نتائج ظاہر ہوں گے۔