سیاستمضامین

کیا مسلمان دہشت گرد ہوتا ہے عیسائی نہیں؟

اب ایک اور خبر کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ یہ خبر برطانوی اخبار میل نے 3؍ جولائی کو رپورٹ کی۔ خبر کی تفصیلات کے مطابق ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ایک پر ہجوم شاپنگ مال میں 22 برس کے ایک نوجوان نے رائفل سے رائنگ کردی۔ جس کے نتیجے میں 3 ؍ افراد ہلاک ہوگئے اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔ پولیس انسپکٹر کے حوالے سے اخبار میل نے لکھا کہ حملہ آور ڈنمارک کا سفید فام شہری ہے۔ یوروپ کے ملک ڈنمارک میں فائرنگ کے اس واقعہ کا بھی یوروپ اور امریکہ کے سبھی اخبارات، ٹیلی ویژن چیانلس نے خوب کوریج کیا ہے اور ایک بھی اخبار یا ٹیلی ویژن ایسا نہیں تھا جس نے حملہ آور کے مذہب کا ذکر کیا ہو۔ صرف اتنا ہی کہا گیا کہ حملہ آور ڈنمارک کا سفید فارم شہری ہے۔

محمد مصطفی علی سروری

شنزو آبے جاپان کے سابق وزیر اعظم تھے۔ ان کو 8؍ جولائی جمعہ کے دن ایک بندوق بردار نے گولی مارکر شدید زخمی کردیا۔ انہیں فوری طور پر دواخانہ لے جایا گیا جہاں پر وہ اپنے زخموں سے جانبر نہیں ہوسکے۔قارئین کرام جاپان دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت ہے اور شنزو آبے جاپان کے طویل مدت تک برسر عہدہ رہنے والے وزیر اعظم تھے۔
جمعہ کے دن دنیا بھر کے میڈیا چیانلس نے جاپان کے سابق وزیر اعظم پر قاتلانہ حملے کی خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا۔ اس کے بعد دن بھر یہ خبر نشر کی جاتی رہی حملہ کیسے ہوا۔ حملہ کس نے کیا۔ غرض ہر طرح کے زاویہ سے اس خبر کو کوریج کیا گیا اور جاپان کے سابق وزیر اعظم کے متعلق خبروں کے کوریج کا سلسلہ کم و بیش 12؍ جولائی تک چلتا رہا۔ جب شنزو آبے کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
قارئین آیئے اب ذرا جاپان کے سابق وزیر اعظم کے شنزو آبے کے اس قاتل کے بارے میں میڈیا نے کیا لکھا اور کیا بتلایا اس کے متعلق بھی بات کرتے ہیں۔
CNN کے مطابق حملہ آور قاتل کا نام Tetsuya Yamagami ہے۔ یاماگامی کی عمر 41برس بتلائی گئی ہے۔ وہ جاپانی بحریہ میں کام کرچکا ہے۔
جاپان کی تاریخ میں ایک سابق وزیر اعظم کے قتل کی واردات گذشتہ 100 برسوں کے دوران پیش آنے والی پہلی واردات ہے۔ (بحوالہ خبر رساں ادارے رائٹرز)
شنزو آبے پر حملہ کرنے کے فوری بعد سیکوریٹی اہلکاروں نے یاماگامی کو پکڑ لیا اور اس کے قبضے سے ایک بندوق بھی برآمد کرلی۔ جاپان براڈکاسٹنگ کارپوریشن (NHK) کے مطابق واقعہ کی تحقیق کرنے والے اہلکاروں کو یاماگامی نے بتلایا کہ وہ سابق وزیر اعظم سے ناخوش تھا۔ اس لیے قتل کرنا چاہتا تھا۔ خبر رساں ادارے اسوسی ایٹیڈ پریس (AP) کے مطابق قاتل تفتیش کاروں کو بڑے اطمینان سے سوالات کا جواب دے رہا تھا۔
یاماگامی نے آخر کس وجہ سے جاپان کے سابق وزیر اعظم کو قتل کیا ۔ اس کے متعلق اخبار بزنس اسٹانڈرڈ نے 11؍ جولائی کو رپورٹ لکھی کہ پولیس کی پوچھ گچھ کے دوران قاتل نے بتلایا کہ دراصل وہ ایک مذہبی تنظیم کے اعلیٰ اہل کاروں کو مارنا چاہتا تھا ۔ یہ وہ تنظیم تھی جس کی عقیدت میں قاتل کی ماں نے اپنا بہت سارا سرمایہ لٹادیاتھا۔ اور قاتل کے خیال میں جاپان میں اس مذہبی گروپ کو فروغ دینے میں جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو آبے کا ہی ہاتھ ہے۔
قارئین حملہ آور نے جس مذہبی گروپ کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اس کے متعلق Bloomberg.com نے 11؍ جولائی کو خبر دی کہ Unification چرچ ہے ۔ اس چرچ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ قاتل کی ماں ان کی رکن ہیں۔
اس سارے خلاصے کے بعد قارئین کرام اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ 41 برس کا ایک نوجوان جاپان کی سیاست میں سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے والے کو گولی مارکر ہلاک کردیتا ہے۔
عالمی سیاست میں عالمی معیشت میں جاپان کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے اور جاپان جیسے ملک کے سابق وزیر اعظم کے قتل کی خبر کو پوری دنیا کے میڈیا اداروں، خبر رساں ادارے، اخبارات اور ٹیلی ویژن چیانلس نے نشر کیا اور سب سے خاص بات تو یہ تھی کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد ایک بھی صحافتی ادارے، ٹیلی ویژن چیانل یا اخبار نے جاپان میں سابق وزیر اعظم کے قتل کی اس واردات میں ملوث قاتل کے مذہب کا کسی طرح بھی کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
اب ایک اور خبر کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ یہ خبر برطانوی اخبار میل نے 3؍ جولائی کو رپورٹ کی۔ خبر کی تفصیلات کے مطابق ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ایک پر ہجوم شاپنگ مال میں 22 برس کے ایک نوجوان نے رائفل سے رائنگ کردی۔ جس کے نتیجے میں 3 ؍ افراد ہلاک ہوگئے اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔ پولیس انسپکٹر کے حوالے سے اخبار میل نے لکھا کہ حملہ آور ڈنمارک کا سفید فام شہری ہے۔ یوروپ کے ملک ڈنمارک میں فائرنگ کے اس واقعہ کا بھی یوروپ اور امریکہ کے سبھی اخبارات، ٹیلی ویژن چیانلس نے خوب کوریج کیا ہے اور ایک بھی اخبار یا ٹیلی ویژن ایسا نہیں تھا جس نے حملہ آور کے مذہب کا ذکر کیا ہو۔ صرف اتنا ہی کہا گیا کہ حملہ آور ڈنمارک کا سفید فارم شہری ہے۔
4؍ جولائی کو امریکہ کے یومِ آزادی کے جشن کے ووران نکالی جانے والی پریڈ کے دوران شکاگو میں ایک 22 سال کے نوجوان نے فائرنگ کر کے 6 لوگوں کو موت کے گھات اتار دیا۔ حملہ آور کی شناخت 22 سال کے Rebort Crimo کی حیثیت سے کی گئی۔ اپنی گرفتاری کے بعدحملہ آور نے اعتراف کیا کہ وہ فرار ہوتے ہوئے اسی طرح کا ایک اور حملہ کرنا چاہتا تھا۔
خبروں میں اس حملے کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے خبر رساں ادارے اور ٹیلی ویژن چیانل اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھ رہے تھے کہ حملہ آور کو ذہنی صحت کے حوالے سے مسائل درپیش تھے۔ (بحوالہ اے ایف پی)
امریکہ کے یومِ آزادی کے دن پیش آئے اس فائرنگ کے واقعہ کو سارے عالم کے میڈیاء نے نشر کیا اور تفصیلی رپورٹیں بھی شائع کی گئیں۔ لیکن ایک بھی رپورٹ ایسی نہیں تھی جس میں حملہ آور کے مذہب کا ذکر کیا گیا ہو۔
قارئین کرام یہ خبریں تو جاریہ ماہ جولائی 2022ء کی ہیں۔ آیئے ایک خبر 24؍ مئی 2022 کی ملاحظہ کرتے ہیں۔ امریکہ کے اسکول میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا۔ جس میں امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک اسکول کے 21 طلبہ مارے گئے تھے۔ Robb Elementary اسکول ٹیکساس میں واقع ہے۔ جہاں پر ایک بندوق بردار نے حملہ کرتے ہوئے 19 طلبہ اور دو ٹیچرس کو جان سے ماردیا تھا۔ (بحوالہ بی بی سی)۔ حملہ آور 18سالہ Salvador Ramus تھا۔ بعد میں امریکی پولیس نے حملہ آور کو فائرنگ میں ماڈالا تھا۔
حملہ آور راموس کی ماں نے ایک ٹیلی ویژن چیانل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برائے مہربانی میرے بیٹے کے بارے میں کوئی غلط رائے مت قائم کیجئے۔ یقینا اس کے اس عمل کے پیچھے کچھ وجوہات ہوں گی۔ امریکی میڈیا نے اسکول پر حملہ کرنے والے نوجوان کے والد اور اس کے دادا سے تک انٹرویو کیا۔
امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق امریکہ کی حالیہ تاریخ میں اسکول میں فائرنگ کر کے اسکولی طلبہ کو مار ڈالنے کا یہ بدترین واقعہ تھا۔ اس واقعہ کی بہت سارے زاویوں سے رپورٹنگ کی گئی لیکن کسی نے بھی حملہ آور کے مذہب اور اس کے والدین کے مذہب کاذکر کرتے ہوئے حملے کو اس کے مذہب سے جوڑنے کی کوشش نہیںکی۔
قارئین مندرجہ بالا متعدد مثالوں سے بات پوری طرح واضح ہوتی ہے میڈیا دہشت گردی کے واقعات کو حملہ آوروں کے مذہب اور نسل سے نہیں جوڑتا ہے جب حملہ آور اور دہشت گرد عیسائی مذہب یا کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اور اگر حملہ آور کا نام مسلمان ہو یا مسلمانوں جیسا بھی ہو یا حملہ آور کسی مسلم اکثریتی ملک سے تعلق رکھتا ہو تو سارا میڈیا بیک زبان ہوکر ایک ہی راگ الاپنا شروع کردیتا ہے کہ اسلامی دہشت گرد اور مسلم دہشت گرد۔ حالانکہ یہ سچ ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا اور دہشت گردوں کا مذہب دہشت گردی ہی ہوتا ہے۔
خاص طور پر مذہب اسلام میں تو بلا کسی وجہ کسی نہتے معصوم اور بے قصور کے قتل کی کوئی گنجائش نہیں اور مذہب اسلام تو امن کا علمبردار ہے۔ لیکن مسلم دشمن نظریات پر عمل پیرا ہوکر دورِ حاضر کا میڈیاء مسلمانوں کو اور مذہب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتا ہے۔ کیا ایسا کرنے میں میڈیا تنہا ہے ۔ نہیں بلکہ مسلم دشمن عناصر اور اسلام دشمن طاقتیں باضابطہ طور پر منصوبہ بند انداز میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق لوگوں میں بدظنی بڑھانے اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے یہ کام سر انجام دے رہے ہیں۔ اور جب ہم احتساب کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ میڈیا کی اہمیت اور افادیت کو مسلم دانشوروں اور انجمنوں نے صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں۔ گودی میڈیا کہہ کر میڈیا پر رونا روتے رہنے والے ملت کے ہونہار اور ذہین سپوتوں کو ڈاکٹر اورانجینئر بناکر مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں تو اوسط اور کم تر ذہن میڈیا کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور مسلمانوں کا میڈیا کے مؤثر استعمال کا مشن ہنوز ادھورا ہے۔
نہ تو مسلمان دہشت گرد ہوتا ہے اور نہ عیسائی دہشت گرد۔ دہشت گرد کا تو مذہب ہی دہشت گردی ہوتا ہے۔
پریس ریلیز کا جاری کردینا، یوٹیوب کا چیانل چلا لینا میڈیا نہیں ہوتا۔ جھوٹی خبروں کا پردہ فاش کرنے والے آلٹ نیوز کے محمد زبیر حالانکہ انجینئرنگ کی سند رکھتے ہیں لیکن انہوں نے میڈیا کا اصل حقیقی استعمال کیا ہوتا ہے ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کو بتلادیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کو جمہوریت میں میڈیا کی اہمیت سمجھنے، میڈیا کے مواقع سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنے اور اپنے نوجوانوں کو میڈیا کے چیالنجس سے نمٹنے کے قابل بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں) ۔sarwari829@yahoo.com

a3w
a3w