سیاستمضامین

ہائےبنت ِحوا! چادرِ عصمت ہوئی کیوں تارتار

ش۔م۔احمد (کشمیر)

ارض ِکشمیر کو پاکی ٔ داماں میں یکتائے روزگار خطہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ یہ اعزاز کوئی بلا وجہ چیز نہیں۔ کوئی مبالغہ نہ ہوگا ا گر ہم یہ کہیں کہ یہ سرزمین روحانیت کےپرستاروں کا معبد، انسانیت کےعلم برداروں کا مسکن ‘ علم وفن کے متوالوں کامرکز ہے ۔ یہی سہ رُخی شناخت کشمیر کی آئینہ دار اور اہلِ کشمیر کا سرمایہ پُرٔ افتخارہے ۔افسوس کہ وادیٔ کشمیر کی یہ پہچان دھیرے دھیرے تحلیل ہورہی ہے کیونکہ اس سرزمین کو جرائم کی دھرتی میں بدلا جارہا ہے ۔ عام جرائم تو عام رہے‘ خواتین کے خلاف زیادتیوں کا خارزار یہاں تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ یہ امر واقع ہماری روایتی حیا پسندی اور غیرت مندی کے لئے سم ِ قاتل ہے۔ ان حوالوں سےروز روز کی میڈیا رپورٹیں فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی ہیں کہ کشمیر میں صنف ِ نازک کی عزتوں کی شرم ناک پامالیاں بلکہ نیلامیاں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ جب مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ خبریں تواتر کے ساتھ جگہ پائیں کہ چکلے چلانے والے مجرم شرق وغرب سے قانون کی گرفت میں لائے گئے ‘ شمال وجنوب میں رنگ رلیاں منانے والے بے حیا جوڑےرنگے ہاتھوں پولیس کے ہتھے چڑھ گئے‘ معاشقے کے دلدل میں پھنسی گھر سے بھاگ کھڑی لڑکی کو آشنا سمیت برآمدکیا گیا‘ وغیرہ وغیرہ‘ تو ظاہر ہے کہ ایسی ذلت آمیز خبروں سے کسی بھی شریف ومہذب سماج کی کردار کشی کے ساتھ ساتھ یہ خبریں اس پر گویا زوردار طمانچہ رسید کرتی ہیں۔ ان گھمبیر حالات کے پیچھےاصل راز کیا ہے ؟ کون سی وجوہات دخیل ہیں؟کیا کیاعوامل کارفرما ہیں ؟ ان سوالوںسے صرف ِ نظر کر تے ہوئے تاسف وتعجب کا مقام ہے کہ آخر یہ کس ہوابدلی کا اثر ہے کہ جن لوگوں کی سرشت میں صدیوں سے ماں بہن بیٹی کی عزت وتوقیر رچی بسی ہوئی ہے‘ جو بجا طور اخلاقی اقدار کے دلدداے مانے جاتے ہیں ، جن کا اجتماعی ضمیر زندہ وجاوید سمجھا جاتاہے‘اُن کی موجودگی میں جسم فروشی جیسے بے غیرت دھندے میں ملو ث مجرم یہاں کیسے جنم پاگئے ۔ حالانکہ آج بھی لاکھ برائیوں کے باوجود مستورات کے تئیں عزت وتعظیم‘ نرم روئی اور شرافت کی روش بدستور یہاں کے قومی مزاج کا خاصہ ہے۔اس کی زندہ مثال دیکھنی ہو تو کسی بھیڑ بھاڑ والی مسافر گاڑی میں جاکر دیکھئے کہ کوئی خاتون سوار بزرگ ہو یاجوان ‘ بچے کو گود میں لئے ہوئی عورت ہو یا دوشیزہ ‘ اگر وہ سیٹ پر نہ بیٹھی ہو تو سیٹ پر بیٹھا کوئی نہ کوئی جوان سال لڑکا لازماً خاتون کو اپنی سیٹ کی پیش کش کئے بنا نہ رہ سکے گا۔ یہ ہے کشمیر میں ماں بہن بیٹی کے ساتھ حسنِ سلوک کی ایک معمولی سی عکس بندی۔
تاریخ شاہد عادل ہے کہ جب بھی کشمیر میں خواتین کے تقدس وحرمت اور عزت وآبرو پر خطرات کے بادل منڈلاتے نظر آئے تو دفعتاً یہاں کے طول وعرض میں اصلاح ِ احوال کی صدائیں بلند ہوئیں‘ منبر ومحراب سے تطہیر وپاک دامنی کی نصیحتیں جاری ہوئیں‘ بہو بیٹی کی حفاظت کی راہ میں عفت وپاک بازی کی جگمگاہٹ کا وہ اہتمام ہوا کہ غلاظت کی تاریکی فوراً چھٹ گئی‘خواتین کو احساسِ تحفظ ملا‘اُن کے عزت و وقارکو دفاعِ اخلاق کا وہ حصار نصیب ہوا کہ شیطانی عناصر کو ان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ افسوس! آج گردش ِ زمانہ کا پہیہ اُلٹا گھومنے سے یہاںایک جانب منشیات ‘ قماربازی ، چوری اور ڈکیتی جیسے جرائم کاجہنم زار سلگتاجا رہاہے ‘ دوسری جانب خواتین کی عزت وعفت پر جرائم پیشہ قوتیں حملہ زَن ہورہی ہیں ۔
تواریخِ کشمیر گواہ ہے کہ خطہ ٔ مینو نظیر کو عیش گاہ سمجھ کر اغیار نے جب بھی مقامی خواتین کے اخلاق وکردار پر یلغار کر نے کی کوشش کی تو تحفظ ِنسواں سے لیس وقت کے غیرت مند اصلاح کار اور مذہبی مبلغین نے میدان ِ عمل میں کود کر شیطان کے کارندوںکو نا کام ونامراد کرکے رکھ چھوڑا۔انہوں نے وعظ وتبلیغ اور عملی جدوجہد سے کشمیر کی بیٹیوں کا اخلاقی تشخص ہر بلا سے محفوظ ر کھا ‘ ان کا مذہبی وجود ہر آفت سے بچالیا۔ ان پُر آشوب ایام میں اصلاحی مہموں کا ہی ثمرہ تھا کہ کشمیری خواتین کا طبقہ گزرے زمانوں کے عیاش حکمرانوں اور ان کےچیلے چانٹوں کی بدباطنی اور بدچلنی سے من وعن محفوظ رہا۔ قومی ضمیر کو بیدا ر رکھنے کے تعلق سے مذہبی رہنماؤں کی یہ ناقابل فراموش خدمات تاریخ کے پنوں میں آب ِزر سےدرج ہیں۔ اسی سلسلہ ٔ ذہب کی ایک قابل ِ ذکر کڑی مہاراجی دور میں آہنی عزائم کے مالک سماجی اصلاح کار مائسمہ سری نگر کے سبحان حجام بھی ہیں ۔ان کی یک نفری اصلاحی تحریک نے وہ اہم کام کیا جو ان کےراسخ ایمان پر دلالت کرتا ہے ۔ حجام کی سرگرم بیداری مہم اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ کشمیر میں غیرت وحمیت کا روشن چراغ بجھانے والوںکا بہادرانہ مقابلہ کرنے میں منبر ومحراب سے لے کر ہر خاص وعام تک نے تساہل سےنہ تغافل سے کام لیا ۔ شکر ہے کہ یہ سنجیدہ اصلاحی مہم آج کے گئے گزرے دورِفتن میں بھی جوں توں جاری ہے۔
اس میں شک نہیں کہ خواتین ِ کشمیر کو فحاشی اور بے حیائی کے دلدل میں دھکیلنے کی منصوبہ بند سازشیں ایک عرصے سے مختلف عنوانوں سے جاری ہیں۔ ا س پس منظر میں چند برس پہلے سری نگر میں جو بدنام زمانہ سبینہ اسکنڈل بے نقاب ہوا ‘وہ ایک چشم کشا مگر تلخ وتند حقیقت ہے ۔کشمیریوں کومن حیث القوم اس اسکنڈل سے لگا کہ اُن کے دین وایمان پر ابلیس کے آلۂ کاروں نے شب خون مارا ہے۔ بنا بریں قوم نے رسواکن اسکنڈل کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کیا ‘ اس کی غیرت کی ہانڈی میں اتنا شدید اُبال آیا کہ نہ صرف ناپاکی کے اَڈے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی بلکہ مشتعل لوگ اس وقت تک نچلےنہ بیٹھے جب تک یہ اطمینان حاصل نہ کیاکہ ایسے ننگ ِ انسانیت جرائم اور فحاشی کے اڈے اس خطے سے ہمیشہ ہمیش کے لئے قصۂ پارینہ ہوچکے ہیں ۔بلا شبہ سنسنی خیز سبینہ اسکنڈل کو بے نقاب کر نے اور قانون کے لمبے ہاتھ ملوث مجرموں کی گردن تک پہنچانے میں کشمیر پولیس کا پیشہ ورانہ رول سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے‘ البتہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سبینہ کا پردہ فاش ہونے کےمابعد وادی میں ایسےجرائم کا خارزار خزاں رسیدہ ہو ا‘ نہیں، قطعی نہیں بلکہ چوری چکاری ‘ ڈاکہ زنی‘ منشیات ‘ قتل ِعمد‘چاقوزنی جیسی عام وارداتوںکے علاوہ جسم فروشی کےکا لے دھندے کی درپردہ کہانیاں بھی وقفے وقفے سے کشمیر پولیس طشت اَز بام کئے جارہی ہے۔ پولیس کی یہ بر وقت انسدادی کارروائیاں بہتر پولیسنگ کی دلیل ہے ہی مگر ساتھ ہی انسانی ضمیر کو جنجھوڑنے والےان انکشافات سےاہل ِ وطن کی نیندیں اُڑ رہی ہیں کیونکہ ان سے سیدھے طور یہی مطلب کشید ہوتا ہے کہ جرائم مخالف پولیس کارروائیوںکے باوجود خواتین کے خلاف سنگین گناہوں کا ارتکاب کرنے والے اتنے بڑے ڈھیٹ ثابت ہورہےہیں کہ اُن کے شیطانی حوصلے ابھی تک غیر متزلزل ہیں۔ سماج میں ا ن جرائم کے تسلسل سے اول ہماری بدنامی اور جگ ہنسائی ہورہی ہے ، دوئم ہمارے دین وایمان پر حرف آتاہے، سوئم دنیا کو ہماری پاکی ٔ داماں کی روایتی حکایت ا س قسم کی وارداتوں سے محض ڈھکوسلہ اور سفید جھوٹ کا پلندہ لگتی ہے ۔ بالفاظ دیگر جنسی جرائم کے پھیلاؤ سے ہمارے تشخص کو بھٹہ لگ رہاہے ‘ ہمارےاخلاق کے خوشنما چہرےپر بدنمادھبے پڑ رہے ہیں ‘ ہماری روایتی شرافت داغ دارہورہی ہے۔اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ہمیں بروقت جاگنا ہوگا اور قانون کو ہاتھ میں لئے بغیر جسم فروشی سے متعلق ہر طرح کی مشکوک وغیرمشکوک سرگرمی کے بارے میں پولیس کو مطلع کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ہمیںشتر مرغ کی چال ترک کرنا ہوگی اور سماج میں اس تلخ حقیقت کا وجود تسلیم کرتے ہوئے قومی اخلاقی تعمیر نو کا ایک اصلاح پسندانہ وپُرامن لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ مزید برآں فحاشی کے دلدل میں غربت وافلاس کے سبب پھنسے ہوئے کم نصیب لوگوںکی نسبت علاقائی سطحوں پر مالی معاونت کا کوئی منظم بندوبست کر نا وقت کی پکار ہے تاکہ غرباو مفلس لوگوںکی بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری ہوں اور انہیں اس نوع کے ناقابل معافی گناہوں کی کھائی میں گرنےسےدور رکھا جاسکے۔اس حوالےسے صرف اُن سنجیدہ فکر اور قابلِ اعتماد معززین ِعلاقہ کو ذمہ داری سونپ دی جانی چاہیے کہ وہ خداخوفی ‘امانت داری ‘ رازداری اور حالات وکوائف کےبزرگانہ فہم وتدبر کے ساتھ متعلقہ فرد یا کنبوں کی زیادہ سے زیادہ ماہانہ مالی کفالت کروائیں۔ صدقات‘ خیرات اور زکوٰۃ کا خفیہ مالی ایثاراس کام کے لئے مفید ثابت ہوسکتاہے۔
یہ محض کشمیر کی بات نہیں بلکہ حالیہ دنوں پارلیمان کے ایوان میں سرکاری طوریہ شرم ناک خلاصہ ہواکہ گزشتہ تین سال میں پورے ملک سے بارہ لاکھ مہیلائیں اور بچیاں اغوا ہوئیں ۔ استغفراللہ۔ بہرکیف یہ معاصر دنیا کی ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ عورت ذات آج تہذیب کے دوراہے پربے موت مررہی ہےیا ماری جارہی ہے۔ کہیں اُس کی آبرو بے دردی کے ساتھ مسلی جارہی ہے ‘ کہیں اس کا وجود کچلا جارہا ہے‘ کہیں اُس کی نسوانیت روندھی جارہی ہے۔ عورت اس وقت ناقابل برداشت حالات کی دودھاراؤں کے منجدھارمیں ڈوب مر رہی ہے۔ایک دھارا وہ خیالی جنت ہے جوانسان نما گِدھوں کا بنایا ہوامایاجال ہے ۔ یہاں بآسانی عورت کے لئے خیرخواہی کے لباس میں آدم خوروں کا ہجوم گھات لگائےبیٹھا رہتا ہے اور یہ صرف اور صرف عورت کے جسم وجان کونوچ کھا نے کا شوقین ہے۔دوسرا دھارا خود فریبی میں مدہوش عورت کااختیار ی زہر ہے جسے کھا کرعورت اپنی موت آ پ مرجاتی ہے۔ زہر کو اَمرت مان کر حوا کی بیٹی اپنی عزت ‘ اپنا وقار اور اپنا نسوانی مقام ومرتبہ خوشی خوشی داؤ پرلگاتی جارہی ہے‘ وہ بھی اس مغالطے میں بہک کر کہ مساوات مردوزَن کی خیالی دنیا کایہی ایک راستہ اُس کے لئے کھلا ہے۔ غرض ان دو دھاراؤں کا لیکھا جوکھا یہ ہے کہ بنت ِ حوا مردکی نفسانی خواہشات، خود غرضانہ ترجیحات اور استحصال کی تختہ ٔ مشق بنتی ر ہے ۔ان دھاراؤں میں مست عورت کی عزت وتکریم پورےعالم میںنیلام ہورہی ہے، آزادی کے نام پراُسے عریانیت اور فحاشیت کے اڈوں میں دھکیلا جارہا ہے ، مساوات کے جھانسے میں لاکراس کےآبگینے پر سنگ باری کی جارہی ہے‘ اُسے مختلف حیلے بہانوں سے جامعہ اسلامیہ بہاول پور پاکستان جیسے ناگفتہ بہ حالات کاشکار بنا کر جسم فروشی کے دھندے میں زندہ درگور کیا جارہاہے ۔ یہ بدا نجام کام جس طرح پاکستان کی اونچی اور نچلی کرسیوں پر براجمان لوگ اپنی شہوت رانی اور سیاست کاری کی اَنمٹ بھوک مٹانے کے لئے بلا روک ٹوک کرتے رہےہیں ، اسی طرح کے ننگ انسانیت شیطانی حرنے نہ جانےکہاں کہاںآزمائے جارہے ہوںگے ‘ پتہ نہیں۔ لطف یہ کہ گاہ گاہے درپردہ عورت کی عزت سے کھلواڑ کے لئے ’’خواتین کو بااختیار بناؤ‘‘ کا نعرہ بھی لگایا جارہاہے۔اس سے صنف نازک کے ایک سادہ لوح طبقے کو تاثر ملتا ہے کہ کچھ ’’مخلص لوگ‘‘ اُسے معاشی طور بااختیار بنانے اورسماجی طور پُروقار زندگی جینے دینے کا اس کا دیرینہ خواب شرمندہ ٔ تعبیر کر نے کا’’ مخلصانہ جذبہ‘‘ رکھتےہیں ‘ مگر ایک بار اس نعرہ بازی کے جال میں عورت پھنس جائے تو دیر سویر اُسےپتہ چل ہی جاتا ہے کہ یہ سارا کچھ مجھے گھر کے حفاظتی حصار سے نکال باہر کر نے اور میری نسوانیت کی بوٹی بوٹی کر نے کا ابلیسی نسخہ تھا۔اس کا مقصد مجھ سے ’’ مرد آقائیت فرسودہ سوچ‘‘کے خلاف بغاوت کروانا نہیں بلکہ مجھے خاتون ِ خانہ ہونے کے’’ قید خانے‘‘ سے چھڑاکر’’ شمع ِمحفل‘‘ بنانا تھاتاکہ میں برہنہ ہوکر مردوں کے روبرو جنسی کھلونا بن کر ناچتی تھرکتی رہوں‘اپنی جوانی کو بد قماش مردوں کی جنسی بھوک کی تشفی کا سامان بنانے میں کھپاتی رہوں ‘ شعوری یا غیر شعوری طور پر غیرمردوں کی ملکیت بنوں اوراُن کی محکومیت قبول کرنے پر راضی برضا رہوں۔ غرض یہ کہ صنف ِنازک کو حسین وجمیل نعروں کے سبز باغ دکھا دکھاکر اس کاحال یہ بنا یاگیاکہ آج کہیں اُس کی عزت محفوظ ہےنہ وقا اور نہ انفرادیت ۔ اسے ’’زنانہ نمامرد‘‘ بنانےکا جالینوسی نسخہ سوائے اس کے کوئی اورکمال نہ دکھا سکا کہ اس کے کپڑے اُتر گئے ‘ وہ بر ہنہ ہوکر مرد کی ہوس بھری نگاہوں میں زیادہ سے زیادہ کُھب جانے کو آزادی کا پروانہ سمجھ گئی ‘ اس کی عصمت تارتار ہو تی چلی گئی، اُسے مقابلہ ٔ حُسن اور فیشن شوزجیسی حیا سوزیوں سے فلمی دنیا کا تجارتی پروڈکٹ اور کارپوریٹ ورلڈ کی اشتہاراتی ملکہ بنایا گیا، جب بڑھاپے نے اس کے حسن وجمال کو گہن لگایا توتن تنہا چھوڑ کر اس کو بھولی بسری یاد بنایا گیا ۔اُسے حقیقی انصاف دلانے کی بجائے ۸؍ مارچ کے’’عالمی یوم خواتین‘‘ جیسے تماشوں سے بہلاکر تقریروں ‘ قراردادوں اور جلسے جلوسوں پر قناعت کر نے کی پٹی پڑھائی گئی ‘ اُسے ’’میراجسم میری مرضی‘‘ کا منتر سکھایا گیا ‘ اس کے بدن کی ہر اوچھے طریقے سے عریاں نمائش کرائی گئی اور بس۔بوالعجبی کا عالم یہ کہ عورت کے عورت پن پر حملہ زَن عناصر ہی رات دن ’’ تحفظ ِحقوق ِ نسواں‘‘ کے بلند بانگ دعوے کئے جارہے ہیں ‘ عورت کی ’’قسمت بدلنے‘‘ کے لئے نت نئے فارمولے تجویز کررہے ہیں ‘ عورت کو مقامِ ِعزت اور درجہ ٔاول دینے کے موضوع پردھواں دار تقریریں جھاڑرہے ہیں ‘ تعظیم وتحفظ ِبنت حوا کے موضوع پر قوانین و قواعد کی کتابوںکا حجم بڑھار ہے ہیںمگر عمل ندارد۔ نتیجہ یہ کہ آج عورت اتنی بے بس وبے کس مخلوق ہوکرہ گئی ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو جب حوا کی بیٹیوں کی ارادی اور غیر ارادی عزت ریزی کےبارے میں صد مہ خیز خبریں انسانیت کے چہرے پر کالک نہ پوت دیتی ہوں، ایسے ایسے دل شکن واقعات چاروں اطراف رونما ہورہے ہیں جو سماج میں ماں بہن بیٹی کی تذلیل اور توہین کی چھریاں ہر باضمیر کے دل میں پیوست کر جاتے ہیں ، جو حسا س ذہن والدین کے علاوہ صالحیت کی رودارخواتین کے معتدبہ حصے کو خون کے آنسو رُلاتے رہتے ہیں‘انہیں نفسیاتی طور بے دست وپا کرکے اپنی جان تک لینے پر آمادہ کرتے ہیں اور آخر پرانسانی سماج کوا خلاقی بحران کے ہاتھوں پریشان وپراگندہ کر جاتے ہیں ۔ پوری دنیا کو اس سارے پیچیدہ مسئلے پر ٹھوس انسانی سوچ اور منصفانہ طرزعمل اختیار کر کے ماں بہن بیٹی کو عزت و سلامتی کے ساتھ جینے کا حق بہرحال دینا ہوگا‘ تب جاکر عورت زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دینے کے قابل ہوگی ۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w