طنز و مزاحمضامین

آٹو راں

محمد نعیم الدین خطیب

لکھنے والوں نے ٹانگے والے (ی سے یکہّ والے)‘ سائیکل رکشہ والوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے لیکن آٹو رکشہ والوں کے بارے میں کوئی مضمون ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ گزر بھی کیسے سکتا ہے؟ ہماری لاعلمی کا یہ حال ہے کہ ہم سدا اور صدا میں تفریق نہیں کرتے، شعر اور شیر میں فرق نہیں جانتے بلکہ شعر کو بھی شیر پڑھتے ہیں۔ شعر اور شیر دونوں ہی سے ڈرتے ہیں۔ اس لیے شیر اور شاعروں کے پاس بالکل نہیں پھٹکتے، مگر آج ہم ان شاعروں کے بارے میں نہیں بلکہ آٹو رکشہ والوں کے بارے میں کچھ سمجھنے اور سمجھانے کی ناکام کوشش کریں گے جو آپ ہمیشہ کی طرح ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں گے۔موبائل‘ واٹس ایپ‘ فیس بُک‘ ٹوئیٹر کی طرح آٹو رکشہ بھی ہماری زندگی کا جزولاینفک بن چکا ہے۔ آج ہر شہر کے اس کنارے سے لے کر اس کنارے تک‘ گلی سے لیکر چوک تک‘ ٹرین سے لے کر بس تک آٹو رکشہ کی قطاریں لگی ہیں۔ ہمیں کورونائی دور میں ڈاکٹر اور آٹو والوں میں ایک بات مشترک نظر آئی۔ کورونائی دور میں ڈاکٹروں اور میڈیکل والوں نے مریضوں اور مردوں کو دل کھول کر لوٹا۔ ان سے کچھ کم ہی آٹو والوں نے مریضوںاور مسافروں کو لوٹا۔
الّو کی آواز ہر دور میں منحوس سمجھی جاتی ہے۔ کورونا وباءمیں WHO والوں نے ہُو ہُو کی وہ آواز لگائی کہ لوگ دہشت زدہ ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے۔ راستوں پر اب پولیس تھی یا آٹو والے۔ پولیس کے ڈنڈوں اور فنڈوں سے ہم اور آپ واقف ہی ہیں لیکن آٹو والوں کی لوٹ مار کا اندازہ کورونائی دور میں ہوا۔ مریض کو ڈاکٹروں اور آٹو والوں نے کورا چیک Blank Cheque سمجھ لیا تھا۔ جس پر ان کی طئے کردہ رقم ہی لکھنی ہوتی۔ اس میں کمی و بیشی‘ آپ کو علاج و آٹو دونوں سے محروم کردیتی۔جلد ہی آٹووالوں کی اس لوٹ مار کی خبر حکومت تک پہنچ گئی۔ حکومت بھی اس لوٹ مار میں شامل ہوگئی اور پیٹرول کے داموں میں اضافہ کردیا۔ لاک ڈاﺅن کے ختم ہوتے ہی آٹو والوں کی لوٹ مار سے نجات مل گئی لیکن سرکاری لوٹ مار ابھی تک جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے مہنگا پٹرول ہمارے ملک میں بکتا ہے۔ حکومت نے پچاس روپیہ کا اضافہ کرکے پیٹرول کی قیمت پانچ روپئے کم کردی۔ اندھ بھکت حکومت کی اس فراخدلی پر ڈھول‘ تاشے اور بغلیں بجارہے ہیں۔ چور چوکیدار‘ موٹو تڑی پار‘ جھوٹا کلب اور کنوارے کلب کے کالے ذہن اندھ بھکتوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ پیٹرول کے دام بڑھنے سے دیش کا وکاس ہوگا اور عبدل کا وناش ہوگا، لیکن عبدل پہلے ہر مہینے چکن‘ مٹن بریانی اور تہاری کھاتا تھا۔ اب تو عبدل ہر ہفتے چکن‘ مٹن‘ بریانی اور تہاری کھارہا ہے۔ اندھ بھکتوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ عبدل کا وکاس ہورہا ہے یا وناش۔ البتہ اللہ پر عبدل کا وشواس(ایمان) بڑھتا ہی جارہا ہے۔ عبدل کے وکاس کا راز اللہ کا ساتھ اور اللہ پر وشواس ہے۔ ایک ہی نام آٹو رکشہ کے باوجود آٹو کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تھری سیٹر اور دوسری سِکس سیٹر Three Seater, Six Seater لیکن پولیس کی مہربانی اور ہفتے کے چلتے ہر آٹو میں تین اور چھ سے زیادہ ہی سواریاں ملیں گی۔ اس طرح آٹو والوں کے ساتھ پولیس کا بھی پیٹ بھرتا ہے اور عام آدمی کا بھرتا بنتا ہے۔ Three Seater شہر بھر میں دوڑتے پھرتے ہیں۔ جبکہ Six Seaterشہر سے دیہات کو جوڑتے ہیں۔ شہر بھر میں حکومت کرنے والے تھری سیٹر آٹو والوں میں بھی ہم مسلمانوں کی طرح کئی مسلکوں میں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، لیکن یہ ہم مسلمانوں کی طرح اختلاف میں شدت نہیں برتتے۔ سب سے اعلیٰ‘ ذی رتبہ اور ذی شان والا آٹو والوں کا وہ فرقہ سمجھا جاتا ہے جو آٹو اسٹینڈ پر کھڑے ہوتے ہیں۔یہ مسافروں تک چل کر نہیں آتے، مسافروں کو ان تک جانا ہوتا ہے۔ گھر تک بلائے جانے پر ان کی (فیس) کرائے میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان میں سے اکثریت کو آٹو چلانے میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہ بھاﺅ تاﺅ نہیں کرتے۔ ان کے Fixed ریٹ یعنی واحد دام ہوتے ہیں۔ آپ اکیلے جائیں یا مع اہل و عیال‘ ان کے کرائے میں کمی و پیشی نہیں ہوتی۔ اکثر یہ موبائیل پر لوڈو کھیلتے یا ارطغرل دیکھنے میں مشغول ہوتے ہیں۔ گٹکے‘ تمباکو اور چونے سے ان کے منہ بھرے ہوتے ہیں، انہیں تھوکنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی۔ مسافروں سے بات کرتے ہوئے وہ بے نیازی سے ادھر اُدھر تھوک دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں مسافر کنجوس ہوتے ہیں، انہیں ہمیشہ مسافر نہ ملنے کی شکایت رہتی ہے۔ جبکہ مسافران سے چار قدم دور چل کر سستا آٹو ٹہرالیتے ہیں۔ دوسرے مسلک والے وہ ہوتے ہیں جو مخصوص سڑک کے ساتھ چلتے ہیں۔ گلیوں کی خاک چھاننا یا مسافروں کو ان کے گھر تک پہنچانا‘ ان کے نزدیک پیشہ وارانہ بددیانتی ہے۔ یہ مریضوں یا معذوروں کو راس نہیں آتے۔ ہمیں تو یہی آٹو والے پسند ہیں، کیوں کہ ان کا کرایہ واجبی‘ سستا اور ہمارا جیب دوست Pocket Friendly ہوتا ہے۔ ان آٹو والوں کا دھندہ خو ب چلتا ہے۔ ان آٹو میں بیٹھنے والے مسافروں کو صابر و شاکر اور وسیع القلب اور وسیع النظر ہونا ضروری ہے۔ یہ آٹو میں مسافروں کو بری طرح ٹھونستے ہیں۔ ہم بھی دبتے دباتے خاموشی سے اس لیے بیٹھ جاتے ہیں کہ پیٹرول مہنگا ہے۔ ان آٹو والوں کو اپنے بچوں کی بھاری بھرکم اسکول فیس‘ ٹیوشن فیس بھی ادا کرنا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ اس مہنگائی کے دور میں اس سے سستی سواری نہیں مل سکتی۔ یہ آٹو والے ہر پیدل چلنے والے سے اس کی منزل پوچھتے ہیں۔مسافروں سے ادب و احترام سے پیش آتے ہیں۔ مسافروں کے لیے بھری ٹریفک میں آٹو روک کر ٹریفک جام کردینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ ان آٹو کے پیچھے اپنی موٹر سائیکل بے فکری سے مت دوڑائےے پتہ نہیں کب یہ کسی مسافر کے احترام میں اچانک آٹو روک دیں اور آپ ان سے جاٹکرائیں۔ اس لیے Keep Safe Distance پر عمل کیجئے اور اپنے دانتوں اور ہڈیوں کو محفوظ رکھیے۔
شہر میں ایک اور قسم کے آٹو والے آٹو انکل کہلاتے ہیاں۔ یہ بچوں کو اسکول اور ٹیوشن لے جاتے ہیں۔ یہ و قت کے بڑے پابند ہوتے ہیں۔ بچوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو لے جاسکیں۔ کم کرایہ کی لالچ میں اپنے بچوں کو رش (بھیڑ) والے آٹو میں مت بٹھائےے۔ ان رکشوں میں زیادہ بچے ہونے کی وجہ سے حادثے بھی ہوجاتے ہیں جس سے چونک کر پولیس جاگ جاتی ہے۔ پھر وہی چال بے ڈھنگی ہوجاتی ہے۔ آٹو میں اپنے بچے کی سیٹ سے متعلق ہر وقت چوکنا رہیے۔ جالی دار اور دروازے والے محفوظ آٹو ہی میں بچوں کو بٹھائےے کیوں کہ بچے معصوم ہی نہیں شرارتی بھی ہوتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن وہ مقام ہے جہاں ہر قسم کے آٹو والے اپنے مسلکی اختلاف بھلا کر ہر ایک مسافر کو آواز دیتے ہیں۔ کاش ہم مسلمانوں کا ایسا کوئی پلیٹ فارم ہوتا جہاں ہم سب مسلک کے لوگ ایک دوسرے کو محبت اور پیار سے آواز دیتے۔تاکہ سبھی جنت جانے والے آٹو میں بیٹھ سکیں۔ رات میں آٹو چلانے والے مخصوص لوگ ہوتے ہیں۔ جو سواری کے انتظار میں رات رات بھر جاگتے ہیں۔ چند غلط قسم کے ڈرائیورس گانجہ‘ چرس اور شراب کا استعمال کرتے ہیں۔ آن لائن مٹکہ‘ آن لائن لاٹری‘ گٹکھا‘ سیگریٹ اور حرام کاری سے ان کی آمدنی‘ خاندان‘ بچوں کی تعلیم و تربیت متاثر ہوتی ہے۔ آمدنی کا ایک بڑا حصہ غلط کاموں کی نذر ہوجاتا ہے جس سے یہ لوگ تنگدستی کا شکار ہوکر سودی بچت گٹ‘ سودی ساہوکاروں اور لون ایپ کے جال میں پھنس جاتے ہیں جو مرتے دم تک ان کا خون چوستے رہتے ہیں۔ شکر ہے کہ ایسے غلط لوگوں کی تعداد کم ہے۔
آٹو والوں کی اکثریت ہم نے ایماندار اور نیک نام ہی دیکھی ہے۔ آپ نے اکثر سنا اور پڑھا ہوگا کہ فلاں غریب آٹو والے نے مسافروں کے زیوارت اور لاکھوں روپئے بھی ایمانداری سے واپس لوٹادئےے۔ نماز کا وقت ہوتے ہی یہ قریب والی مسجد کے سامنے آٹو کھڑا کرکے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ نمازوں کے وقت سڑکوں پر آٹو کی چہل پہل کم ہوجاتی ہے جو ان کی اسلامی بیداری کا ثبوت ہے۔یہ رمضان کے مہینے کا بھی خصوصی اہتمام و احترام کرتے ہیں۔ بعض تو مہینہ بھر عبادت کی خاطر آٹو بند رکھتے ہیں۔ قیام لیل‘ تہجد اور تلاوتِ قرآن کا لطف اٹھاتے ہیں۔ کچھ موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ میں تپتے آٹو میں بیٹھ کر سوای کا انتظار میں روزے گزارتے ہیں۔ ایسے ہی محنت کشوں کی عبادت سے خوش ہوکر اللہ رحمت کی بارش برساتا ہوگا تبھی تو سخت گرمی‘ چلچلاتی دھوپ کے لمبے چوڑے دن کے باوجود امت کے رمضان آسانی سے گزر جاتے ہیں۔ Six Seaterآٹو والے دیہاتیوں کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ آزادی کے ستر سال اور چور چوکیدار کے آٹھ سال بعد بھی سرکاری سواری جہاں پہنچ نہ سکی وہاں آٹو پہنچ گئے۔ ان آٹو کے ذریعے گاﺅں کے تازہ پھل‘ ترکاری‘ سبزیاں سستا اناج شہرآرہا ہے تو شہر سے نت نئی چیزیں منٹوں میں گاﺅں پہنچ رہی ہے۔ دیہاتوں کے اوبڑ کھابڑ راستوں پر گڑھوں سے بچتے بچاتے آٹو شہر اور گاﺅں والوں کی خدمت کررہے ہیں۔ کسانوں کا مال بر وقت پہنچاکر کسانوں کو اچھی قیمت دلارہے ہیں۔ دیہی طلبہ کو وقت پر کالج پہنچا کر انہیں تعلیم یافتہ بنارہے ہیں۔ مریضوں کو دواخانے لاکر ان کا علاج کرارہے ہیں۔ کم تنخواہ پانے والے اپنی آمدنی اور خرچ کو لیول کرنے کے لیے آٹو چلارہے ہیں۔ جن آٹو والوں کا ذاتی رکشہ نہیں ہوتا ان کی زندگی بڑے تناﺅ میں گزرتی ہے۔ آٹو کا کرایہ دینا ہوتا ہے۔ سود پر لیے گئے آٹو کی قسط بھرنا ہے۔ پولیس کا ہفتہ ادا کرنا ہے۔ دن بھر کا پیٹرول بھرنا ہے۔ ان سب کے بعد ان کی ذاتی اور اصلی کمائی شروع ہوتی ہے۔ اسی رقم سے گھروالوں کا پیٹ بھرنا ہے۔ بچوں کو تعلیم دینی ہے۔ نل اور لائٹ کا بل بھرنا ہے۔ بیماری کا علاج کرانا ہے۔ بیٹی کی شادی کی فکر ہے۔ ہر سال آٹو کی پرمٹ فیس‘ روڈ ٹیکس‘ انشورنس بھرنا ہے۔ آٹو کی سرویسنگ‘ ٹوٹ پھوٹ کا خرچ الگ ہے۔ اس لیے کبھی کبھار کرائے زیادہ بھی لگے تو ادا کردیجئے۔ دس پانچ روپیہ کی چکر چھوڑ دیجئے۔ اگر وہ مزید سواری کا انتظار کرے تو چند منٹ کی دیری برداشت کرلیجئے۔ ان کو بلا سودی بینکوں کا راستہ بتائےے۔ اپنی بچت بلا سودی بینک میں جمع رکھیے تاکہ آپ کی رقم بھی محفوظ رہے، غریب آٹو والے بلاسودی قسطوں کو ادا کرکے آٹو مالک بن سکیں اور انہیں راحت مل سکے۔ سخت گرمی میں اگر آپ ٹھنڈا پانی پی رہے ہو تو ان کو بھی پانی پلائیے۔ کیونکہ کم پانی پینے سے اکثر ڈرائیورس پتھری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انہیں صحیح مشورے دیجئے۔ ان کے حق میں دعائے خیر کیجئے۔
اپنی معمولی آمدنی کے باوجود آٹو والے لاکھوں کی مدد کرادیتے ہیں۔سفر میں لٹ جانے والے مسافروں کے ٹکٹ اور خرچ کا بندوبست کرتے ہیں۔ ضرورت مندوں کو خون دیتے ہیں۔ مدرسوں اور مسجدوں کو پابندی سے چندہ دیتے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر گجرات فسادات‘ مظفر نگر فسادات اور دہلی فسادات کے متاثرین کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔ ملی جلسوں اور دینی محفلوں میں حاضری لگاتے ہیں۔ ناموس رسول کی حمایت میں دن دن بھر آٹو بند رکھتے ہیں جس سے فتنی شرما کے خلاف بند کامیاب ہوجاتا ہے۔ عشق رسول میں جانیں لٹانے اور نعرے لگانے والوں میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ اپنے آٹو کے پیچھے لگے پوسٹر سے جلسے‘ مہم اور اجتماعات کی تشہیر کرتے ہیں۔ آیت اور حدیث لکھ کر دعوت دین کا کام کرتے ہیں۔ اگر کسی آٹو والے کاکسی وجہ سے دن بھر دھندہ نہ ہو تو ایثار کے یہ پتلے اپنی سواریاں اس آٹو والے کو دے دیتے ہیں تاکہ اس کے گھر چولہا جل سکے۔بیٹیوں کی شادی اور بیماری میں ایک دوسرے کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔ ان کی عزت اور قدر کیجئے۔ دکھ سکھ میں آپ کو بروقت پہنچا کر آپ کی رشتہ داریاں مضبوط کرتے ہیں۔ کسی آٹو میں بیٹھتے وقت اس مضمون کو یاد کیجئے۔ آٹو والا کوئی معمولی انسان نہیں ہے۔ وہ ایک خاموش انقلاب کا خاموش سپاہی ہے۔

a3w
a3w