محمد نعیم الدین خطیب
مبارک ہو۔ ہم سب کی محنتوں سے دنیا کی آبادی آٹھ سو کروڑ ہوگئی۔ پتہ نہیں دنیا کے کس گوشے میں روتا ہوا ننگ دھڑنگ اور خالی ہاتھ ایک بچہ پیدا ہوا اور دنیا کی آبادی آٹھ سو کروڑ ہوگئی۔اب تو ہم خیر سے نوسو کروڑ کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اب ہر ایرا غیرا نتھو خیرہ دنیا کی آبادی کو لے کر اپنی زبان کی کھجلی مٹارہا ہے۔ کنوارے کلب اور جھوٹے کلب کے وہ لوگ جو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، وہ بھی اچھل اچھل کر اپنے اندھ بھکتوں کو مسلمانوں کی آبادی سے ڈرارہے ہیں اور اپنے لوگوں کو چار چار بچے پیدا کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ بچے یوں ہی پیدا نہیں ہوجاتے۔ بچے پیدا کرنے کے لیے مردانہ صلاحیت و طاقت‘ اولاد پر دل کھول کر (جیب پھاڑ کر) خرچ کرنے کی ہمت‘ صبر کے ساتھ سب بچوں کی تعلیم اور تربیت‘ بچوں کے ناز نخرے اٹھانے کا جگر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، جوفریق مخالف میں حد در جے کم پایا جاتا ہے۔ جھوٹے کلب کے جھوٹوں کی بات سن کر یہ لوگ تالیاں تو بجاسکتے ہیں، لیکن چار چار بچے پیدا نہیں کرسکتے، کیوںکہ چار چار بچے صرف تالیاں بجانے سے نہیں ہوجاتے۔ اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ تالیاں بجانے والے دھرم ویر ‘ اگنی ویر‘ شکشن ویر‘ پرم ویر‘ راشٹر ویر پیدا نہیں کرسکتے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے ہاں بھی ہم دو ہمارے دو کا نعرہ لگانے والے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ ان میں کرسی نامی محبوبہ کی محبت میں گرفتار، الیکشن لڑنے والے اور الیکشن ہارنے والے چمن لالوں کی تعداد زیادہ ہے۔
ہم دو ہمارے دو کا نعرہ لگانے والوں کے حالات بڑھاپے میں قابلِ عبرت ہوجاتے ہیں۔ بیٹی شادی کے بعداپنے پیا کے گھر (سسرال) چلی جاتی ہے۔ بیٹا اپنی مالدار یا تعلیم یافتہ بیوی کے ساتھ دُم ہلاتے ہوئے بڑے شہر میں منتقل ہوجاتا ہے۔ گھر میں بوڑھا بوڑھی ایک دوسرے کی شکستہ صورتوں کو تکتے تکتے خود صورت بیزار لگتے ہیں۔ بیٹا اگر تیس مار خان ہے تو اونے پونے گھر بیچ کر گھر کی قیمت لے کر ایسا نودو گیارہ ہوجاتا ہے کہ ماں باپ کی میت میں بھی نہیں آسکتا، کیوں کہ بدبختی اور بدنصیبی اس کے پیروں میں زنجیر ڈال دیتی ہے۔ ایسے ہی گھر کے چراغ کی لگائی گئی آگ میں جلتے ہوئے ماں باپ‘ محلہ محلہ‘ خاندان‘ خاندان مل جائیں گے۔
ہم دو ہمارے دو کا نعرہ لگانے والے مانباپ اتنے خود غرض اور مفاد پرست ہوتے ہیں کہ اپنی عیاشی اور خود ساختہ معاشی پریشانی سے بچنے کے لیے اپنی ہی اولاد کو ماں کی کوکھ میں قتل کردیتے ہیں یا اپنی ہی بیوی کی کوکھ اجاڑ دیتے ہیں۔ اس اُجڑی اور ویران کوکھ کو ڈاکٹر اکھاڑ دیتے ہیں۔ ایسے سفاک اور سنگدل ماں باپ کی اولاد کتنی سنگدل اور سفاک ہوگی، اس کا اندازہ لگانے کے لیے اہل علم کی نہیں اہل دل کی ضرورت ہے۔ جوانی کی پر لطف وادیوں سے منہ موڑ کر زندگی بھر گدھے کی طرح دن رات محنت کرکے پائی پائی جوڑکر اپنی جائز خواہشوں کے قبرستان میں اپنا گھر بنانے والے بڑھاپے میں اپنے ہی بیٹوں کے ذریعے اپنے ہی گھر سے بے گھر ہونے والے مانباپ ہم نے اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔
مغرب میں (اہل فرنگ) جوانی‘ جنسی آوارگی کرنے‘ دولت کمانے، کھلے عام جنسی تعلقات رکھنے اور بے لگام شہوت رانی کا نام ہے۔ جبکہ بڑھاپا گھومنے پھرنے اور بچی کچی زندگی انجوائے کرنے کا نام ہے۔ ہمارے ہاں اپنی پوری پنشن‘ کمائی پوتے پوتیوں پر خرچ کرنے بلکہ لٹادینے کو ہی بڑھاپے کی معراج کہا جاتا ہے۔ مغرب میں خاندان کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس لیے پوتا پوتی کو پالنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔مغرب میں ایسے بچوں کی آبادی بڑ ھ ہی ہے جو دادا‘ دادی تو کیا باپ کا بھی نام نہیں جانتے۔ وہاں تو بغیر شادی کیے جانوروں کی طرح زندگی گزاری جاتی ہے۔ اگر آوارگی میں غلطی سے اولاد پیدابھی ہوجائے تو اسے چائلڈ ہاﺅس میں یتیم و لاوارث کی طرح ڈال دیا جاتا ہے جہاں ان کے درمیان جوتوں میں دال بٹتی ہے۔ بچوں کے حقوق کے نام پر چلا چلا کر سرپر آسمان اٹھانے والے اہل مغرب خود اپنی اولاد کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ مغرب میں جتنی کنواری مائیں ہیں ہمارے ہاں اتنی بیوائیں بھی نہیں ہوں گی۔ اب ہمارے ہاں بھی اخلاق و تمدن سے عاری لوگ Live in Relationship کے تحت زندگی گزارتے ہیں جہاں جانوروں کی طرح عورت کو استعمال کیا جاتا ہے نہ اولاد کے حقوق ہیں نہ بیوی کے حقوق شوہر کو ہر ذمہ داری سے نجات مل جاتی ہے۔ اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد وہ عورت کو چھوڑ کر ایک جنگلی سانڈ کی طرح دوسری کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔ ایسی عورتوں کو مرد جوانی میں نوچ نوچ کر کھاتے ہیں، ان عورتوں کا بڑھاپا طوائفوں سے بدتر گزرتا ہے۔ کبھی کبھی ہوس پرست مرد ایسی عورتوں کے 35 یا 72 ٹکڑے کرکے انہیں کتوں کے سامنے ڈال دیتے ہیں۔ شردھا کا بھیانک انجام تمام ہی عورتوں کے لیے کھلا پیغام ہے کہ خود کو خاندان‘ مذہب‘ تہذیب سے جوڑے رکھو۔ حلال اور پاکیزہ طریقے سے اپنی نفسیاتی خواہشات کو پورا کرو۔ مان مریادا کا خیال رکھو، عزت کی زندگی گزارو۔ ورنہ تمہارے سڑے ہوئے جسموں کے ٹکڑوں کی مدد سے سیاسی لوگ اپنی سیاسی دکان چمکائیں گے اور آفتاب جیسے مذہب بیزار لوگ تمہاری زندگی میں اندھیرا بن کر چھاتے رہیں گے۔
مغرب نے شہوت کی غلامی میں اور چین نے پیسوں کی غلامی میں اپنی ہی اولاد کے قتل عام کا بیڑہ اٹھایا۔ چین نے ایک ہی بچہ سب سے اچھا کا نعرہ لگایا۔ حکومت نے شہریوں کے بیڈروم میں مداخلت کرکے انہیں ایک ہی بچہ پیدا کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ انسان کو ازل ہی سے بیٹے پیدا کرنے اور بیٹیوں کو قتل کرنے کا Craze رہا ہے (اسلام نے ہی بیٹیوں کو زندگی اور عزت بخشی) چین میں نتیجہ یہ ہوا کہ دلہنیں ناپید ہوگئیں، اس کے نتیجے میں اغلام بازی کا وہ طوفان بدتمیزی امڈ پڑا کہ اخلاق کی دھجیاں اڑگئیں۔ انسان جانور سے زیادہ ذلالت اور غلاظت میں جاگرا۔ اپنی نفسانی خواہش کو مرد مردوں سے پوری کرنے لگے۔ اس نے ایک فیشن کی شکل اختیار کرلی۔ لوگ قومِ لوط کے بھیانک انجام کو بھول گئے۔ شیطان نے اس وبا کو گے کلچر کا نام دیا۔ لڑکے کی لڑکے سے اور لڑکی کی لڑکی سے شادی جائز قراردی گئی۔ اس کا خمیازہ وہاں کے نوجوانوں میں بے لگام شہوت پرستی کی شکل میں نمودار ہوا جس نے خاندانی نظام اور میاں بیوی کے مقدس رشتے کو ملیا میٹ کرکے رشتوں کی عظمت کو پامال کردیا۔ اب وہاں سال میں ایک دن مدرس ڈے اور فادرس ڈے کے نام پر ماں باپ سے ملاقات کرکے رشتوں کی برسی منائی جاتی ہے۔ ہم اور آپ بڑے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے ہاں Everyday ہی مدرس ڈے اور فادرس ڈے ہوتا ہے ہم ہر دن ان کی خدمت کرکے جنت میں اپنا مقام بناتے ہیں۔
ایک زمانے میں جاپانی سامان کا بڑا شور و غوغا تھا۔ جاپان کا ریڈیو‘ گھڑی‘ ٹیپ ریکارڈر کسی گھر میں ہوتی اس گھر کے افراد تیس مار خان سے بھی اونچے چالیس مار خان یا پچاس مار خان سمجھے جاتے۔ پورے محلہ بلکہ شہر بھر میں فلاں کے گھر فلاں جاپانی سامان کا تذکرہ فتّو بھائی کی ہوٹل‘ میّت کٹّہ‘ رمس کال چوک‘ غیبت کارنر‘ چغلی گلی ہر جگہ ہوتا رہتا۔ چور بھی اُن سامان کے چوری کے خواب دیکھتے۔ مالک سامان کی حفاظت کی خاطر رات رات بھر جاگتے۔ اس تجارت میں جاپان نے اتنا کمایا کہ جاپان کا بچہ بچہ پندرہ لاکھ ڈالر کا مالک بن گیا۔ دن رات کی اس مصروفیت نے جاپانیوں سے رات کی نیند اوردن کا چین چھین لیا۔ جاپانی جوڑے بچے پیدا کرنے سے کترانے لگے۔ شرح پیدائش گرتا گیا۔ جاپان بغیر بچوں کے بوڑھوں کا ملک بنتا چلا گیا۔ آج جاپان ہی نہیں بلکہ چین‘ امریکہ یوروپ جیسے مشہور ترقی یافتہ ممالک اس کرب میں مبتلا ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک بوڑھوں کے اس بحران سے بوڑھے ہوئے جارہے ہیں۔ چین نے بہت جلد اس نقصان کو محسوس کرلیا اور بوڑھے بحران سے نکلنے کی کوشش شروع کردی۔ اب چینی جوڑوں کو دو یا تین بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر مختلف سہولیات کا اعلان کیا جارہا ہے۔
دنیا بھر میں ہمیشہ ہی سے مختلف سروے چلتے رہتے ہیں، لیکن ایک سروے نے ہم سب مردوں کی مرادنگی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ مردوں کے جوہر حیات (اسپرم) میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ پہلے یہ کمی دو فیصد تھی جواب بڑھ کر ڈھائی فیصد ہوگئی ہے۔ مردوں کی تولیدی صلاحیت گھٹ جانے کی وجہ سے دنیا بھر میں شرح پیدائش کے گھٹ جانے کا عالمی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس خطرے کا علاج کسی ڈاکٹر‘ حکیم‘ وید یا لنگی شاہ بابا کے بھی پاس نہیں ہے۔ موبائل کے فحش اور عریانیت سے بھرپور ویب سائٹ دیکھ کر ہیجان میں مبتلا نوجوان اپنی مدد آپ کا نسخہ استعمال کرتے ہوئے جو ہرحیات کو دن دہاڑے اپنے ہی ہاتھوں ضائع کررہے ہیں۔ آج اخبارات‘ ٹی وی‘ ہورڈنگ‘ چوراہوں پر بڑے بڑے اشتہاری بورڈس‘ سوشیل میڈیا اور دیگر جگہ پھیلے اشتہارات‘ ڈھونگی باباﺅں‘ حکیموں‘ ویدوں کی بڑھتی تعداد اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مردوں کی مردانگی تیزی سے کم ہورہی ہے۔ اسلام نے مردانہ قوت کی حفاظت اور اس کے پاکیزہ استعمال کی بڑی تلقین کی ہے۔ ان احکامات کو جان کر پاکیزہ‘ صحت مند زندگی گزاریے۔ یاد رکھئے کھوکھلے جسم‘ کمزور کردار‘ گندی سوچ رکھنے والوں کے ہاں بہادر‘ غیور‘ جرا¿ت مند اور مضبوط کردار والی اولاد پیدا نہیں ہوتی۔ بہادر نسلوں کے لیے مضبوط کردار‘ پاکیزہ کمائی‘ اسلامی سوچ‘ رزق حلال اور پاکیزہ جوانی ضروری ہے۔ ایسے ہی گھرانوں میں صلاح الدین ایوبی‘ احمد یاسین اور قطب،مودودی ،شہید اور مجاہد پیدا ہوتے ہیں۔ جو باطل کا منہ موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پوری زمین کا خلیفہ بنایا اور ابن آدم کو زمین کی خلافت عطا کی۔ اس ایک آدم کا خدا ایک‘ مذہب ایک‘ بیوی ایک‘ شعریعت ایک‘ خاندان ایک تھا۔ اس لئے سبھی انسانوں کو ایک قبیلہ‘ ایک خاندان بن کر خدا کی اطاعت میں زندگی گزارنی چاہئے تھی۔ لیکن آدمؑ کے اور ان کی اولاد کے کھلے دشمن نے ابن آدم میں وہ دراڑ ڈالی کہ بھائی نے بھائی کو قتل کیا۔ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ایک کالے کوّے سے بھائی کی لاش ٹھکانے لگانے کا طریقہ سیکھا۔ شیطان کو خوش کرکے دوزخ کا ایندھن بنا۔ اپنے ساتھ قیامت تک ہونے والے قتل کے گناہ کا بوجھ بھی لیا۔ ہابیل اور قابیل کے اس قصے سے شیطان نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ انسان کے دل میں ایک دوسرے کی دشمنی کا بیچ بونے کےلئے عورت کا استعمال کیا اور کرتا بھی آرہا ہے۔ آج بھی کروڑ ہا انسان شیطان کے اس حربے کا شکار ہورہے ہیں۔ اس پر بھی آدمؑ کی دشمنی میں شیطان کو چین نہ آیا۔ اس نے آدمؑ کی زمین پر اولادِ آدم کو سیاسی لکیروں میں قید کردیا۔
سیاسی لکیر کے اُس پار کے لوگ دوسرے ملک کے قرار دیے گئے۔ اُس سیاسی لکیر (سرحد) کو گھٹانے اور بڑھانے کے نام پر انسان حیوان بن گیا۔ انسان نے ان لکیروں کی حفاظت کے نام پر ہتھیاروں کے ڈھیر لگادیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آج انسان کے پاس ہتھیاروں کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ اس سے 24 دفعہ اس زمین کو تباہ کیا جاسکتا ہے۔ نیزے‘ بھالے‘ تیر و تلوار‘ بندوق‘ توپ‘ مختلف بموں کے بعد انسان نے ایٹمی بم تک بنالیا تاکہ خود کے ہی بھائی کو (ابن آدم) ختم کرسکے۔ ایران-عراق‘ کویت-عراق‘ ایران-سعودی‘ قبرص-ترکی‘ امریکہ-ویتنام‘ روس-یوکرین جیسی جنگیں اسی لکیر کے فقیروں کے کرتوت ہیں۔ ان سیاسی لکیروں کے نام پر عوام کو بھڑکانے‘ کرسیاں حاصل کرنے‘ جنگ شروع یا ختم کرنے والے سیاسی چمن لال سلامت رہتے ہیں۔ ملک کی فوج‘ عوام‘ عورتیں‘ بچے‘ بوڑھے اور عام شہری مارے جاتے ہیں۔ لڑاکو سیاسی لیڈر جنگ چھیڑ کر خود تو بزدل گیدڑ کی طرح اپنے اپنے بھٹ میں دبکے رہتے ہیں جبکہ بھوکے پیاسے‘ سردی اور گرمی میں فوجی جوان ان سرحدوں کی حفاظت کے لیے جاگتے‘لڑتے‘ شہید ہوتے رہتے ہیں۔ دنیا کی ایک بڑی آبادی ان سیاسی لکیروں کے نام پر بھوکی سوتی ہے۔ بھوک کے مارے بلکتے بچوں کو دیکھ کر ان کے ماں باپ خون کے آنسو اور لاچاری کی سسکیاں بھرتے رہتے ہیں۔ان میں سے کئی جانیں آٹھ سو کروڑ کی آبادی سے چپکے سے کم ہوجاتی ہے۔ انسان کی اس درندگی پر کوئی بھی آنکھ آنسو نہیں بہاتی۔
آٹھ سو کروڑ کی آبادی کو لے کر جہاں لوگ زبان کی کھجلی مٹارہے ہیں وہیں آبادی کی کمی کولیکر سرکاری ملازمین پریشان ہیں۔ ہم ہوتی آبادی کے چلتے سرکاری نوکریاں کم ہورہی ہے۔ آئے دن خانگیانے کے نام پر سرکاری نوکریوں پر سرکاری بلڈوزر چلا کر سرکاری نوکری کو ختم کیا جارہا ہے۔ آبادی کی کمی سے سب سے زیادہ پریشان اساتذہ کرام ہے۔ مدرسوں کی بھرمار‘ شادی کی عمر تیس کے پار‘ ہم دو ہمارے دو کی پکار نے طلبہ کی تعداد تشویش ناک حد تک گھٹا دی ہے۔ اس لیے ہر اسکول میں اساتذہ دھڑا دھڑ سرپلس ہو رہے ہیں اور اپنی نوکری سے ہاتھ دھورہے ہیں۔ آج گلی گلی‘ قریہ قریہ‘ بستی بستی اساتذہ کرام طلبہ کی تلاش میں حیران‘ پریشان‘ سرگرداں‘ دھول مٹیّ میں گھوم رہے ہیں۔ ایک ایک طالب علم کو ترس رہے ہیں۔ شرح پیدائش ملک عزیز میں فی جوڑا دیڑھ بچہ تک پہنچ گئی ہے۔ شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے کئی اساتذہ سڑک پر آگئے ہیں اور رو رو کر آبادی کے بڑھنے اور جوانوں کے جوان ہونے کی دُعا کررہے ہیں تاکہ وہ آبادی بڑھا سکیں، اساتذہ کو طلبہ مل سکیں اور وہ اپنی نوکری بچا کر اپنی آبادی بھی بڑھا سکیں۔
ہم تمام ہی معمولی انسان ہیں، لیکن جب ہم گھر تعمیر کرتے ہیں تو اپنی نسل کے ساتھ ساتھ آنے والی نسل کی آبادی کو ذہن میں رکھ کر گھر بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدمؑ سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کا پالن ہار ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر تمام ہی جنت اور دوزخ کی کل آبادی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مالک ہے۔ اسی لیے اللہ نے یہ زمین اتنی وسیع و عریض بنائی ہے کہ اس پر آٹھ سو کروڑ تو کیا؟ بے شمار انسان چل پھر کر اپنا اور قبر کا پیٹ بھی بھرسکتے ہیں۔ اور قیامت میں اسی زمین پر حضرت آدمؑ سے لے کر آخری انسان تک کو اللہ کے حضور اپنے اعمال کا حساب کتاب دینا ہے۔ رہے ماہرین آبادی! تو ان کے حساب و کتاب‘ اعداد و شمار کے چلنے چھ سو کروڑ آبادی میں ہی زمین کو انسانوں سے اس قدر بھر جانا چاہےے تھا کہ انسان اسی طرح پھسل کر زمین سے نیچے گرجانا چاہئے تھا جس طرح بھرے ہوئے پلڑے سے مچھلیاں پھسل کر گر جاتی ہیں۔ بے چارے ماہرین آبادی! آبادی بڑھنے کی فکر میں مرے جارہے ہیں۔
آج آٹھ سو کروڑ انسانوں کے سولہ سو کروڑ قدموں کے باوجود ہماری زمین کی لاکھوں مربع کلو میٹر زمین تک انسانوں کے قدم نہیں پہنچ سکے۔ ابھی تو ہری بھری میزان دریا کی وادیاں‘ فلک بوس پہاڑوں کی ہری وادیاں‘ صحرا کی نرم مگر گرم ریت‘ سفید برف علاقوں کے سرد میدان‘ لاکھوں کلومیٹر پر پھیلے گھانس کے سبزہ زار‘ استوائی خطوں کے اونچے اونچے درختوں والے جنگلات کو ابھی ابھی انسانی قدموں کا انتظار ہے اور وہ ہمارے قدم بوسی کے لیے سراپا انتظار ہیں۔ انسان ہے کہ ابھی اپنی زمین پر ہی اپنے قدم جما نہیں پایا، مگر چاند پر بستیاں بسانے اور مریخ کو فتح کرنے کے منصوبے بنارہا ہے۔
ساری دینا میں مسلمانوں کی آبادی کا ہوّا کھڑا کیا جارہا ہے۔ ساری دنیا مسلمانوں کی آبادی کو لے کر حواس باختہ ہے۔ سوشیل میڈیا‘ پرنٹ میڈیا‘ الیکٹرانک میڈیا میں مسلمانوں کی آبادی کی دھوم ہے۔ ان سب کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مسلمان عورتیں کھانا پکانا چھوڑ چوبیسوں گھنٹے صرف بچے پیدا کررہی ہیں اور مسلمان گھروں میں دن رات بچے پیدا ہورہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عربوں کی کئی کئی بیویاں‘ حرم میں کئی کئی خوبصورت لڑکیاں ہونے کا واویلا ہے۔ عربوں کے بچاسوں بچوں والے باپوں کی تصویر شیئر اور پوسٹ کی جارہی ہے۔ لیکن عربستان میں عربوں کی آبادی بڑھنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔عرب ممالک میں غیر عربوں کی آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے۔
عرب حکمراں نہ ہی عوام کو آبادی بڑھانے پر اکسارہے ہیں نہ ہی آبادی کم کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔ ان سب کے باوجود عربوں کی آبادی کا گراف ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے ایران‘ عراق‘ فلسطین‘ شام‘ لیبیا افغانستان‘ یمن‘ صومالیہ پر ہزارہا ٹن گولہ بارود برسا کر مسلمانوں کی آبادی ختم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ امریکہ بہادر کے صدر جارج بش منتظر زیدی کا جوتا کھا کر بھی بمباری میں مصروف رہا۔ اس کے بعد کئی حکمرانوں کو جوتے پڑے، گویا دنیا میں جوتا مارو سیریز شروع ہوگئی ہو۔ دنیا بھر میں بہلولی کے جوتوں کے بعد منتظر زیدی کا جوتا مشہور ہوا اور جارج بش دنیا کا پہلا جوتا خور صدر۔
اگر دنیا بھر کے مسلمان ہر اسرائیلی کو دس دس جوتے ماریں تو پورا اسرائیل جوتے کھاکر ہی بغیر ہتھیار کے بے موت مارا جائے گا۔ اور مسجد اقصیٰ کے ساتھ ساتھ فلسطین کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ لو آٹھ سو کروڑ کی آبادی کو صیہونی فتنے سے نجات مل جائے گی۔
جس وقت انسانی آبادی کم تھی، اس وقت انسانی آبادی کی بڑی تعداد دانے دانے کی محتاج تھی۔ آج جب انسانی آبادی آٹھ سو کروڑ ہوچکی ہے تو انسان مرغ مچھلی‘ مٹن‘ چکن‘ چائنیز فوڈ‘ ساﺅتھ انڈین فوڈ‘ پنجابی و گجراتی تھالی‘ مہنگے چاول کھارہا ہے۔ پیٹ سے زیادہ کھانے کے بعد ہاضمہ کے لیے ہاضمولا‘ چورن‘ معجون دھڑا دھڑ بِک رہے ہیں۔ کھا کھا کر مٹاپے کے شکار ہونے والوں کی چربی پگھلانے کے لیے دنیا بھر میں دس ہزار سے زیادہ Companyکام کررہی ہے۔ جن کے ایک وقت کے ناشتے کی قیمت سینکڑوں روپئے ہے۔ بازار موسمی اور غیر موسمی پھلوں سے اٹے پڑے ہیں۔ گھروں سے زیادہ کھانے ہوٹلوں میں کھائے جارہے ہیں۔ لاکھوں ٹن اناج سرکاری گوداموں‘ تاجروں کی دکانوں میں سڑرہا ہے۔کئی ہزار ٹن اناج سمندر و دریا برد کیا جارہا ہے۔ خیر الرّازقین ہر ایک کو اچھے سے اچھا کھلا رہا ہے۔ قیمتوں کی کمی کی وجہ سے ٹماٹر‘ آلو‘ پیاز سے لے کر دودھ اور اناج سڑکوں پر پھینکا جارہا ہے۔ جو محتاج ان نعمتوں سے محروم ہے، اس کی وجہ آٹھ سو کروڑ کی آبادی نہیں بلکہ سرکاری مشنری کی رشوت خوری‘ سیاسی عہدےداروں کے گھوٹالے‘ منافع خور تاجروں کی مصنوعی قلت ہے۔ ورنہ زمین تو اپنے خزانے اگل رہی ہے۔ سرکاری مشینری او رحکومت دولت کو چند ہاتھوں تک مرتکیز رکھ کر اپنے ذاتی مفادات کی روٹی سینک رہے ہیں۔ بڑے ممالک غریب ملکوں کو عالمی بینک کے سودی جال میں جکڑنا چاہ رہے ہیں، اس لیے غریبوں کی سبسیڈی چھین کر امیروں اور تاجروں کو ٹیکس میں چھوٹ دی جارہی ہے۔ آج آٹھ سو کروڑ کی آبادی کے لیے شہروں میں چمچماتے دواخانے‘ میڈیکل اسٹورس اور لیباریٹریاں ہیں۔ عالمی ادارے WHO کا دعویٰ ہے کہ انسان کی اوسط عمر بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کو حفظان صحت کی بنیادی سہولتیں مل رہی ہیں۔ عورتوں کی اوسط عمر 72 سال اور مردوں کی اوسط عمر 67 سال ہے، لیکن ہمیں نہ تو کھانستے بوڑھے نظر آرہے ہیں نہ ہی بوڑھیاں۔ شہر کے شہر بوڑھوں سے خالی ہورہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی ondutyمرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ دل کا دورہ‘ ایکسیڈنٹ کے چلتے دنیا کی آبادی منٹوں میں کم ہورہی ہے۔ ہماری بیگم خوش ہیں کہ عورتوں کی اوسط عمر مردوں سے 5 سال زیادہ ہے یعنی انہیں 5 سالہ بیوگی کا دور بغیر روک ٹوک اور خدمت کے آزادی سے جینے‘ ہماری پنشن کھانے اور من چاہے انداز میں خرچ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس زریں موقع سے صرف ہماری بیگم ہی نہیں بلکہ چار سو کروڑ آبادی کا فائدہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ پولیس ایکشن دکن (1948) میں مسلمانوں (مردوں) کے قتل عام کے بعد مہاراشٹرا کے ضلع عثمان آباد کو بیواﺅں کا ضلع کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے آنے والی دنیا بیواﺅں کی دنیا کہلائے۔
اپنی آٹھ سو کروڑ کی آبادی کے زعم میں مت اترائےے۔ آٹھ سو کروڑ آبادی کے پل پل کے عمل کو قلم بند کرنے کے لیے سولہ کروڑ فرشتے دن رات مستعدی سے کام کررہے ہیں۔ یہ نگرانی اتنی ہی سخت ہے جتنی اکیلے حضرت آدمؑ و ماں ہوّاؑ کے زمانے میں تھی۔ اس لیے ہر کام کرنے سے پہلے سوچ لیجئے کہ دائیں (Right) سائیڈ والا فرشتہ ہمیشہ بائیں Leftبازو پر حاوی رہے۔ تاکہ ہم جنت کی آبادی بڑھا سکے۔ ہم سب کی نگرانی کرنے والا سب کی خبر رکھتا ہے۔ اس لیے آٹھ سو کروڑ آبادی کے ہوجانے کی فکر مت کیجئے بلکہ اپنی اور اپنی اولاد کی اسلامی تربیت کیجئے تاکہ ہم سب جنت میں آباد ہوسکیں۔ ہر وقت دُعا کیجئے کہ اللہ ہم سب کو دوزخی آبادی بننے سے محفوظ رکھے۔
ہمارے اس مضمون کے لیے سوچ کے گھوڑے دوڑانے‘ کاغذ پر لکھنے‘ عرق ریزی سے اسے Fair کرنے‘ آپ کے پسندیدہ اخبار کو بھیجنے‘ ایڈیٹر صاحب کے مضمون کو منظوری دینے‘ کاتب صاحب کے لکھنے‘ چھپنے اور اخبار کے آپ تک پہنچنے‘ چائے کی چسکیوں اور زیر لب تبسم کے ساتھ اس مضمون کو پڑھنے کے دوران نہ معلوم دنیا کی آبادی میں کتنے کروڑ کا اضافہ ہوگیا ہوگا مگر ہمیں تو اس آبادی کے بڑھنے کی فکر یا خوف نہیں ہے بلکہ ہمیں تو خوف ہے کہ حضرت آدمؑ سے لے کر دنیا کے آخری انسان کی لامحدود آبادی کے سامنے ہمارے گناہوں کا رجسٹر وائرل ہوجائے گا اور اس وقت کا ہر انسان ہمارے گناہ سے واقف ہوگا۔ اتنی بڑی آبادی کے سامنے ہمیں پیشماں ہونا پڑے گا۔ ہمارے حق میں دُعا کیجئے کہ اللہ ہمارے گناہوں کو وائرل ہونے سے بچائے۔ آپ کی دُعاﺅں اور ہماری توبہ سے یہ گناہ delete ہوجائیں۔٭٭