اخبار میں ضرورت ہے

بطرس بخاری
یہ ایک اشتہار ہے، لیکن چوں کہ عام اشتہاروں سے بہت زیادہ طویل ہے، اس لیے شروع ہی میں یہ بتادینا مناسب معلوم ہوا ورنہ شاید آپ پہچاننے نہ پاتے۔
میں اشتہار دینے والا ایک روزانہ اخبار کا ایڈیٹر ہوں۔ چند دن سے ہمارا ایک چھوٹا سا اشتہار اس مضمون کااخباروں میں نکل رہا ہے کہ ہمیں مترجم اور سب ایڈیٹر کی ضرورت ہے۔ یہ غالباً آپ کی نظر سے بھی گزرا ہوگا۔ اس کے جواب میں کئی امیدوار ہمارے پاس پہنچے اور بعض کو تنخواہ وغیرہ چکانے کے بعدملازم بھی رکھ لیا گیا لیکن ان میں سے کوئی بھی ہفتے دو ہفتے سے زیادہ ٹھہرنے نہ پایا آتے کے ساتھ ہی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ اشتہار کا مطلب وہ کچھ اور سمجھے تھے۔ ہمارا مطلب کچھ اور تھا۔ مختصر سے اشتہار میں سب باتیں وضاحت کے ساتھ بیان کرنا مشکل تھا۔ جب رفتہ رفتہ ہمارا اصل مفہوم ان پر واضح ہوا یا ان کی غلط توقعات ہم پر روشن ہوئیں تو تعلقات کشیدہ ہوئے، تلخ کلامی اور بعض اوقات دست درازی تک نوبت پہنچی۔ اس کے بعد یا تو وہ خود ہی ناشائستہ باتیں ہمارے منہ پر کہہ کر چائے والے کابل اداکیے بغیر چل دیے یا ہم نے ان کو دھکے ماکر باہر نکال دیا اور وہ باہر کھڑے نعرے لگایا کیے جس پر ہماری اہلیہ نے ہم کو احتیاطاً دوسرے دن دفتر جانے سے روک دیا اور اخبار بغیر لیڈر ہی کے شائع کرنا پڑا۔ چو ںکہ اس قسم کی غلط فہمیوں کا سلسلہ ابھی تک بند نہیں ہوا اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ ہم اپنے مختصر اور مجمل اشتہار کے مفہوم کو وضاحت کے ساتھ بیان کریں کہ ہمیں کس قسم کے آدمی کی تلاش ہے، اس کے بعد جس کا دل چاہے ہماری طرف رجوع کرے جس کا دل نہ چاہے وہ بے شک کوئی پریس الاٹ کراکے ہمارے مقابلے میں اپنا اخبار نکال لے۔
امید وار کے لیے سب سے بڑھ کر ضروری یہ ہے کہ وہ کام چور نہ ہو۔ ایک نوجوان کو ہم نے شروع میں ترجمے کا کام دیا۔ چار دن کے بعد اس سے ایک نوٹ لکھنے کو کہا تو بھپر کر بولے کہ میں مترجم ہوں سب ایڈیٹر نہیں ہوں۔ ایک دوسرے صاحب کو ترجمے کے لیے کہا تو بولے میں سب ایڈیٹر ہوں، مترجم نہیں ہوں، ہم سمجھ گئے یہ ناتجربے کار لوگ مترجم اور سب ایڈیٹر کو الگ الگ دو آدمی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے اخبار میں یہ قاعدہ نہیں، ہم سے بحثنے لگے کہ آپ نے ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ دوسرے صاحب کہنے لگے آپ کے اشتہار میں عطف کا استعمال غلط ہے۔ ایک تیسرے صاحب نے ہمارے ایمان اور ہمارے صرف ونحو دونوں پر فحش حملے کیے، اس لیے ہم واضح کیے دیتے ہیں کہ ان لوگوں کی ہم کو ہر گز ضرورت نہیں جو ایک سے دوسرا کام کرنے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں اور اس کے لیے صرف و نحو کی آڑ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو ملازم ہوں گے انہیں تو وقتاً فوقتاً ساتھ کی دکان سے پان بھی لانے پڑیں گے اور اگر انہیں بحث ہی کرنے کی عادت ہے تو ہم ابھی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک سب ایڈیٹر کے معنی یہ ہیں ۔ ایڈیٹر کا اسم مخفف اخبار میں ایک عہدیدار کا نام جو ایڈیٹر کو پان وغیرہ لاکر دیتا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ ہمارا اخبار زنانہ اخبار نہیں، لہٰذا کوئی خاتون ملازمت کی کوشش نہ فرمائیں۔ پہلے خیال تھا کہ اشتہار میں اس بات کو صاف کردیاجائے اور لکھ دیا جائے کہ مترجم اور سب ایڈیٹر کی ضرورت ہے جو مرد ہوں، لیکن پھر خیال آیا کہ لوگ مرد کے معنے شاید جوانمرد سمجھیں اور اہل قلم کی بجائے طرح طرح کے پہلوان نیشنل گارڈ والے او رمجاہد پٹھان ہمارے دفتر کا رخ کریں، پھر یہ بھی خیال تھا کہ آخر عورتیں کیوں آئیں گی۔ مردوں کی ایسی بھی کیا قلت ہے، لیکن ایک دن ایک خاتون آہی گئیں ۔ پرزے پر نام لکھ کر بھیجا۔ ہمیں معلوم ہوتا کہ عورت ہے تو بلاتے ہی کیوں؟ لیکن آج کل کم بخت نام سے تو پتا ہی نہیں چلتا۔ فاطمہ، زبیدہ، عائشہ کچھ ایسا نام ہوتا تو میں غسل خانے کے رستے باہر نکل جاتا، لیکن وہاں تو نازجھانجھر دی یا عندلیب گلستانی یا کچھ ایسا ہی فینسی نام تھا۔ آج کل لوگ نام بھی تو عجیب عجیب رکھ لیتے ہیں ۔ غلام رسول، احمد دین، مولاداد ایسے لوگ تو ناپید ہی ہوگئے ہیں جسے دیکھیے نظامی گنجو ی اور سعدی شیرازی بنا پھرتا ہے، اب تو اس پر بھی شبہ ہونے لگا کہ حرارت، عزیزی، نزلہ کھانسی ثعلب مصری ادیبوں ہی کے نام نہ ہوں۔ عورت مرد کی تمیز تو کوئی کیا کرے گا۔ بہرحال ہم نے اندر بلایا تو دیکھا کہ عورت ہے۔ دیکھا کہ یہ معنی ہیں کہ ان کا برقعہ دیکھا اور حسن ظن سے کام لے کر اندازہ لگایا کہ اس کے اند ر عورت ہے ہم نے بصد ادب و احترام کہا کہ ہم خواتین کو ملازم نہیں رکھتے۔ انہوں نے وجہ پوچھی ہم نے کہا کہ پیچیدگیاں ، کہنے لگیں آگے بولیے ہم نے کہا پیدا ہوتی ہیں۔ بھڑک کر بولیں کہ آپ بھی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے، کیوں کہ اس امر کا ہماری سوانح عمری میں کہیں ذکر نہیں، اس لیے ہم تائید تردید کچھ نہ کرسکے۔ میری ولادت کو انہوں نے اپنا تکیہ کلام بنالیا بہترا سمجھایا کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا اور بہرحال میری ولادت کا آپ کی ملازمت سے کیا تعلق ؟ اور یہ تو آپ مجھ سے کہہ رہی ہیں اگر ہمارے پروپرائٹر سے کہیں تو وہ آپ کی اور میری دونوں کی ولادت سے متعلق وہ وہ نظریے بیان کریں کہ آپ ہکابکا رہ جائیں۔ خدا خدا کرکے پیچھا چھوٹا۔
ہمارے اخبار میں پروپرائٹر کا احترام سب سے مقدم ہے، وہ شہر کے ایک معزز ڈپو ہولڈر ہیں۔ اخبار انہو ں نے محض خدمت خلق اور رفاہ عام کے لیے جاری کیا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ پبلک ان کی شخصیت اور مشاغل سے ہر وقت باخبر رہے چنانچہ ان کے پوتے کی ختنہ، ان کے ماموں کا انتقال، ان کے صاحبزادے کی میٹریکولیشن میں حیر ت انگیز کامیابی (حیرت انگیز اس معنوں میں کہ پہلے ہی ریلے میں پاس ہوگئے) ایسے واقعات سے پبلک کو مطلع کرنا ہر سب ایڈیٹر کا فرص ہوگا نیز ہر اس پریس کانفرنس میں جہاں خورد و نوش کا انتظام بھی ہوہمارے پروپرائٹر مع اپنے دو چھوٹے بچوں کے جن میں سے لڑکے کی عمر سات سال اور لڑکی کی پانچ سال ہے شریک ہوں گے اور بچے فوٹو میں بھی شامل ہوں گے اور اس پر کسی سب ایڈیٹر کو زیرلب فقرے کسنے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہ بچے بہت ہی ہونہار ہیں اور حالات حاضرہ میں غیرمعمولی دلچسپی لیتے ہیں۔ کشمیر سے متعلق پریس کانفرنس ہوئی تو چھوٹی بچی ہندوستانیوں کی ریشہ دوانیوں کا حال سن کر اتنے زور سے روئی کہ خود سردار ابراھیم اسے گود میں لیے لیے پھرے تو کہیں اس کی طبیعت سنبھلی۔
ہمارے اخبار کا نام ”آسمان“ ہے۔ پیشانی پر یہ مصرعہ مندرج ہے کہ آسمان بادل کا پہنے خرقہ دیرینہ ہے ۔ اس فقرے کو ہٹانے کی کوئی سب ایڈیٹر کوشش نہ فرمائیں، کیوںکہ یہ خود ہمارے پروپرائٹر صاحب کا انتخاب ہے۔ ہم نے شروع شروع میں ان سے پوچھا بھی تھا کہ صاحب اس مصرعے کا اخبار سے کیا تعلق ہے، کہنے لگے اخبار کا نام آسمان ہے اور اس مصرعے میں بھی آسمان آتا ہے ۔ہم نے کہا کہ بجا لیکن خاص اس مصرعے میں کیا خوبی ہے، کہنے لگے علامہ اقبال کا مصرعہ ہے اور علامہ اقبال سے بڑھ کر شاعر اور کون ہے، اس پر ہم چپ ہوگئے ،پیشانی پراردو کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار بھی لکھا ہے۔ یہ میرا تجویز کیا ہوا ہے، اسے بھی بدلنے کی کوشش نہ کی جائے کیو ںکہ عمر بھرکی عادت ہے ۔ ہم نے جہاں جہاں ایڈیٹری کی اپنے اخبار کی پیشانی پر ضرو رلکھا۔
بعض امیدوار ایسے بھی آتے ہیں کہ آتے کے ساتھ ہی ہمیں سے سوالات پوچھنے لگتے ہیں ۔ ایک سوال بار بار دہراتے ہیں کہ آپ کے اخبار کی پالیسی کیا ہے۔ جیسے کوئی پوچھے کہ آپ کی ذات کیا ہے۔ ہماری پالیسی میں چند باتیں تو مستقل طور پر شامل ہیں مثلاً ہم عربوں کے حامی ہیں اور امریکہ سے ہرگز نہیں ڈرتے چنانچہ ایک دن تو ہم نے پریسیڈنٹ ٹرومین کے نام اپنے اخبار میں ایک کھلی چٹھی بھی شائع کردی، لیکن عام طور پر ہم پالیسی میں جمود کے قائل نہیں، اسی لیے سب ایڈیٹر کو مسلسل ہم سے ہدایات لینی پڑیں گی۔ ہفتہ رواں میں ہماری پالیسی یہ ہے کہ پنڈی گھیپ کے ہیڈ ماسٹر کو موسم سرما سے پہلے پہل یا ترقی دلوائی جائے یا ان کا تبادلہ لاہور کر دیا جائے( ان کے لڑکے کی شادی ہمارے پروپرائٹر کی لڑکی سے طے پاچکی ہے) اور خیال ہے کہ موسم سرما میں شادی کردی جائے۔
انشاءکے متعلق ہمارا خاص طرزعمل ہے اور ہر سب ایڈیٹر اور مترجم کو اس کی مشق بہم پہنچانی پڑے گی۔ مثلاً پاکستان بنا نہیں معرض وجود میں آیا ہے ۔ ہوائی جہاز اڑتا نہیں محو پرواز ہوتا ہے۔ مترجموں کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا پڑے گا۔ ایک مترجم نے لکھا کہ کل مال روڈ پر دو موٹروں کی ٹکر ہوئی اور تین آدمی مرگئے حالانکہ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ کہ دوموٹروں کے تصادم کا حادثہ رونما ہوا جس کے نتیجہ کے طور پر چند اشخاص جن کی تعداد تین بتائی جاتی ہے، مہلک طور پر محروج ہوئے۔
لاہور کارپوریشن نے اعلان کیا کہ فلاں تاریخ سے ہر پالتو کتے کے گلے میں پیتل کی ایک ٹکیہ لٹکانی ضروری ہے جس پر کمیٹی کا نمبر لکھا ہوگا ۔ ایک مترجم نے یہ یوں ترجمہ کیا کہ ہر کتے کے گلے میں بلّا ہونا چاہیے حالانکہ کارپوریشن کا مطلب ہر گز یہ نہ تھا کہ ایک جانور کے گلے میں ایک دوسرا جانور لٹکادیا جائے۔
سینما کے فری پاس سب ایڈیٹر کے مشاہرے میں شامل نہیں ۔ یہ پاس ایڈیٹر کے نام آتے ہیں اور وہی ان کو استعمال کرنے کا مجاز ہے۔ فی الحال یہ پروپرائٹر اور ان کے اہل خانہ کے کام آتے ہیں، لیکن عنقریب اس بارے میں سینما والوں سے ایک نیا سمجھوتہ ہونے والا ہے۔ اگر کوئی سب ایڈیٹر، اپنی تحریر کے زور سے کسی سینما والے سے پاس حاصل کرے تو وہ اس کا اپنا حق ہے، لیکن اس بارے میں ایڈیٹر کے ساتھ کوئی مفاہمت کرلی جائے تو بہتر ہوگا۔ جو اشیاءریویو کے لیے آتی ہیں مثلاً بالوں کا تیل، عطیارت، صابن ، ہاضم دوائیاںوغیرہ وغیرہ ان کے بارے میں بھی ایڈیٹر سے تصفیہ کرلینا ہر سب ایڈیٹر کا اخلاقی فرض ہوگا۔
ممکن ہے ان شرائط کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص بھی ہمارے ہاں ملازمت کرنے کو تیار نہ ہو، اس کا امکان ضرور موجود ہے ،لیکن ہمارے لیے یہ چنداں پریشانی کا باعث نہ ہوگا۔ ہمارے پروپرائٹر آگے ہیں دو تین مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اسٹاف بہت بڑھ رہا ہے اور اسی وجہ سے انہوںنے ہماری ترقی بھی روک دی ہے۔ عجیب نہیں کہ جب ہم دفتر میں اکیلے رہ جائیں تو وہ ہمیں ترقی دینے پر آمادہ ہوجائیں ،وہ اصولاً اسٹاف بڑھانے کے خلاف ہیں۔ دانشمندانہ انداز میں کہتے ہیں کہ اسٹاف زیادہ ہو تو بات باہر نکل جاتی ہے یہ معلوم کبھی نہیں ہوا کہ کیا بات ؟ کون سی بات؟ اپنے ڈپو پر بھی وہ اکیلے ہی کام کرتے ہیں اور اس کی وجہ بھی یہی بتاتے ہیں کہ ورنہ بات باہر نکل جاتی ہے۔