مضامین

ارتداد: اسباب اور تدارک

فرحان بارہ بنکوی

اسلام ایک ایسا نظامِ حیات ہے، جس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی اور تمام مراحل کے لیے دستورالعمل تیار کیا ہے۔ بہتر زندگی گزارنے اور فطرت کے مطابق عمر بسر کرنے کے لیے واضح ہدایات دیں اور سیدھا راستہ دکھایا ہے۔ دینِ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور اس میں ہر گوشہ حیات کے لیے روشن طریق، واضح اور معتدل احکام موجود ہیں۔ مذہبِ اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں تمام چیزوں کی اور ہر پریشانی کے لیے احکام اور راہِ نجات موجود ہے۔
جب چودہ سو سال قبل محمد عربی نے دین کی دعوت دی، تو بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا اور جاں نثارانِ رسول میں شامل ہوئے اور بہتوں نے اسلام کی دعوت کو قبول نہیں کیا اوروہ اسلام کی حقانیت سے دور رہے؛ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے، جنہوں نے اسلام کی آغوش میں تربیت پائی؛مگر کچھ وقت کے بعد وہ اسلام سے پھر گئے۔ اسلام سے پھر جانا اور اسلامی تربیت سے انحراف کرنا ہی ارتداد ہے اور ایسے شخص کو ہی ”مرتد“ کہا جاتا ہے اور قرآنِ حکیم میں مرتد کے بارے میں ارشاد ربانی ہے :ترجمہ: اور اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا دین چھوڑ دے، اور کافر ہونے کی حالت میں مرے، تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہو جائیں گے۔ ایسے لوگ دوزخ والے ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔“ (البقرہ: آیت: ۲۱۷) (مترجم: مفتی تقی عثمانی صاحب)
جب حضور کے پردہ فرما جانے کے بعد بنو حنیفہ اور اہلِ یمامہ مرتد ہو گئے اور ارکانِ اسلام سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے جہاد کیا؛ کیونکہ ایسے لوگ اللہ، اس کے رسول اور اسلامی احکام سے برسرِ پیکار نظر آتے ہیں اور جنگ پر آمادہ رہتے ہیں۔
موجودہ وقت میں جس قدر ارتداد کے واقعات پیش آرہے ہیں، ان کی متعدد وجوہات ہیں:
پہلی وجہ: دینی تعلیم سے دوری اور اسلامی تربیت سے عاری زندگی:- دینی تعلیم و تربیت کے فقدان سے انسان بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ دینی تعلیم سے محرومی دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی کا سبب ہے۔ آج کل دینی تعلیم سے دوری عام وبا بن گئی ہے والدین علومِ دینیہ سے آشنا کرانے میں عار محسوس کرتے ہیں اور اگر کوئی توجہ کرتا بھی ہے تو کوئی خاص اہمیت محسوس نہیں کرتا۔ ارتداد کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے۔
دوسری وجہ: مخلوط تعلیم نے جس قدر معاشرے میں تباہی و بربادی پھیلائی ہے، اس کی مثال اس سے پہلے نظر نہیں آتی۔ معاشرے میں برائیوں کی کثرت اسی مخلوط تعلیم کی دین ہے۔ مخلوط تعلیم ہی کی وجہ سے بے حیائی عام ہو رہی ہے اور حیا، جسے عورت کا زیور کہا گیا ہے، نا پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
تیسری وجہ: فلمیں، ڈرامے اور سیریلز نے سماج میں جس قدر گندگی پھیلائی ہے، وہ کسی صاحبِ بصیرت سے ڈھکی، چھپی نہیں ہے۔ ایسے ایسے روح فرسا مناظر، دل سوز واقعات پیش کیے جاتے ہیں، جن میں میٹھا زہر ہوتا ہے، جو قوم اور معاشرے کے لیے ناسور کا کام کرتا ہے۔
حل:- ایسے واقعاتِ ارتداد کی روک تھام کے لیے ایک خاص مشن اور پ±ر زور مہم کی ضرورت ہے۔ جو لوگوں کو اور بہ طورِ خاص دخترانِ ملت کو دینی تعلیم سے روشناس کرائے۔ زندگی میں دین و ایمان کی اہمیت کیا ہے؟ اس سے واقف کرائے۔ خدا اور رسول سے تعلق قائم کرائے۔
دوسری کوشش: جو اس وقت معاشرے کی تباہی کو روکنے کے لیے کرنے کی ضرورت ہے، وہ، اپنی بچیوں کو حتی الامکان مخلوط تعلیم سے دور رکھنے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ مخلوط تعلیم نے دخترانِ ملت کو بے حیائی کی عمیق کھائی میں ڈال دیا ہے۔ مردوں سے تعلق نے ان کو کج روی کا شکار بنادیا ہے۔ غیروں سے ناجائز تعلقات نے ان سے دین و ایمان جیسی اہم اور قیمتی چیز چھین لی ہے؛ اس لیے ضرورت ہے کہ مخلوط تعلیم سے دور رکھا جائے اور دینی تعلیم سے ان کو روشناس کرایا جائے۔ ان کی تربیت اسلامی ماحول میں کی جائے۔ اور بہ طورِ خاص ان پر کڑی نظر رکھی جائے اور ان کی کسی حرکت کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے؛ کیونکہ کسی حکیم نے کہا ہے: اپنی اولاد کو لقمے سونے کے کھلاو¿؛ مگر نگاہ شیر کی رکھو۔

a3w
a3w