مذہب

انسان میں زمین‘ پہاڑ‘ لوہا‘ آگ سے زیادہ طاقت پوشیدہ ہوتی ہے

یہ حقیقت ہے کہ انسان دنیا میں بڑی محنت کرتا رہتا ہے، اسکی جد وجہد ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتا ہے، یہ عمل یا تو وہ اپنی ذات کیلئے کرتاہے یا خدائے وحدہ لا شریک کیلئے کرتا ہے۔ مسلمانوں کے تمام اعمال کا دار مدار نیت پر ہوتا ہے، اسی پر انہیں اجر ملتا ہے اسی پر وہ عذاب کے مستحق ہوتے ہیں۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

یہ حقیقت ہے کہ انسان دنیا میں بڑی محنت کرتا رہتا ہے، اسکی جد وجہد ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتا ہے، یہ عمل یا تو وہ اپنی ذات کیلئے کرتاہے یا خدائے وحدہ لا شریک کیلئے کرتا ہے۔ مسلمانوں کے تمام اعمال کا دار مدار نیت پر ہوتا ہے، اسی پر انہیں اجر ملتا ہے اسی پر وہ عذاب کے مستحق ہوتے ہیں۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم انماالاعمال بالنیات (بخاری) اعمال کا دار مدار نیتوں پر ہے۔ اگر وہ صحیح ہے تو عمل مقبول، اگر اس میں فساد ہو تو بڑے بڑے عمل مردود ہوجاتے ہیں اور نیت کا تعلق دل سے ہوتاہے، وہ انسان میں ایک ایسی طاقت ہے جس کے مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں ، چنانچہ حدیث شریف میں ہے عن انس بن مالک عن النبي صلی اللہ علیہ والہ وسلم قال: لما خلق اللہ الارض جعلت تمید فخلق الجبال ۔۔۔الی آخرہ (ترمذی شریف) نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ ہلنے لگی تب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس پر پہاڑ بنائے تو اسکا ہلنا رک گیا، فرشتے پہاڑ کی طاقت ومضبوطی دیکھ کر حیران ہوگئے، انہوں نے کہا اے ہمارے رب! تیری مخلوق میں پہاڑ سے بھی زیادہ طاقت ور اور سخت کوئی چیز ہے؟

اللہ نے کہا اس سے زیادہ طاقت ور لوہا ہے۔ پھر انہوں نے عرض کیا لوہے سے زیادہ سخت مضبوط کوئی چیز ہے؟ رب تبارک وتعالیٰ نے کہا ہاں! وہ آگ ہے، انہوں نے عرض کی تیری مخلوق میں آگ سے بھی زیادہ طاقت ور کوئی چیز ہے؟ رب کریم نے فرمایا ہاں! آگ سے بھی زیادہ مضبوط وقوی پانی ہے، پھر انہوں نے پوچھا اے اللہ! پانی سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز ہے؟ اللہ رب العزت نے فرمایا ہاں ہوا ہے، پھر پوچھا ہوا سے بھی زیادہ طاقت ور کوئی چیز ہے؟

تو رب العالمین نے فرمایا ہاں! بندہ جب اپنے سیدھے ہاتھ سے صدقہ دے تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو (یہ سب سے زیادہ طاقت ور چیز ہے) (ترمذی شریف) اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ انسان میں ایک باطنی قوت پوشیدہ ہوتی ہے، جو ہر وقت آدمی کو اپنے کارنامے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے کی طرف آمادہ کرتی رہتی ہے، اسے نفس امارہ کہتے ہیں۔ اگر کوئی بندہ مومن رضائے الٰہی کی خاطر نفس امارہ پر غالب آجائے اور شہرت پسندی وریاکاری سے محفوظ رہے تو یہ قوت نفس مطمئنہ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہی وہ جوہر ہے جو زمین پہاڑ، آگ، پانی، ہوا سے زیادہ طاقت ور ہے۔

بعض مسلمان عبادتوں کے ذریعہ شہرت طلبی چاہتے ہیں، ان کے یہ اعمال رب کی خوشنودی کے خاطر نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کو دکھانے اور نام ونمود کیلئے ہوتے ہیں، تعریف مقصود ہوتی ہے جو رب کریم کی بارگاہ میں ہرگز قبول نہیں۔ مومن وہی شخص ہے جس کا ہرعمل اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہو۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال: من احب للہ وابغض للہ واعطی للہ ومنع للہ فقد استکمل الایمان (بخاری) رسول اعظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ کیلئے محبت کرتا ہے اور اللہ کیلئے نفرت کرتا ہے اور اللہ کی خاطر دیتا ہے اور اللہ کی خاطر روکتا ہے تو اس نے اپنے ایمان کو کامل کیا۔ اس حدیث شریف سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے تمام اعمال رب کریم کی خوشنودی کی خاطر ہوں تو ہمارا ایمان کامل ہوگا۔

شہرت طلبی اور ریاکاری میں اعمال خدائے تعالیٰ کیلئے خالص نہیں ہوتے بلکہ اپنی ذات کی خاطر ہوتے ہیں۔ ایک مسلمان ساری زندگی عبادت کرنے کے باوجود اجر وثواب سے محروم ہوتا ہے کیونکہ اس نے اللہ کی محبت اور اس کی خوشنودی کے مقابلہ میں اپنے نفس اور اس کے مرغوبات اور خواہشات کو ترجیح دی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اہل اسلام کی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے آزمائش ہوتی ہے۔ ان کے دل میں دنیا اور اسکی مرغوبات کی محبت ڈال دی جاتی ہے۔ اہل ایمان کیلئے یہ سخت امتحان ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاء وَالْبَنِیْنَ (سورہ اٰل عمران) لوگوں کیلئے مرغوب چیزوں کی محبت آراستہ کردی گئی، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان زدہ گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (مگر) یہ دینوی زندگی کا عارضی ساز وسامان ہے اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔ اس آیت شریفہ میں ہے کہ انسان کے نفس میں دنیا، جاہ ومنصب، عزت وشہرت، کی خواہشات رکھ دی گئی۔ اللہ تعالیٰ بندے کو آزماتا رہتا ہے کہ بندہ نفس کا غلام بنتا ہے یا اس پر غالب آتا ہے۔

اگر بندہ نفس پر غالب آجائے تو رب العالمین کے پاس اس بندے کا مقام بہت بلند ہوتا ہے ورنہ بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کے باوجود اگر اس کے نفس میں کھوٹ ہو، ریا کاری ہو، دکھاوا ہو تو عذاب الٰہی کا مستحق ہوجاتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ان شفیا الاصبحی حدثہ انہ دخل مسجد المدینۃ فاذا ھو برجل۔۔۔۔ الی آخرہ (ترمذی) شفیا الاصبحیؓ سے روایت ہے کہ وہ مدینہ کی مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص کے پاس لوگ جمع ہیں ، پوچھا یہ کون شخص ہے ؟لوگوں نے کہا حضرت ابو ہریرہ ؓ ہیں تو میں ان کے قریب ہوا یہاں تک کہ انکے سامنے بیٹھ گیا، میں نے عرض کیا :اللہ کے واسطے آپ مجھ سے ایک ایسی حدیث بیان کیجئے جو آپ نے رسول خدا ؐ سے سنی ہو اوراسے آپ نے خوب سمجھاہو،حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا :

اچھا میں بیان کرتا ہوں جو تم نے کہا، بے شک میں اس حدیث کو بیان کروں گا جس کو رسول خدا ؐ نے مجھ سے بیان فرمائی اور میں نے اس کواچھی طرح سمجھا، پھر آپؓ نے روتے ہوئے چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے،پھر جب حضرت ابوہریرہؓ ہوش میں آگئے تو تھوڑی دیر توقف کیا اور کہا: میں تم سے بیان کرتا ہوں پھرحضرت ابوہریرہؓ نے بڑے زور سے چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے اور پھر ہوش میں آئے اور اپنا منہ پونچھا اور کہا :میںتمہیں حدیث بیان کرتا ہوں، پھر بے ہوش ہو کر اپنے منہ کے بل گر پڑے تو میں حضرت ابو ہریرہؓ کو بڑی دیر تک سہارا دئیے رہا اور آپؓ بے ہوش رہے پھر ہوش میں آئے اور فرمایاسنو جو مجھے رسول اعظم ؐ نے ارشاد فرمایا تھا :

بے شک جب قیامت کا دن ہوگا اللہ جل جلالہ اپنے بندوں کے درمیان نزول فرمائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کرے اور ایک جماعت اس وقت گھٹنوں کے بل ہوگی ، تو سب سے پہلے پروردیگارعالم اس شخص کو بلائے گا جس نے قرآن کریم کواپنے سینہ میں جمع کیا ہو گا اور دوسرا وہ مرد ہوگا جو اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا ہوگا (یعنی شہید ہوگا) اورتیسرا مال دار شخص ہوگا، اللہ تعالیٰ قاری قرآن سے فرمائے گا: کیا میں نے تجھے اپنے رسول پر اتارا ہوا کلام نہیں سکھایا ؟،وہ عرض کرے گا کہ ہاں !اے میرے پروردگار،فرمائے گا :کیا تو نے اس علم پر عمل کیا جسے حاصل کیا تھا؟

کہے گا :میں نماز تہجد اورپانچ وقت نمازوں میں قرآن کریم پڑھتا تھا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی بول اٹھیں گے کہ تو جھوٹ بولتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا بلکہ تیرا مقصدتلاوت سے یہ تھا کہ تجھے قاری کہاجائے یعنی تو اپنا نام چاہتا تھا تو تجھے دنیا میں وہ چیز مل گئی اور پھر مالدار کو لایا جائے گا۔ اس سے اللہ عزوجل فرمائے گاکیا میں نے تجھے مال نہیں دیا تھا ؟اس کو تو نے کہاں صرف کیا؟

عرض کرے گا : ہاں، وہ عرض کرے گا اے رب میں رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا رہا اور صدقہ دیتا رہا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا : تو جھوٹ بولتا ہے اور فرشتے بول اٹھیں گے کہ تونے جھوٹ کہا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا:بلکہ ان نیکیوں سے تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے سخی داتا کہا جائے تو وہ دنیا میں کہا گیا ، پھر ایک ایسے شخص کو لائیں گے جو اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا :تو کس لئے قتل کیا گیا؟

وہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب! تو نے اپنی راہ میں جہاد کا حکم فرمایا تھا ، پس میں لڑا یہاں تک کہ میں قتل کیا گیا پس اس سے اللہ جل جلالہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی بول اٹھیں گے کہ تو نے جھوٹ کہا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا : بلکہ تیرا مقصد جہاد سے یہ تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے وہ دنیا میں کہا جاچکا، پھرر سول اعظم ؐ نے اپنا ہاتھ میرے زانو پرمارا اور کہا اے ابوہریرہ! یہ تین قسم کے لوگ اللہ کی سب سے پہلی وہ مخلوق ہوں گے جن سے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سلگائی اور بھڑکائی جائے گی۔

اس حدیث شریف سے ظاہر ہے کہ بندہ عمل کرنے کے باوجود جہنم کا مستحق ہوتا ہے اگر اس کا عمل رب تبارک وتعالیٰ کیلئے نہ ہو اور وہ اپنی ذات ، شہرت پسندی اور ریاکاری کیلئے ہو۔ یہ بھی حق ہے کہ کسی کے ظاہری اعمال کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ریاکار اور شہرت پسند ہے، ممکن ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب اور اس کی خوشنودی کا طالب ہو، ریاکاری کا تعلق قلب ونفس سے ہے، کئی لوگ ایسے ہیں کہ دوسروں کو ریاکار کہتے ہیں کبھی اپنے کردار وافعال میں غور نہیں کرتے، یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ بعض حضرات ریاکاری کے مرض میں مبتلا ہو نے کے باوجود خود کو بہت نیک سمجھتے ہیں، انہیں اپنے مرض کا پتہ ہی نہیں چلتا، ریاکار شخص ہمیشہ اپنی تعریف سننے کو پسند کرتاہے۔

مشہور حکایت ہے کہ ایک گائوں میں ایک شخص اپنے نیک عمل کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرتا تھا ،کچھ لوگ اسے ریاکار کہتے لیکن بعض بزرگوں نے ان لوگوں کو سختی سے منع کیا، اس طرح کسی کو ریاکار کہنا درست نہیں۔ ایک دن چند منچلوں نے اس ریاکار کے عمل کو ظاہر کرنے کیلئے تدبیر کی، جب وہ شخص لوگوں کے درمیان نماز ادا کرنے کیلئے مسجد میں داخل ہوا اور نماز کیلئے کھڑا ہوا تو یہ منچلے ان بزرگوں کو مسجد لے گئے اور پیچھے سے اس نمازی کی تعریف کرنے لگے دیکھو کتنی اچھی ان کی نماز ہے، کیا عمدہ قرأت ہے، کیا طویل رکوع ہے، کیا بہتر سجدہ ہے، وہ نمازی ان کی باتوں کو سن کر مزید نماز کو طویل کیا، اس کی پوری توجھ صرف اپنی تعریف سننے میں ہوگئی، یہاں تک کہ اپنے دیگر اعمال کا اظہار کرتے ہوئے حالت نماز میں ہی کہنے لگا آج میں نے روزہ بھی رکھا ہے۔ تو یہ حالت ریاکار کی ہوتی ہے، وہ ہمیشہ اپنی ہی تعریف سننے کو پسند کرتاہے۔

ریاکار دنیا میں نیک عمل کرنے کے باوجود آخرت میں ثواب سے محروم رہے گا۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: عن ابی سعید قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من یرآئی یرائی اللہ بہ ۔۔۔ الی آخرہ (ترمذی) ابی سعید سے روایت ہے کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو شخص اپنی عبادت لوگوں کو دکھانا چاہے اللہ تعالیٰ اس کی عبادت لوگوں کو(دنیا میں) دکھادے گا اور جو شخص اپنی عبادت کو سنانا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ (دنیا میں) اس کی عبادت لوگوں کوسنا دیتا ہے۔(وہ آخرت میں اجر وثواب سے محروم ہوگا)

اللہ تعالیٰ ہم کو ریاکاری سے بچائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭

a3w
a3w