اور اب حضرت قبول پاشاہ ؒبھی
اہل حیدرآباد یکے بعد دیگرے عظیم ہستیوں کی جدائی کے صدمات سے دوچار ہوتے جارہے ہیں باعظمت علمائے کرام ومفتیانِ ذی احترام ‘بزرگ وبابرکت مشائخ عظام کی طرف سے داغِ مفارقت دینے کا جو سلسلہ چل پڑا ہے اس کے باعث علمی ادبی‘ اور مذہبی فضا سونی اور بافیض جانشینانِ اولیاء اللہ سے خالی ہوگئی ہے مدارس و خانقاہیں نوحہ کناں ہیں کہ مسند نشینانِ اہل مدارس وخانقاہ رخصت ہوتے جارہے ہیں۔
ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔپادشاہ قادری
معتمد سید الصوفیہ اکیڈمی ‘پرنسپل ایس ‘ایم ‘وی کالج حیدرآباد
اہل حیدرآباد یکے بعد دیگرے عظیم ہستیوں کی جدائی کے صدمات سے دوچار ہوتے جارہے ہیں باعظمت علمائے کرام ومفتیانِ ذی احترام ‘بزرگ وبابرکت مشائخ عظام کی طرف سے داغِ مفارقت دینے کا جو سلسلہ چل پڑا ہے اس کے باعث علمی ادبی‘ اور مذہبی فضا سونی اور بافیض جانشینانِ اولیاء اللہ سے خالی ہوگئی ہے مدارس و خانقاہیں نوحہ کناں ہیں کہ مسند نشینانِ اہل مدارس وخانقاہ رخصت ہوتے جارہے ہیں جنھیں دیکھ کر ’’اذا رُء وا ذکر اللہ‘‘(جب انھیں دیکھو تو اللہ کی یاد آجائے )کا ارشادرسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذہن میں آجاتا تھاجن کی صحبتِ بابرکت دلوں کی ویرانیوں کو دور کرکے اللہ ورسول کی یاد سے آباد و روشن کردیا کرتی تھی وہ اٹھتے چلے جارہے ہیں۔
خصوصاًپچھلے چار پانچ سال کے مختصر سے عرصہ میں بہت ساری ہستیوں نے دنیائے فانی کو خیر باد کیا اور اپنے خالق حقیقی سے جاملے جن میں قابل ذکر جانشین حضرات عارفؒ ومحی ؒنبیرہ غوث پاکؓحضرت مولانا سیدشاہ غوث محی الدین اعظم پاشاہ قادری الموسوی ؒ(المتوفی: ۶؍ شوال ۱۴۳۹ھ م ۲۰؍جون ۲۰۱۸ء)‘چھ ماہ بعدعمدۃ المحدثین استاذنا الکریم حضرت خواجہ شریف قادری ؒشیخ الحدیث جامعہ نظامیہ (المتوفی:۶؍ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ م۱۴؍ڈسمبر ۲۰۱۸ء)‘ تقریباً دیڑھ سال بعد والدی ومرشدی ومربی ومولائی نبیرۂ حضور غوث الوریؓ مصباح المفسرین ‘وقار الصوفیہ ‘اعظم المشائخ حضرت علامہ قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی اعظم ؔ پیر حسنی حسینی القادری ؒ(المتوفی :۴؍ذی قعدہ ۱۴۴۱ھ م ۲۵؍جون ۲۰۲۰ء)‘دیڑھ ماہ بعد خطیب دکن شہزادہ غوث اعظمؓ حضرت علامہ سیدشاہ کاظم پاشاہ قادری الموسوی ؒ(المتوفی: ۲۴؍ذی الحجہ ۱۴۴۱ھ م ۵ ۱؍ اگسٹ ۲۰۲۰ء )‘تین ماہ بعد سراج المشائخ حضرت مولانا سیدشاہ اسرار حسین رضوی المدنی القادری الشطاری ؒ(المتوفی:۲۴؍ربیع الاول ۱۴۴۲ھ م ۱۱؍نومبر ۲۰۲۰ء)‘۲۰ یوم بعد سجادہ نشین بارگاہِ طاہر گلشن کرنول ‘روح اہل سنت حضرت مولانا سید شاہ اسمعیل پیر حسینی رضوی قادری شرفی طاہریؒ(المتوفی:۱۴؍ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ م ۳۰ نومبر ۲۰۲۰ء)‘تین ماہ بعدسجادہ نشین آستانہ حضرت پیر جی ؒمولانا سید شاہ افتخار محی الدین قادری ابوالعلائیؒ(المتوفی:۱۳؍رجب ۱۴۴۲ھ م۲۶؍فبروری ۲۰۲۱ء)‘دس یوم بعد سجادہ نشین خا نوادۂ صوفیہ حضرت مولانا ابوالمحمود سید شاہ محی الدین علی صوفی غوث پاشاہ قادری ؒ(المتوفی: ۲۲؍رجب ۱۴۴۲ھ م۶؍مارچ ۲۰۲۱ء)‘ایک ماہ بعد مفتی اعظم‘ صدر مفتی جامعہ نظامیہ حضرت علامہ مفتی محمد عظیم الدین قادری نقشبندیؒ(المتوفی:۲۶؍ شعبان ۱۴۴۲ھ م ۹؍اپریل ۲۰۲۱ء )‘دو ماہ بعد نقیب روضۂ ر حمانیہ خطۂ صالحین حضرت مولانا سید شاہ محمد حسینی قادری الرفاعی عظمت پیر بغدادیؒ (المتوفی:۲۸؍شوال ۱۴۴۲ھ م۹؍جون ۲۰۲۱ء)‘دوماہ بعد سجادہ نشین بارگاہ ِ حضرت خواجہ محبوب اللہ ؒحضرت مولانا سید شاہ محمد صدیق حسینی عارف قادریؒ(المتوفی:۲۸؍ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ م۸؍اگسٹ ۲۰۲۱ئ) ‘سات ماہ بعد میرے خسر محترم ‘شہزادہ ٔ امام علی موسیٰ رضاؓسجادہ نشین حضرت تاج العرفاء شرفی چمن حضرت علامہ ڈاکٹر سید شاہ محمد حمید الدین حسینی رضوی قادری شرفی ؒ(المتوفی: ۶؍شعبان ۱۴۴۳ھ م ۱۰ ؍مارچ ۲۰۲۲ء)‘چار یوم بعد سجادہ نشین حضرت نور المشائخ حضرت مولانا سید شاہ عارف الدین جیلانی نوری ؒ(المتوفی:۱۰؍ شعبان ۱۴۴۳ھ م ۱۴؍مارچ ۲۰۲۲ء)‘اس دوران شیخ التجوید جامعہ نظامیہ مولانا ڈاکٹر قاری شیخ محمد عبد الغفور قادری ؒرحمت آبادی بھی۲۱؍رجب ۱۴۴۳ھ م ۲۳ ؍فبروری ۲۰۲۲ ء کو ہم سے جدا ہوگئے اوراب جانشین حضرت کاملؒ ضیاء المشائخ حضرت مولانا سید شاہ قبول پاشاہ قادری شطاریؒ کی ۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ م ۱۷؍اپریل ۲۰۲۳ ء کو رحلت نے حزن وملال سے غمزدہ و بے حال کردیاہے۔؎
اُٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لئے کس کس کا ماتم کیجئے
حضرت قبول پاشاہؒبتاریخ۲۰؍محرم الحرام ۱۳۶۲ ھ م ۱۵ ؍اکٹوبر۱۹۴۲ء کو اپنے آباء واجداد کے سکونتی مکان’’بیت القبول‘‘ بازار نورالامراء (نزد نورخاںبازارحیدرآباد دکن)میں سلطان الواعظین حضرت مولانا سید شاہ مرتضیٰ بادشاہ حسنی الحسینی قادری الملتانی چشتی عرف حبیب اللہ صاحب مشہور مرتضیٰ بادشاہ زرین کُلاہ ؒ کے گھر بڑے فرزند کی حیثیت سے تولد ہوئے آپ کے دو(۲)چھوٹے برادران حضرت مولانا سید محمود پادشاہ قادری زرین کلاہ ومولانا سید احمد پادشاہ قادری زرین کلاہ (ایم۔ایل۔ اے ومعتمد عمومی ایم ۔ آئی ۔ایم)بھی اپنی دینی وعلمی سماجی وسیاسی خدمات کے باعث کافی شہرت رکھتے ہیں ۔حضرت قبول پاشاہ شطاریؒکی ولادت سے قبل حضرت سلطان الواعظین ؒ کے والد ماجد یعنی جگر گوشہ حضور غوث الثقلینؒ ۔تاج العارفین حضرت سید شاہ محمد قبول پادشاہ حسنی حسینی قادری الملتانی زرین کلاہ المعروف بہ گوشہ نشین قبلہ ؒ نے اپنے گھر کی ایک قدیم خادمہ کے خواب میں آکر اپنی بہو اور بیٹے (یعنی سلطان الواعظین ؒ)کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ عنقریب ان کے ہاں لڑکا تولد ہوگا جس کا نام ہمارے نام پر سید محمد قبول بادشاہ رکھنا ۔اس بنیاد پر نو مولود پوتے کا نام اپنے دادا کے نام پر’’سید محمد قبول بادشاہ زرین کلاہ رکھا گیاجو بعد میں ’’حضرت قبول بادشاہ شطاریؒ‘‘سے معروف ہوئے ۔دادا کے نام کے ساتھ’’ گوشہ نشین قبلہ ‘‘اور پوتے کے نام کے ساتھ نسبت ’’شطاری‘‘کی موجودگی سے فرق وامتیازکیا جاتا ہے۔
حضرت قبول پادشاہ شطاری کا نسبی تعلق (دادیالی)۲۳ واسطوں سے شاہ بغداد حضور غوث پاک سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہ سے جاملتا ہے اور فقیہ دکن حضرت علامہ حافظ قاری سید شاہ غلام غوث قادری شطاری ادیبؔ قبلہؒ آپ کے نانا ہیں جو آستانہ شطاریہ واقع دبیر پورہ میں آرام فرماہیں ‘جن کے فرزند ارجمند حضرت علامہ سید شاہ شیخن احمد حسینی قادری الشطاری کاملؔؒ المعروف بہ کامل شطاریؒ آپ کے ماموں ہوتے ہیں جو اپنے بے مثال نعتیہ ومنقبتی کلام کے باعث برصغیر میں بے حد معروف ہیں۔ اور حضرت کاملؒ کے شعری مجموعہ ’’واردات کامل‘‘میں سے اکثر کلام زبان زد خاص وعام ہے بالخصوص اہل خانقاہ کے پاس محافل میں بڑے ہی شوق وذوق سے پڑھا اور سنا جاتاہے ۔یہی حضرت کامل ؒ نے اپنے بڑے ہمشیرزادے (بھانجے)حضرت قبول پادشاہ کو سلسلہ شطاریہ میں داخل فرماکر اپنا جانشین مقرر کیا اور اپنے والد کا تخلص’’ادیب‘‘آپ کے نام سے جوڑدیا س طرح یہ کہا جائے تو بیجانہ ہوگا کہ حضرت قبول بادشاہ شطاری ؒ کو نام اپنے دادا حضرت کا ملااور تخلص اپنے نانا جان کا ملا۔چناچہ آپ کا ادیبؔ تخلص کے ساتھ نعتیہ ومنقبتی کلام موجود اور تشنہ طباعت ہے۔
حضرت قبول بادشاہ شطاری ؒ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ حسینی محلہ نزد نور خان بازار میں ہوئی اس کے بعد پنجم تا دہم مدرسہ اعزہ ملک پیٹ سے رجوع ہوئے پی یو سی(پری یونیورسٹی کو رس جسے آج انٹرمیڈیٹ کہتے ہیں) کی تکمیل چادر گھاٹ کالج تلک روڈ عابڈزسے کی‘اور آرٹس کالج عثمایہ یونیورسٹی سے ۱۹۶۶ء میں بی اے پاس کیا اور اس کے بعد جامعہ عثمانیہ سے ایم اے عربی کی ڈگری حاصل کی ۔ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد بزرگوار حضرت سلطان الواعظین ؒ اور اپنے ماموں حضرت کامل شطاریؒ سے حاصل کی بعد ازاں دارالعرفان لال ٹیکری سے علوم دینیہ کی سند بھی پائی اس دوران شہر حیدرآباد کے مشہور ادارہ دار القراء ت الکلیمیہ واقع نور خان بازار میں اس ادارہ کے بانی ومبانی عالمی شہرت یافتہ تجویدی قواعد پر مبنی تصنیف ’’سہل تجوید‘‘ کے مصنف انیس القراء حضرت سید کلیم اللہ حسینیؒ (المتوفی: ۱۴۲۱ھ م ۱۹۹۲ء )سابق صدر شعبہ فارسی جامعہ عثمانیہ کے پاس قرا ء ت سبعہ کی تکمیل کی تو حضرت انیس القراء ؒ کے ارشد تلامذہ ومحبوب شاگردوں میں شمار ہونے لگے ۔حضرت قبول پاشاہؒ کے استاذ محترم اپنے اس تلمیذ کو جلسہ ہائے قرا ء ت میں ہر جگہ ساتھ لیجا تے اور قرا ء ت سن کر خود بھی بیحد مسرور ہوتے اور سامعین کو بھی آپ کی کی تلاوت سے فیضیاب ہونے کا موقع دیتے اس لئے کہ ادائی اور لحن وخوش آواز ی میں حضرت قبول بادشاہ شطاری ؒ ایک منفرد مقام کے حامل تھے اور آپ کو حضرت کلیم اللہ حسینی ؒ کے بہتر شاگردوں میں شمار کیا جاتا تھا۔آپ کی بہترین تلاوت ‘وقواعد تجوید کی رعایت کے ساتھ ادائی مخارج وصفات کی کیفیات اور اس کے اثر کا آخری وقت تک سب نے مشاہدہ کیا چنانچہ مجھے یاد ہے کہ استاذ محترم شیخ الحفاظ حضرت علامہ ڈاکٹر شیخ احمد محی الدین قادری شرفی مدظلہ بانی نعمانیہ کی ہرسال اپنے کثیر تلامذہ کے ساتھ بارگاہ سلطان العارفین حضرت بابا شرف الدین سہروردی ؒ واقع پہاڑی شریف پر ماہ شعبان کے اواخر میں حاضر ی کے وقت اور وہاں دورِ قرآنی کا تکملہ اور تمام حفاظ قرآن کریم کے لئے دعاء کے اھتمام کے موقع پر بھی اکثر حضرت قبول پادشاہؒ تشریف لایا کرتے اور کبر سنی کے باوجود پورے سیڑھیوں کو عبور کرتے ہوئے اوپر حاضری دیتے اور دعاء کرتے جو قرآن پاک سے آپ کے بے پناہ شغف پر دال ہے۔آپ خانقاہی نظام کے عظیم مبلغ اور بزرگ شخصیت تھے ۔
واعظ ومقرر:جب آپ کی عمر ۱۵ سال ہوئی تو ’’والد بزرگوار حضرت سلطا ن الواعظین زرین کلاہ ؒنے اپنے آباء و اجداد کی مسجد حضرت زرین کلاہؒ واقع نور خان بازار میں پنجوقتہ نمازوں کی امامت اور جمعہ کی خطابت وامامت کی ذمہ داری نبھانے کا حکم دیا وہیں سے آپ نے تقریر ووعظ کرنا بھی شروع کیا۔یوں تو آپ کے والد ماجد حضرت سلطان الواعظین ؒ نے ۱۹۵۴ ء میں پہلی مرتبہ حج وزیارت کو روانگی سے قبل اپنے فرزند اکبر یعنی حضرت قبول بادشاہ شطاری ؒ کو بیعت و خلافت و جانشینی سلسلہ قادریہ چشتیہ سے مشرف کردیا تھاتاہم ۱۹۶۵ء میں آپ کو آپ کے ماموں حضرت کاملؔ شطاری ؒنے جو اس وقت معتمد صدر مجلس علمائے دکن تھے حرمین شریفین روانگی سے قبل اپنے اس ہمشیرزادے مولانا سید محمد قبول پاشاہ شطاری ؒ کو اپنا جانشین اور سجادہ نشین آستانہ شطاریہ ومتولی آستانہ شطاریہ واقع دبیر پورہ کے طورپر نامزد ومقرر فرمادیا اور بعد واپسی از حج وزیارت اپنے والد حضرت غلام غوث الشطاری ؒ کے سالانہ عرس ۲۷ ؍ محرم الحرام کے موقع پر جانشینی کا اعلان ممتاز مشائخ کرام وبزرگ افراد خاندان واہل سلسلہ کی موجودگی میں کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ میں اپنے سلسلہ عالیہ قادریہ شطاریہ کے بزرگوں کی طرف سے روحانی اشارہ پر نانا کی امانت اُن کے جو ان وصالح و متقی اور پرھیزگار نواسہ میاں سید محمد قبول بادشاہ قادری الشطاری سلمہ کے حوالے کردیا ہوں‘‘۔
آپ کی شادی حضرت مولانا سید شاہ قادرمحی الدین قادریؒ بانی ومتولی انجمن خادم المسلمین کا چی گوڑہ کی نواسی محترمہ سید ہ جمیل النساء صفیہ بیگم بنت حضرت سید حامد حسین قادری ؒ سے یکم شعبان ۱۳۹۳ھ م ۳؍اگسٹ ۱۹۷۳ء کو ہوئی ۔آپ سرکاری ملازمت سے بھی منسلک رہے اور ابتداء سابقہ اے پی(تشکیل تلنگانہ سے پہلے) کے محکمہ صحت وطبابت میں ‘بعد ازاں ڈائرکٹر ڈرگس کنڑول ڈپارٹمنٹ اے پی میں خدمات انجام دیں آپکی نیک فطرت ‘وخدا ترسی اور ملنساری وخوش اخلاقی سے آپ کے ساتھ کام کرنے والے سارے ہی مسلم وغیر مسلم ملازمین بیحد متاثر تھے۔ (۳۳)سالہ دور ملازمت کے اختتام پرمنعقدہ وداعی تقریب میں آپ کی شخصیت اور بے مثال خصوصیات کا سب لوگوں نے بر ملا اعتراف کیا۔علاوہ ازیں آپ مختلف دینی تنظیموں سے وابستہ رہے انجمنِ سجادگان ومتولیان وخدمت گذاراں وقف اے پی (قبل از تشکیل تلنگانہ ریاست)کے معتمد ‘امارت شرعیہ اے پی کے نائب امیر شریعت ‘ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے معزز رکن ‘الگیلانی عالمی سوسائٹی و انجمن معاون الملت اور مرکزی دار القضا کے قابل قدر رکن ‘ شریعت وطریقت کانفرنس اے پی اور کامل اکیڈمی کے سرپرست کی حیثیت سے آپ کی دینی‘ ملی‘ سماجی و معاشرتی اور مذہبی خدمات کا ایک طویل اور عظیم ریکارڈ ہے تاہم سب سے زیادہ قابل ذکر آپ کا معتمد صدر مجلس علمائے دکن بننا ہے یوں تو آپ پچھلے (۴)دہوں سے اس مجلس کے رکن رکین تھے مگر صدر الشیوخ جامعہ نظامیہ استاذنا الکریم حضرت علامہ سید شاہ طاہر رضوی القادری نجفی ؒ سابق صدر مجلس علمائے دکن کے وصال ۲۷؍ رمضان ۱۴۲۳ھ م ۳؍ڈسمبر ۲۰۰۲ء کے بعد آپ کو معتمد صدر مجلس علمائے دکن کے عہدہ جلیلہ پر فائز کیا گیا تو آپ نے پچھلے (۲۱)سال اس عہدہ عظمیٰ کے وقار کو برقرار رکھنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کردیں ہر ماہ بپابندی اجلا س ہائے مجلس علمائے دکن میں شرکت اور خصوصیت کے ساتھ رویت ہلال کمیٹی کی میڈیا میں روداد کی پیشکشی کے دل کش انداز کو مدتوں یاد کیا جاتارہے گا۔علاوہ ازیںجنوبی ھند کی قدیم وعظیم اسلامی یونیورسٹی’’جامعہ نظامیہ ‘‘ کی انتظامی کمیٹی کے معزز رکن کے طور پر بھی آپ کی بے مثال خدمات ناقابل فراموش ہیں۔آپ کے مواعظ حسنہ اور مضامین کے علاوہ نعتیہ و منقبتی کلام کو یکجا کرکے طبع کروانا عوام الناس کے لئے بیحد مفید ثابت ہوگا۔دین وشریعت کی حفاظت کی خاطر عوام الناس میں بیداری کاشعور اُجاگر کرنے میں آپ نے کئی اضلاع کے دور ے کئے مجلس اتحاد المسلمین کے ابتدائی رکن کی حیثیت سے بھی آپ کا قدیم ریکارڈ ہے۔پیرانہ سالی کے باوجود آپ کا جذبۂ خدمت دینی ہر وقت شباب پر رہتا آپ بیک وقت علماء ومشائخ ‘اہل شریعت واہل طریقت ‘عوام وخواص ‘ میں بیحد قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔چھوٹوں پر شفقت،علماء ومفتیان کرام کی قدرو منزلت،اہل طریقت وجانشینان اولیاء اللہ سے تعلق محبت آپ کا خاصہ تھا،طبقہ مشائخ کے لئے غیر مترقبہ نعمت تھے ۔مریدین ومعتقدین اور متوسلین کی تربیت کے لئے ہمہ تن مصروف رہتے خانقاہ کامل و آستانہ شطاریہ میں محافل درود شریف ،حلقہ ذکر ،ختم قادریہ تعلیم سلوک و درس تصوف کی مجالس کا اہتمام فرماتے سالانہ اعراسِ بزرگانِ سلسلہ کے مواقع پر نعتیہ و منقبتی مشاعرے ،مذاکرہ علمیہ وسمینارس و جلسہ ہاے قرات کلام پاک کا انعقاد فرماتے ونیز سماع چشتیہ میں وجد وحال کی کیفیات سے خود بھی متاثر ہوتے اوردوسروں کو بھی سیراب وفیضیاب فرماتے آپ کو ایک خاص لقب ’’ضیاء المشائخ ‘‘ سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔
والدی ومرشدی ومربی ومولائی حضور اعظم المشائخ ؒ سے حضرت ضیاء المشائخ ؒ کے عمر میں تفاوت کے باوجود بہت ہی خاص مراسم تھے حضرت والدی قبلہؒکی دینی علمی‘ادبی ‘شعری اور خاص طور سے تفسیری خدمات کے نہ صرف معترف بلکہ مداح تھے اور ایک عظیم الشان جلسہ میں کثیر مجمع کے سامنے حضرت والدی قبلہؒ کیلئے ایک خصوصی لقب ’’سراج المفسرین ‘‘کے استعمال کی تجویز وترغیب دیتے ہوئے شخصیت وخدمات کا بر ملا اظہار فرمایا تھا۔جب کبھی حق گوئی وبے باکی کی ضرورت پیش آتی تو حضرت ضیاء المشائخ ؒ بلا جھجھک ببانگ دہل اپنی حق پسند طبیعت کا ثبوت دیتے اور اس سلسلہ میں حضرت والدی قبلہؒ کو بھی اہم اجلاسوں میں نہ صرف مدعو کرتے بلکہ پیش کردہ تجاویز پر حضرت اعظم المشائخ ؒ کیلئے تحسین وآفرین کے کلمات کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔
آپ کا اِک اور عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے ہزاروں کو نماز جمعہ سے محروم ہونے سے بچالیا وہ اس طرح سے کہ نماز پنجگانہ کی ادائی کے لئے اگر کسی سے جماعت چھوٹ بھی جائے تو اُس کے لئے تنہا پڑھنا ممکن ہے تاہم جمعہ وعیدین کے لئے تو جماعت شرط ہے کہ جمعہ کی نماز اکیلے نہیں پڑھی جاسکتی اور اگر کسی کو ادائی جمعہ میں کوئی رکاوٹ ہے مجبوری یا کوئی عذر ہے تو اُسے جمعہ کے بجائے ظہر پڑھنی ہوتی ہے لیکن جو کوئی شرعی مجبوری کے بغیر جمعہ چھوڑ دے تو یہ بڑی محرومی اور بدبختی کی بات ہے اور پھر جمعہ کو چھوڑ نے والوں کے لئے ارشاد مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ’’جو کوئی بلاعذر تین جمعہ ترک کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کے دل پر مُہر لگادیتا ہے‘‘(مستدرک للحاکم)اس وجہ سے عوام کی طرف سے حتی المقدور کوشش کیجاتی ہے کہ جمعہ کی نماز چھوٹنے نہ پائے اور کسی اہم مصروفیت یا مجبوری کے تحت کوئی عام طور پر مقررہ وقت پر نماز جمعہ ادا نہ کرسکے تو وہ محرومی کاشکار ہوسکتا ہے ایسے میں اُن کو جمعہ کی ادائی کا(وقت جمعہ ختم ہونے سے پہلے تاخیر سے ہی سہی)موقع فراہم کرنا حضرت قبول پاشاہ ؒ کا بہت بڑا احسان ہے تاکہ وہ لوگ درج بالا وعید کا مصداق بننے سے بچ جائیں اور جمعہ کی ادائیگی سے محروم نہ ہونے پائیں۔ان جیسے لوگوں کو اس محرومی سے بچانے کا کارنامہ پچھلے زائد از (۵۵)سال سے انجام دیتے رہے ۔آپ نے شہر حیدرآباد کے قدیم محلے دبیر پورہ میں واقع مسجد شطاریہ کے ذریعہ یہ احسان عظیم فرمایا کہ لاکھوں لوگوں کو جو تاخیر کی وجہ سے جمعہ کی ادائی سے محروم ہوسکتے تھے ‘بچالیا ۔تقریباً(۳۰۰۰)جمعوں تک بلاناغہ خطاب اردو۔وعربی خطبہ‘ونماز جمعہ کی امامت ونیز خصوصی دعاؤں سے ماحول کو نورانی بنا نے والی وہ عظیم شخصیت ’’ضیاء المشائخ‘‘ حضرت قبول پادشاہ شطاری قبلہؒ کی ہی ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا کام لیا‘حضرت کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جن میں سے چند پہلو وںکا سطور بالا میں ذکرکیاگیا۔آپ ایک بہترین قاری‘بلند پایہ مقرروواعظ‘ادیب وشاعر‘طبقہ مشائخ سے تعلق رکھنے والی وضعدار‘ملنسار ‘روایات بزرگان دین کی پاسدار‘علم وعمل کے پیکر‘نسبت ونجابت کے حامل ‘سماجی علمی ادبی ومذہبی حلقوں میں ایک محترم شخصیت کے طور پر عوام وخواص میں یکسر مقبول ومحبوب تھے آپ کے والد محترم حضرت سلطان الواعظین ؒ نے ماہ رمضان المبارک میں وصال فرمایا تھا حسن اتفاق یہ ہے کہ آپ کا وصال بھی ماہ رمضان میں ہوا چنانچہ مختصر سی علالت کے بعدآپ نے بتاریخ ۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ م ۱۷؍اپریل ۲۰۲۳ ء داعی اجل کو لبیک کہا اور آخری عشرہ رمضان کی مبارک ساعتوں میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔وصال سے کچھ سال قبل ہی آپ نے اپنے فرزند ارجمند مولانا سید شاہ غلام غوث شیخن احمد قادری شطاری کامل بادشاہ کو اپنا جانشین اور بارگاہ جات آستانہ شطاریہ ومسجد شطاریہ دبیر پورہ حیدرآباد کا متولی نامزد کردیا تھا جنھیں بعد وصال حضرت قبول بادشاہ شطاری علیہ الرحمہ بموقع فاتحہ سہ یوم بتاریخ ۲۸۔رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ م ۲۰۔اپریل ۲۰۲۳ء حضرت مولانا سید محمودپاشاہ قادری زرین کلاہ و مولانا سید احمد پاشاہ قادری زرین کلاہ ( برادران خورد حضرت قبول پاشاہ شطاریؒ) اور آپ کے داماد مولانا سید شاہ ابراھیم قادری المعروف فاروق پاشاہ سجادہ نشین خانقاہ قبول مصطفوی وآستانۂ حضرت گوشہ نشین قبلہؒ و دیگر مشائخ وعلماء کی موجودگی میں اس منصب پر فائز کیا گیا۔
وصال پر ملال کی خبر سن کر احقر راقم الحروف نے الوداعی اشعار کے طور پر جو منظوم نذرانہ عقیدت و محبت رقم کیا تھا اور جس میں مادۂ تاریخ وفات کا استخراج بھی کیا گیا تھا قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے دعاء ہے کہ ایسے مقبولان بارگاہ کی رحلت سے جو خلاء پیدا ہوگیا ہے اس کو قابل ولائق جانشینوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پُر فرمائے اور بزرگان دین کے فیوض و برکات علمی وروحانی سے عامۃ المسلمین کو فیضیاب فرمائے ۔آمین بحق طہ و یٰسین۔
ِِاللہ رے ضیائے مشائخ بھی چل بسے !
حق گو اور حق پرست وحق آگاہ الوداع
اولادِعلی ‘آل نبی‘ غوث کے پوتے
اور فیض غوث ِ پاک کے تھے چاہ الوداع
شطاری سلسلے کے جو تھے پیرِ طریقت
کاملؔؒ کے جانشین تھے واللہ الوداع
واعظ‘ادیب وشاعر و عالم تھے بے مثال
جن سے ملی ہے لاکھوں کو حق راہ الوداع
رحلت ہوتی کیا آپ کی اے عمِّ محترم
سُونی فضا دکن کی ہے واللہ الوداع
غم سے ملول صوفیِ حیدرؔ یہ کہہ اٹھا
حضرت قبول باشاہ محب آہ الوداع =۲۰۲۳ء
٭٭٭