طنز و مزاحمضامین

اُف یہ آنکھیں…

حمید عادل

بصارت کے بغیر دنیا اندھیرکے سوا کچھ بھی نہیں ، انگریزی کے معروف شاعر جون ملٹن اور ہندی کے مشہور شاعر سورداس بینائی سے محروم ہونے کے باوجود بے مثال شاعری کا جادو جگا گئے … جرأت قلندر بخش بھی نابینا تھے۔ ایک روز بیٹھے فکر سخن کررہے تھے کہ انشاء آگئے، انہیں محو پایا تو پوچھا ’’حضرت کس سوچ میں ہیں؟‘‘ جرأت نے کہا، ’’کچھ نہیں، بس ایک مصرعہ ہوا ہے۔ شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں۔‘‘ انشاؔ نے کہا: ’’کچھ ہمیں بھی پتا چلے۔‘‘ جرأت نے کہا، ’’نہیں! تم گرہ لگاکر مصرعہ مجھ سے چھین لوگے‘‘ آخر بڑے اصرار کے بعد جرأت نے مصرعہ پڑھا:
’’اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی‘‘
انشا نے فوراً گرہ لگائی:
’’اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی‘‘
جرأت لاٹھی اٹھاکر انشا کی طرف لپکے، دیر تک انشا آگے اور جرأت پیچھے پیچھے انہیں ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے…
آنکھیں شعراحضرات کا پسندیدہ موضوع رہی ہیں، فیض احمد فیض نے محبوب کی آنکھوں کے حوالے سے یہاں تک کہہ دیا:
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
آنکھوں کو دل کی زبان کہا گیا ہے لیکن جگر مراد آبادی نے تو اپنے کلام میں کمال ہی کردیا:
ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زباں میں آنکھ نہیں ، آنکھ میں زبان نہیں
نریش کمار شادؔپر محبوب کی آنکھوں کا نشہ ایسا چھایا کہ انہوں نے لکھا:
کون کہتا ہے مے نہیں چکھی، کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے
مے کدے سے جو بچ نکلتا ہے تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے
بلاشہ آنکھیں بہت بڑی نعمت ہے، لیکنکچھ لوگ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھوں جیسی باتیں کرتے ہیں…ہمیں بیربل کا واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک دن بیربل نے اکبر سے کہا: دنیا میں سو میں سے 99آدمی اندھے ہوتے ہیں …اکبر کو بڑی حیرت ہوئی اور غصہ بھی آیا،چنانچہ حکم دیا کہ اپنی اس بات کو ثابت کرو، ورنہ سزا کے لیے تیار ہوجاؤ۔ بیربل نے کہا حضور حکم کی تعمیل ہوگی…
اگلے روز بیربل شاہراہ عام پر بیٹھ کر چار پائی بننے لگے اوراپنے ساتھ ایک آدمی کوبٹھا لیا جس سے کہا کہ ایک فہرست نا بینا افرادکی اور ایک بینا افراد کی تیار کرنی ہے۔ ایک آدمی آیا ، اس نے کہا بیربل کیا کر رہے ہو ؟ بیربل نے اسے جواب دینے سے پہلے اپنے معاون کو کہا: اس کا نام اندھوں میں لکھ دو… پھر اسے جواب دیا: چارپائی بن رہا ہوں ۔ یوں لوگ آتے گئے پوچھتے گئے ، بیربل کیا کررہے ہو؟ اور اندھوں میں اپنا نام لکھواتے گئے ۔ اتنے میں شاہی قافلہ گزرا تو بادشاہ نے پوچھا : بیربل کیا کررہے ہو ؟ بیربل کے معاون نے بادشاہ کا نام بھی اندھوں میں لکھ دیا ۔ اتنے میں ایک آدمی آیا اور ا س نے پوچھا : خیریت ہے بیربل چارپائی کیوں بن رہے ہو؟ بیربل نے معاون سے کہا اس کا نام دیکھنے والوں میں لکھو اور پھر بادشاہ کی طرف متوجہ ہوکر کہا : عالی جناب! فہرست دیکھ کر جس میں آپ کا نام بھی شامل ہے کہ سب لوگ یہ دیکھ رہے تھے کہ میں چار پائی بن رہا ہوں لیکن انہیں اپنی بصارت پر یقین نہیں تھا گویا اندھے تھے اس لیے مجھ سے پوچھتے تھے کیا کررہے ہو ؟ صرف ایک شخص آیا جسے اپنی بصارت پر یقین تھا اس نے مجھ سے تصدیق نہیں چاہی بلکہ چار پائی بننے کی وجہ پوچھی…بیربل کی بات سن کر اکبر کو نا چاہتے ہوئے بھی یہ تسلیم کرنا پڑاکہ بیشتر لوگ آنکھیں رکھ کر بھی اندھوں جیسی باتیں کرتے ہیں۔
چند دن قبل ہماری آنکھوں نے ہمارے ساتھ عجیب مذاق کیا،ہم جب صبح جاگے تو دور دور تک تاریکی کے ڈیرے تھے… …دوسروں کو تو کجا ہم خود کو دیکھنے کے قابل نہ تھے … ویسے بھی ہم کہاں خود کو دیکھتے ہیں ہم تو ہمیشہ اوروں کے عیب و ہنر دیکھتے ہیں ..بقول بہادر شاہ ظفر:
نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
انسان اگرخود کو دیکھنا شروع کردے تو پھر شاید دنیا میں کوئی بھی برا نہ لگے لیکن غالباً وہ یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ وہ دنیا میں صرف اور صرف اوروں کو دیکھنے کے لیے وراد ہوا ہے…
جب بہت دیر تک ہماری آنکھوں کے دیے روشن نہ ہوئے ہم نے ایک درد ناک چیخ ماری اور بے ہوش ہونے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ پھول بانو دوڑی دوڑی آئیں اورانہوں نے ہانپتے کانپتے پوچھا ’’ سب خیریت تو ہے ؟‘‘ ہم نے کہا :’’ہم اندھے ہوچکے ہیں، ہمیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے …‘‘
:’’سچ‘‘ پھول بانو کے لہجے میں شرارت تھی۔
ہم نے بگڑ کرکہا ’’تمہارے لہجے سے محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے اندھے ہونے سے تمہاری دنیا روشن ہوگئی ہے،یہ کیا چکر ہے ؟‘‘
پھول بانو نے اترا کرکہا ’’ کیوں کہ اب تو میرے مزے ہی مزے ہیں۔‘‘
ہم نے جھلا کر کہا ’’ ہمارے اندھے ہونے سے تمہارے مزے کیسے ؟‘‘
کہنے لگیں ’’ آپ مجھے بات بات پر ٹوکا کرتے تھے کیا کررہی ہو؟ موبائل کب سے دیکھ رہی ہو؟کیا دیکھ رہی ہو؟اب مجھے اس قبیل کے بے مطلب سوالات سننے نہیں پڑیں گے، اسی لیے میرے مزے ہی مزے ہیں۔‘‘
حالات تو انسان سے مذاق کرتے رہی رہتے ہیں لیکن یہاں تو ہماری آنکھوں نے بھی ہمیں نہیں بخشا تھا…کسی پچھڑے ہوئے گاوں کی برقی کی طرح ہماری آنکھوں کی روشنی کا کوئی بھروسہ نہ تھا،کبھی بحال ہوتیں تو کبھی ہماری آنکھوں کے آگے تاریکی چھا جاتی …ہم نے بینائی کی بحالی کے لیے مشہور و معروف ڈاکٹروں سے آنکھیں چار کیں تو ہر ڈاکٹر نے نت نئے ٹسٹوں سے ہمیں دوچار کیا …وہ ہمارے پاس موجود رپورٹس کوہرگز خاطر میں نہیں لاتے،چنانچہ ہم جہاں جاتے ہمیں اور ہماری آنکھوں کو مختلف ٹسٹوں سے گزرنا پڑتا اورتمام ڈاکٹرس کا جواب ایک ہی ہوتا ’’ سوری مسٹر عادل! ہم کچھ نہیں کرسکتے …دماغ سے آنکھوں کو جو باریک رگ جاتی ہے وہ درمیان میں دب چکی ہے ، اس لیے دماغ سے آنکھوں کا کنکشن منقطع ہوچکا ہے …‘‘ ہم کسی چھوٹے بچے کی طرح بلبلا کر کہتے ’’ کیا اس کی بائی پاس سرجری بھی نہیں ہوسکتی ؟‘‘ڈاکٹرس مسکراکر جواب دیتے ’’ ناممکن ہے ، بال سے باریک رگ کی آج تک کوئی بائی پاس سرجری نہیں ہوئی ،جیسے ہی یہ ممکن ہوگا ہم آپ کو ضرور مطلع کریں گے …‘‘
ہم مسہری پر بیٹھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کچھ نہ کچھ دیکھنے کی کوشش کررہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی ، ہم نے مسہری سے اتر کر دروازے کی جانب لپکنے کی حماقت کی تو دھڑام سے گر پڑے …اور ہوا میں جھولتے ہوئے ہاتھ کو پکڑ کر چیخ اٹھے ’’ اب تو ہمارا ہاتھ بھی ٹوٹ گیا‘‘ پھول بانو نے ہمارے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ کھینچ کر کہا: یہ آپ کا نہیں میرا ہاتھ ہے …اندھے ہوگئے ہیں لیکن عقل ابھی تک نہیں آئی ۔‘‘
پھول بانو نے آگے بڑھ کردروازہ کھولا اور آنے والے چمن بیگ تھے،ہم سے والہانہ انداز میں لپٹ کر کہنے لگے…’’ جو ہوا بہت برا ہوا خاں‘‘
چمن بیگ کے کہے کا جواب دینے کی بجائے ہمیں چیخنا پڑا،کیوں کہ ہمارے ہاتھ پر کسی نے Pinچبھو دیا تھا… ’’ یہ Pinکس نامعقول نے ہمارے ہاتھ پر چبھو دی؟‘‘ہم چیخ اٹھے۔
’’ میں ہوں وہ نامعقول۔‘‘چمن بیگ بچوں کی طرح کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔
’’ مگر کیوں؟‘‘ہم نے سوال دے مارا۔
’’ دراصل میں دیکھنا چاہتا تھا کہ تم واقعی اندھے ہوچکے ہو یا پھر فلم ’’پرورش ‘‘کے ونود کھنہ کی طرح اندھے ہونے کا ناٹک کررہے ہو ۔‘‘
’’ تو محض یہ جاننے کے لیے تم نےیہ چھچھوری حرکت کرڈالی؟‘‘
’’جی ہاں بالکل !کیوں کہ کہنے کو توکوئی کچھ بھی کہہ لیتا ہے، فی زمانہ سچ اور جھوٹ کو پہچاننا بہت دشوار ہوچکا ہے…‘‘اور پھرقدرے توقف سے چمن بیگ نے سوال دے مارا ’’ یہ تو بتاؤیہ سب ہوا کیسے ؟‘‘
’’ جب سوئے تھے تو ہماری دنیا روشن تھی، جب جاگے تو اندھیر ہوچکا تھا ۔‘‘
دریں اثنا چائے اور بسکٹ والی ٹرے ڈرائنگ روم میں آگئی …چمن بیگ نے جس پیالی میں چائے کچھ کم تھی وہ ہمارے آگے کردی …ہم اندھے ہوچکے تھے لیکن اتنے بھی نہیں کہ کوئی ہماری نگاہوں کے آگے فریب کرے او رہم اسے دیکھ بھی نہ سکیں …ٹرے میں آٹھ عثمانیہ بسکٹ پڑے تھے لیکن چمن بیگ ہم سے کہہ رہے تھے ’’ بسکٹ بڑے ہی خستہ ہیں، دو تم کھاؤ اور دو میں کہتا ہوں ۔‘‘اس طرح انہوں نے چھ بسکٹ اپنے نام کرلیے …
’’ چند گھنٹوں میں تم اندھے کیسے بن سکتے ہو؟ ‘‘ چمن بیگ ہماری آنکھوں میں جھانکنے لگے اور پھر خودہی بڑبڑائے ’’ لوز کنکشن معلوم ہوتا ہے ۔‘‘
’’ لوز کنکشن؟‘‘ہم نے حیرت سے سوال کیا ۔
’’ ہاں ہاں ! لوز کنکشن!میری چھٹی حس بہت کام کرتی ہے اور وہی چھٹی حس مجھ سے کہہ رہی ہے کہ تمہاری کھوپڑی پر اگر ایک زور دار مکہ مارا جائے تو تمہاری آنکھوں کے دیے روشن ہوجائیں گے…‘‘
’’ یہ کیا بکواس ہے ؟‘‘ ہم گرجے۔
’’ تمہیں یاد ہے جب بچپن میںریڈیو ٹھیک سے اسٹیشن نہیں پکڑتا تو ہم اس پرہاتھ مارا کرتے تھے ، جس سے وہ ٹھیک طورسے چلنے لگتا تھا… آج بھی جب میرا کمپیوٹر اسکرین جھلملاتا ہے تو میں فوری اس پر اپنا دایاں ہاتھ مارتا ہوں، اسکرین فوری روشن ہوجاتا ہے ۔‘‘ اور پھر انہوں نے ہماری کھوپڑی پر ایک زور دار گھونسہ دے مارا …ان کا مکہ کھوپڑی پرجیسے ہی پڑا، ہماری آنکھیں حیرت انگیز طورپرروشن ہوگئیں… بینائی نے جس طرح اچانک غائب ہوکر ہمیں بے حال کیا تھا ، ٹھیک اُسی طرح وہ بحال بھی ہوگئی تھی…
خالق کائنات سے ہمارا بس یہی سوال تھا ’’ تم ہی نے درد دیا ہے تم ہی دوا دینا…‘‘ اور اس نے کسی نہ کسی بہانے ہمارے درد کی دوا کردی تھی…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰