ایشیاء

عمران خان کی حالت مستحکم‘ لانگ مارچ جاری رہے گا

پاکستان کی وزارت ِ داخلہ نے پنجاب کی صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اعلیٰ سطح کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے تاکہ سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ کے حقائق سامنے آئیں۔

اسلام آباد / لاہور: پاکستان کی وزارت ِ داخلہ نے پنجاب کی صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اعلیٰ سطح کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے تاکہ سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ کے حقائق سامنے آئیں۔

عمران خان کی پاکستان تحریک ِ انصاف (پی ٹی آئی) صوبہ پنجاب میں برسراقتدار ہے جبکہ وفاقی حکومت کی کمان پاکستان مسلم لیگ نواز قائد شہباز شریف کے ہاتھوں میں ہے۔

جمعرات کے دن صوبہ پنجاب کے وزیرآباد میں ایک بندوق بردار نے اس کنٹینر پر گولیاں چلائی تھیں جس کی چھت پر عمران خان موجود تھے۔ ایک شخص ہلاک اور دیگر کئی زخمی ہوئے تھے۔ یہ واقعہ وزیرآباد کے اللہ والا چوک پر اس وقت پیش آیا تھا جب عمران خان اسلام آباد مارچ کے دوران خطاب کررہے تھے۔

وزارت ِ داخلہ نے حکومت ِ پنجاب کو لکھا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں سینئر پولیس اور انٹلیجنس عہدیدار شامل کئے جائیں۔ قبل ازیں وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سینئر عہدیداروں پر مشتمل ہو اور واقعہ کی تحقیقات مستند اور صاف وشفاف ہوں۔

انہوں نے یہ بھی تیقن دیا کہ وفاق‘ صوبائی حکومت کا ہاتھ بٹائے گا۔ انہوں نے سیکوریٹی چُوک کے لئے صوبائی حکومت کو موردِالزام ٹھہرایا۔ انہوں نے پی ٹی آئی قائدین اسد عمر اور شیرین مزاری پر تنقید کی کہ وہ اس واقعہ کے لئے بناثبوت وفاقی حکومت پر الزام دھررہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے ایک اور قائد فواد چودھری لوگوں کو اپوزیشن قائدین کے بنگلوں پر حملوں کے لئے اکسارہے ہیں۔ رانا ثنااللہ نے فواد چودھری سے کہا کہ تم آسمان پر نہیں رہتے‘ اگر تم نے تشدد بھڑکایا تو آگ تمہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

اسی دوران چیف منسٹر پنجاب چودھری پرویز اِلٰہی نے مشتبہ حملہ آور کا ویڈیو لیک کرنے پر پولیس عہدیداروں کو معطل کردیا۔ اے آر وائی نیوز نے یہ اطلاع دی۔ چودھری پرویز الٰہی نے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کو حکم دیا کہ خاطی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

متعلقہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او اور دیگر عہدیداروں کو معطل کردیا گیا۔ چیف منسٹر نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس اسٹیشن کے عملہ کے تمام موبائل فون ضبط کرلئے جائیں اور انہیں فارنسک آڈٹ کے لئے بھیج دیا جائے۔

لاہور کے شوکت خانم ہاسپٹل میں عمران خان کی سرجری ہوئی اور ان کی حالت اب مستحکم بتائی جاتی ہے۔ اسی دوران 70 سالہ قائد کی پارٹی نے کہا کہ وہ حکومت کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چودھری نے الزام عائد کیا کہ کل کا حملہ منصوبہ بند تھا جس میں عمران خان بال بال بچ گئے۔ یہ 9 ایم ایم کا حملہ نہیں تھا بلکہ آٹومیٹک ہتھیار سے برسٹ مارا گیا تھا۔ اس تعلق سے کوئی دورائے نہیں کہ عمران خان بال بال بچے۔

انہیں ذریعہ سڑک کل ان کے اپنے دواخانہ شوکت خانم ہاسپٹل لے جایا گیا۔ عمران خان نے 28 اکتوبر کو لاہور کے لبرٹی چوک سے لانگ مارچ شروع کیا تھا جو 4 نومبر کو اسلام آباد پہنچنے والا تھا لیکن مارچ کی رفتار سست رہی۔ اب توقع ہے کہ وہ 11 نومبر کو اسلام آباد پہنچے گا۔

حکومت نے تاحال پی ٹی آئی کو دارالحکومت میں ریالی کی اجازت نہیں دی ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس معاملہ میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ اسی دوران پنجاب پولیس نے مزید 2 مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے حملہ آور نوید محمد بشیر کو 20 ہزار پاکستانی روپے میں پستول اور گولیاں (کارتوس) فروخت کئے تھے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ وقاص اور ساجد بٹ نے بشیر کو 20 ہزار روپے میں پستول اور کارتوس بیچے تھے۔ اس پستول کا نہ تو کوئی نمبر ہے اور نہ ہی لائسنس۔ جیو ٹی وی نے یہ اطلاع دی۔ انہیں وزیر آباد سے گرفتار کیا گیا۔