طنز و مزاحمضامین

’اپنی اِس عادت پہ ہی اک روز مارے جائیں گے ‘

حمید عادل

انٹر نیٹ اور موبائل فونس کی بدولت دنیا دیکھتے ہی دیکھتے گلوبل ولیج بن گئی توکسی سل فون کمپنی نے نعرہ لگادیا ’’ کرلو دنیا مٹھی میں ‘‘ ہم نے دنیا تو مٹھی میں کرلی لیکن قریبی رشتے اسی مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتے نظر آرہے ہیں … ہم سوشیل میڈیا کے ایسے دیوانے ہوچکے ہیں کہ ہمیںدور دراز کے غیروں کی تو بڑی فکر رہتی ہے، لیکن آس پاس کے اپنوںکی کوئی فکر نہیں ہوتی…
موبائل فون ایک چھوٹا سا آلہ ہے لیکن اس’’ چھوٹے بھیم‘‘ نے بڑی بڑی چیزوں کو نگل لیا ہے ، اس نے دستی گھڑی کھالی تو کیمرہ اچک لیا، ٹارچ نگل لی توکیلنڈر ہضم کر گیا، ٹیپ ریکارڈ اور وی سی آر کا کام بھی یہ خود ہی کرتا ہے … یہ موبائل ہی ہے جو چلتا پھرتا بینک تک بن چکا ہے …آج ڈیجیٹل پے منٹ عام آدمی کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے …فروری 2023 میں ہندوستان کی خوردہ ڈیجیٹل ادائیگیوں کے کل لین دین کے حجم میں UPI کا حصہ 75% سے زیادہ تھا۔ مالی سال 2023-24 کی پہلی سہ ماہی میں، لین دین کا حجم 24.9 بلین تک پہنچ گیا اور لین دین کی قیمت INR 39.7 ٹریلین تک پہنچ گئی…آن لائن شاپنگ،آن لائن شادی پر ہی کیا منحصر ہے آن لائن دوستی اور آن لائن عاشقی نے بھی خاصی دھوم مچا رکھی ہے …معروف شاعر خالد عرفان نے خوب نقشہ کھینچا ہے …
نیٹ ایجاد ہوا ہجر کے ماروں کے لیے
سرچ انجن ہے بڑی چیز کنواروں کے لیے
جس کو صدمہ شب تنہائی کے ایام کا ہے
ایسے عاشق کے لیے نیٹ بہت کام کا ہے
نیٹ فرہاد کو شیریں سے ملا دیتا ہے
عشق انسان کو گوگل پہ بٹھا دیتا ہے
یہ موبائل کسی عاشق نے بنایا ہوگا
اس کو محبوب کے ابا نے ستایا ہوگا
ٹیکسٹ جب عاشق برقی کا اٹک جاتا ہے
طالب شوق تو سولی پہ لٹک جاتا ہے
آن لائن ترے عاشق کا یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
آن لائن عاشق کے بعد آپ کو یہ جان کر یقینا حیرت ہوگی کہ اب آن لائن بھکاری بھی سامنے آگئے ہیں…اور ایسا اس لیے ہوا ہے کیوں کہ میاں رائچوری جیسے لوگ ’’ چلر نہیں ہے ‘‘ کا نعرہ مار کر خیرات سے اپنا دامن بچا لیتے ہیں … آپ نے کنجوسوں کی خیرات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ صرف اتنا سنا ہوگا کہ وہ اندھے بھکاریوں کی ہتھیلی میں ایک روپیہ کا سکہ رکھ کربڑی ڈھٹائی سے پانچ کا سکہ اڑا لیتے ہیں لیکن میاں رائچوری کا تو انداز ہی نرالا ہے وہ خیرات کی شکل میں کھوٹا سکہ یا پھٹی پرانی نوٹ دیتے ہیں یا پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ دینے کے انداز میں بنا کچھ دیے بھکاری کی جھولی میں موجود نقد رقم اٹھا لیتے ہیں…
دوسری جانب اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بیشتربھکاری اس قدرڈھیٹ ہوتے ہیں کہ وہ اس وقت تک آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک کہ آپ انہیں کچھ دے نہیں دیتے،شاید خیرات کا نہ ملنا وہ اپنی توہین سمجھا کرتے ہیں۔ چمن بیگ مہدی پٹنم پر کھڑے تھے کہ انہیں ایک ڈھیٹ بھکاری نے گھیر لیا اور خیرات کے لیے تنگ کرنے لگا…اتفاق سے ان کے پاس بس کے کرائے کے سواکچھ اور نہ تھا۔چمن بیگ نے نہایت انکساری سے کہا: معاف کرو بابا… لیکن بابا چمن کومعاف کرنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھے…اگرچمن بیگ چلرکا عذر پیش کرتے تو بھکاری کہتا :میں دوں گا آپ کو چلر،لائیے کتنے کا نوٹ ہے؟ …اگر چمن بیگ کہتے کہ آج تو جمعرات نہیں ہے ،پھر تم کیوں بھیک مانگتے پھررہے ہو؟ تو بھکاری جواب دیتا: واہ صاحب !آپ تو ہر روز تین وقت خوب ڈٹ کر کھائیں اور ہم صرف جمعرات ہی کوکھائیں ؟…بلآخر چمن نے زچ ہوکر بس کا جوکرایہ جیب میں پڑا تھا، بھکاری کے حوالے کردیا اور خودپیدل گھرکی راہ لی!
خیر! بات آن لائن بھکاریوں کی ہورہی تھی… جی ہاں! آن لائن رہنا اب بھکاریوں نے بھی سیکھ لیا ہے، واٹس ایپ پر رابطہ رکھنا ان کو بھی آگیاہے، یعنی کہا جاسکتا ہے کہ اب بھکاری بھی اسمارٹ ہوچکے ہیں، جو سوشل کنیکٹیوٹی کا خوب فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔ خبر ہے کہ ایک بھکاری نے اتنے پیسے جمع کیے کہ وہ اسمارٹ فون خریدسکے…اب اس کے پاس اسمارٹ فون بھی ہے، فیس بک اکاؤنٹ بھی ہے اور واٹس ایپ کی سہولت بھی دستیاب ہے،چونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے سب سے رابطہ میں رہتا ہے،چنانچہ جہاں رش ہوتا ہے ساتھیوں کو فوری بلا لیتا ہے…وہ کچھ زیادہ ٹائپ نہیں کرتا ،محض لوکیشن اپنے ساتھی بھکاریوں کو Sendکردیتا ہے …یہ بھکاری کوئی اور نہیں بہار کا راجو پرساد ہے، جو اب ڈیجیٹل ٹرانسفر کے ذریعے بھیک مانگ کر ’’ راجو بن گیا جنٹلمین‘‘ کی حقیقی تصویربن چکاہے،وہ اپنے گلے میں ’’ کیوآرکوڈ ‘‘ڈالے ریلوے اسٹیشن پرگھومتا ہے، وہ گوگل پر فون پے اور پے ٹی ایم جیسے ای والٹس کے ذریعے بھیک جمع کرتا ہے اور روزانہ ایک معقول رقم کما لیتا ہے۔ جب راجوسے اس نئے انداز میں بھیک مانگنے کے آئیڈیا کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ چلر نہ ہونے کی وجہ سے اسے بھیک نہیں مل رہی تھی اور وہ بھوکا سونے پر مجبور ہوگیاتھا، آن لائن بھیک نے اس کو جینے کی ایک نئی راہ دکھائی ہے۔اب اسے وقت پر کھانا مل رہا ہے اور وہ ریلوے پلیٹ فارم پر سکون کی نیند سورہا ہے…
راجو سینہ تان کر ریل مسافرین کے روبروکھڑا ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس کے گلے میں لٹک رہے کیو آرکوڈ کو اسکین کرکے اس کے اکاونٹ میں رقم ٹرانسفر کرسکیں …جب جب رقم اس کے اکاونٹ میں ٹرانسفر ہوتی ہے ، راجو کسی خوشحال شہزادے کی طرح ہنستا مسکراتا ہے …دوسری طرف مسافر اس سے مل کر حیران ہوجاتے ہیں، کچھ تو یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ ’’ ظالم نے کیا کمال کا آئیڈیا ڈھونڈ نکالا ہے ،اس کے سامنے توکیش نہ ہونے کا بہانہ اکشے کمار اور کنگنا رناوت کی فلموں کی طرح فلاپ ہوجاتا ہے ۔‘‘ جب کہ بیروزگاررشک بھری نگاہوں سے راجو کو گھورتے ہوں گے…
دوستو!ایسی اطلاعات ہیں کہ ڈیجیٹل پے منٹ مرد حضرات کی بہ نسبت خواتین زیادہ کرتی ہیں، کیوں کہ وہ اس کو آسان اور محفوظ طریقہ سمجھتی ہیں… کورونا وائرس نے نہ صرف حضرت انسان کو موت کی سمت ڈھکیلا بلکہ اس نے ڈیجیٹل پے منٹ کا نفسیاتی مریض بھی بنا ڈالا … مشکوک حیدرآبادی تو کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل پے منٹ کو فروغ دینے کے لیے ہی کوروناوارد ہوا تھا …کورونا بحران کے دوران گھر میں استعمال ہونے والا روز مرہ کا سامان، میک اپ کا سامان، کھانے پینے کی چیزیں سمیت اور کئی اشیاء کو اپنے گھر تک منگوانے کے لئے خواتین ای کامرس پر زیادہ انحصار کرنے لگیں۔ آن لائن شاپنگ کئی دہائیوں سے کی جا رہی ہے لیکن حالیہ دنوں میں بہت عام ہوگئی ہے۔ آج تقریباً 30 فیصد کمپنیاں آن لائن کاروبار کر رہی ہیں … جس طرح آنکھوں سے سرمہ چرایا جاتا ہے ، ویسے ہی عام آدمی کی جیب سے وہ پیسہ اڑا رہی ہیں … چونکہ جیب سے پیسہ جاتا ہوا نظرنہیں آتا،ہم جوش میں آکر غیر ضروری اشیا کی خریداری بھی کر بیٹھتے ہیں … مزے کی بات یہ ہے کہ اپنی غلطی کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ بینک اکاونٹ سے رقم منہا نہیں ہوجاتی …اس وقت ہم سوچتے ہیں’’ کاش! میں نے فلاں چیزکا آرڈر نہ دیا ہوتا…‘‘لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت…
پھول بانو جو کبھی بازار میںگھوم پھر کر شاپنگ کیا کرتی تھیں،فی الحال آن لائن شاپنگ کے مزے لوٹ رہی ہیں… روز مرہ کے اخراجات کو بھی آن لائن شاپنگ میں جھونک کر غیر ضروری چیزوں سے گھر بھر رہی ہیں … ٹوکا جائے تو جواب ملتا ہے ’’ میں کیا کررہی ہوں؟ گھرہی کو لگا رہی ہوں ۔‘‘
پھول بانو ڈیجیٹل پے منٹ کا کثرت سے استعمال ریوارڈس جیسے کیش بیک اور پراموشنل آفر س کی لالچ میں کرتی ہیں …انہیں کتنے ریوارڈس ملے ہم نہیں جانتے لیکن کثرت سے آن لائن شاپنگ کے صلے میں انہیں ایک نہ ایک دن کوئی نہ کوئی کمپنی ایوارڈ ضرور دے سکتی ہے ۔ آن لائن پے منٹ کی خرابیاں گنوائی جائیں تو پھول بانو خوبیوں کی ایک طویل فہرست ہمارے روبرو پیش کرتی ہیں اور پھر اترا کر کہتی ہیں ’’ ٹرین سے سفر کے لیے بکنگ کاؤنٹر سے ٹکٹ نکالنا ایک مشکل کام ہوا کرتا ہے، جب کہ آن لائن ٹکٹ بک کرنے میں غیر معمولی آسانی ہوتی ہے اور وقت بھی بچ جاتا ہے، دوسرا بڑا فائدہ وہ یہ بتاتی ہیں کہ بازار سے سبزیاں یا دیگر اشیا خریدتے وقت ڈیجیٹل پے منٹ کرنا بے حد آسان ہوتا ہے کیوںکہ ریزگاری کے لیے دکاندار سے بحث نہیں کرنی پڑتی…ورنہ یہ ہوتا کہ دکاندار کوئی نہ کوئی چاکلیٹ یا پھر بسکٹ کا پیاکٹ مطلوبہ پیسوں کے عوض زبردستی تھمادیتا اور مجھے بادل نخواستہ اسے قبول کرنا ہی پڑتا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا …‘‘
پھول بانو خوبیاں گنوانے پر اترآتی ہیں اور ہم چاہ کر بھی آن لائن پے منٹ کی خامیوں کوان کے روبرو پیش نہیں کرپاتے ہیں …اب انہیں یہ کون سمجھائے کہ آن لائن فراڈ کا ہر کیس پولیس میں درج نہیں ہوتا لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ دنیا میں کتنے لوگ روزانہ اس فراڈ کا شکار ہو جاتے ہیں۔آن لائن فراڈ ایک حقیقت ہے جو پوری دنیا کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر رہا ہے…ایک کہنہ مشق خاتون ہیکرکا کہنا ہے کہ’میں آپ کی رقم اور سارا ڈیٹا پانچ سے دس منٹ کے اندر چوری کرسکتی ہوں۔‘‘خاتون ہیکر یہ بھی کہتی ہیں کہ ’’میں بے شک آپ کو معصوم نظر آؤں لیکن پلک جھپکتے میں آپ کا پیسہ چوری کر لوں گی۔‘‘‘
حالیہ دنوں میں آن لائن پے منٹ سے متعلق ایسے اکا دکا واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں کہ کسی گاہک نے کوئی چیزخرید کر یا ہوٹل میں کھا پی کر کاؤنٹر پربیٹھے شخص کو موبائل دکھا بھی دیا کہ دیکھو ! میں نے آن لائن پے منٹ کردیا ہے،کاؤنٹر پر بیٹھا شخص اس ادائیگی سے مطمئن ہوگیا تو گاہک چلتا بنا لیکن رقم ہوٹل کے اکاونٹ میں نہیں آئی …ان واقعات سے واقف دکانداروں سے جب کہا جاتا ہے کہ پے منٹ آن لائن کردوں گا تو وہ ایسے بدکتے ہیں جیسے کچھ لڑکے، لڑکی کے منہ سے’’ بھائی‘‘ سن کر بدکتے ہیں کہ اس بیچاری نے اپنے جہیز کی ساری ذمہ داری ان کے کندھوں پہ ڈال دی ہو….
احتیاط علی محتاط کا کہنا ہے’’ لین دین وہی اچھا جو ’’کیا خوب سودا نقد ہے ،اِس ہاتھ لے ، اُس ہاتھ دے‘‘…ہم آئے دن آن لائن پے منٹ میں پائی جانے والی دھاندلیوں سے متعلق سنتے ہیں تو ہمیں معروف شاعر وسیم بریلوی کا مصرعہ یاد آتا ہے ’’اپنی اس عادت پہ ہی اک روز مارے جائیں گے‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰