ایک نومسلم کے سچے اور والہانہ جذبات کی داستان
حج کی ادائی کی تمنا ہر مسلمان کا جزوِایمان ہے۔ کوئی بھی فرد خواہ وہ پیدایشی مسلمان ہو یا نومسلم، آرزو اس کی بہرحال یہی ہوتی ہے کہ اپنے فریضہ حج کی ادائی وہ جلد از جلد کرلے۔ تاہم ایک برطانوی نومسلم ’’ڈیوڈکیل‘‘ کی کہانی اس ضمن میں بالکل ہی منفرد ہے۔
حج کی ادائی کی تمنا ہر مسلمان کا جزوِایمان ہے۔ کوئی بھی فرد خواہ وہ پیدایشی مسلمان ہو یا نومسلم، آرزو اس کی بہرحال یہی ہوتی ہے کہ اپنے فریضہ حج کی ادائی وہ جلد از جلد کرلے۔ تاہم ایک برطانوی نومسلم ’’ڈیوڈکیل‘‘ کی کہانی اس ضمن میں بالکل ہی منفرد ہے۔ اس نے ۱۹۳۵ء میں عیسائیت کو ترک کرکے اسلام قبول کیا اور اپنا نام عبدالرحمن رکھ لیا تھا۔ عبدالرحمن نے فیصلہ کیا کہ اسے فوری طور پر حج کرلینا چاہیے۔ ابھی مذہب تبدیل کیے ہوئے محض ۶ ہفتے ہی گزرے تھے کہ اس نے اپنی بیوی ’’منیرہ‘‘ (پیدایشی ملائیشیائی مسلم خاتون) کے ساتھ ’’سراوک‘‘ ملائیشیا سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ سراوک راجہ کے دربار میں ملازمت کے دوران عبدالرحمن کو اپنے ہم پیشہ دیگر ملائیشیائی مسلم ساتھیوں کے ساتھ وقت گزارنے کا خاصا موقع ملتا تھا جس کے نتیجے میں قدرتی طور پر اسے اسلام کے بارے میں بھی واقفیت حاصل ہوتی رہتی تھی۔
کچھ عرصے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اس کے مسلم دوستوں میں کچھ ایسی انفرادی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو عام طور پر دیگر مذاہب کے لوگوں میں موجود نہیں ہوتیں۔ مثلاً وہ دیکھتا تھا کہ اس کے ملائیشیائی مسلم دوست بڑوں کا احترام و ادب کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں۔ ان کے اندر غریبوں کی امداد کا جذبہ بھی وافر ہے۔ ان کے اندر قوتِ برداشت بھی بہت ہے۔ اخلاقیات کے معاملے میں بھی وہ بلند نظر آتے ہیں اور زندگی و موت کے حقائق کے آگے وہ مکمل سر جھکا دینے کی عادت رکھتے ہیں۔ نیز وہ دیکھتا تھا کہ خدائے واحد اور اعلیٰ اخلاقی قدروں پر بھی ان کا اعتقاد غیر متزلزل ہے اور کیسی ہی مصیبت اور پریشانی کیوں نہ آجائے، اس کے دوست ہر لحاظ سے پرسکون رہتے ہیں کیونکہ ہر خوشی و غم کو وہ منجانب خدا سمجھتے ہیں۔ یہی وہ ممتاز صفات تھیں جن کے باعث اسلام اسے دیگر مذاہب کی نسبت کچھ نمایاں سا محسوس ہونے لگا تھا۔ اگرچہ ابتدا میں وہ کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا تھا، تاہم نفس و شعور کی ایک طویل کشمکش کے بعد بالآخر اس نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ اس نے ملازمت سے استعفا دیا اور کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔
اب اس نے تہیہ کیا کہ اپنی مسلم بیوی کے ساتھ حج کے لیے ضرور جائے گا۔ اس ضمن میں معلومات حاصل کرتے ہوئے اسے یہ سن کر کچھ صدمہ سا ہوا کہ حج کرنا بہرحال کوئی اتنا آسان کام بھی نہیں۔ لاتعداد رکاوٹیں ہیں جو اس کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں لیکن اس نے تہیہ کیا کہ حج کے راستے کی ہر رکاوٹ وہ لازماً عبور کرکے رہے گا۔
چنانچہ حجاز کے ویزے کے لیے اس نے سنگاپور سے درخواست دائر کی۔ (اس دور میں ملایا اور سنگاپور ایک ہی ملک تھے) لیکن اسے وہاں سے ویزا نہ مل سکا۔
تب یہ دونوں میاں بیوی عبدالرحمان کے آبائی شہر لندن چلے گئے تاکہ وہاں کے سعودی دفاتر سے مطلوبہ ویزا حاصل کر سکیں۔ تاہم عبدالرحمن کو یہاں بھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسے بتایا گیا کہ سعودی قوانین کے تحت اسلام قبول کر لینے کے کہیں ۶ سال بعد ہی جا کر کسی غیر مسلم کو حج کا اجازت نامہ دیا جاتا ہے۔ (اس دور میں سعودی عرب کا قانون یہی تھا)۔ جبکہ اسلام قبول کیے ہوئے اسے ابھی صرف ۶ ہفتے ہی ہوئے تھے۔ سعودی افسر نے انہیں بتایا کہ بہر حال انھیں جدہ کا ویزا جاری کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ بھی اس شرط پر کہ وہ وہاں ۶ سال کا طویل عرصہ گذارے۔یعنی جدہ سے مکے و مدینے جانے کا خیال وہ فوراً دل میں نہ لائے۔ عبدالرحمن نے افسران پر واضح کیا کہ سراوک ملائیشیا سے اپنی بیوی کے ہمراہ وہ محض حج کی ادائی کی خاطر ہی لندن پہنچا ہے۔ جب افسروں پر واضح ہوا کہ اس کے ساتھ اس کی پیدائشی مسلم خاتون (بیوی) بھی ہے تو انھوںنے اس کی بیوی کے لیے حج ویزا جاری کرنے کی منظوری دے دی۔ پیشکش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عبدالرحمن نے کہا کہ عورت ہونے کے باعث اس کی بیوی سفر اور فرائض حج کی ادائی تنہا نہیں کر سکتی۔ ’’ہمیں تمھاری مشکلات کا اندازہ ہے،اسی لیے ہم تمھیں جدہ کا ویزہ جاری کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جدہ پہنچ کر یہ تمھاری ذمے داری ہو گی کہ شہر کے حکام کو اپنی مشکلات اور شوق کے بارے میں آگاہ کرو، اور بتاؤ کہ تنہا تمھاری بیوی حج کی ادائی نہیں کر سکے گی‘‘۔ افسران نے اسے آگاہ کیا۔
عبدالرحمن نے انگریزی محاورے کے تحت سوچا کہ ’’جب تک خدا کسی کوجوتے عطا نہ کر دے، اسے اس وقت تک بہر حال چپلوں پر گذارنا کرنا چاہیے‘‘۔ عبدالرحمن کے نزدیک جدہ کا ویزہ حاصل کرنا اس بات سے بہت بہتر تھا کہ اسے سرے سے سعودیہ کا ویزہ ہی نہ ملے۔ چنانچہ ویزا حاصل کرتے ہی اسے جلد از جلد جدہ پہنچ جانے کی فکر لاحق ہو گئی۔ ادھر حج کی تاریخیں قریب تر آتی جا رہی تھیں۔ عبدالرحمن کو اندازہ نہیں تھا کہ جدہ کے حکام اسے اپنی بیوی کے ہمراہ حجاز جانے کی اجازت آخر کب تک دے سکیں گے۔ چنانچہ اب اس نے ایک کوشش اور کی اور وقت ضائع کیے بغیر لندن سے پیرس روانہ ہو گیا۔ وہاں سے بذریعہ ٹرین اسکندریہ(مصر) پہنچا۔ جیب میں جدہ کا ویزا موجود تھا۔ اسکندریہ میں اسے بتایا گیا کہ نہر سوئز کے راستے ایک مصری جہاز جدہ جانے کے لیے بالکل تیا ر کھڑا ہے۔
عبدالرحمن نے فوراً دوٹکٹیں خریدیں اور جہاز میں سوار ہو گیا۔ اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ سفرِ حج کے لیے جہاز میں مختلف النوع انسانوں کا ہجوم ہے جس میں ترک مسلمان بھی ہیں، شامی بھی، مراکشی بھی، اور ہندوستانی مسلمان بھی۔ پھر اسی ہجوم میں اسے ایسے بہادر افغانی مسلمان بھی ملے جو میلوں کا سفر طے کرتے اور چھوٹے بڑے پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے پیدل یہاں تک پہنچے تھے۔ نیز اس قدر طویل فاصلہ عبور کرتے ہوئے انھیں دو سال کا طویل عرصہ بھی گزر چکا تھا۔ حیرت سے اس کی آنکھیں کھلی رہ گئیں! جہاز پر ایک مؤذّن پنج وقتہ اذان دیتا تھا اور سارے لوگ باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔
آخر کار وہ دن آہی گیا جب مصری جہاز جدہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ میاں بیوی نے جدہ کے ایک بلندو بالا ہوٹل کی پانچویں منزل پر کرائے پر کمرہ حاصل کیا۔ چاول اور کھجور کا ناشتہ کرتے ہی وہ دونوں جدہ پولیس اسٹیشن کی طرف بھاگے جہاں(اس وقت کے) دستور کے مطابق ان کے ’جوازات السفر‘ (پاسپورٹس) کی چھان بین کی جانی تھی۔ چند ضروری سوالات و جوابات کے بعد عبد الرحمن کو بتایا گیا کہ ان کے کاغذات پہلے پولیس کے سربراہ کو بھیجے جائیں گے جہاں سے پھر وہ انھیں امیر جدہ کے پاس روانہ کرے گا۔ تسلی کے بعد امیر جدہ ان کاغذات کو آگے امیر مکہ کو ارسال کر دیںگے تاکہ دونوںمیاں بیوی کے مکہ میں داخلے کی اجازت حاصل کی جا سکے۔
’’اس سارے عمل میں آپ کو کتنا عرصہ درکار ہو گا؟‘‘ عبدالرحمن نے سوال کیا لیکن پولیس حکام نے جواب میںمحض اپنے کندھے اچکادینے پر ہی اکتفا کیا جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اس سوال کا جواب انھیں بھی معلوم نہیں ہے۔ اسی دوران عبدالرحمن نے وہاں ایک مخلص عرب محمدصالح کی خدمات حاصل کیں اور اپنی اہلیہ کے ہمراہ واپس ہوٹل چلا آیا۔ محمد صالح نے اسے بتایا تھا کہ اس معاملے میں وہ مکہ میں موجود اپنے والد ’’القحطان‘‘ کا اثر رسوخ استعمال کرکے اس کی ادائی حج کو ہر حال میں ممکن بنانے کی کوشش کرے گا۔ ادھر جدہ میں رہتے ہوئے عبدالرحمن نے اپنا ختنہ بھی کروالیا تھا تاکہ دین کی ایک اور ضروری سنت پر بھی عمل درآمد ہوجائے۔
دن تیزی کے ساتھ گزرتے چلے جا رہے تھے اور اس کی تشویش میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ کاغذات کے بارے میں اب تک کوئی اطلاع اس کے سامنے نہیں آ رہی تھی۔ ایک دن محمد صالح اسے لے کر براہِ راست امیرجدہ کے پاس پہنچ گیا جس نے عبدالرحمن کے جذبوں کی قدر کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے کاغذات مکہ کے حکام کے پاس بھیج دیے گئے ہیں، تاہم کاغذات کی واپسی تک اسے بہرحال انتظار کرنا ہی ہوگا۔ امیرجدہ نے البتہ یہ یقین دہانی اسے ضرور کرا دی کہ اس معاملے میں وہ ان تک اپنی سفارش لازماً پہنچا دے گا۔
حج کے دن قریب تر چلے آ رہے تھے اور جدہ عازمین حج سے خالی ہوتا جا رہا تھا۔ مختلف گاڑیاں حاجیوں کو لے لے کر مکہ کی جانب روانہ ہو رہی تھیں۔ اسی دوران ایک دن صالح محمد اچانک خوشی خوشی اس کے پاس آیا اور خوشخبری دی کہ شاہِ سعودیہ نے کاغذات میں اس کے مسلمان ہونے کی ذاتی تصدیق بھی کر دی ہے۔ یہ خوش خبری اپنی جگہ لیکن ان دونوں میاں بیوی کے مکہ میں داخلے کی اجازت تاحال معلق تھی۔ اب اسے عبدالرحمن کی خوش قسمتی ہی کہنا چاہیے کہ انہی دنوں شاہِ سعودیہ اتفاقاً جدہ آ رہے تھے۔ محمد صالح نے اسے بتایا کہ بادشاہ سے صرف ایک ملاقات ہی اس کے سارے مسئلے حل کر دے گی! چنانچہ محمد صالح کی جدوجہد کے نتیجے میں ایک دن اس کی ملاقات بادشاہ کے ساتھ بالآخر کروا ہی دی گئی۔
’’بات یہ ہے۔‘‘ شاہِ سعودیہ اس سے گویا ہوئے۔ ’’شہرمکہ کو مشرکوں اور کافروں سے محفوظ رکھنے کی خاطر ہی ہم نے قانون بنایا ہے کہ جب تک کسی نو مسلم کو اسلام قبول کیے ہوئے ۶ سال کا عرصہ نہ گزر جائے اور یہ عرصہ بھی ہمارے حکام کے سامنے اس نے جدہ میں گزارا ہو، اس وقت تک اسے حج و عمرہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘ شاہ نے مزید کہا ’’لہٰذا جب تک میں اپنے مشیروں سے مشورہ نہ کرلوں، تمہارے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں دے سکتا، البتہ معاملہ جلد از جلد نمٹائے جانے کا وعدہ ضرور کرتا ہوں۔‘‘
شہرجدہ اب حاجیوں سے تقریباً خالی ہوچکا تھا کیونکہ حج شروع ہونے میں محض دو دن باقی رہ گئے تھے۔ عین اسی لمحے عبدالرحمن کا دوست محمد صالح اس کے پاس دوڑا دوڑا آیا اور خوش خبری سنائی کہ بادشاہ نے اسے اپنی اہلیہ کے ہمراہ مکہ تک سفر کی اجازت بھی مرحمت فرما دی ہے جبکہ امیرجدہ نے حکامِ مکہ کو فون کرکے شاہ کے اس فیصلے سے آگاہ بھی کردیا ہے۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ عبدالرحمن اور منیرہ کو مکہ تک پہنچنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی۔ تاہم ایک بڑی رکاوٹ ان دونوں کا ابھی مزید انتظار کر رہی تھی اور وہ تھی ذریعہ سفر کے حصول کی۔
اگلے دن فجر کے وقت روانہ ہو جانے کے لیے وہ دونوں تیار بیٹھے تھے اور جدہ اور مکہ کے درمیان کم از کم فاصلہ بھی ۷۰ میل (۱۱۲ کلومیٹر) کا تھا۔ بروقت پہنچنے کی خاطر زائرین کے پاس اگرچہ کار ہی ذریعہ سفر تھی لیکن افسوسناک طور پر جدہ میں اس وقت کوئی ایک کار بھی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ہر دستیاب کار زائرین اپنے استعمال میں لے چکے تھے۔ عبدالرحمن سوچ میں پڑ گیا۔ ایک مشکل بڑی مشکل سے حل ہوتی تھی کہ کوئی دوسری مشکل ان کے سامنے آن کھڑی ہوتی تھی۔ مکہ کیسے پہنچا جائے؟ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ آخرکار اس نے ایک چھوٹا سا کھٹارا ٹرک کرائے پر حاصل کیا جس میں دونوں طرف لکڑی کی بنچیں نصب تھیں لیکن ایک مشکل یہاں بھی تھی کہ ڈرائیور کو صرف جدہ کی حدود میں ڈرائیونگ کی اجازت تھی۔ تاہم اس نے بھاگ دوڑ اور بہت منت سماجت کے بعد پولیس افسران سے بالآخر مکہ تک ڈرائیونگ کرنے کی خصوصی اجازت بھی حاصل کر ہی لی۔ چنانچہ اب میاں بیوی دونوں نے احرام باندھا، سوٹ کیس ٹرک پر لادے اور سوئے مکہ عازمِ سفر ہوگئے۔ ’’جو ہو گا دیکھا جائے گا۔‘‘ عبدالرحمن نے سوچا۔
اونچے نیچے پتھریلے راستوں پر ہچکولے کھاتے ہوئے ان کا ’’ٹرک‘‘ جیسے جیسے آگے بڑھتا جاتا تھا، لبیک لبیک کی صدائیں لگاتے ہوئے کئی قافلے انہیں پیدل بھی رواں دواں نظر آتے تھے۔ ہمدردی کے پیشِ نظر عبدالرحمن نے ان میں سے بعض کمزور اور بیمار زائرین کو اپنی گاڑی میں بٹھا لیا۔ جب وہ سب مکہ میں داخل ہوئے تو انہیں مسجد حرام کے مینار دور ہی سے دکھائی دینے لگے۔ ٹرک کو کسی مناسب مقام پر کھڑا کرکے وہ دونوں میاں بیوی چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزرتے مسجد حرام کی طرف بڑھنے لگے جو دنیا بھر کے زائرین سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ مکہ پہنچ کر عبدالرحمن نے پہلے القحطان کے گھر کا رخ کیا۔ القحطان نے ان کے لیے ایک معلم کا بندوبست کیا تاکہ حج کے سنن و فرائض ان کے لیے آسان ہوجائیں۔ میاں بیوی کے پاس ضائع کرنے کے لیے اب وقت بالکل نہیں بچا تھا۔ چنانچہ فوری طور پر وہ ان لوگوں میں جا شامل ہوئے جو خانہ کعبہ کے گرد طواف میں مصروف تھے۔
طواف کرتے ہوئے یہ جوڑا جب حجر اسود کو بوسہ دینے پہنچا تو حاجیوں کے ہجوم سے ان کا راستہ تنگ ہوگیا۔ تاہم کسی نہ کسی طرح انہوں نے حجراسود کو بوسہ دے ہی دیا۔ طواف کے بعد اب وہ دوسرے زائرین کے ساتھ منیٰ اور عرفات کی طرف روانہ ہوئے جہاں انہوں نے دیکھا کہ سفید لباس میں ملبوس زائرین اونٹوں، کاروں اور چھوٹے ٹرکوں پر سوار، نیز پاپیادہ بھی چاروں طرف سے امڈے چلے جا رہے ہیں۔ میدان عرفات اب چھوٹے چھوٹے خیموں کا ایک وسیع شہر نظر آرہا تھا۔ حاجیوں نے نمازِ فجر کے بعد ہی سے وہاں خیمے گاڑنے شروع کر دیے تھے۔
ظہر اور عصر کی مشترکہ جماعت ادا کرتے ہی حاجیوں کا ایک سمندر میدان میں آبسا، جو ہوا میں لہراتے ہوئے اپنے سفید احراموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مسلسل معافی مانگ رہے تھے۔ تاہم حادثاتی طور پر وہاں اچانک چاروں طرف سے سخت طوفانی ہوائوں کے تھپیڑے چلنے لگے جن کے باعث ریت کا مہیب گرد و غبار حاجیوں کے چاروں طرف پھیل گیا اور ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا۔ خوفناک آوازوں والی ان ہوائوں نے تمام خیمے الٹ پلٹ کے رکھ دیے۔ بانسوں اور خیموں کے بیک وقت گرنے کی آوازوں کے باعث صورتِ حال اور بھی پریشان کن ہو گئی تھی۔ وقفے وقفے سے یہ طوفان وہاں تین مرتبہ حملہ کرتا رہا تاآنکہ آخر طوفان بالکل تھم گیا اور ہر طرف دوبارہ سکون طاری ہوگیا۔
عرفات کے بعد حاجیوں کا یہ سمندر حج کے اگلے مرحلے کے لیے مزدلفہ کی جانب آگے بڑھنے لگا۔ عبدالرحمن یہ سارا عمل انتہائی حیرت اور خوشگواری کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ اس کی بیوی منیرہ اس سارے دورانیے میں بہت بہادر عورت ثابت ہوئی تھی کیونکہ عورت ہونے کے باوجود اس نے ہمت، سکون اور دانش مندی کا ثبوت دیا تھا۔ حج کے اختتام پر عبدالرحمن نے محسوس کرلیا تھا کہ اگر ایک طرف اس کا یہ سفر اپنے اختتام پر پہنچ رہا تھا تو دوسری طرف اس کی نئی زندگی کے لیے وہ آغازِ سفر بھی بن رہا تھا۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی محسوس کرلیا تھا کہ حج کی خاطر برداشت کی جانے والی اس کی اب تک کی تمام تکالیف، قربانیاں اور جدوجہد اس خوشی کے مقابلے میں بالکل ہیچ ثابت ہو رہی ہیں جو حج کے فریضے کی ادائی کے بعد اس نے اپنے قلب و روح میں محسوس کی ہے۔
پھر اس کا یہ کہنا بھی بالکل ٹھیک تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے شامل حال نہ ہوتی تو ناممکن تھا کہ اتنے مختصر ترین وقت میں وہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجودحج کا اہم فریضہ ادا کرسکتا۔ عبدالرحمن کے سفر حج کی یہ کہانی بظاہر یہاں ختم ہو تی ہے مگر اس نومسلم کا پختہ ایمان، جوش اور ولولہ دیکھ کر ہم پیدایشی مسلمانوں کا سرد اور کمزور جذبہ ایمان بہت کم تر دِکھائی دیتا ہے۔ کوئی نسبت ہو تو ضرور بتائیے گا۔
٭٭٭