طنز و مزاحمضامین

بات برسات کی…

برسات کی کئی قسمیں ہیں،برسات خوشیوں کی ہوتی ہے ،برسات دکھ، درد کی ہوتی ہے ۔ایک برسات دولت کی بھی ہوتی ہے اور جس پر دولت کی برسات ہوتی ہے ، سارا زمانہ اس کے ساتھ’’ بھیگنے‘‘ کی حسرت رکھتا ہے...کلیم کلبلا کہتے ہیں ’’’برسات اس لیے ہوتی ہے کیونکہ آسمان زیادہ دیر تک پانی کاوزن سنبھال نہیں سکتا ، آنسو اس لیے بہتے ہیں کیوںکہ دل زیادہ دیر تک درد نہیں سنبھال سکتا۔

حمید عادل

وہ دن گئے جب محکمہ موسمیات کی جانب سے اعلان کیا جاتا تھاکہ زور دار بارش ہوگی اور چلچلاتی دھوپ ان کے کہے کا مذاق اڑایاکرتی تھی…اب تو یہ عالم ہے کہ برسات محکمہ موسمیات کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دے رہی ہے …جولائی کے مہینے میں ہی اس قدر برسات ہوچکی ہے کہ چمن بیگ جو نشیبی علاقے کے مکین ہیں، بیچارے یہ نغمہ گنگناتے پھررہے ہیں ’’ جب جولائی ہو ایسا متوالاتو ستمبر کا عالم کیا ہوگا؟‘‘
موسم گرما کے بعد ہر کوئی موسم برسات کی پہلی بارش کا بے چینی سے انتظار کرتا ہے،ہمارا بھی ان ہی لوگوں میںشمار ہوتا ہے… اب یہ الگ بات ہے کہ برسات میں بھیگتے ہی ہمارا حلیہ کچھ اس طرح بدل جاتا بلکہ بگڑجاتاہے کہ ہمیں دوست احباب تو کجا ہم خود اپنے آپ کو پہچان نہیں پاتے ہیں۔ چنانچہ بھیگی ہوئی حالت میں ہم جب کبھی آئینہ دیکھتے ہیں تو اپنا ہی عکس دیکھ کر پوچھ بیٹھتے ہیں ’’ بھائی صاحب !ہم نے آپ کو پہچانا نہیں!‘‘قصہ مختصر یہ کہ برسات میں بھیگ کر ہم ’’ ہم‘‘ نہیں رہتے، بلکہ کچھ اور ہوجاتے ہیں….
کسی نے موسم برسات کی کیا خوب تعریف کی ہے ’’بارش کے موسم میں سورج کا بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا ،کبھی دھوپ کبھی چھاؤں، قوس و قزح کے رنگوں کا افق پہ بکھرنا کبھی نرم نرم بوندوں کا مٹی کو مہکانا تو کبھی موسلا دھار بارش کا دن رات برسنا،کبھی بادلوں کا گرجنا اور کبھی بجلی کا چمکنا۔بارش کا موسم کتنا حسین خوشگوار،دلکش اور سہانا ہوتا ہے جب ہر چیز نکھری،نکھری اوردھلی دھلی نظر آتی ہے اور سبزہ آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے۔ پتے بوٹے، پھول، شاخیں ہوا میں لہراتی ہوئی ٹھنڈک بکھیرتی ہیں۔ مٹی کی خوشبویں حواس پر چھا جاتی ہے۔ یہ وہ موسم ہے جب نہ چاہتے ہوئے بھی نیند کا غلبہ طاری ہو جاتا ہے اور دل بلاوجہ خوشی سے جھومنے لگتا ہے ٹپ ٹپ گرتی بوندیں ہلکی پھلکی موسیقی سے بھلی لگتی ہیں …
موسم برسات کے یہ وہ خوشگوار لمحات ہیں جو فی زمانہ گاؤں کے رہنے والوں کو ہی نصیب ہورہے ہیں ، ورنہ شہر میں جب بھی برسات ہوتی ہے تو عجب حال ہوجاتا ہے … ذرا سی بارش سے سڑکوں کا جھیل میں بدل جانا، معصوم راہ گیروں کا پھونک پھونک کر قدم رکھنا،ہمیشہ سب سے آگے نکل جانے کی تڑپ رکھنے والے کا بھی جان بوجھ کرپیچھے ہوجانا، تاکہ وہ چوکنا ہوجائے،دیکھ کر آگے والے کا مین ہول میں گرنا،آلودہ برساتی پانی سے دامن بچا بچا کر چلنا،دریں اثناقریب سے گزرتی کسی بے حس برق رفتارسواری کا غسل دے جانا، کہیں کسی مین ہول میں راہ گیر کا بہہ جاناتو کہیں کسی مین ہول کااچانک فوارہ بن جانا…ساون کا جم کر تباہی مچانا اور تباہی مچانے کے بعد حکومت کا ہوش میں آنا …ایسا تو شہر کی ہر برسات میں ہوتا ہے اور شاید ہوتا رہے گا…
انسانی زندگی میں بارش کی خاصی اہمیت ہے ، برسات میں ابھرتے مٹتے پانی کے بلبلوں کو دیکھ کر بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے ،یہ بنتے مٹتے بلبلے گویا ہمیں یہ پیام دیتے ہیںکہ تم بھی کسی پانی کے بلبلے سے کم نہیں، جس زندگی پر تم ناز کرتے ہو، وہ تو محض دھوکا ہے…
برسات کی کئی قسمیں ہیں،برسات خوشیوں کی ہوتی ہے ،برسات دکھ، درد کی ہوتی ہے ۔ایک برسات دولت کی بھی ہوتی ہے اور جس پر دولت کی برسات ہوتی ہے ، سارا زمانہ اس کے ساتھ’’ بھیگنے‘‘ کی حسرت رکھتا ہے…کلیم کلبلا کہتے ہیں ’’’برسات اس لیے ہوتی ہے کیونکہ آسمان زیادہ دیر تک پانی کاوزن سنبھال نہیں سکتا ، آنسو اس لیے بہتے ہیں کیوںکہ دل زیادہ دیر تک درد نہیں سنبھال سکتا۔
بارش ہمیں چپکے چپکے بے شمار پیامات دے جاتی ہے،ان پیامات میں سے سب سے بڑا پیام یہ ہوتا ہے کہ ’’ بوند بوند سے دریا بنتا ہے!‘‘اگر آدمی اس کہاوت کو اپنے اندر اتار لے تو پھر وہ اسراف سے یقین محفوظ رہے گا اور زندگی میں کبھی قلاش نہیں ہوگا۔آج لوگ جھوٹی شان و شوکت کی خاطر روپیہ ’’ پانی‘‘ کی طرح بہانے لگے ہیں لیکن یہی پانی(بارش کی بوندوں کی شکل میں) انسان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ’’ نادانو! دیکھو بوند بوند سے سارا شہر کیسے جھیل میں تبدیل ہوگیا ہے! تم بھی روپیہ روپیہ جوڑوگے تو لاکھوں بن جائیں گے!‘‘
ایک وقت تھا جب بچپن کا موسم برسات سے خاص تعلق ہوا کرتا تھا،جیسے ہی برسات ہوتی بچے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے کاغذ کی کشتیاں بنا بنا کر پانی میں چھوڑا کرتے تھے۔اگر ان کی کشتی پانی کی لہروں کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتی جاتی تو پھر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا اوراگر خدا نخواستہ ان کی کشتی کچھ دیر بہنے کے بعد ڈوب جاتی تووہ کسی قدر رنجیدہ ہوجاتے لیکن پھر سے ایک نئے جذبے کے ساتھ ایک اور کشتی بنا کر پانی میں چھوڑ دیا کرتے تھے اور جیسے جیسے کشتی آگے بڑھتی جاتی ویسے ویسے بچے اس کے ساتھ آگے بڑھتے جاتے ، چیختے چلاتے اور خوشیاں منایاکرتے تھے۔ آج بھی بارش ہوتی ہے ، آج بھی بچے پانی میں بھیگ کر خوش ہوتے ہیں لیکن آج وہ کاغذ کی کشتیاں نہیں رہیں حالانکہ آج کاغذ کی کوئی کمی نہیں ہے…لیکن کمی اس نازک سے احساس کی ہوگئی ہے جس کے بغیر ہم انسان نہ رہ کر مشین بنتے جارہے ہیں …
جب بھی برسات ہوتی ہے ہم اس برسات میں بچپن کی یادوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں،اس پس منظر میں کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے :
یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
موسم برسات کوپیار کرنے والے بے انتہا پسند کرتے ہیں اور پیار کرنے والوں سے زیادہ بالی ووڈ کے فلم ساز موسم برسات کو پسند کرتے ہیں ۔ وہ ہر فلم میں محترمہ ہیروئن صاحبہ کو کم از کم ایک بار جب تک بھیگا نہ لیں، انہیں چین نہیں پڑتا۔پیار کرنے والوں کا ذکر چھڑ گیا ہے تو ہمیں کسی عاشق کابے بحر شعریاد آرہا ہے :
تیری گلیوں میں نہ رکھیں گے قدم آج کے بعد
کیونکہ کیچڑ بہت ہوتاہے بارش کے بعد
موسم برسات سے کئی ایک لطیفے منسوب ہیں…
ایک شخص کی کار کے پیچھے لکھا تھا ’’ ساون کو آنے دو‘‘ اچانک ایک ٹرک نے اس کار کو ٹکر مار دی۔ ٹرک کے پیچھے لکھا تھا ’’آیا ساون جھوم کے!‘‘
سنا ہے کہ محکمہ ٔ موسمیات سے وابستہ ایک عاشق نے اپنی معشوقہ سے اپنے پیار کا کچھ اس طرح اظہار کیا:
’’تم میری زندگی میں سرما کی دھوپ ہو ، تمہارے بغیر زندگی کا مطلع ابر آلود ہے ، تم ہر دم میرے دل میں خوشیوں کی بارش کرتی ہو ۔ ‘‘
معشوقہ نے منہ بسور کر جواب دیا :یہ پیشکش ہے یا موسم کا حال؟
کہتے ہیں کہ عشق، ساون اور بادل کو بھی ہوتا ہے، اسی بات کو کسی نے شاعری میں کچھ اس طرح ڈھالا ہے:
ساون نے بھی کسی سے پیار کیا تھا
اس نے اسے بادل کا نام دیا تھا
روئے تھے دونوں ایک دوسرے کی جدائی میں
اور لوگوں نے اسے بارش کا نام دیا تھا
موسم برسات اور چھتری کا سر اور ٹوپی کا ساتھ ہوتا ہے ۔اچانک برسات شروع ہوجاتی ہے تو پھر گھر آیا مہمان اپنے ساتھ میزبان کی چھتری بھی لے جاتا ہے اوراسے موسم برسات کے ختم ہونے تک لوٹانا بھول جاتا ہے ۔موسم برسات میں چھتری کے علاوہ مینڈک بھی خوب دکھائی دیتے ہیں ۔ایک دوست، دوسرے دوست کو مفت کے مشورے سے کچھ اس طرح نواز رہا ہے:
کیا موسم آیا ہے
ہر طرف پانی ہی پانی لایاہے
ایک جادو سا چھایا ہے
آپ گھر سے باہر مت نکلنا
ورنہ لوگ کہیں گے
برسات ہوئی نہیں اور مینڈک نکل آیا ہے
مینڈک والی بات کو کوئی اور کچھ اس طرح پیش کررہا ہے :
آج تو بہت خوش ہوں گے آپ
کیونکہ بارش جو ہورہی ہے
اور بارش میں تو
سبھی مینڈک خوش ہوتے ہیں
برساتی مینڈک تو خواہ مخواہ بدنام ہیں،ایسے کئی ہیںجو بن برسات بھی باہر نکل آتے ہیں اور ٹرٹراتے ہیں… اس قبیل کے مینڈک سیاسی گلیاروں میں زیادہ پائے جاتے ہیں …
چارلی چپلن وہ معروف مزاحیہ فنکارہیں جنہوں نے دنیا کو یہ پیام دیا کہ زندگی زندہ دلی کا نام ہے ،یہ وہ مزاحیہ فنکار ہیں جوکل بھی لوگوںکو ہنسایا کرتے تھے اور آج بھی لوگوںکو ہنسا رہے ہیں ….اپنی مزاحیہ اداکاری سے لوگوں کا ہنسانے والا یہ عظیم فنکار بھی برسات کو بہت زیادہ پسند کیا کرتا تھا…وہ اسی موسم میں گھر سے باہرزیادہ نکلا کرتے تھے،اس بات کو نوٹ کرتے ہوئے لوگوں نے چارلی چپلن سے جب پوچھا کہ کیا بات ہے آپ برسات میں زیادہ سے زیادہ گھر کے باہر رہتے ہیں ؟چارلی چپلن نے جواب دیا ’’ مجھے بارش میں چلنا پسند ہے، کیونکہ اس طرح کوئی بھی میرے آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ ‘‘
آخر میں ہم آپ سب کے لیے بس یہی دعا کرتے ہیں کہ بارش کے پانی کا ہر قطرہ آپ کی مسکراہٹ بنے اورایسی بارش آپ کی زندگی میں بار بار آئے!
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w