محمد اسد اللہ
حقِ مغفرت کرے ، غالب عجب دوراندیش و آزادمرد تھاکہ ا پنے جیتے جی، موت کے بعد اپنے گھر سے نکلنے والی چیزوں کی تمام تر تفصیلات ایک ہی شعر میں پیش کردیں۔ کلام غالب کو گمراہ کن قرار دینے والوں کے لیے یہ سنہرا موقع ہے کہ دہ اس شعر کو انکم ٹیکس آفیسروں کو گمراہ کرنے کی سوچی سمجھی چال قرار دیں۔
البتہ غالب پر ریسرچ کرنے والا کوئی محقق یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ، غالب کسی پاو¿ علمی، پاو¿ فلمی اورنیم ادبی رسالہ کے ایڈیٹر بھی تونہیں تھے پھران کے پاس یہ تصویر بتاں اور حسینوں کے خطوط آخر آئے کہاں سے۔ مانا کہ دیوانِ غالب وارداتِ قلبی اورحسن و عشق کا اچھا خاصا فوٹواسٹوڈیو بلکہ آرٹ گیلری ہے لیکن جہاں تک غالب کے عہد کاتعلق ہے اپنا دل اور فوٹو گراف جیب میں لیے لیے پھرنے کا چلن عاشق و معشوق میں اس زمانہ میں عام نہیں ہوا تھا۔رہا معاملہ خطوط کا ، تو ہمیں امید ہے بیشتر خطوط جوابی ہوں گے، تعلق ان کا حسیناو¿ں سے ہوا تومنہ توڑ جواب کے زمرہے میں شامل ہوں گے، کیوں کہ مرزا غالب کو توخط لکھنے کا خبط سا تھا:
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہمارے ارمانوں کا جنازہ ہماری آنکھوں کے آگے سو بارکیوں نہ نکلے ، مگر قاعدہ یہی ہے کہ آدمی کا جنازہ مرنے کے بعدہی بڑی دھوم دھام سے نکالا جا تا ہے:
” چند تصویرِ بتاں چند حسینوں کے خطوط “ غالب کے ارمانوں کا جنازہ ہی تو ہے۔
یہ نا چیز غالب کا ہم نام ہونے کا قصور وار ہے اور سزا اس طرح بھگت رہا ہے جیسے سِندباد اپنے کاندھے پر ایک عدد بوڑھے کو اٹھائے پھرتا تھا ، جہاں ہمارا نام آیا، آخرمیں فوراً غالب ٹانک دیا۔ خداجانے لوگ اس طرح غالب کی روح کو شرمند کرنا چاہتے ہیں یا ہمیں روحانی اذیت پہنچانے کے درپے ہیں۔
ہمیں یا اُن تمام لوگوں کو جن کا نام محمد اسداللہ ہے لوگ غالب کا نام لیے بغیر بھی اس طرح پریشان کر تے ہیں کہ جہاں یہ نام لکھنا ہو یا پکارنا ہو فوراً اس کے آ گے ’خان‘ کا لاحقہ لگا دیتے ہیں ۔یہ پوچھے بغیر کہ آیا آ پ واقعی خان صاحب ہیں یا نہیں ،آ پ کو اپنے نام کے آ گے لفظ خان کے اضافے پر کوئی اعتراض تو نہیں؟یا آ پ اسے ان لطائف میں تو شمار نہیں کریں گے جو خانوں کے ساتھ مشہور ہیں ،یا خان نہ ہونے کے باوجود آ پ اپنے آ پ کو خان صاحب پکارے جانے پر ان ہی کی طرح بر ہم تو نہیں ہوں گے ۔ رہا ہمارا معاملہ ہم اپنے والد صاحب کی طرف سے نان خان ہیں اور شیخ کہلاتے ہیں لیکن والدہ کی طرف بہرحال پچھلی نسلوں میں خانوں کے خانوادے سے تعلق رہا ہے یعنی رگوں میں خان نسل کاخون جاری ہونے کے باوجود اس لفظ کے سہارے شیخی نہیں بگھارتے ،مگر غصے کا آ ناتو فطری ہے یا اس خون کی تاثیر ہے ۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ کوئی ہمیں خان کہہ دے تو ہم اپنے آ پ کو خان کے ساتھ وابستہ لطائف سے جوڑ کر دیکھتے ہیں مگر سرٹیفکیٹ کی رو سے ہم اپنے آ پ کو خان کیسے ثابت کر پائیں گے؟ اور اس پر کوئی پھبتی کس دے کہ جناب آ پ کب سے خان ہوگئے تو اس طنز کا کیا جواب دیں گے ؟۔ اس لیے لوگ ہمارا نام آتے ہیں کبھی پکڑ کر ہمیں خان بنا دیتے ہیں اور کبھی غالب جب کہ ہم نہ ا س طرف ہیں نہ اس طرف ۔ سیدھے سادے نام کی حفاظت بہر حال ایک بڑا مشکل مسئلہ ہے ۔
بہر حال ہمارا ادب سے تعلق ہے اور مرزا غالب کے دلدادہ ہیں۔ غالب کے نام میں شامل لفظ خان سے ہمیں کو ئی رغبت نہیں ، غالب جیسے ادبی کارنامے پیش کر نے سے معذورہیں ، تاہم سوچتے ہیں کہ کوئی کام تو اس جیسا کر جائیں۔پینے پلانے سے ازروئے شریعت عار ہے ۔ غالب جیسا کلام اور بے مثال خطوط پیش کرنے سے رہے ۔چونکہ یہ فقیر واقعتاً غالب نہیں ہے (جسے دوسروں کے نقشِ قدم پر چلنے سے خدا واسطے کا بیر تھا) لہٰذا لکیر پیٹنے میں اسے کوئی عار نہیں، ہماراپیروی غالب کا یہ نرالا انداز ملاحظہ فرمائیے۔
غالب نے جیتے جی بزبانِ شعریہ اعلان فرمادیا کہ مرنے کے بعد ان کے گھر سے کیا برآمد ہوگا۔ وہ شاعر تھے، اختصار سے کام لیا کچھ تو ان کی مفلسی تھی (اگرچہ کا غذاس وقت اس قدر مہنگانہ تھا) اور کچھ ضروریات ِشعری کا کہ دو مصرعوں پراکتفا کیا۔ ہم ٹھہرے نثرنگار اختصار سے دوستی کریں تو لکھیں کیا ؟ اسی انداز کی ایک فہرست قدرے تفصیل سے پیش کرتے ہیں۔
ہماری وفات حسرتِ آیات کے بعد جو سامان ہمارے گھر سے نکلے گا، اس میں سرِفہرست تو ہماری ذات ہے۔ یوں تو ہمارے گھر کے کباڑخانہ میں سیکڑوں نامراد چیزیں ہیں جنھیں ہم کچھ اس طرح سینت سنبھال کر رکھتے ہیں جیسے توبہ کرنے میں آنا کا نی کرنے والے گنہگار ،لذت گناہ کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں۔
سال میں ایک آدھ بار توان چیزوں کو ہم ارادہ سے باہرنکالتے ہی ہیں کہ کسی کباڑی کو دے آئیں، مگرخیال آتا ہے کہ انہیں نظرنہ لگے یہ اس قدر فالتو بھی نہیں کہ کباڑی کی نذر کریں۔ ہینگر لاکھ ٹوٹا ہوا ہے، مگر کپڑے لٹکانے کے نہ سہی کبھی اسٹو میں پھنسا ہوا واشر نکالنے ہی کے کام آئے گا۔پھٹی ہوئی شیروانی مشاعرہ پڑھنے یا ڈراما میں پہننے کے نہ سہی بچوں کو ڈرانے ہی کا کام دے گی۔
بگڑا ہوار یڈیو ہمارا قائم مقام ہو گیاہے تو کیا ہوا۔ کاریگروں نے اسے لاکھ تختہ مشق بنایا ، کم از کم ٹی وی کا تخت یعنی اسٹینڈ بن کر گھر کی کچھ رونق بڑھائے گا۔ اسی قبیل کی اور بھی بہت سی چیز یں تھیں جنہیں ہم نے نا کام حسرتوں کی طرح رکھ چھوڑا ہے۔
ہمارا خیال ہے (جس کا ہر بارا ز راہِ انکسار نا قص ہونا ضروری نہیں ہے) کہ اس دنیا کے کباڑخا نہ میں خدانے ہمیں بھی یہی سوچ کر رکھ چھوڑا ہے کہ مشاہیر عالم میں شمار نہ ہوئے تو کم از کم قصبہ گیر پیمانے پر تو نام کمائیں گے۔
دوسری چیز جو ہمارے بعد گھر سے نکلے گی مشاہیر ادب کی دو بیش بہا کتابیں ہیں جن پر مختلف لوگوں کے—— ناموں کے ساتھ ”انجمن سارقینِ ادب“ کے ٹھپّے لگے ہوئے ہیں۔ جب ہم پہلی مرتبہ لائبریری سے یہ کتا بیں اپنے نام پر ِاشو کرا کے لائے تھے تو اراکینِ لائبریری نے ہمارے اعلیٰ ادبی ذوق کو بہت سراہا تھا لیکن آئندہ دو برسوں میں جب وہ بار بار یادہانیاں کروانے کے باوجودہم سے کتابیں واپس لینے میں ناکام رہے تو ہماری بد ذوقی کو کوستے رہے۔
اس غم وغصہ کا نقطہ¿ عروج یہ تھا کہ ایک دن لائبریرین نے کتب خانہ کا بورڈ تک گھر بھجوانے کی پیش کش کی تھی، ہم نے قبول نہیں کیا اور لکھاکہ جو چندکتا بیں لائبریری میں بچی ہیں ان کا کیا ہوگا ؟ ممکن ہے کسی دن وہ طیش میں آکر بقیہ کتا بیں اور بورڈ بھی بھجوائیں۔ اس صورت میں ظاہر ہے ہمارے گھر سے ہمارے بعدایک کتب خانہ مع بورڈ نکل آئے۔
دیگراشیاءکے تذ کرہ سے پہلے ہم شیخ جی مرحوم کوکیوں نہ یاد کرلیں جن کے مرنے کے بعد گھر سے ایک عددغسل خانہ اور بیت الخلاءکے برآمد ہونے پر پڑوسیوں نے دانتوں تلے انگلی داب لی تھی کہ پہلے معلوم ہوتا تو اس سلسلہ میں بھی انہیں زحمت دیتے۔شیخ جی مرحوم زندگی بھر ایسے زبردست پڑوسیوں سے خود کو اور اپنے گھر کی چیزوں کو بچاتے رہے۔
ایک دن ان کے ایک پڑوسی ایک مریض کے لیے جوقبرمیں پاو¿ں لٹکائے پڑا تھا آبِ زم زم مانگنے آئے۔شیخ جی نے سوچا، روح کا پنچھی بدن میں پھڑ پھڑاتا ہو گا۔ آبِ زم زم کے بجائے، شربت روح افزا پیش کیا۔ پڑوسی نے قبول نہ کیا۔ (ممکن ہے مریض سے تنگ آچکا ہو ) چند دنوں بعد وہی پڑوسی شربتِ روح افزا کے مزے لوٹنے کی غرض سے شیخ جی کے گھر حاضر ہوا توانھوں نے اسے کھڑے کھڑے ایک گھونٹ آبِ زم زم پلا کر چلتا کر دیا۔
تیسری چیز جو ہمارے بعد گھر سے نکلنے کی توقع ہے وہ ایک عدد الکٹر ک پریس۔ اگر آپ پڑوسیوں میں ہونے والی چیزوں کے تبادلے سے واقف ہیں تو آپ یقینا ہمارے پڑوسیوں کی خوشیوں اور ہما رے غم میں برابرکے شریک ہوں گے۔
بہر حال الکٹرک پریس کا قصہ یہ ہے کہ محلہ بھر کے گھروں کی خدمت انجام دینے کے بعد جب یہ واپس آتی ہے تو ہفتہ کی آخری شام کو ہماری پیشانی اور کپڑوں کی سلوٹوں کو سراپا انتظار پاتی ہے۔ پریس کے آنے کے بعد ہم نجم±ن خالہ کا انتظار ضرور کرتے ہیں کیوں کہ وہ کب آئے گی یہ ان ہی کو معلوم ہوتا ہے۔ ہمیں ان سے یہ شکایت ہرگز نہیں کہ وہ پریس مانگ کرلے جاتی ہیں۔ چیزیں مانگ کرلے جانے کی انہیں عادت نہیں، جہاں کی چیز وہیں استعمال کرتی ہیں۔(بے چاری کے گھر بجلی جونہیں ہے۔) آئندہ صبح اس سے پہلے کہ ہم اپنا ظاہر درست کریں اور ماتھے پر پڑی شکنیں مٹا ڈالیں، پریس پھرایک ہفتہ کے لیے رخت ِسفر باندھ کر روانہ ہو جاتی ہے۔ یہ اس لحاظ سے اچھا ہے کہ ہم محنت سے بچ جاتے ہیں۔ یہ کام بھی دھوبی کو کرنا پڑتاہے۔ پڑوسیوں سے واقعی راحت ہے۔
یہی قصّہ ٹی وی کا بھی ہے۔ یہی ماجرا چھلنی کا ہے۔ اسی تجربے سے ہمارا مکسر بھی گزر رہا ہے۔ البتہ پریشر کو کرکو ذرا راحت میسّر آئی ہے۔ پڑوس کی ایک خاتون جو کوکر کے استعمال سے ناواقف تھیں،ایک مرتبہ کھچڑا پکانے کے لیے کوکر مانگ کر لے گئیں۔ اسٹو کی آنچ اور دل کھول کر، کھچڑا اور کوکر دونوں کو گلانا شروع کردیا اور کئی سیٹیوں تک گلاتی چلی گئیں۔ آخر ڈھکن زور دار آواز کے ساتھ اڑا ، کھچڑا چھت پر چپک گیا ، اہل ِخانہ مارے خوف کے چھت میں لگے شہتیروں سے لٹک گئے۔ اس واقعہ کے بعد کو کر کو منحوس خیال کر کے دوبارہ کسی نے مانگنے کی جرا¿ت نہ کی۔ آج بھی ہمارا کوکر سیٹیاں بجاتاہے اور کوئی پلٹ کر دیکھتا بھی نہیں۔
ان چیزوں کے آزادانہ استعمال نے ہمیں ایک دن مجبور کیا کہ ہم ذرا لمباہاتھ ماریں۔ ایک رات ہمارے گھر چوری ہوئی تو مذکورہ اشیاءکے علاوہ اور بھی وہ تمام چیزیں چوری ہوگئیں، جو پڑوسی بعد میں بھی مانگنے آتے رہے۔ پڑوسیوں نے ان کی راحت پر ڈاکہ ڈالنے والے چور کو ڈھونڈنے کی اپنی سی کوشش کی مگر بے سود، اب تک وہ چور گرفتار نہ ہوسکا۔ممکن ہے ہمارے مرنے کے بعد پکڑ اجائے تب وہ تمام چیزیں ہمارے گھر سے نکل آئیں گی۔ مگر اس وقت وہ چورنہ سزا بھگتنے کے قابل رہ پائے گا نہ ہی اپنی چیزوں کو چوری چھپے استعمال کرسکے گا۔