مضامین

بہو، بیٹی اور کام والی

زکریا سلطان۔ ریاض، سعودی عرب

کیا ہماری مائیں،نانیاں اور دادیاں اپنے گھروں( یعنی انکے سسرال)میں کام کاج نہیں کرتی تھیں، کیا ہم اور ہمارے والدین بغیر کسی کام کاج اور محنت مشقت کے یوں ہی بڑے ہوگئے؟ خواتین و حضرات! باوا آدم کے زمانہ سے خواتین کا اپنے سسرال میں (جو دراصل ان کا اپنا گھر ہوتا ہے)کام کاج کرنے کا سلسلہ چل رہا ہے ، اپنے گھر میں کام کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے، عورت جتنی سلیقہ مند اور محنتی ہوگی اتنی ہی کامیاب اور مقبول و معزز ہوگی۔ یہ شکایت آجکل عام ہوتی جارہی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ کیا ہماری بیٹی کام والی یا نوکرانی ہے؟ اس نامعقول سوال سے زندگیوں میں تلخیاں پیدا ہورہی ہیں،یہ سوال بہت نا مناسب، غلط اور بیمار ذہنیت کی علامت ہے ۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ واضح کرتا چلوں کہ لڑکی والوں سے گھوڑے جوڑے، لین دین اور بڑے شادی خانوں میں مہمانوں کے لیے طعام کا مطالبہ کرنا نہ صرف غیر شرعی ہے بلکہ غیر اخلاقی ،ظلم اور بے شرمی ہے۔حقیقی دیندار،اچھے خاندانی اور خوددار قسم کے لوگوں کا یہ طریقہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ رہی بات آنے والی بہو کی توبہو کواچھے اخلاق و اطوار سے سسرال والوں کا اس طرح دل جیت لینا چاہیے کہ اس کی خوش مزاجی ، سلیقہ ،سمجھداری اور محبت سے متاثر ہوکرسسرال والے اس سے اپنی بیٹی جیسا سلوک کرنے پر مجبور ہوجائیں، ایسی کئی خوش نصیب اور قابل تعریف لڑکیاں ہیں جنہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر سسرال میں رانی بن کر راج کرنے لگیں، وہ ایک قابل فخر ،محبت و احترام کے لائق بیوی اور بہترین مثالی بہو بن گئیں اور سسرال کو جنت بنادیا۔ان سب اعمال کی ادائیگی میںان لڑکیوں کے گھر والوں کی تعلیم و تربیت کا بھی کافی عمل دخل تھا اور خود لڑکی کی سمجھداری ، معاملہ فہمی اور صلاحیتیں بھی اس طرح کی کامیاب زندگی کا راز ہوتی ہیں۔ بات اگر اس کے برعکس ہوتو ظاہر ہے نتائج بھی الٹے ہی نکلیں گے اور زندگی جنت نہیں بلکہ جہنم کی مانند ہوگی(خود کی بھی اور سسرال والوں کی بھی) ۔ عورت کی خاموشی ، مضبوط قوت ِ برداشت ، نرم مزاجی، صبر و تحمل اور خوش مزاجی ایسی خصوصیات ہیں جو اس کی خامیوں، کمزوریوں اور عیوب کو چھپادیتی ہیں۔ اِک زمانہ تھا کہ شادیاں بڑی پختہ اور پائیدار ہوا کرتی تھیں، یہ رشتہ کبھی ٹوٹتا ہی نہیں تھا،اس لیے کہ لوگوں کے کردار بھی اعلیٰ ، مضبوط اور خوبصورت ہوا کرتے تھے، ان کی نیتیں صاف ہوا کرتی تھیں ان کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح بیٹھی رہتی تھی کہ میاں بیوی کارشتہ ایک ایسا پاک اور مقدس رشتہ ہوتا ہے جو شادی کے بعدکبھی ٹوٹتا ہی نہیں ، یہ رشتہ تو زندگی کی آخری سانس تک نبھانے کے لیے ہوتا ہے توڑنے کے لیے نہیں، پیارمحبت عفو و در گزر اور ایک دوسرے سے ہمدردی غمگساری، رازداری اور باہمی اعتماد کا اِک ایسا بے مثال رشتہ جس سے زیادہ قریبی کوئی دوسرا رشتہ ہو ہی نہیں سکتا،لیکن آج کل بچوں کی شادی کے بعد حساس اور غیرت مند والدین کی جان میں جان نہیں ہوتی کہ نہ جانے کب کیا ہوجائے۔ وہ سوچتے ہیں کہ کافی دوڑ دھوپ کے بعد طئے ہونے والا یہ رشتہ نبھ سکے گا بھی یا نہیں۔ جب تک کہ دو چار برس (پروبیشن پیرئیڈ) سکون سے گزر نہ جائیںدھڑکا لگا رہتا ہے اور دھڑکن بڑھی رہتی ہے، اس دوران معاملات اگر ٹھیک ٹھاک رہے اور دونوں طرف سے توازن برقرار رہا تو پھر زندگی کی گاڑی اچھی طرح چلتی رہتی ہے اور اگر اس میں معقولیت، اعتدال،میانہ روی نہ ہو تو پھر انجن ایک طرف جھکنے لگتا ہے جو کسی بھی حادثہ کا سبب بن سکتا ہے۔ بہو اور بیٹی کے معاملہ میں ہمارا پیمانہ عموماً الگ الگ ہوتا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بہت سے خوبصورت رشتے آج ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ اس لیے کہ آج کے معاشرہ میں بہت سے نوجوان بداخلاق، بد تہذیب اور لا شعور ہیں جن میں ذمہ داری کا کوئی احساس ہی نہیں ہے ۔ نہ بات کرنے کی تمیز ہے نہ معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت ۔ رات رات بھر جاگنا اور دن دن بھر سونا ان کی منحوس عادتوں میں شامل ہے اور یہی حال بہت سی لڑکیوں کا بھی ہے نہ ان میں سمجھداری ہے نہ سلیقہ،سلائی کڑھائی اور دیگر امور خانہ داری میں وہ بالکل پیدل واٹس ایپ اور موبائیل فون انٹرنیٹ میں وہ ماہرو مشاق ہوتی ہیں اور ان کا زیادہ وقت اسی میں گزرتا ہے۔ ظاہر ہے ان سب عیوب کے ساتھ ساتھ وہ اگر زبان دراز بھی ہوں اوربحث و تکرار اورہر مسئلہ پر اپنے میاں سے سوال جواب کرنے کی بری عادت میں مبتلا ہوںگی، ساس سسرے کے وجود اور ان کی نصیحتوں کو قبول کرنے سے انکار کریں گی توپھر گھر میں سکون کیسے ہوگا، برکت کیسے ہوگی؟ جب شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری سے منہ موڑنے لگے اس سے ہر بات پر ضدم ضدی اورمقابلہ کرنے لگے تو پھر اس کے دل میں بیوی کے لیے جگہ اور محبت کیسے پیدا ہوگی۔ والدین کا اپنی شادی شدہ بیٹیوں کے گھر میں غیر ضروری مداخلت کرنا بھی ان کی زندگی میں زہر گھولتا ہے ۔ نئی نسل میں عدم برداشت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ۔ لاکھ بحث دلائل اور تاویلوں کے باوجود ہمیں یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ قانون قدرت کے فطری نظام کے مطابق عورت مرد کے مقابلہ میں زبردست نہیں زیر دست ہے ۔جہاں کہیں عورت نے مرد سے اپنے آپ کو بہتر یا اونچا جان کر برابری اور مقابلہ کرنے کی کوشش کی وہاں گھر کا نظام بکھر گیا ۔ کوئی بھی سمجھدارغیرت مند اورحساس مرد اس بات کو قبول و برداشت نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی بیوی کے زیر اثرمغلوب ہو کررہے، اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو پھر وہ معاشرہ میں جورو کا غلام کے نام سے مشہورہو جاتا ہے۔
ماضی کے برعکس شادیاں آجکل بڑی دھوم سے ہو رہی ہیں اور دھڑام سے ٹوٹ رہی ہیں۔کبھی کبھار تو شادی کے چند دن بعد ہی یہ پر ملال خبر آتی ہے کہ دولہن کی گھر واپسی ہوگئی۔سننے والے کے منہ سے بے ساختہ ” ارے ۔ ایسا کیسا” نکلتا ہے اور پھر منہ کھلا ہی رہ جاتا ہے ۔ مذکورہ قسم کی پرملال خبر دراصل خبر نہیں بلکہ ایک طرح کی "قبر” ہوتی ہے جس میں نئے جوڑے کے سارے ارمان دفن ہوجاتے ہیں۔ لڑکی اور لڑکے والے دونوں فریق ایک دوسرے پر غلط ہونے کا الزام لگاتے ہیں، اپنی غلطی اور غلط روش کو کوئی بھی قبول نہیں کرتا بلکہ اسے انا کا مسئلہ بنا کر معاملہ کو مزید سنگین بنادیتے ہیں ۔ اس طرح کی سنگین اور بد بختانہ صورتحال کا صدمہ کوئی ماں باپ سے پوچھے کہ انکے دل پر کیا گزرتی ہے جب جوان بیٹی شادی کے بعد گھر واپس ہوجاتی ہے انکے لئے یہ کسی بڑے سانحہ سے کم نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے ہر نوجوان ایسا نہیں ہوتا یقینا آج بھی سنجیدہ سمجھدار اور فرمانبردار اولاد اپنا وجود رکھتی ہے جو والدین سے بھی حسن سلوک کرتے ہیں انکی خدمت و اطاعت کے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کا بھی خیال رکھتے ہیں اس سے محبت اور اچھے اخلاق سے پیش آتے ہیں،اہم امور میں رائے مشورہ کرتے ہیں، اسکی عزت کرتے اور تمام حقوق زوجیت دیانتداری سے اداکرتے ہیں۔ ایسے نوجوان خوش نصیب ہوتے ہیں جو اپنے ماں باپ اور خاندان کی عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے ہر معاملہ میں شریفانہ کردار ادا کرتے ہیں، اور یقینا ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہی قوم و ملت کا قابل فخر اثاثہ ہیں۔ تفریق و اختلاف کی صورت میںیہ ضروری نہیں ہے کہ ہر معاملہ میں لڑکے والے ہی قصور وار ہوں، اور یہ بھی ضروری نہیںہے کہ ہر معاملہ میں لڑکی والوں کو ہی مورد الزام ٹہرایا جائے، کیس کی نوعیت اورفریقین کی نیت ، انکے اعمال و افعال پر سارے معاملہ کا انحصار ہوتا ہے کہ کس قسم کے لوگوں سے آپ کو واسطہ پڑا ہے۔ وہ لڑکی والے بھی ہوسکتے ہیں اور لڑکے والے بھی۔ کئی معاملات میں لوگوں کو غلط لڑکے والوں سے سابقہ پڑا اور بہت سے کیسس میں لڑکی والوں کا قصور پایا گیا۔ اپنے اپنے نصیب ہیںکسی کے حصّہ میں پیاس آئی اور کسی کے حصّہ میں جام آیا ۔ ہمارے معاشرہ میں طلاق کی شرح جو کبھی نہیں کے برابر تھی اب تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے، اسکی وجہ کیا ہے؟ کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے؟ آج کئی لڑکے لڑکیاںاچھے اخلاق و کردار اور صبر و شکر کے جذبہ سے عاری ہوگئے ہیں، اس میں کسی حد تک قصور ماحول کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی ہوتا ہے کہ وہ ان کی صحیح تعلیم و تربیت نہیں کرتے اورنہ لڑکیوں کو امور خانہ داری اور سلیقہ سکھاتے ہیں۔شادی شدہ لڑکیوں کو آجکل وقفہ وقفہ سے اور کبھی بغیر وقفہ کے اٹھے بیٹھے ممّا کی یاد ستانے لگتی ہے حد تو یہ ہوگئی کہ انہیں دواخانہ بھی ممّا کے گھر کے قریب والا ہی پسند آتا ہے حالانکہ گلی گلی ڈاکٹرہیں جو ان کی خدمت کے لیے بیٹھے ہیں لیکن سسرال کے قریب والے کلینک اور دواخانہ سے انہیں الرجی ہوتی ہے۔ قدیم زمانے میں والدین اور خاندان کے بڑے بزرگ لڑکی کو رخصتی کے وقت خاص طور پر نصیحت کرکے ہدایت دیتے تھے کہ اپنے شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنا، سسرال میں بڑوں کی عزت و خدمت کرنا اور انکا کہنا ماننا، سب کو پیار محبت سے ساتھ لے کر چلنا اور کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ دینا، اب یہ گھر تمہارا نہ رہا تمہارا اپنا گھر تو اب تمہارا سسرال ہے جاﺅ خوش رہو سب کے دل جیتو اوردلوں پر رانی بن کر راج کرو، ان نصیحتوں اور دعاﺅں کے ساتھ بیٹی کو آنسوﺅں کے ساتھ گھر سے رخصت کرتے تھے۔اسکے برعکس آج لڑکی کے ہاتھ میں نئے ماڈل کا موبائیل فون تھماکر کہا جاتا ہے کہ جاﺅ سسرال میں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کچھ بھی ہوتو فون کرنا ہم لوگ فوری آجائیں گے۔ بعض لوگ مسئلہ کو سنجیدگی اور سمجھداری سے حل کرنے کی بجائے کوٹ کچہری اورشی ٹیم سے مدد لینے کا مشورہ دیکر کیس کو مزید بگاڑ دیتے ہیں جس کا بہت برا اور بھیانک انجام نکلتا ہے، اس سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوتا اور دو زندگیاں بلکہ دو خاندان اجڑ جاتے ہیں۔نیک نیتی ، خوفِ خدا اور آخرت میں جواب دہی کا تصور ہی در اصل وہ چیز ہے جو انسان کو ہر معاملہ میں ظلم و نا انصافی سے روکتا ہے۔ عزیزو! نکاح کو آسان بناﺅ اور اپنے معاملات اسطرح سدھارکر استوار کرو کہ زندگی خیر خوبی کے ساتھ ہنسی خوشی گزرے اور طلاق جیسے نا پسندیدہ عمل سے ہمیں کبھی واسطہ ہی نہ پڑے
ایک حقیقی واقعہ جس سے ہماری رہنمائی ہوسکتی ہے : ایک فیملی نے اپنی خوبصورت اکلوتی اعلیٰ تعلیمیافتہ اورچہیتی بیٹی کارشتہ اپنی حد تک اچھی طرح تشفی بخش معلومات حاصل کرلینے کے بعد طئے کیا اور پھر جناب شادی بھی اچھی طرح خیر خوبی سے ہوگئی ۔ کچھ دنوں بعد لڑکی کی ماں نے اپنے شوہر کو بتایاکہ بیٹی سسرال میں پریشان ہے اس کا فون آیا تھا کہ سسرال والے اسے تنگ کر رہے ہیں۔باپ نے وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ کام کاج کا دباﺅ بہت زیادہ ہے اوران کی لاڈلی تھک کر گھٹن محسوس کر رہی ہے ۔ باپ نے کہا کہ کام کاج تووہاں اسے کرنا ہی ہوگا اور نیا ماحول ہے آہستہ آہستہ کام کاج کی عادی ہوجائے گی، فکر کی بات نہیں ہے، البتہ بیٹی کو سختی سے کہہ دو کہ وہ دوبارہ شکایتی فون نہ کرے اور جیسا سسرال کے بزرگ اور شوہر کہتے ہیں ویسا ہی کرو۔ہم دخل دینا نہیں چاہتے یہ تمہارا امتحان ہے تم خود اپنا امتحان اپنی محنت ، محبت اور لیاقت سے پاس کرکے دِکھاﺅ۔ اگر دوبارہ فون کرکے سسرال والوں کی شکایت کی تو ہم بہت ناراض ہوں گے، وہ دن ہے اور آج کا دن کبھی بیٹی کا شکایتی فون نہیں آیا کئی برس گزر چکے ہیں اور اب وہ الحمدللہ اپنے سسرال میںہنسی خوشی کامیاب زندگی گزار رہی ہے،شوہر اور سسرال والے بھی اس سے بہت خوش ہیں ۔

a3w
a3w