ترنگا لہرانا ہی حب الوطنی ہے؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ہندوستان کی آزادی کے پچھتر سال مکمل ہونے پر اس سال یوم آزادی کا جشن بڑے تزک و اہتمام سے منایا جا رہا ہے۔ ملک کے وزیراعظم مسٹر نریندرمودی کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ آزادی کے جشن کی خوشی میں 12 تا 15 اگست ملک کے ہر گھر پر ترنگا لہرایا جائے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے ”آزادی کا امرت مہوا تسو“کے عنوان پر مختلف نوعیت کی تقاریب کا بھی انعقاد عمل میں آ رہا ہے۔ یہ بات یقینی طور پر قابل فخر ہے کہ ہندوستان نے اپنی آزادی کے 75سال مکمل کرلیے۔ پون صدی کے اس آزادی کے سفر کے دوران بہت سارے نشیب و فراز بھی آئے، لیکن ملک کی آزادی اور اس کی یکجہتی پر آنچ نہ آئی۔آزادی کے بعد ملک نے زندگی کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی ترقی بھی کی۔ خاص طور پر سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ہندوستان نے اپنے پڑوسیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آج ہندوستان عالمی نقشے پر اپنی ایک خاص انفرادیت رکھتا ہے۔ بین الااقوامی فورمس میں ہندوستان نے اپنی ایک ساکھ بنائی ہے۔ اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس گئی گزری حالت میں بھی اس آزاد ملک میں جمہوریت کی کچھ قدریں با قی ہیں۔دستور اور قانون کا اب بھی پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے۔ یہ ملک جن اعلیٰ اقدار کو سامنے رکھ کر آزاد کرایا گیا اس کا کما حقہ اندازہ ہمارے بعد کے آنے والے حکمرانوں کو ہوتا تو آج ہندوستان دنیا کی ایک عظیم طاقت بن کر ابھرتا، لیکن افسوس کہ گزرتے وقت کے ساتھ تحریکِ آزادی کے حقیقی جذبہ کو فراموش کر دیا گیا۔ مجاہدین آزادی کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے اور آج جب کہ آزادی کے جشن کی تیاریاں عظیم الشان پیمانے پر کی جا رہی ہیں ملک کے عام شہریوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ آخر آزادی کے ثمرات سے کس نے فائدہ اٹھایا۔ ملک کے کون سے طبقے آزادی کے بعد اس کی قومی آمدنی پر قابض ہو گئے؟ جن محبان وطن نے اپنے سر دھڑ کی بازی لگا کر اس ملک کو آزاد کرایا تھا کیا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ یہ ملک انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ایک مخصوص طبقہ کے ہاتھوں میں آجائے؟ آزادی کے 75سال بعد ملک کے وہ عناصر جنہوں نے جدو جہد آزادی میں کوئی رول ادا نہیں آج وہ دوسروں سے ملک سے وفاداری کی سند مانگ رہے ہیں۔ نام نہاد قوم پرستی کا ڈھندوڑا پیٹ کر انگریزوں کے یہ وفادار آج اپنے آپ کو سچے محب وطن باور کرانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ انگریزوں سے معافی کے پروانے حاصل کرنے والے اب عوام کو یہ کہہ کر گمراہ کر رہے ہیں یہ دیش ان کی قربانیوں سے آزاد ہوا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ جس تنظیم نے ملک کی آزادی کے کئی دہے گزر جانے تک بھی اپنے ہیڈکوارٹر پر قومی پرچم نہیں لہرایا تھا ، اب اس کے قائدین ترنگا مہم لے کر نکلے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ محض ترنگا لہرادینے سے قوم میں وطن سے محبت کا جذبہ پیدا ہوجائے گا؟ کچھ مخصوص دنوں میں قومی ترانہ پڑھ لینے سے وطن سے سچی محبت پیدا ہوجائے گی؟ ملک کی آزادی کے لیے جن جیالوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان کو یاد کرنا اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنا اچھی بات ہے۔ جو قوم اپنے محسنوں کو یاد نہیں رکھتی وہ تاریخ کے صفحات میں گم ہوجاتی ہے۔ ہندوستان کی آزادی کی اس طویل جدوجہد میں ہر طبقہ نے اپنا گراں قدر کردار ادا کیا ہے۔ یہ ملک سب کی قربانیوں سے آزاد ہوا ہے، لیکن ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا رول قائدانہ رہا ہے۔ وہ اس کاروان کے اصل سرخیل تھے۔ آزادی کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر کیا مسلم مجاہدین آزادی کی قربانیوں کویاد کیا جا رہا ہے؟
ہندوستان میں آزادی کا صور پھونکنے والے کوئی اور نہیں تھے بلکہ یہ مسلمان تھے جنہوں سے سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ وہ وقت تھا جب اس ملک کے بہت سارے طبقے انگریزوں سے مراعات حاصل کرکے عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ملک کی آزادی مسلمانوں کا محض سیاسی مسئلہ نہیں تھا بلکہ وہ اسے اپنی دینی ذ مہ داری سمجھتے تھے۔ مسلمان اور غلامی ۔ یہ دونوں یکجا نہیں ہو سکتے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ مسلمان ہمیشہ کے لئے غلامی کا طوق قبول کرلیتے۔ اس لیے انگریزوں کے ظلم و جبر کے باوجود مسلمانوں نے برطانوی سامراج کے خلاف طبلِ جنگ بجادیا۔ انہیں انڈومان و نکوبار کی جیلوں میں بند کردیا گیا اور انہیں دار و رسن کی منزلیں بھی طے کرنی پڑیں، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے حالات سے گھبرا کر انگریزوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وقت کے عظیم ترین استعمار سے نبردآزما ہونے کے لیے اس وقت کے جید علماءمیدانِ کار زار میں کود پڑے۔ قال اللہ و قال الرسول کا درس دینے والوں نے ظلم کے خلاف جہاد کا اعلان کرکے انگریزوں کے حوصلوں کو ناکام بنادیا۔ اُس دور کی عظیم شخصیت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے 1731میں انگریزوں کے خلاف منظم جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ اسلام غلامی کو ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ انگریزوں کے خلاف کلکتہ میں سراج الدولہ نے اور جنوب میں ٹیپو سلطان نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے اس سے تاریخ صفحات بھرے پڑے ہیں۔ لیکن آج جب کہ آزادی کی 75ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے مسلم مجاہدین آزادی کا تذکرہ کہیں نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ تعصب اور تنگ نظری کی بدترین مثال ہے۔ اسی طرح اردو صحافت نے تحریک آزادی میں جو رنگ بھرا تھا، اس کا بھی کوئی ذکر کہیں نہیں کیا جاتا ہے۔ اردو اخبارات اور رسائل نے ہی دراصل ملک کی آزادی کے پیغام کو دور دور تک پہنچایا تھا۔ اردو صحافیوں کو انگریزوں نے جو اذیتیں دیں اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مولوی باقر، وہ پہلے صحافی تھے جو انگریزوں کے ظلم کا نشانہ بنے اور شہید کر دیے گئے۔ آج آزادی کا جشن منانے کی تلقین وہ طاقتیں کر رہی ہیں جنہوں نے ہمیشہ مصلحتوں کا سہارا لیتے ہوئے انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں اپنی عافیت سمجھی۔ دیش بھگتی کا درس دینے والے دورِ غلامی میں انگریزوں کے جاسوس بن کر اپنے فائدے حاصل کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ یہ بات تاریخی طور ثابت ہو چکی ہے کہ ڈیڑھ سو سالہ تحریک آزادی میں سنگھ پریوار کا کوئی رول نہیں رہا۔ جب ان پر تھوڑی بہت مصیبت آئی تو انہوں نے انگریزوں سے معافی چاہ لی اور عہد کیا کہ پھر کبھی وہ انگریزوں کے خلاف لب کشائی نہیں کریں گے۔ ساور کر ، جن کو آج مودی حکومت بہت بڑے مجاہدِآزادی کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے انگریز سے معافی چاہی اور وعدہ کیا کہ وہ کبھی بھی تحریک آزادی میں حصہ نہیں لے گا۔اسی طرح اور کئی نام لیے جا سکتے ہیں ، جنہوں نے سامراج سے عہدِ وفا نبھایا، لیکن کسی ایک مسلمان کا نام پوری جدوجہدِ آزادی میں ایسا نہیں ملے گا کہ جس نے برطانوی سامراج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہوں۔ مسلم مجاہدین آزادی نے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر کے اپنی جانیں وطن کی آزادی کے لیے قربان کردیں لیکن غلامی پر رضامند نہیں ہوئے ۔ وہ قوم جس نے اس ملک پر آٹھ سو سال تک حکومت کی تھی، وہ کیسے گوارا کر سکتی تھی کہ اس ملک پر سامراجی طاقتیں حکومت کریں۔ چناچہ مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراخ بہادر شاہ ظفر نے بھی سامراجیت کے خلاف مورچہ بندی کی۔ 1857کی جنگ آزادی انہیں کی قیادت میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں ہندوستانیوں کو ناکامی ہوئی اور انگریزوں کا سارا غصہ مسلمانوں پر اُترا۔ غدر کے بعد مسلمانوں پر انگریزوں نے جوظلم و ستم ڈھایا وہ تاریخ کا المناک باب ہے۔
ملک میںآزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش کردیا گیا۔ اب جب کہ آزادی کی 75 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے اب کم از کم مسلم مجاہدین آزادی کو یاد کرلیا جاتا، لیکن ایسے یادگار موقع پر مسلم مجاہدین کو نظرانداز کردینا موجودہ حکومت کی بد دیانتی کو ظاہر کرتا ہے۔ جس ملک کی آزادی کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں، ان کے نام حرفِ غلط کی طرح تاریخ کے صفحات سے مٹادیے گئے۔ اب جو تاریخ لکھی جا رہی ہے اس میں تو مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلا جا رہا ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنے کا مقصد مسلمانوں کی شبیہ کو بگاڑکر پیش کرنا ہے تا کہ آنے والی نسلیں مسلمانوں کو اپنا دشمن تصور کریں۔ اس وقت ملک میں جن قوتوں کے ہاتھوں میں اقتدار ہے، وہ اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اس ملک کی آزادی میں مسلمانوں کا کلیدی رول رہا ہے۔ وہ یہ چاہتی ہیں کہ مجاہدین آزادی کی فہرست میں ایسے نام شامل کر دیے جائیں جن کا تحریک آزادی سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ ”آزادی کا امرت مہو اتسو “منانے کے پیچھے یہی ذہنیت کارفرما ہے کہ سنگھ پریوار کی شبیہ کو درست کردیا جا ئے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ سنگھ نے تحریک آزادی کے کسی مرحلے میں اس کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ انگریزوں کے گوشہ عافیت میں پناہ لی ہوئی تھی۔ اس کے بڑے بڑے قائدین انگریزوں کے دل میں جگہ بنانے کی فکر میں غلطاں تھے۔ اپنے اس ماضی سے چھٹکارا پانے کے لیے ”گھر گھر ترنگا“ کا نعرہ دیا گیا ہے۔ اس کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سنگھ پریوار کے دل میں وطن سے کتنی محبت ہے۔ گھر گھر ترنگا کے بجائے مودی حکومت ”گھر گھر روزگار“ کے اصول پر عمل کر تی تو شاید یہ ملک اور عوام کی بہتر خدمت ہوتی۔ کیا صرف گھر پر ترنگا لہرانے سے ہمارے ملک کے نوجوانوں کے خواب شرمندہ تعبیر ہوجائیں گے؟ کیا جشن آزادی کو دھوم سے منانے سے ملک میں تعلیم عام ہو جائے گی؟ آزدی کا امرت مہا اتسو میں وہ کون سا امرت ہے ، جو ملک میں بڑھتی ہوئی زہریلی فضاءکو امرت میں بدل دے گا۔ کسی چیز کو امرت کہہ دینے سے کوئی چیز امرت نہیں ہوجاتی۔ آزادی ، ہمارے ملک کے باشندوں کے لیے ایک امرت تھی ، لیکن فرقہ پرست طاقتوں نے اس میں زہر گھول دیا۔ مودی حکومت ایک طرف فرقہ پرستوں کو بے لگام کر تی ہے اور دوسری طرف قوم پرستی کا دکھاوا کر تے ہوئے یوم آزادی کے جشن کو بھی اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کرتی ہے تو ملک کے باشعور عوام ان سارے تماشوں کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔ جن مقاصد کو سامنے رکھ کر گھر گھر ترنگا کی بات کی جارہی ہے اور جن ارادوں کے ساتھ آزادی کا امرت مہو اتسو منانے کی تلقین کی جارہی ہے، اس کے پس پردہ سنگھ پریوار کا خفیہ ایجنڈا ہے۔ جس ترنگا کو لہرانے میں سنگھ ہمیشہ مخمصے کا شکار رہا، آج اچانک اسی ترنگا سے اتنی عقیدت اسے کیوں پیدا ہوگئی۔ اس مہم کو منانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مودی حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یوم آزادی کا استحصال کر رہی ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر عوام حکومت سے سوال کر سکتے ہیں کہ آج ملک کی معیشت کس ڈگر پر آ گئی ہے۔ عام آدمی کی زندگی کتنی اجیرن ہو گئی ہے۔ ان سارے سوالات سے بچنے کے لیے گھر گھر ترنگا کا شوشہ چھوڑ کر مودی حکومت اپنے فرائض سے فرار کی راہ اختیار کر رہی ہے۔ ملک کے 130کروڑ عوام کو بیک وقت گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ ترنگا لہرانا یا نہ لہرانا یہ عوام کا اختیار ہے ۔ اس کا حب الوطنی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وطن سے محبت دلوں میں بستی ہے، اس کی نمائش کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمان بھی اپنے وطن کو دل وجان سے چاہتا ہے ۔ تحریک آزادی میںاور پھر ما بعد آزادی مسلمانوں نے اس ملک کو سجانے اور سنوارنے میں اپنی ساری صلاحتیں لگادیں، اس لیے مسلمانوں کو فخر سے کہنا چاہیے کہ یہ ملک ہمارا ہے۔