مضامین

تکثیری سماج میں مذاکرات کی معنویت

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

تکثیری سماج اکیسویں صدی کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں مختلف مذاہب، کئی تہذبیں اور زبانیں پائی جاتی ہیں عام الفاظ میں اسے تکثیری سماج (Pluralistic Society )کہاجاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال ہمارا اپنا ملک ہندوستان ہے۔ صدیوں سے یہ ملک ہمہ مذہبی، ہمہ تہذیبی اور ہمہ لسانی رہا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مختلف النوع مذاہب اور تہذیبوں کا گہوارا ہوتے ہوئے بھی اس ملک میں مذہب کے نام پر کبھی جنگ و جدال کی نوبت نہیں آئی۔ سیاسی اقتدار کے حصول اور اپنی برتری کا دبدبہ قائم کرنے کے لیے بادشاہوں اور راجہ و مہاراجہ کے درمیان تلوار و تفنگ چلتی رہی لیکن عوام کے درمیان کسی قسم کی مذہبی عصبیت یا تعصب بہت کم دیکھنے میں آیا۔ یہی وہ انسانی قدروں کا طفیل تھا کہ سارے ہندوستانی برطانوی سامراج کے خلاف ڈٹے رہے اور ہندوستان کو ان کی غلامی سے نکالنے میں کا میاب ہوئے۔ آزادی¿ وطن کے بعد بھی ہندوستانی سماج کثرت میں وحدت کا ایک جیتا جاگتا نمونہ پیش کر تا رہا۔ ملک کا دستور مدّون کرنے والوں نے بھی ہندوستان کی اس منفرد خصوصیت کو مزید جِلا بخشتے ہوئے دستورِ ہند میں اس بات کو درج کر دیا کہ یہ ملک سب ہی مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق اور ان کی آزادیوں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور کسی کو اس بات کا اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ کسی دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرے یا کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے۔آزادی کے کئی دہوں بعد تک بھی ہندوستان میں اس روایت کو باقی و بر قرار رکھا گیا کہ ہر ہندوستانی اپنی مرضی و منشاءکے مطابق قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے باعزت اور باوقار انداز میں زندگی گزارسکتا ہے۔ اس پر کسی اور کا کوئی اختیار نہیں چلے گا،لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے ہندوستان کی دیرینہ روایات کو پس پشت ڈال کر ”مشترکہ تہذیب “ کے نام پر ہندو تہذیب کو بڑھاوا دیا گیا۔ اس تہذیب کے جو نقشے بنائے گئے اس میں بڑے خوشنماالفاظ استعمال کئے گئے اور یہ باور کرایا گیا کہ یہ ہندوستانی تہذیب ملک کی تما م تہذیبوں کا ایک حسین امتزاج ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ اس کلچر کی نمائندگی کر تی ہے جو ہندو مذہب کے دیو مالائی قصوں پر مشتمل ہے۔ قومی دھارا (National Mainstream) اور قومی یکجہتی (National Integration) کے دو خوبصورت نعرے تشکیل دے کر ملک کے حکم رانوں نے ملک کی ان اعلیٰ روایات اور قدروں کو پامال کر دیا جو کثرت میں وحدت (Unity in Diversity)کے نظریہ کے ذریعہ فروغ پائی تھیں۔ ہندو تہذیب کو بڑھاوا دینے کے جنون نے ملک میں مذہبی منافرت اور تناو¿ کا وہ ماحول پیدا کردیا کہ آج ہندوستان فرقہ پرستی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ نام نہاد قوم پرستی کے نعروں سے ملک گونج رہا ہے لیکن حقیقی حب الوطنی کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ خاص طور پر 2014کے بعد سے حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔ جن قوتوں کے ہاتھوں میں اقتدار ہے وہ تکثیریت کے قائل ہی نہیں ہیں۔ ان کا اصرار بلکہ ان کی ہٹ دھرمی ہے کہ اس ملک کے سارے باشندے ایک خاص مذہب، ایک خاص تہذیب اور ایک خاص زبان کو قبول کرلیں اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں۔ اقتدار کے سرچشموں پر ان کا قبضہ ہے، اس لیے وہ مختلف حربے اختیار کرتے ہوئے اپنے مشن کو کا میاب بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی جانب سے مختلف نعرے بھی وضع کرلیے گئے ہیں جو اکثریتی طبقہ کو لبھانے اور ورغلانے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں ۔
حالات کے اس پس منظر میں یہ سوال بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ آیا اس جمہوری اور سیکولر ملک میں انتشار پسند طاقتوں کو من مانی کرنے کی آزادی دے دی جائے یا پھر ان کے مذموم عزائم پر روک لگانے کے لیے اہل وطن اور بالخصوص ہندوستانی مسلمان کوئی مبسوط حکمت عملی اختیار کریں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ اس وقت ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے جس ہندوستانی تہذیب کو سارے ہندوستانیوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس میں سب سے پہلے مسلمان آ تے ہیں۔ ہندوتوا طاقتوں نے اس ملک کی مختلف مذہبی اکائیوں کو پہلے ہی اپنے میں ضم کرلیا ہے۔ سکھ، جین، بدھسٹ یا عیسائی بڑی حد تک ہندو توا کے دام فریب کا شکار ہو گئے ہیں۔ اب اصل مسئلہ صرف مسلمانوں کا ہے۔ اس دورِ انحطاط میں بھی مسلمان ہندوستان میں اپنی دینی شناخت اور ملّی حمیت کے ساتھ زندہ ہیں۔ ان کے اعمال کمزور ہو سکتے ہیں لیکن وہ اپنے عقیدہ ِ توحید پرڈٹے ہوئے ہیں۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت ان کو اپنے اس عقیدہ سے نہیں ہٹا سکتی۔ اسی طرح اس ملک کا مسلمان اللہ کے کلام قرآن مجید اور اس کے رسول سے جو والہانہ محبت اور عقیدت رکھتا ہے، اس کی مثال اور نظیر یہاں کا کوئی اور گروہ پیش نہیں کر سکتا۔ ہندوتوا طاقتوں کے لئے مسلمانوں کا یہی جذبہِ ایمانی ان کے دلوں میں یہ اندیشے پیدا کردیتا ہے کہیں پھر ایک مرتبہ اس ملک میں ان کا اقتدار قائم نہ ہوجائے ۔ اس لیے مسلمانوں کے دینی امیتاز اور ان کے تہذیبی تشخص پر ضرب لگانے مسلسل کوشش جا ری ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے حالیہ بیانات اسی بات کی غمازی کر تے ہیں۔سرسنچالک نے جو کچھ کہا وہ سب ذرائع ابلاغ میں آ چکا ہے۔ اس پر مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک طرف وہ مسلمانوں کو تسلی دے رہے ہیں کہ انہیں ڈرنے یا خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ دوسری طرف وہ مسلمانوں کو یہ مشورہ یا دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ اپنی برتری کے تصور کو ختم کر دیں ۔ وہ بھول جائیں کہ کبھی وہ اس ملک کے حکمران بھی تھے۔ اسی طرح وہ ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ اس ملک میں رہنے والے سارے لوگوں کا ڈی این اے ایک ہے۔ لہٰذا سب اپنے آپ کو ہندو تسلیم کرلیں ۔ ان کے اس انتہا پسندانہ موقف کی تائید نہ ملک کی تاریخ کرتی ہے اور نہ اس آزاد اور سیکولر ملک کا دستور اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ زبردستی کسی مسلمان، سکھ، عیسائی یا جین کو ہندو کہلانے پر مجبور کیا جائے۔ ان کے بیانات پر جب تبصرے ہونے لگے تو ان کے مشیروں نے وضاحت کی کہ آر ایس ایس کے سربراہ کے انٹرویو کو توڑ مڑور کر میڈیا نے پیش کیا ہے۔ یہ بات ماننا مشکل ہے کہ ایک طاقتور تنظیم کے صدر کے بیان کو جس کے ہاتھ میں حکومت کا ریموٹ کنٹرول ہے ، میڈیا میں اتنی طاقت ہے کہ وہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرے۔ آر ایس ایس کے سابق سربراہ بالا صاحب دیورس کی بھی یہی منطق تھی کہ ہندوستانی ، ثابت کرنے کے لیے ہندو ہونا لازمی ہے۔ ان کا یہ بھی استدال تھا کہ ہندوتوا ہی اصل سیکولرازم ہے۔ سنگھ پریوار نے کبھی سیکولرازم کو مانا ہی نہیں اور نہ ہی تکثیری سماج کے تقاضوں کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی۔ وہ ہمیشہ ہندوتوا کی رَٹ لگاتے رہے اور اب حکومت کی سرپرستی میں یہ نعرہ تو ملک کے دیگر تمام نعروں میں سب سے زیادہ اہم بن گیا ہے۔ ملک میں ایک ایسی فضاءتیار کی جا رہی ہے جہاں مذہبی منافرت کے شعلے بھڑکتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ تنگ نظری اور عدم بر داشت کے منفی جذبات کوابھار کر شہریوں کے درمیان شکوک و شبہات کی ایسی خلیج پیدا کر دی جا رہی ہے کہ ہر شخص خوف اور دہشت کے سائے میں جی رہا ہے۔ ملک کے اکثریتی طبقہ کے ذہن کو اتنا زہر آلود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو دہشت گرداور خونخوار تصور کر رہا ہے۔ یہ بھیانک صورت حال ہے جو ملک میں اس وقت دیکھی جا رہی ہے۔
ملک کے اس موجودہ پس منظر میں آیا ان آلہ کاروں سے جو ملک کو ایک آتش فشاں بنانے میں لگے ہوئے ہیں، کوئی بات چیت کی جا سکتی ہے؟ ان سے کیا اس بات کی توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کے مفاد میں یہاں رہنے والے تمام باشندوں کے جذبات کا خیال رکھیں گے اور اپنے قول و عمل سے ایسی کوئی کارستانی نہیں کریں گے جس سے ملک کی فرقہ وارنہ ہم آہنگی متاثر ہو۔ حالیہ عرصہ میں آر ایس ایس کے قائدین سے مسلم دانشوروں اور مسلم جماعتوں کے نمائندوں کی ملاقات نے ملّی سطح پر ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔ بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ سنگھ پریوار کی پالیسی بہت واضح ہے ۔ ان سے کسی خیر کی توقع رکھنا احمقوںکی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ ان کا ایجنڈہ اسلام اور مسلم دشمنی پر محیط ہے۔یہ سمجھنا کہ وہ اپنے مشن سے دستبردار ہوجائیں گے اور مسلمانوں کو اپنا دوست سمجھنے لگیں گے محض خام خیالی ہے۔ یہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے کہ اس ملاقات کو راز میں کیوں رکھا گیا۔ جب یہ مذاکرات ملت کے مسائل کے حل کے لیے ہیں تو پھر ملّت کواس سے واقف کرانا بھی ضروری ہے، لیکن دیگر حلقوں کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میںمختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان گفت و شنید ہو، تا کہ غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کیا جا سکے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق بہت ساری غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ان کو اگر دور کیا جائے تو حالات میں بدلاو¿ آ سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مسلم دانشور اور ان کے رہنماءکسی خانگی تنظیم سے مذاکرات کرنے کے بجائے راست حکومت سے بات چیت کر تے۔ وزیر اعظم نریندرمودی، صرف بی جے پی یا آر ایس ایس کے وزیراعظم نہیں ہیں بلکہ وہ اس ملک کی پوری قوم کے سربراہ ہیں۔ ان سے بامقصد بات چیت ہو سکتی تھی اور اس سے مسائل کے حل ہونے کی بھی توقع تھی۔ آر ایس ایس قائدین سے ملاقات کے دوران کن امور پر گفتگو ہوئی، اس کی ساری تفصیلات تو منظر عام پر نہیں آئیں لیکن مسلم وفد کا دعویٰ ہے کہ بات چیت کھلے ماحول میں ہوئی ہے۔ سنگھ کے قائدین نے اپنی بعض غلطیوںکو تسلیم بھی کیا ہے اور مسلم وفد نے بھی سنگھ کو کچھ تیقنات دیے ہیں۔ سنگھ نے جس اعتماد کے ساتھ اپنے دعووو¿ں کو پیش کیا مسلم قائدین نے بھی اسی انداز میں اپنی بات رکھی ہے تو ان مذاکرات کو وقت کی ضرورت کہا جا سکتا ہے۔ اگر سنگھ کی قیادت نے مسلمانوں کو لبھانے یا ڈرانے کے لیے یہ ڈرامہ بازی کی ہے تو اس کے بڑے خطرناک نتائج مستقبل میں نکلیں گے۔ یہ اندیشہ اس لیے ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے پہلے بھی وشوا ہندو پریشد نے مسلم قیادت کو مذاکرات کے نام پر الجھا کر رکھدیا تھا اور اس کے بعد پوری تیاری اور منصوبہ بندی کر کے بابری مسجد کو ڈھا دیا تھا۔ اس لیے سنگھ پریوار پر زیادہ اعتماد اور بھروسہ کہیں بعد میں مسلمانوں کے لیے نقصان اور پشیمانی کا باعث نہ ہو۔ ہندوستان جیسے ملک میں مسلمان اپنا الگ گھروندہ بناکر اکیلے نہیں رہ سکتے۔ یہاں کی اکثریت اور اقلیتوں سے ان کی مسلسل باہمی ملاقاتیں برف کو پگھلانے کا کام کریں گی۔ اس لئے کہ بات چیت سے ہی دِلوں کا میل صاف ہوگا اور امید کی کرن نمودار ہوگی۔ مذاکرات کی سب سے اچھی شکل یہی ہے کہ گفتگو اور مکالمہ دلائل کی بنیاد پر ہو۔ ہم کسی سے مرعوب ہوئے بغیر اپنے موقف کو پیش کریں۔ مسلمان نہیں چاہتے کہ معاشرہ منتشر ہوجائے اور ملک میں افراتفری پھیل جائے۔ لیکن مسلمانوں کے تعلق سے بھی جو غلط پروپگنڈا کیا جا رہا ہے اس کو لگام دی جائے۔ ان کو خوف و ہراس کی جس نفسیات سے دوچار کردیا گیا ہے اس کا قلع قمع ہو۔ان کی مذہبی آزادی اور دیگر حقوق کی ضمانت دی جائے تب ہی سنگھ سے مذاکرات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ورنہ مرزا غالب کا یہ شعر صادق آئے گا کہ :
ہم کو اُن سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے ،وفا کیا ہے
٭٭٭

a3w
a3w