سیاستمضامین

جاسوسی غبارہ یا مواصلاتی سیارہ؟

امریکہ کے سنجیدہ عناصر غبارے پر امریکہ کے غیر ضروری ردعمل کو صدر بائیڈن کی بوکھلاہٹ قرار دے رہے ہیں

مسعود ابدالی

4 فروری کو امریکہ کے F-22طیارے نے ”گرم دمِ جستجو“ یعنی heat seeking میزائل داغ کر مشتبہ چینی غبارہ مار گرایا۔ چین نے امریکی فضائیہ کی اس کارروائی کو طاقت کے غیر ضروری استعمال اور بین الاقوامی روایات کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ بیجنگ کا کہنا ہے کہ چین کے ایک نجی ادارے نے یہ غبارہ(air ship)موسمیاتی تحقیق کے لیے بھیجا تھا۔ تجارتی ہوائی ٹریفک سے بہت زیادہ اونچائی پر اڑنے والے غبارے سے زمین پر موجود افراد اور اسباب کو کوئی خطرہ نہ تھا، اور سائنسی اہمیت کے اس آلے کو میزائیل مار کر تباہ کردینا قابلِ مذمت ہے۔ چینی وزارتِ قومی دفاع کے ترجمان کرنل تن کیفائی (Tan Kefei) نے کہا کہ بیجنگ مستقبل میں اس قسم کی صورتِ حال پر جوابی ردِعمل کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
فروری کے آغاز پر یہاں اُس وقت سنسنی پھیل گئی جب دفاعی نامہ نگاروں نے انکشاف کیا کہ امریکہ کی فضائی حدود میں ایک نامعلوم غبارہ پرواز کررہا ہے۔ اس انکشاف کا ماخذ وہ معلومات تھیں جو امریکی فضائیہ کے کچھ افسران نے نام نہ بتانے کی شرط پر امریکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو فراہم کی تھیں۔ اے پی کے مطابق ان اہلکاروں نے بتایا کہ ایک مشتبہ چینی ”جاسوس غبارہ“ امریکی فضائی حدود میں کچھ دنوں سے پرواز کررہا ہے۔ مذکورہ سینئر دفاعی اہلکار نے امریکی وزارتِ دفاع المعروف پینٹاگون کے نامہ نگاروں کو آگاہ کیاکہ بلندی پر اڑنے والے اس غبارے کا حجم تین ٹرکوں کے برابر ہے اور اس پر معلومات اکٹھی کرنے کے لیے حساس کیمرے اور جاسوسی کے آلات نصب ہیں۔
یہ غبارہ مبینہ طور پر 28 جنوری کو بحرالکاہل میں امریکی کالونی گوام پر سے پرواز کرتا ہوا ریاست الاسکا کی فضائی حدود میں داخل ہوا اور کینیڈا کے صوبوں البرٹا، برٹش کولمبیا اور سیسکیچون (Saskatchewan)کے اوپر سے ہوکر یکم فروری کو ریاست مونٹانا میں داخل ہوا۔ چینی غبارہ 3 فروری کو ریاست مسوری (Missouri) آیا اور جنوبی کیرولینا کے راستے بحراوقیانوس کی طرف نکل گیا جہاں اپنی فضائی حدود میں امریکہ نے اسے مار گرایا۔
غبارہ اتنا بڑا تھا کہ 60 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے کے باوجود کمرشل پائلٹ اسے دیکھ سکتے تھے، تاہم حفظِ ماتقدم کے طور پر یکم فروری کو مونٹانا کے بلنگز-لوگن (Billings Logan)بین الاقوامی ہوائی اڈے پر دوپہر ڈیڑھ بجے سے ساڑھے تین بجے تک تمام پروازیں معطل کردی گئیں۔
جمعرات 2 فروری کو پینٹاگون کے پریس سیکریٹری بریگیڈیئر جنرل پیٹرک رائیڈر نے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ غبارہ امریکی فضائیہ کی نظر میں ہے اور بہت زیادہ اونچائی پر پرواز کی وجہ سے یہ کمرشل ہوائی جہازوں، شہریوں یا فوجی تنصیبات کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں۔ جنرل صاحب نے امریکیوں کو یقین دلایا کہ غبارے کی حساس معلومات تک رسائی روکنے کے اقدامات کرلیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چینی حکام کو معاملے کی سنگینی سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ جنرل رائیڈر نے مزید کہا کہ امریکی فضائیہ کیلئے اس غبارے کو مار گرانا کچھ مشکل نہیں، لیکن چونکہ اس کے گرنے والے ملبے سے زمین پر موجود لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس لیے فوج کے کماندارِ اعلیٰ یعنی صدر بائیڈن نے اس کی اجازت نہیں دی۔
دوسرے دن چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان محترمہ مائوننگ نے اس بات کی تصدیق کردی کہ چین کا ایک غبارہ جسے ترجمان نے Air Ship کہا، امریکہ کی فضائی حدود میں داخل ہوگیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ایک نجی چینی ادارے کا یہ غبارہ موسمیاتی تحقیق کے لیئے فضا میں بھیجا گیا ہے جو سمت اندازی کی محدود صلاحیتکی بنا پر اپنے طے شدہ راستے سے بہت دور ہٹ گیا۔ ننگ صاحبہ کا کہنا تھا کہ یہ جاسوس غبارہ نہیں بلکہ ایک معمولی سا موسمیاتی طیارہ ہے جو امریکہ کے برفانی طوفان کا مشاہدہ کرتے ہوئے مونٹانا چلا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ چین کو امریکی فضائی حدود میں غیر ارادی داخلے پر افسوس ہے، چینی حکام اپنے امریکی ہم منصبوں سے رابطے میں ہیں اور ہم اس ماورائے تدبیر (Force Majeure) صورتِ حال کا خوشگوار اختتام چاہتے ہیں۔
چینی غبارہ امریکہ میں اس کی شمالی سرحد سے داخل ہوا اور ترچھا (diagonal) سفر کرتا مشرق میں بحراوقیانوس کو نکل گیا۔ اس دوران دو اہم مقامات پر اس کی پرواز امریکیوں کو مشکوک بلکہ خطرناک محسوس ہوئی:
1۔ریاست مونٹانا میں امریکہ کا مالمسٹروم ایئر فورس بیس (Malmstrom Air Force Base) ہے، جو دوسری جنگِ عظیم کے دوران گریٹ فالس (Great Falls) شہر کے قریب 1942ء میں تعمیر ہوا۔ تزویراتی اہمیت کی تین جوہری تنصیبات میں سے ایک یہاں واقع ہے۔ مالمسٹروم امریکہ کے بین البراعظمی منجنیقی (Intercontinental Ballistic) میزائیلوں کا اڈہ بھی ہے۔
2۔ریاست مسوری کا وہائٹ مین فضائی اڈہ (Whiteman Airforce Base) بھی 1942ء میں تعمیر ہوا۔ یہ غیر مرئی (B2 Stealth)بمباروں کا ہیڈکوارٹر ہے۔
امریکی فضائی حدود میں چینی غبارے کی پرواز کا واقعہ اُس وقت پیش آیا جب وزیرِ خارجہ ٹونی بلنکن اپنے پہلے دورئہ بیجنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے اور حسبِ توقع امریکی وزیرخارجہ کی روانگی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔ 2 فروری کی شام صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ٹونی بلنکن نے چین کی اس ”غیر ذمہ دارانہ“ حرکت کو دوسرے ملک کی فضائی حدود میں دراندازی اور ایک آزاد مملکت کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی قرار دیا جو ”مہذب“ دنیا کو کسی صورت قبول نہیں۔ کاش فاضل وزیر خارجہ سے کوئی پوچھتا کہ امریکہ کے ڈرون شمالی وزیرستان، عراق، شام، یمن اور لیبیا میں جو ”پھول“ برساتے رہے ہیں اسے کیا نام دیا جائے؟ اب سے چند ہی ماہ پہلے کابل میں امریکی ڈرون نے اپنے ایک مبینہ دشمن کو قتل کیا ہے۔ کیا امریکہ کی جانب سے افغان فضائی حدود کی پامالی اور اس کی خودمختاری پر حملہ چینی غبارے کی ”گستاخی“ سے کسی طرح کم ہے؟ چینی غبارہ تو 60 ہزار فٹ کی بلندی پر سے پُرامن انداز میں پرواز کرتا گزر گیا، جبکہ امریکی ڈرون نے وزیرستان میں وسیع و عریض قبرستان آباد کیے ہیں۔ سچ ہے کہ آدمی اگر بے حیا ہوجائے تو اسے کچھ بھی کہتے شرم نہیں آتی۔
دونوں جانب سے بیانات کی گھن گرج میں امریکی بحریہ جنوبی کیرولینا کے ساحل Myrtle Beachکو تباہ ہونے والے غبارے کے ملبے کے لیے کھنگھال رہی ہے جو 7 میل کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ پینٹاگون کے ذرائع نے سطح سمندر سے کچھ حصوں کے ملنے کی تصدیق کی ہے جنھیں تجزیے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (FBI) کی تجربہ گاہ بھیج دیا گیا ہے۔ بحریہ کے تجربہ کار غوطہ خوروں اور خودکار زیرِ آب گاڑیوں کی مدد سے غبارے کی باقیات تلاش کی جارہی ہیں۔ اس مقام پر پانی کی گہرائی صرف 47 فٹ ہے، اس لیے امریکی ماہرین پُرامید ہیں کہ ملبے کی تلاش زیاد مشکل نہیں۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی Xinhuaنے اطلاع دی ہے کہ چینی محکمہ موسمیات کے سربراہ Zhuang Guotai کو برطرف کردیا گیا۔ مبصرین کے خیال میں یہ چین کے اس مؤقف کو تقویت دینے کی کوشش ہے کہ امریکہ نے جس غبارے کو گرایا ہے وہ موسمیاتی تحقیقات کے مشن پر تھا جو راستہ ”بھٹک“ کر چچا سام کے دیس جا پہنچا، اور چین اس غلطی کی تحقیق کے ساتھ اس کے ذمہ داروں کا مواخذہ بھی کررہا ہے۔
امریکہ کے سنجیدہ عناصر غبارے پر امریکہ کے غیر ضروری ردعمل کو صدر بائیڈن کی بوکھلاہٹ قرار دے رہے ہیں۔ امریکی وزارتِ دفاع کے مطابق اہم فوجی اور جوہری تنصیبات سمیت امریکی سرزمین کا ایک ایک انچ رقبہ، خلا میں تیرتے چین کے 500سے زیادہ مصنوعی سیارچوں یا سیٹلائٹس کی نظروں میں ہے۔ (سلسلہ صفحہ ۷)
اگر پینٹاگون کا یہ تجزیہ درست ہے تو جدید ترین سیارچوں کی موجودگی میں چین کو جاسوسی کے لیے غبارہ بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ دفاعی مبصرین کا خیال ہے کہ ٖ 28 جنوری کو گوام پر سے گزرتے ہی امریکہ کے دفاعی نظام نے اس اڑن طشتری کو شناخت کرنے کے بعد نہ صرف اس کی نگرانی شروع کردی تھی بلکہ چینی حکام سے رابطے کا آغاز ہوچکا تھا۔ غیر مرئی یا Stealthصلاحیتوں سے محروم یہ غبارہ اپنے حجم کے اعتبار سے اتنا بڑا تھا کہ ریڈار کی نظروں سے اس کا چھپنا ممکن ہی نہ تھا۔ چین جیسے ملک کی جانب سے اس قسم کے آلے کو امریکہ کی جاسوسی کے لیے استعمال کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
لیکن جمعرات کو معاملہ میڈیا پر آتے ہی صدر کے قدامت پسند مخالفین نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے سراغ رسانی کے نائب سربراہ اور اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ کے متوقع خواہش مند سینیٹر مارکو روبیو نے چین کی اس جسارت کو امریکہ کی بھیانک تزویراتی کمزوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ چین کی جانب سے امریکی دفاعی نظام کا مضحکہ اڑانے کا اظہار ہے۔ مونٹانا سے ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس رائن زنکے (Ryan Zinke) نے دہائی دی کہ ان کی ریاست پر دشمن کا ”طیارہ“ منڈلا رہا ہے اور صدر بائیڈن کو کوئی پروا نہیں۔ نیوہیمپشائر کے گورنر کرس سنونو نے اے بی سی ٹیلی ویژن سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے قلب میں جاسوس غبارہ بھیج کر چین نے امریکی صدر کے اعصاب کو آزمایا جس میں جوبائیڈن بری طرح ناکام رہے۔
غالباً اسی دبائو کا اثر تھا کہ صدر بائیڈن نے غبارے کو گرانے کا حکم دے دیا۔ تاہم امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) آسٹن کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے یکم فروری ہی کو اسے مار گرانے کا حکم دے دیا تھا، لیکن صدر کی ہدایت تھی کہ غبارہ تباہ کرتے ہوئے امریکیوں کی جان و مال اور دفاعی اثاثوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، اسی لیے Air Ship کو کھلے سمندر پر نشانہ بنایا گیا۔
ابھی امریکہ در آنے والے چینی غبارے سے اٹھنے والی دھول بیٹھی بھی نہیں کہ لاطینی (جنوبی) امریکہ سے ایسی ہی اطلاعات آرہی ہیں۔ دفاعی ذرائع کے مطابق ایک غبارہ کولمبیا سے بحر کریبین کے ساحل کو چھوتا کوسٹاریکا کی طرف پرواز کررہا ہے۔ چینی غبارہ مار گرانے پر تائیوان نے ”اطمینان“ کا اظہار کیا ہے۔ تائیوانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چین کی جانب سے تائیوان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی روزمرہ کا ایک معمول ہے اور جنگی طیاروں کے ساتھ چینی ڈرون تائیوان کی فضا میں کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔
غبارہ گرانے پر چینی وزارتِ قومی دفاع کے اس ردعمل یعنی ”ہم مستقبل میں ایسی صورتِ حال پر اپنے ردعمل کا حق محفوظ رکھتے ہیں“ کی بعض سیاسی ماہرین اس طرح تشریح کررہے ہیں کہ چین تائیوان کی طرف پرواز کرنے والے امریکی طیاروں پر قدغنیں عائد کرسکتا ہے۔ بیجنگ کے لیے تائیوان اس کا اٹوٹ انگ ہے اور امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک اس حقیقت کو عملاً تسلیم کرتے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے چھوٹے ملکوں اور ویٹیکن سمیت دنیا کے صرف 14ممالک تائیوان کو سرکاری طور پر آزاد و خودمختار ملک مانتے ہیں۔ ہمارے خیال میں چین امریکہ عسکری کشیدگی بڑھنے کا امکان بہت زیادہ نہیں کہ بیجنگ کی ترجیحِ اوّل معیشت و تجارت ہے جس کے لیے تصادم کے بجائے تعاون کی حکمت عملی چینی سفارت کاری کی بنیاد ہے۔