قومی

جمعیۃعلماء ہند کی عرضی پرمیڈیا کیخلاف چیف جسٹس حتمی بحث کیلئے تیار

مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیئے کچھ مخصوص چینلوں نے محاذ کھولا ہوا ہے جن پر روک لگانا ضروری ہے اور کورونا کے شروعاتی دنوں میں مرکز تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والے چینلوں پر کارروائی کرنا ہوگا۔

نئی دہلی: کوروناوائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیاکے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورت نے سالیسٹر جنرل سے کہا کہ آپ پہلے ہی چار مرتبہ وقت طلب کرچکے ہیں۔ دوسری طرف صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ متعصب میڈیا چینلوں میں نفرت پر مبنی رپورٹنگ کرنے پر پابندی لگانے اور جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہیں بچاہے۔

جمعیۃ علمائے ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق مولانا سید ارشدمدنی صدرجمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پرآج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا نے حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنر ل آف انڈیا ایڈوکیٹ تشار مہتہ کی جانب سے دو ہفتوں کاوقت طلب کرنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ناراضگی ظاہر کی اور انہیں بتایا کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق آپ پہلے ہی چار مرتبہ وقت طلب کرچکے ہیں جس پر سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے کہا کہ انہیں مزید دستاویزات داخل کرنی ہیں جس کے لئے وقت درکار ہے۔

چیف جسٹس وی رمنا کی سربراہی والی تین رکنی بیچ جس میں جسٹس سریہ کانت اور جسٹس اے ایس بوپنا شامل ہیں کوسالسٹرجنرل تشارمہتہ نے مطلع کیاکہ حکومت نے اس ضمن میں کچھ پیش رفت کی ہے اور قوانین مرتب کیئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ یو ٹیوب چینل دیکھو گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ایک منٹ میں کیا کیا دکھایا جاتا ہے، کیا آپ کے پاس ایسا کوئی لائحہ عمل ہے جو اس پر روک لگا سکے یا اس کی فوری جانچ کرسکے؟ ۔

چیف جسٹس کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر ایڈوکیٹ تشار مہتا نے کہا کہ حکومت نے میکانزم بنایا ہے اور قوانین میں ترمیم بھی کی ہے جس پر جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بنایا گیا میکانزم کتنا کارگر ثابت ہوگا اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہوگا کیونکہ آج بھی نفرت پر مبنی رپورٹنگ بند نہیں ہوئی ہے۔

مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیئے کچھ مخصوص چینلوں نے محاذ کھولا ہوا ہے جن پر روک لگانا ضروری ہے اور کورونا کے شروعاتی دنوں میں مرکز تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والے چینلوں پر کارروائی کرنا ہوگا تاکہ وہ مستقبل میں پھر ایسی حرکت نہ کریں۔ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے عدالت سے مزیدکہا کہ حکومت کی جانب سے کیبل ٹیلی ویژن نیٹورک قانون میں ترمیم کی گئی ہے لہذا انہیں اجازت دی جائے کہ وہ اس ترمیم شدہ قانون کو چیلنج کرسکیں، ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے کی درخواست کو چیف جسٹس آف انڈیا نے منظور کرلیا اور چار ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ محمد طاہرحکیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ عیسیٰ حکیم و دیگر وکلاء موجود تھے۔واضح رہے کہ گذشتہ سماعت پر عدالت نے مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر اعتراض کیا تھاجس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ لائیو ٹی وی شو کو روکنے کا حکومت کے پاس کوئی میکانزم نہیں ہے نیز کوئی بھی پروگرام نشر ہونے سے قبل روکا نہیں جاسکتاالبتہ پروگرام نشر ہونے کے بعد اگر شکایت درج کی جاتی ہے تواس کے خلاف کیبل ٹی وی نیٹ ورک قوانین کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔

مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو بتایا تھا کہ لائیو ٹی وی شو اور ٹی وی پر بولنے سے کسی کو روکنے کا مرکزی حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے جبکہ مرکزی حکومت نے چند ٹی وی چینلوں پر ایک ہفتہ تک خبریں اور پروگرام نشر کرنے کی پابندی لگائی تھی۔

چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے اپنا چارج لے لیا ہے عدالت سے پٹیشن پر حتمی بحث کرنے کی گذارش کی گئی تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی لیکن حسب سابق حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے عدالت سے وقت طلب کیا۔تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کوبد نام کرنے کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا پٹیشن داخل کرنے کے بعد اور صارفین کی شکایت پر نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھاریٹی (NBSA) نے تین چینلوں ٹائمس ناؤ، ٹی وی 18اورسوارنا نیوز چینل پر ایک لاکھ کا جرمانہ عائد کیا تھاجبکہ زی نیوز، آج تک اور دیگر چینلوں نے معافی مانگ تھی۔

آج کی عدالتی کارروائی پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ متعصب میڈیا چینلوں میں نفرت پر مبنی رپورٹنگ کرنے پر پابندی لگانے اور جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہیں بچاہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ کئی معاملوں میں عدالتوں کے ذریعہ سرزنش کے بعد بھی میڈیا نے اپنا رویہ نہیں بدلاہے بلکہ پچھلے کچھ عرصہ سے ان کی اشتعال انگیز رپورٹنگ میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوچکاہے اس سلسلہ میں ہم باربار حکومت سے اپیل کرچکے ہیں کہ وہ ان بے لگام اور سرکش ٹی وی چینلوں پر لگام کسے مگر اب تک کچھ نہیں ہوا اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملہ میں اپنا حتمی فیصلہ صادرکرے۔

a3w
a3w