
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
جناب سید عبد الباسط انور(سابق امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند، حلقہ آندھراپردیش و اڑیسہ) 16/اور 17/اگست 2023کی درمیانی شب اپنی حیات مستعار کی 73 بہاریں پوری کرکے اس دارفانی سے دارلبقاء کی طرف روانہ ہوگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
ان کے انتقال کی خبر ایک جانکاہ بجلی بن کر گری کہ ان کا اخری دیدار کرنے، ان کی نماز جنازہ میں شریک ہونے اور ان کی تدفین کے موقع پر بھی موجود رہنے کے بعد بھی دل اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ درد مند دل رکھنے والی یہ شخصیت اب ہمارے درمیان نہیں رہی۔ قضاء و قدر کے فیصلے انسانوں کے ہاتھوں میں نہیں ہوتے بلکہ خالق کائنات کا حکم اس معاملہ میں چلتا ہے۔بندوں کا کام ان فیصلوں پر سر تسلیم خم کرنا ہے۔ یہی بندگی کا تقاضہ ہے۔
جناب سید عبد الباسط انور مرحوم کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ،ایک فرزند اور دو دختران ہیں لیکن مرحوم اپنے پیچھے ہزاروں وابستگان تحریک کو سوگوار چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔ اپنا آخری سفر بھی ایسا طے کیا کہ نہ افراد خاندان کو تکلیف دی اور نہ اپنی جماعتی برادری کو کوئی زحمت دی۔ 15/اگست کی صبح گھر سے ایک اہم پروگرام کے لئے نکلے تھے۔پروگرام میں درس قرآن بھی دیا۔ پروگرام میں شریک احباب باسط صاحب کی نقاہت کو محسوس کررہے تھے لیکن انہوں نے درس قرآن کے اختتام پر بھی اپنی تکلیف کسی کو نہیں بتائی اور بڑی خاموشی سے ہاسپٹل چلے گئے ۔دو دن شریک دواخانہ رہے اور پھر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔یہ ایک قابل رشک موت ہے کہ یہ بندہ خدا ،خدا کا پیغام سنا کر خدا کے حضور حاضر ہوگیا۔باسط صاحب کی اس سفر آخرت پر روانگی میں ہمارے لئے کئی نصیحت کے پہلو ہیں ۔
جناب سید عبد الباسط انور مرحوم ایک ہشت پہلو شخصیت تھے۔ان کی شخصیت کا ہر پہلو ان کی عملی زندگی میں نمایاں نظر آتا ہے۔وہ عہد ماضی کے کارواں کے ایسے مسافر تھے جنہوں نے اپنی شعور کی آنکھوں سے دین حق کے غلبہ کے لئےاپنے بزرگوں کی جانفشانیوں اور انکی قربانیوں کو دیکھا تھا۔ جناب باسط صاحب کی تربیت ان ہستیوں نے کی تھی جو دنیا کے سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر اپنی آخرت کی فکر لئے دنیا میں جیتے تھے۔وہ ہمیشہ رضائے الٰہی کے طلبگار رہتے تھے۔جناب باسط بھائی صاحب نے اپنے عنفوان شباب میں جماعت اسلامی ہند کی دعوت پر لبیک کہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جہاں ہر پڑھالکھا اور ان پڑھ بھی خلیجی ممالک میں قدم رکھنے کے لئے بے چین تھا۔ ایسے وقت عبد الباسط انور صاحب جیسے اعلی تعلیم یا فتہ نوجوان کے لئے کسی خلیجی ملک میں اعلی عہدہ حاصل کرناکوئی مشکل کام نہ تھا۔ایک طرف ان کا دل دعوت دے رہا تھا کہ تم نے دنیا کی نامور یونیورسٹی سے عربی میں ماسٹرس کی ڈگری کرلی ہے۔ فوری پاسپورٹ بناؤ اور خلیج کا رخ کرو۔یہاں تم ریال اور درہم اتنے کماو گے کہ تمہارے اہل و عیال اور تمہارے عزیز و اقارب خوشحال ہوجائیں گے اور تم عیش و آرام کی زندگی گزارو سکوگے۔دوسری طرف ضمیر یہ آواز دے رہا تھا کہ نہیں! تمہیں اسی بت کدہ ہند میں رہ کر خدا کا پیغام خدا کے بندوں تک پہچانا ہے۔
باسط صاحب نے دل کو مات دے دی اور ضمیر کی آواز کو اپنے لئے حزر جاں بناتے ہوئے قافلہ حق میں ایسی شمولیت کی کہ وطن میں رہتے ہوئے بھی معاش کو ترجیح نہیں دی۔ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے قناعت پسندی کا راستہ اختیار کیا اور اپنی ساری صلاحیتیں، سارے وسائل اور سارا وقت اقامت دین کی جدوجہد میں استعمال کرتے ہوئے مصروف عمل ہوگئےاور آخری وقت تک یہی فریضہ انجام دینے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے ۔دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جو اپنی دنیاوی زندگی سے دست کش ہوکر دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیں۔یہ امتداد ِزمانہ ہے کہ اب لوگ دنیا کمانے کے لئے دین کا سہارا لینے لگے ہیں۔لیکن اس سے وہ دونوں جہانوں میں ناکام و نامراد ہوں گے۔باسط انور صاحب نےاول الذکر افراد کا راستہ اپنایا اور پورے اطمینان کے ساتھ اسی راہ پر آخری وقت تک گامزن رہے اور ایک مطمئن قلب کے ساتھ اپنے رب کےحضور حاضر ہوگئے۔ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد کی شرکت اس بات کی گواہی ہے کہ لوگوں سے محبت سے پیش آنے والے بندے کے ساتھ اللہ بھی ان کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرے گا اور انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے گا۔
جناب عبد الباسط انور مرحوم کی فکری تربیت کرنے والوں میں جو اہم شخصیات رہیں ان میں مولانا عبد الرازق لطیفی، سابق امیر حلقہ، آندھرا پردیش، مولانا محمد سراج الحسن، سابق امیر جماعت اسلامی ہند اور مولانا عبد العزیز، سابق نائب امیر جماعت اسلامی ہند، رحھم اللہ ۔یہ وہ نابغہ روزگار ہستیاں تھیں جو اپنی دنیاوی زندگی کی ساری کشتیاں جلا کر اقامت دین کے لئے سب کچھ برداشت کرتے ہوئے میدان عمل میں ڈٹی ہوئی تھیں ۔جناب عبد الباسط انور صاحب ایسی پاکیزہ ہستیوں کے تربیت یافتہ تھے اس لئے ان کی زندگی بھی ان بزرگوں کا پر تو تھی۔ان میں جو اوصاف عالیہ دیکھنے کو ملے یہ دراصل اسی فکری تربیت کا نتیجہ تھے۔
جناب عبد الباسط انور صاحب نے مختلف تنظیمی ذمہ داریاں بھی ادا کیں ۔سب سے پہلے وہ حلقہ طلباء کے ذمہ دار بنائے گئے۔ جب ریاست کی سطح پر طلباء و نوجوانوں کی تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک یونین (ایس آئی یو ) قائم ہوئی تو وہ آندھرا پردیش کے صدر منتخب کئے گئے۔ جب ملک گیر سطح پر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (ایس آئی او) کا قیام عمل میں آیا تو پھر وہ ریاستی صدر بنائے گئے۔طلباء تنظیموں سے فراغت کے بعد ان پر جماعتی ذمہ داریاں آنی شروع ہوئیں ۔ مرحوم جماعت اسلامی ہند، حلقہ متحدہ آندھراپردیش و اڑیسہ کے تین میقات کے لئے امیر حلقہ رہے۔ 12سال تک آپ نے امارت حلقہ کی۔ آپ کی خدمات سے مرکزی سطح پر بھی استفادہ کیا گیا۔ مرحوم مرکزی سکریٹری برائے تربیت رہے۔بعد میں حلقہ کی سطح پر بھی مختلف تنظیمی ذ مہ داریاں ادا کیں ۔یہاں ان سب کا ذکر کرنا مقصود نہیں ہے۔اس لئے کہ عہدے اور منصب کسی شخصیت کو غیر معمولی بنانے میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔بعض مرتبہ کوئی منصب کسی کو اعلی مقام دے دیتا ہے اور کوئی شخصیت کسی منصب پر فائز ہوتو اس منصب کی وقعت بڑھ جاتی ہے۔ جناب عبد الباسط انور صاحب کسی منصب یا عہدے کے طلبگار نہیں تھے بلکہ وہ اس راہ کے راہی تھے جس راہ پر چلنے سے دنیا ان کی ٹھوکر میں ہوتی ہے۔جناب باسط انور صاحب نے اپنی قیادت کے دور میں اپنی شخصیت کو ابھارنے کی ادنی کوشش بھی نہیں کی۔وہ بڑی خاموشی کے ساتھ سب کو ساتھ لے کر اپنی ذ مہ دار ہاں ادا کرتے رہے۔
جناب باسط انور کی زندگی کا خاص جوہر ان کی وسعت نظری اور وسیع القلبی تھی۔وہ تنگ نظر یا تنگ دل انسان نہیں تھے۔جماعت اسلامی سے وابستگی کے باوجود وہ دیگر مکاتب خیال کے افراد میں بھی اپنی مقبولیت رکھتے تھے۔ملت کے مشترکہ پلیٹ فارم بنانے میں ان کا اہم رول رہا۔ جب تک جناب سید وقار الدین مرحوم، چیف ایڈیٹر رہنمائے دکن کی قیادت میں مسلم متحدہ محاذ کام کرتا رہا ،عبد الباسط انور صاحب اس کے ذ مہ دار کے طور پر قیمتی مشورے اور تعاون دیتے رہے۔جب ریاست سے تلگودیشم کے اقتدار کو ختم کرنے کے لئے مسلم یونائٹیڈ فورم تشکیل پایا اس میں پورے خلوص کے ساتھ جناب عبد الباسط انور صاحب کی قیادت میں جماعت اسلامی ہند آندھراپردیش شامل رہی۔ اس فورم میں ریاست کی دیگر جماعتیں بھی شامل تھیں۔ دکن کےمشہور عالم دین مولانا حمید الدین عاقل حسامی ؒ اس کے صدر بنائے گئے تھے۔ فورم کی متحدہ کوشش کے نتیجہ میں ریاستی اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو اکثریت حاصل ہوئی اور دس سال کےطویل عرصہ کے بعد آندھرا پردیش میں وائی۔راج شیکھر ریڈی کی قیادت میں کانگریس کی حکومت قائم ہوئی۔ریاست کے مسلمانوں نے یونائٹیڈ فورم کی اپیل پر کانگریس کے حق میں متحدہ طور پر اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ ان تمام سرگرمیوں میں جناب عبد الباسط انور، جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ہر محاذ پر مسلمانوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ 2004کا یہ الیکشن کافی یادگار رہا۔پھر 2009میں بھی کانگریس کو مسلمانوں کی تائید سے اقتدار ملا۔ یہ الگ موضوع ہے کہ بعد میں جماعت اسلامی ہند، آندھرا پردیش نے بعض وجوہات کی بناء یونائٹیڈ فورم سے علاحدگی اختیار کرلی۔ علاحدہ تلنگانہ تحریک جس نے 2010کے بعد کافی زور پکڑ لیا تھا، اس دوران مسلم قیادت میں تلنگانہ کے مسئلہ پر اختلافات رہے ۔ جماعت اسلامی کا موقف یہ تھا کہ علاحدہ تلنگانہ کی تحریک میں مسلمان شریک ہوں تا کہ قیام تلنگانہ کے بعد وہ اپنے حقوق حاصل کرسکیں ۔اسی لئے جماعت نے علاحدہ تلنگانہ تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جماعت کے موقف کی تائید عام مسلمانوں نے بھی کی۔ 2014میں علاحدہ ریاست قائم ہوگئی ۔اس کے بعد مسلمانوں کی دیگر جماعتوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلیا کہ تحریک تلنگانہ میں مسلمانوں کی شمولیت ضروری تھی۔اس ساری تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اس دوران جماعت کی قیادت جو فیصلے کررہی تھی اس میں جناب عبد الباسط انور صاحب بھی شامل تھے۔وہ کوئی سیاسی آدمی نہیں تھے لیکن جماعت کے ذ مہ دار ہونے کے ناطے ان کی ملاقات آنجہانی وائی ۔ ایس۔ راج شیکھر ریڈی سے بھی ہوتی رہی جو ریاست آندھراپردیش کے چیف منسٹر تھے۔
جناب عبد الباسط انور ایک بہترین ادیب اور انشاء پرداز بھی تھے۔ان کے ادبی شہ پارے ادارہ ادب اسلامی ہند کے رسالہ پیشرفت میں شائع ہوتے رہے۔وہ اس ادارے کے ذمہ دار بھی رہے۔ان کا مطالعہ کافی وسیع تھا۔ وہ اگرچہ مقرر نہیں تھے لیکن گفتگو کا انداز اتنا دل پذیر ہوتا کہ بات دل تک اتر جاتی۔وہ بے مقصد گفتگو سے احتراز کرتے تھے اور خاص بات یہ کہ ان کی گفتگو میں ترش کلامی بالکل نہ ہوتی۔اپنے الفاظ سے کسی کی دل شکنی کرنا کبھی ان کا مقصد نہیں رہا۔صبر و تحمل ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔لوگوں نے انہیں کبھی غصہ کرتے ہوئے یا سخت الفاظ ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔زندگی میں ہمیشہ اعتدال اور توازن کو باقی رکھا۔بے اعتدالی اور بلاوجہ کا جوش کبھی ان میں نہیں دیکھا گیا۔دینی بصیرت اور فراست کا وہ ایک بہترین نمونہ تھے۔نازک اور سنگین مسائل کو بھی بڑی خوش اسلوبی اور حکمت سے حل کردیتے تھے۔نفاست پسندی کا بڑا خیال رکھتے تھے۔لباس کی پاکیزگی اور زیبائی میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔متانت اور سنجیدگی،وقار اور رکھ رکھاو ان کی پہچان تھی۔ باسط انور صاحب کا خمیر جس مٹی سے گوندھا گیا تھا اس میں اخلاص،للہیت اور دنیا سے بے نیازی کا عنصر شامل تھا۔اسی وجہ سے جماعتی حلقے میں وہ محبویت اور مقبولیت کی اعلی منزلوں پر فائز رہے۔
جناب عبد الباسط انور صاحب دل کے مریض تھے ۔22سال پہلے ان کی بائی پاس سرجری بھی ہوئی تھی۔ذیابیطس کے مرض نے بھی انہیں کافی پریشان کر کے رکھ دیا تھا۔لیکن اصل” درد دل” جس کا وہ شکار تھے وہ یہ تھا کہ وہ ملت کی دین سے دوری سے بڑے فکرمند رہتے تھے۔یہ غم انہیں کھائے جارہا تھا کہ امت میں دین کا صحیح شعور کیوں نہیں پیدا ہورہا ہے۔یہ امت قرآن و حدیث کو چھوڑ کر لغویات اور خرافات میں کیوں پڑ گئ۔ یہی "درد دل ” ان کی نیند اڑاچکا تھا۔وہ حالات سے مایوس نہیں تھے لیکن پریشان ضرور تھے۔وہ اپنے خالق حقیقی کے پاس جاچکے ہیں لیکن اپنے کردار کا اعلی نمونہ چھوڑ گئے ہیں ۔اس کی روشنی دور تک اور دیر تک تحریک اسلامی کے چاہنے والوں کو روشنی دیتی رہے گی۔جناب عبد الباسط انور مرحوم علامہ اقبال کے اس شعر کے عملی پیکر تھے۔
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز