مضامین

جنگوں کی وجہ بننے والا تیل کیا واقعی ڈائنو سارز کی باقیات سے نکلا؟

یہ آج کے معاشرے کو چلانے والا ایک انجن ہے، اس کی وجہ سے کئی جنگیں ہوئیں اور یہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے ذمہ دار عوامل میں سے بھی ایک ہے۔ ہر روز دنیا میں 80 ملین بیرل سے زیادہ تیل پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام لاطینی زبان سے آیا ہے اور اس کا مطلب ہے ’پتھر کا تیل۔‘ یہ چپکنے والا مائع جسے ’بلیک گولڈ‘ کہا جاتا ہے، ہائیڈرو کاربن کا مرکب ہے، ایسے مرکبات جو اپنی ساخت میں بنیادی طور پر کاربن اور ہائیڈروجن پر مشتمل ہوتے ہیں۔ تیل لاکھوں سال میں تبدیلی کے عمل کی پیداوار ہے لیکن یہ کہاں سے آیا ہے؟ زیادہ تر سائنس دان ایک نظریے کے حق میں ہیں لیکن اس نے کچھ غلط فہمیوں اور افسانوں کو بھی جنم دیا ہے۔
ڈائنوسار کا افسانہ:
ایک اندازے کے مطابق آج کے خام تیل کے ذخائر کا تقریباً 70 فیصد میسوزوک یا میسوزوک دور میں تشکیل پایا، جو 252 سے 66 ملین سال پہلے تک جاری رہا۔ میسوزوک دور کو رینگنے والے جانوروں کی عمر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اس میں ڈائنوسار کا عروج تھا۔ یہ شاید اس بات کی وضاحت کر سکتا ہے کہ غلط معلومات کیوں پھیلی ہیں۔ اوسلو یونیورسٹی میں ارضیات کے پروفیسر ریڈر مولر نے سائنس ناروے کو بتایا ’کچھ عجیب و غریب وجوہات کے باعث یہ خیال بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں پھنس گیا ہے کہ تیل ڈائنوسار سے آتا ہے لیکن تیل کھربوں چھوٹے کائی اور پلاکٹن (سمندر میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے جاندار) سے آتا ہے۔‘
کوئی بھی یقینی طور پر نہیں جانتا کہ یہ افسانہ کیسے شروع ہوا لیکن یہ لاطینی امریکہ میں بھی گردش کر چکا ہے۔ بی بی سی منڈو نے میکسیکو کے دو ماہرین سے پوچھا کہ کیا وہ اس سے واقف ہیں۔ ڈاریو سولانو اور ایزا کینالیس، میکسیکو کی نیشنل یونیورسٹی، یو این اے ایم کے ارتھ سائنسز ڈویڑن میں انجینئرنگ کی فیکلٹی کے پروفیسرز نے کہا ’جی ہاں یہ ایک غلط فہمی ہے لیکن بہت عام ہے۔‘ سولانو نے وضاحت کی ’کم از کم ہماری کمیونٹی کے اندر ہم اس بات کی شناخت کر سکتے ہیں کہ ہائیڈرو کاربن پیدا کرنے والی بہت سی چٹانیں جراسک پرتوں میں پائی جاتی ہیں جو کہ ارضیاتی دور ہے جسے اکثر ڈائنوسار سے منسلک کیا جاتا ہے اور شاید یہی وہ رشتہ ہے جس نے اس خیال کو تقویت دینے میں مدد کی ہے۔‘ کینالز نے مزید کہا ’معاشرے میں عام اور وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے مادے کے بارے میں غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان افسانوں کو غلط ثابت کیا جائے۔ دوم یہ کہ تیل کی ابتدا کے بارے میں جاننے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہی آگے بڑھنا ممکن ہو گا۔‘
تیل کیسے بنتا ہے؟ تیل کی ابتدا کی کہانی کے مرکزی کردار بڑے رینگنے والے جانور نہیں بلکہ چھوٹے جانور ہیں۔
تیل کی ابتدا کے بارے میں سب سے زیادہ قبول شدہ نظریہ نامیاتی ہے، جس کے مطابق یہ جانوروں کی باقیات اور سمندروں اور جھیلوں کے نیچے جمع ہونے والے کائی کے گلنے سے پیدا ہوا ہے۔ اس نظریے کے مطابق باریک تلچھٹ (دریا کے نیچے سطح زمین پر جمع ہونے والی مٹی اور پتھر) اور نامیاتی باقیات (خاص طور پر زمینی یا سمندری) ایک بیسن میں جمع ہوتے ہیں، یو این اے ایم کے سائنسدانوں نے وضاحت کی کہ بعض عوامل کے بعد کیروجن بنتا ہے، جو ان نامیاتی مواد کا مرکب ہے اور ایک طویل عرصے کے بعد دباؤ اور درجہ حرارت میں اضافے آخر کار ہائیڈرو کاربن چینز (chains) بنتی ہیں۔یہ نظریہ سب سے زیادہ قبول شدہ نظریات میں سے ایک ہے کیونکہ تیل کے تمام ذخائر تلچھٹ (دریا کے نیچے سطح زمین پر جمع ہونے والی مٹی اور پتھر) والے علاقوں میں پائے گئے ہیں اور اس کے علاوہ انھیں جانوروں اور پودوں کے فوسل باقیات بھی ملے ہیں۔
متبادل نظریات:
ماضی میں کچھ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ تیل کا ایک غیر نامیاتی ماخذ ہے اور یہ زمین کی گہرائیوں میں زندہ جانداروں کی باقیات کے بغیر بنتا ہے۔ ان میں سے کئی نظریات 19ویں صدی کے اوائل میں تجویز کیے گئے تھے، روسی کیمیا دان دیمتری مینڈیلیف اس کی ایک مثال ہیں جنھوں نے پہلا پیریاڈک ٹیبل شائع کیا۔ غیر نامیاتی نظریات کے مطابق زمین کی مینٹل (زمین کی کور اور اس کی سطح کے مابین پرت) کے اندر کاربن، ہائیڈرو کاربن مالیکیولز کے طور پر موجود ہو سکتی ہے، بنیادی طور پر میتھین اور پیٹرولیم میں پائے جانے والے ہائیڈرو کاربن کی ایک بڑی مقدار ایسے عمل کے ذریعے پیدا کی جا سکتی ہے جن کے لیے نامیاتی فوسلز کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ یہ ہائیڈرو کاربن زمین کی مینٹل سے نکل کر زمین کی پرت کی طرف ہجرت کر سکتے ہیں جب تک کہ وہ سطح پر نہ نکل جائیں یا تیل کے ذخائر بن جائیں۔
ان نظریات کا ایک ورڑن آسٹریا کے فلکیاتی طبیعیات دان تھامس گولڈ (1920-2004) کا ہے، جو کارنیل یونیورسٹی میں فلکیات کے پروفیسر تھے۔ گولڈ نے 1992 میں امریکن اکیڈمی آف سائنسز کے جریدے (پی این اے ایس) میں ایک مطالعہ شائع کیا، جسے بعد میں اس نے اسی عنوان کے ساتھ ایک کتاب کی شکل دی: ڈیپ ہاٹ بایوسفیئر۔ گولڈ کے مطابق، زمین پر موجود ہائیڈرو کاربن حیاتیاتی فضلہ (جیواشم ایندھن) کی ضمنی پیداوار نہیں بلکہ یہ ان مادوں کا ایک عام جزو تھے جن سے زمین تقریباً 4.5 بلین سال پہلے بنی تھی۔ گولڈ نے تسلیم کیا کہ یہی مفروضہ 1950 کی دہائی میں سوویت سائنس دانوں نے پہلے ہی پیش کیا تھا۔ تاہم پیٹرولیم کے غیر نامیاتی ماخد والے نظریہ کو سائنسدانوں کی اکثریت قبول نہیں کرتی۔ یو این اے ایم کے ماہرین نے کہا کہ ’ہم سائنس اور تحقیق سے وابستہ پنے ساتھیوں کے حوالے سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ غیر نامیاتی ماخذ کے نظریات کا کامیابی سے تجربہ نہیں کیا گیا اور اس طرح سے لیبارٹری میں ہائیڈرو کاربن پیدا کرنا ممکن نہیں۔‘
ایک آخری سوال
چونکہ پیٹرولیم کے ماخذ کا نامیاتی نظریہ سب سے زیادہ قبول کیا جاتا ہے، شاید کچھ قارئین خود سے یہ سوال پوچھیں۔ اگر ڈائنوسار بھی اسی وقت پائے جاتے تھے جب میسوزوک میں تیل کی تشکیل ہو رہی تھی، تو کیا ایسا ہو سکتا تھا کہ ان کی باقیات یعنی ڈائنوسار کا نامیاتی مادہ، سمندر یا جھیلوں کی تہہ میں گرتا اور دباؤ اور تبدیلی کے عمل سے تیل بن جاتا؟ یو این اے ایم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تیل کی پیداوار میں کوئی نامیاتی مادہ موجود ہو سکتا ہے۔’تاہم یہ بتانا ضروری ہے کہ تیل کی پیداوار ایک بہت نازک عمل ہے اور اس کے لیے مادے کی بہت بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے جو سمندر میں پلاکٹن (سمندروں میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے جانداروں) کی بڑی مقدار کی وجہ سے حاصل کرنا ممکن تھا، لہذا دیگر مادوں کی مقدار اتنی اہم نہیں۔‘