مضامین

جواس بات پرخوش ہیں کہ پریشاں ہیں ہم

صوفی انیس دُرّانی

اللہ تعالیٰ کاشکرہے کہ جب ہم اپنی نئی نسل سے جواعلیٰ تعلیم یافتہ ہے لگ بھگ مایوسی کا شکار ہوچکے تھے، انہیں لادین اوراسلام سے دور سمجھ رہے تھے، اچانک ہمارے مسلمان جواں عمر لڑکے دین کی طرف رجوع کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ دین اسلام کی طرف یہ رجوع صرف گریجویٹ سطح کے جوانوں میں پروان نہیں چڑھ رہا ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بہت عمدہ تنخواہیں پانے والے منیجر ومالی امور کے ماہرین ڈاکٹروں اور وکیلوں میں بھی فروغ پارہا ہے بلکہ انہیں اعلیٰ عہدوں پرفائز خواتین اور لڑکیاں بھی دفتر میں اپنے ذاتی مصلے رکھتی ہیں اور گھڑی دیکھ کر نماز ادا کرلیتی ہیں ہمارا اس نئی نسل کے ذہنوں سے احساس کمتری زائل ہورہا ہے۔ پہلے دفتروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز جواں افسران دفتر اوقات میں نماز پڑھنے سے کتراتے تھے لیکن اب زیادہ تر آس پاس کی مسجدوں میں نماز پڑھنے جاتے ہیں اور ذرابھی نہیں ہچکچاتے ۔ یہ تبدیلی کیسے پیداہوئی اس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا پر تیرتی ہوئی دینی معلومات ہے جو ہمارے بچوں کے ذہن میں جگہ بنارہی ہے ۔ آہستہ آہستہ ان پر عیاں ہورہا ہے کہ دین اسلام کوئی فرسودہ منجمد شے نہیں ہے جو پندرہ سوسال پہلے نازل ہوا تھا اور اب اس میں نئی صدی اور نئے دور کے لےے مواد نہیں ہے بلکہ فرسودگی ہے تازگی اور نئے دورکے نئے مسائل کے لیے کوئی راہ نہیں ہے۔ عام طورپر مغربی مشتشرقین نے اسی خیال کو پروان چڑھایا تھا اورغیرمحسوس طریقے پریہ مسلم نوجوانوں کے طرز فکر کا حصہ بن گیا تھا ۔ علاوہ ازیں بھارت کی آزادی کے بعدخاص طور پرشمالی ہنداور وسطی ہند میں مسلمانوں پر اقتصادی مارپڑی تھی، اس نے ان میں احساس کمتری پیدا کردیا تھا ۔ مسلمانوں کوسرکاری ملازمتوں میں جگہ نہیں دی جاتی تھی، اقتصادی حالت بہت خراب ہوچکی تھی۔ مسلمان زرعی زمینوں سے محروم کیے جاچکے تھے، ان کا ذریعہ معاش کم رقبے والی زرعی زمینوں اور مستری اوربجلی کے کاریگروں کے بل پر چل رہاتھا۔ مسلمانوں کی اقتصادی صورتحال میں آج بھی کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آئی ہے، بس تعلیم نے ان کے لےے سہولتیں پیدا کردی ہیں جس کو حاصل کرکے وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ معجزہ بھی اس لیے ہوا کہ دنیا میں ایک نیا گلوبل نظام ضرورت کے تحت رائج ہونا شروع ہوا جس کی تندوسخت لہریں بھارت میں آئیں۔ بین الاقوامی کمپنیوں کا نظام خالص تجارتی بنیادوں پر چل رہا ہے۔ جس میں بہترین صلاحیت کے مالک کودوسرے تمام لوگوں کے درمیان سے اچک لیا جاتاہے تاکہ اچھا قابل نوجوان کمپنیوں کے لیے سود مند ثابت ہو۔ ان کے مذہب سے کمپنی کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس سبب سے مسلمان نوجوانوں کا ایک سیلاب سابین الاقومی کمپنیوں میں آگیا ہے۔ اعلیٰ ترین صلاحیت کے مسلمان بڑی بڑی کمپنیوں میں اعلیٰ عہدے حاصل کررہے ہیں یہ رجحان ساری دنیا میں ہے۔سعودی عرب میں گلف یعنی خلیجی ممالک میں کثیر تعدا دمیں غیرمسلم ماہرین نوکریاں کررہے ہیں۔
لیکن گﺅ موتر اور گوبر میں پوشیدہ طبی خصوصیات پر یقین کرنے والا ملک بھارت، موتراورگوبرمیںپوشیدہ طبی خصوصیات پر تحقیق کرنے والا ملک بھارت ابھی تک اس فرسودہ نظام سے نجات نہیں پاسکاہے۔ وہ آج بھی بڑھنے کی بجائے تنگ نظری کی دلدل میں مزید دھنستا جارہا ہے۔ لکھنو¿میں نوتعمیر کردہ ”لولومال“ اسی تنگ ذہنی کا آئینہ ہے۔ چند ہفتے قبل میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ سنگھ پریوار اور بھاجپا حکومت بھارت کو ہندوراشٹر بنانے کے نام پر جس شیرکی سواری کررہے تھے وہ شیر اب اس کے کنٹرول سے باہر ہوچکا ہے اور وہ اب اپنی پشت پر کسی کو سوار نہیں کرنا چاہتا اور قلانچیں مارکر لطف اندوز ہونا چاہتا ہے چنانچہ صورتحال یہ ہے کہ مجھے حضرت امیر خسرو کا یہ شعر یا دآرہاہے۔
کھیر پکائی جتن سے چرخادیا جلا
آگیا کتا کھا گیا کھیر تو بیٹھی ڈھول بجا
کئی سال سے یوگی اور مودی اس بات کے لیے کوشاں تھے کہ کسی طرح سعودیہ اور خلیجی ممالک سے بھارت میں سرمایہ کاری کراسکیں، لیکن بھارت ناکام رہا۔ لیکن اس نے کوشش ترک نہیں کی اور بالآخر انھوںنے کیرالا کے بڑے تاجر یوسف علی کو اس بات کے لےے رضا مند کرلیا کہ وہ بھارت میں سرمایہ کاری کریں ۔ دنیا کے ۲۰ممالک میں بھائی یوسف علی کے ”لولواسٹور اور لولومال“ ہیں۔ ”لولو“ ایک عربی لفظ ہے جو سمندری موتیوں کے لیے استعمال ہوتاہے یہ وہی ”لولو“ ہے جس کا شمار ہمارے خالق نے سورہ رحمان میں اپنی نعمتوں کے ضمن میں ”لولووالمرجان“ کہہ کرنشاندہی کی ہے۔
بھائی یوسف علی کا لولومال اترپردیش کے شہر لکھنو¿ میں دوہزار کروڑ کی مالیت سے بنا ۔ یہ ایشیا کاسب سے بڑا مال ہے۔ بھارت میں یوسف علی نے لگ بھگ آٹھ ہزار کروڑ کی سرمایہ مزید کررکھی ہے۔ چنانچہ وہ بھارتی افسرشاہوں کی بدعنوانیوں اور طریقہ کار سے بخوبی واقف ہیں۔ بہرحال یوگی اور مودی کی بہت کوششوں کے بعد یوسف علی لکھنو¿میں سرمایہ کاری کے لیے رضامند ہوئے اور انھوں نے لولومال بنایا جس کا دس جولائی کوافتتاح ہوا۔ گیارہ جولائی کو اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا ۔ اب یہاں سے اس تحریر کوآغاز سے ملا دیجئے توآپ کی سمجھ میں آجائے گاکہ اس لولو مال کو کیسے نام نہاد وشواہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لوگوں نے اپنانشانہ بنایا۔ ہوایوں کہ گیارہ جولائی کوجب اس کے دروازے عام گراہکوں کے لیے کھولے گئے تومال کے کھلے حصے میں خالی جگہ دیکھ کر نماز کا وقت ہوجانے کے سبب کچھ نوجوانوں نے نماز باجماعت ادا کرلی ۔ان کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ نماز ادا کرنے کی خاموش اور سیدھی سادھی عبادت کرنے سے بھی کچھ لوگوں کوتکلیف ہوسکتی ہے ۔ ان نمازیوں نے خود یا کسی دوسرے شخص نے نمازپڑھنے کا ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر جاری کردیا۔ بس جناب ہندوتوا عناصر نے کہرام مچاڈالا۔ اس نے اگلے روز نماز کے مقابلے میں ہنومان چالیسہ کا پاٹھ شروع کردیا ۔ اول تویہ بات بہت شر کی ہے کہ ایک عبادت کے جواب میں مقابلہ آرائی کی جائے۔ اسلام نے توواضح طورپر قرآن میں اس طرح کی ممانعت کی ہے کہ کسی دوسرے مذاہب کے معبودوں کو برابھلا نہ کہو۔ اس سلسلے میں مسلمان کبھی بھی ہندو دھرم کے معبودوں کی بے عزتی نہیںکرتے اور انھیں برا بھلا کہتے نظرنہیں آئیں گے۔ لیکن ہمارے ان ہندوتوا کے ماننے والوں نے پون پتر ہنومان کا خودمذاق اڑانا شروع کردیاہے۔ ہم بچپن سے دیکھتے آئے ہیں کہ ہنومان پاٹھ بڑی شردھا سے کیا جاتا تھا وہ ایک پوجا تھی رام چندر جی مہاراج کے سچے بھکت کو یاد کرکے ان سے آئی مصیبت وآفت میں مددطلب کیا کرتے تھے، لیکن ہندوتوا کے اندھ بھکتوں نے اسے بلیک میل کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔چنانچہ مٹھی بھر لوگ اس نماز کی جگہ پر اکٹھے ہوئے ان کے ہاتھوں میں تختیوں پر ہنومان چالیسہ پاٹھ لکھا ہواتھا۔ اصل میں ان کو یہ تکلیف تھی کہ جو سرکار سڑکوں اور پارکوں میں نمازپڑھنے کے خلاف تھی، اس نے کیسے عوامی جگہ پر نماز ادا ہونے دیا۔ ان کادرد یہ تھا کہ اب تک مسلمانوں کو دبانے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ اور لولومال میں نماز پڑھ کر ان کے منہ پر طمانچہ رسید کردیا گیاہے۔ پولیس ابھی تک توان لوگوں کی شناخت نہیں کرسکی ہے جو انجانے میں نماز پڑھ کر ہندوتوا والوں کی توہین کرکے چلے گئے البتہ اس نے ہنومان چالیسہ پاٹھ کرنے والے دس افراد کو گرفتار کرلیاہے۔ اس نے ہندوتوا والوں کے زخموں پر نمک مرچ چھڑک دیا ہے۔ اگر چہ لولومال کے مقامی انتظامیہ اور افسران نے ان احمقوں کو راہ راست پر پر لانے کی بہت کوشش کی مگر بے سود بالآخر یوسف علی کے دفتر سے خودبیان جاری کیا گیا کہ اس مال میں نوکر ی پانے والوںمیں ۸۰اسی فی صدملازمین غیرمسلم ہیں بقیہ بیس فی صد میں عیسائی مسلمان اور دوسری قومیتوں کے لوگ ہیں۔
یہ بیان اس لیے جاری کیا گیا کہ ہندوتوا کے لوگ بہت نچلی سطح پر اترآئے تھے۔ انھوں نے الزام تراشی کی تھی کہ مال میں زیادہ تر کام کرنے والے مسلمان ہیں اور وہ دوسری ریاست (کیرالا) سے لاکر بھرتی کیے گئے ہیں۔ ان کی شرانگیزی کو روکنے کے لیے یوسف بھائی کوایسا بیان جاری کرنا پڑا۔ لولو کے ریجنل ڈائریکٹر گنگا دھر کے مطابق ”لولو“ ایک تجارتی کمپنی ہے۔ نودیپ سوری جو عرب امارت میں بھارت کے سفیر رہے ہیں، انھوںنے ایک ٹوئٹ جاری کرکے تمام واقعہ کو افسوسناک قرار دیا ہے اورکہا ابھی یوسف علی صاحب نے بھارت میں دس ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری کی ہے، ابھی مزید تین ہزار کروڑکی سرمایہ کاری کی بات چل رہی ہے جس سے مزیددوہزار لوگوں کو روزگار ملے گا۔ ایسے واقعات سے سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی ۔ یوپی کے وزیر صنعت نندگپتا نے اسے سماج دشمن عناصرکاکام قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ان سماج دشمن عناصر کی شرارت ہے جو سرمایہ کاری سے ناخوش ہیں۔ میں سرمایہ کاروں کو یقین دلانا چاہتاہوں کہ ان کے سرمایہ کی حفاظت کی جائے گی اور ان کے مخالف عناصر کا پردہ فاش کیا جائے گا۔
مجھے نندگوپال گپتا کے اس بیان پربہت ہنسی آرہی ہے کیوں کہ یہ سارا ماحول ہی موجودہ مرکزی وریاستی حکومت کاپیدا کردہ ہے انھوںنے جس جتن کے ساتھ اترپردیش کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کیا تھا، آج انہیں اسی کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے۔ انھوںنے الیکشن جیتنے کی خاطر یا الیکشن سے حاصل ہونے والی کھیر کھانے کے لیے ہرممکن جتن کیا، حد تویہ ہے کہ جس لکڑی کے چرخے سے گھر کے کپڑے بنتے تھے، اس کو ہی جلاکر کھیر تیار کی مگر وہ کھیر تیار کرنے کی خوشی میں اتنی مگن ہوئی کہ اس نے اظہار کے لیے ڈھولک بجاناشروع کردی اس مستی کے عالم میں کہیں سے کوئی سگ آوارا داخل ہواجس نے مزے لے لے کر ساری کھیر کھالی۔ تعمیر کی پامالی دیکھ کر اس کوبے حد صدمہ ہوا۔ اور اپنا غم غلط کرنے کے لیے زور زور سے ڈھولک بجانے لگی۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ صرف امیر خسرو نے اپنی چشم بینا سے اس واقعہ کو دیکھ کر ہی یہ شعر کہا تھا کہ یوگی اور مودی کو یہ فکر کرنی چاہےے کہ وہ جس طرح ہاتھ پاو¿ں جوڑ کر گلف سے سرمایہ لاتے تھے اب عالم عرب اور اسلامی ممالک میں کیا پیغام جائے گا کہ بھارت میں اب نمازپڑھنے پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔
مجھے اپنے مسلم بھائیوں سے امید ہے کہ وہ احکامات نماز کی پیروی کرتے ہوئے نمازا دا کریں گے اور نماز کو تماشا نہ بننے دیں گے ۔میں یوسف بھائی سے درخواست کرتاہوں کہ لولومال میں ایک کمرہ برائے نماز عبادت مختص کردیںتاکہ مال کے ملازمین اور گراہک وقت مقررہ پر نماز ادا کرسکیںاور شرپسندوں کا یہ اعتراض بھی ختم ہوجائے کہ مسلمان عوامی جگہوں پر نماز کیوں ادا کرتے ہیں۔
جو اس بات پر خوش ہیں کہ پریشاں ہیں ہم
یہ نہیں جانتے وہ خود بھی پریشان ہوں گے
٭٭٭

a3w
a3w