ایشیاء

خاتون جج کو دھمکانے کا سوچ بھی نہیں سکتا: عمران خان

اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ اپنے الفاظ پر جج زیبا چوہدری سے پچھتاوے کا اظہار کرنے سے شرمندگی نہیں ہو گی، عدلیہ کے خلاف توہین آمیز بیان کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف پارٹی (پی ٹی آئی) کے چئیرمین اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے توہین عدالت معاملے میں جج زیبا چوہدری سے متعلق اپنے الفاظ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریری جواب داخل کرا دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سے متعلق بیان پر عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

بعد ازاں، جاری شوکاز نوٹس میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 31 اگست کو پیش ہو کر بتائیں کہ آپ کے خلاف توہین عدالت کارروائی کیوں نہ کی جائے۔

31 اگست کو چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا کہ جو جواب پڑھا مجھے اس کی توقع نہیں تھی، گزرا ہوا وقت زبان سے کہی ہوئی چیز واپس نہیں جا سکتی، مجھے توقع تھی کہا جائے گا غلطی ہوئی ہے، توقع تھی آپ عدالتوں میں جاکر کہیں گیں آپ پر اعتبار ہے، عمران خان جیسے آدمی کو کیا ایسا کرنا چاہیے تھا۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے عمران خان کے وکلا کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی تھی۔ عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے غیر ارادی طور پر بولے گئے الفاظ پر افسوس ہے، بیان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔

اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ اپنے الفاظ پر جج زیبا چوہدری سے پچھتاوے کا اظہار کرنے سے شرمندگی نہیں ہو گی، عدلیہ کے خلاف توہین آمیز بیان کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

چئرمین پی ٹی آئی نے جواب میں کہا ہے کہ تقریر کے دوران لفظ ’شرمناک ’توہین کے لیے استعمال نہیں کیا، جج زیبا چوہدری کے جذبات مجروح کرنا مقصد نہیں تھا۔عمران خان نے عدالت عالیہ میں داخلکرائے گئے اپنے بیان میں کہا کہ میرے الفاظ سے جج زیبا چوہدری کے جذبات مجروح ہوئے، اس پر گہرا افسوس ہے، غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔

انہوں نے جواب میں کہا ہے کہ کبھی ایسا بیان دیا نا مستقبل میں دوں گا جو کسی عدالتی زیر التوا مقدمے پر اثر انداز ہو، میں عدلیہ مخالف بدنیتی پرمبنی مہم چلانے،عدالتی کارروائی یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے بیان میں سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں غیر مشروط معافی نہیں مانگی، عمران خان نے توہین عدالت کیس کے جواب میں افسوس کا اظہار کیا ہے۔

خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔