مظہر قادری
مرنے والے کی جان گئی اورغیرمتعلقین کا متعلقین سے پہلا سوال ہوتا زیارت کی دعوت کب ہے؟ ایسانظرآرہاہے کہ ہمارا معاشرہ صرف اورصرف کھانے کے لیے پیداہواہے۔دوسری قوم کے لوگ کھانا کم کھاتے ہیں، اس لیے سوتے کم ہیں اورکام زیادہ کرتے ہیں، لیکن ہماری قوم والوں کا آدھاوقت کھانے میں اورآدھاوقت سونے میں گزرجاتا ہے۔ہرہوٹل میں،ہرتفریح گاہ میں،ہرکھانے کی جگہ پر صرف اورصرف ہمارے لوگ نظرآئیں گے۔صبح چھ بجے ہوٹل میں بیٹھ کر نہاری روٹی کھاتے نظرآئیں گے اوررات کے بارہ بجے کسی ہوٹل میں بیٹھ کر بریانی کھاتے نظرآئیں گے۔
پہلے زمانے میں بڑی مشکل سے مردچائے خانوں میں بیٹھ کر ایک میں دوچائے پی کر گپ بازی کرتے رہتے، لیکن اب ترقی اوردولت کی افراط میں ہمارے لوگوں کے زنانے کو بھی ہوٹلوں میں پہنچادیا۔ہرہوٹل میں پورا خاندان کاخاندان بیٹھا کھاتا نظر آرہاہے۔ایک توعورتوں نے گھرمیں پکانا چھوڑدیاہے اوردوسرے مردوں کی برابری کا دعویٰ کرتے ہوئے ہردن ایک نئی ہوٹل میں جاکر کھارہی ہیں۔ ہماری ساری کمائی صرف اورصرف ہوٹل بازی میں خرچ ہورہی ہے۔ صحت کی بربادی کی کسی کوفکر نہیں ہے۔شادی بیاہ پر ہم صرف اورصرف کھانے کے لیے جارہے ہیں اورکھاکر طرح طرح کے نام رکھ رہے ہیں۔خیرخوشی کا کھانا ضرورکھاؤ، کیوں کہ اگرکوئی بیوقوف بن کر لاکھوں روپئے خرچ کرکے چاہے قرض سے ہو یا گھر بیچ کر ہو،اپنی عزت بچانے یا جھوٹی شان بتانے کے لیے کھلارہاہے توضرور کھاؤ کیوں کہ اب یہ ہمارا کلچر ہوگیاہے۔ہاں البتہ ہمیں شرم آنی چاہیے جب کسی کے گھرمیں کسی کا انتقال ہوجائے توپہلے زمانے میں دوست عزیز و احباب کسی کو پتہ نہیں چلے جیسا پہلا سوال کرتے تھے کہ پیسوں کی کوئی فکرمت کریے اورخاموشی سے لواحقین کے ہاتھ میں رکھ دیتے تھے یہ سوچ کر کہ ایسے برے وقت میں یہ پیسے ان کے کام آئیں گے، یہ مددبے لوث رہتی تھی۔اوربڑے سے بڑے آدمی کے گھرمیں بھی ایسے برے وقت میں یہ کام آتی تھی،لیکن اب وقت بدل گیا ہے،اب ناتوکسی کا مرنا کسی کانقصان ہے ناغم ہے ناکوئی ہمدردی ہے۔اب چاہے کسی کا قریبی عزیز بھی کیوں نہ مرجائے یہ صرف آج کی خبر ہے، کل سب اس کو بھول جارہے ہیں۔آج کل جیسے ہی کسی کا انتقال ہواخاندان کا کوئی آدمی یادوست خودساختہ لیڈ ربن جاتاہے اورسب کو مختلف ذمہ داریاں اورآرڈ ردینا شروع کردیتاہے۔سپلائنگ کمپنی کو کرسیاں اورڈیرے کاآرڈردے دیتاہے،ہوٹلوں کو کھانے کاآرڈ ردے دیتاہے اورہرچیز کاپیسہ مانگنے والا جب آتاہے توبولتا بھابی سے جاکے پیسے لے لو یعنی متوفی کی بیوی سے یا بچوں سے کہلواتاہے امی کو بولواتنے پیسے دیدویعنی خود صرف زبانی جمع خرچ کرتارہتاہے۔ ایک بھی پیسہ اپنی جیب سے خرچ نہیں کرتا۔اگرکسی کی بیوی کاانتقال ہواتومردخاموشی سے خرچ کرتے رہتالیکن عموماً مردپہلے مرجاتے اوربیچاری بیوی اپنے غم کو بھول کر یہ سب خرچ بھگتتے رہتی۔حاضری کوئی لاؤ یانہ لاؤ لیکن کھانے کے لیے پورے گھروالوں کو ضرورلالیتے۔بیچارے متوفی کے گھروالے غم مناہی نہیں سکتے، صرف آنے والوں کے لیے کھانے کا انتظام کرتے رہتے۔ ہرایک کو ایسے غم کے وقت بھی پیٹ بھر کرکھانا کھلاکربھیجنا پڑتا۔میت کے گھرسے واپس آکر عموماً ایسے تبصرے کرتے رہتے۔”بیوی تونیا سوٹ پہن کربیٹھی تھی“، ”بہوتوبس خالی پھررہی تھی“ ایسا دکھ رہاتھا جیسے بیوی بچوں کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔کسی کی آنکھ میں ایک آنسوبھی نہیں تھا،کوئی زیادہ رورہاہے توناٹک کررہے تھے بولتے،کوئی صبر کرکے بیٹھاتوبولتے ان کو توکوئی غم ہی نہیں دکھ رہاتھا،اگرگھرصاف دکھاتوتعجب سے بولتے کہ میت کا گھرہی نہیں دکھ رہاتھا۔
حلق تک بریانی بھرکرمرحوم کے گھرسے نکل کر اس قسم کے گٹھیاتبصرے کرناہمارے معاشرے کے لوگوں کی عاد ت ہوگئی ہے۔ کسی کے گھرمیں انتقال ہوجائے تویہ کھانا کھلانے کی رسم کو ہمیں مکمل طورپر ختم کردینا چاہیے۔اگرہم سے ہوسکے تومرحوم کے گھروالوں کے لیے حاضری لے جائیں اورگھرآکر اپنے گھرکا کھانا کھائیں۔اگرہم میں ذرہ برابربھی انسانیت باقی رہ گئی ہے تویہ تبرک چکھنے کے نام پر مرحوم کے گھرمیں چارپلیٹ بریانی حلق تک بھرنا چھوڑدیں اوریہ بیجا زیر بار کرنے والی رسموں کا مکمل طورپر خاتمہ کریں تاکہ کسی گھرمیں صرف کسی انسان کے جانے کا ایک ہی دکھ ہولوگوں کو کھلاکر مختلف نام سننے کا دکھ نہ ہو۔
میرے دوستاں میرے چہلم میں آکو
پلائیں نہ روئیں نگل کو چلے گئیں
٭٭٭