انٹرٹینمنٹسوشیل میڈیا

دلیپ کمار کا 100واں یوم پیدائش، اسپیشل فیچر

ہندوستانی فلمی دنیا کے سب سے قدآور فن کاریوسف خان یعنی دلیپ کمار اگر آج حیات رہتے تو صدسالہ سالگرہ منارہے ہوتے،لیکن ۹۸ سال کی عمر میں انہوں نے داعی اجل کولبیک کہہ دیا۔

ممبئی: ہندوستانی فلمی دنیا کے سب سے قدآور فن کاریوسف خان یعنی دلیپ کمار اگر آج حیات رہتے تو صدسالہ سالگرہ منارہے ہوتے،لیکن ۹۸ سال کی عمر میں انہوں نے داعی اجل کولبیک کہہ دیا۔بہت سب لوگ جانتے ہیں کہ دلیپ کمار نے فلموں کے ساتھ ساتھ ،تعلیمی، فلاحی اور سیاسی سطح پر بھی سرگرمیاں دکھائیں بلکہ مہاراشٹر کے شولاپور ضلع میں ان کی والدہ کے نام سے ایک اسکول ہے جس کی دیکھ بھال ان کے چھوٹے بھائی احسن خان کرتے تھے ،احسن اور اسلم خان دیڑھ سال قبل کوویڈ کاشکار ہوئے تھے۔

اپنی سوانح عمری میں دلیپ کمار نے ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہروکے ساتھ ساتھ لال بہادر شاستری، اندراگاندھی،اٹل بہاری واجپئی،این سی پی رہنماء شرد پوار اور شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے اور ان کے اہل خانہ کے درمیان قریبی تعلقات کاذکرتے ہوئے اپنی سیاسی تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کو ‘نیاکردار نیک مقصد کی تئیں ‘کے عنوان سے پیش کیا ہے جبکہ اس کے ابتدائی صفحہ پر مذکورہ کتاب کواپنے والدین سے منسوب کیا ہے، اماں اور آغا جی کی یاد میں اور یہ شعر تحریر ہے،

سکون دِل کے لیے کچھ تو اہتمام کروں
ذرا نظر جو ملے پھر انھیں سلام کروں
مجھے توہوش نہیں آپ مشورہ دیجیے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں

انہوں نے "نیاکردارنیک مقصد کے لیے ،” کے عنوان سے سیاسی سرگرمیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کیاکہ” فلم سگینہ مہاتو کے بعد سیاسی منشاء کے بارے میں اکثر سوال کیے جاتے تھے۔ کیونکہ اکثر ایک سیاسی فلم کے بعد مجھ سے ملاقات کرنے والے صحافی یہ جاننے کے خواہشمند تھے کہ کیا مجھے کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے اور سیاست میں سرگرم عمل دخل لینے سے کوئی دلچسپی ہے؟ مجھے اس بات کا جواب دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی کہ سیاست میں میری شمولیت انتخابی مہم تک ہی محدود ہوگی اور جس میں میں حصہ لوں گا اورمیں پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں نشست پر براجمان ہونے کے بارے میں نہیں سوچتا ہوں۔”لیکن نوے کے عشرے میں انہیں کانگریس حکومت نے راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیاتھا۔

دلیپ کماررقمطراز ہیں کہ پہلی بار 1962 کے اوائل میں انہوں نے لوک سبھا امیدوار کے لئے انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا، دراصل جب وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے انہیں ذاتی طور پر دہلی سے فون پر بات کی اور انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) کے دفتر جانے کے لئے وقت نکالنے کی گزارش کی تاکہ ممبئی شمالی لوک سبھا کے حلقہ سے کانگریس امیدوار وی کے کرشنا مینن سے ملاقات کریں اور انتخابی مہم میں حصہ لیں۔ جوہو میں واقع کانگریس دفتر میں شمالی بمبئی سے انتخاب لڑ رہے تھے۔

کیونکہ ان کا مخالف اور کوئی نہیں بلکہ اچاریہ جے بی کرپلانی ،کانگریس کے سابق صدر ہیں۔کسان مزدور پرجا پارٹی کے امیدوار ہیں۔دکیپ کمار نے کرشنا میمن کے بارے میں لکھا ہے کہ کشمیر کے قضیہ پر ہندوستان کا موقف پیش کرنے کے لیے جنوری 1957 میں انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلسل آٹھ گھنٹے خطاب کیا تھا۔اس لیے ان کے لیے مہم میں حصہ لینا لازمی تھا۔ نہروجی نے کہاتھا کہ دلیپ کمار اردو،ہندی،انگریزی کے ساتھ ساتھ مراٹھی فراٹے سے بولتے ہیں۔دلیپ کمار نے اس موقع پر ہوئی رجنی پٹیل اور اہلیہ بکل پٹیل سے اپنی دوستی کا بھی ذکر کیا ہے۔

دلیپ کمارواحد فلم گنگاجمنا کے فلمساز بھی تھے،لیکن ڈکیتی کے موضوع پر بنائی جانے والی فلموں کو اس وقت سنسر بورڈ میں سخت سنسرشپ کاسامنا کرنا پڑتاتھا،لیکن جواہر لعل نہرو اور مرکزی وزیر برائے اطلاعات ونشریات کی مداخلت اور اخلاقی کہانی اور معاشرے میں پھیلتی بدامنی سے نوجوانوں کو روکنے کے مقصد کی بات کیے جانے کے بعد ریلیز سے ایک دن قبل کلئیر کردیا گیا۔جس پر سبھی نے چین کی سانس کی تھی۔

این سی پی رہنما شرد پوار کیساتھ اپنے تعلقات 1967 سے بتاتے ہوئے دلیپ کمار نے کہاکہ شردپوارسے نصف صدی پرانے تعلقات ہیں اور انہوں نے ہی 1980 ء میں ممبئی کا شریف مقرر کیا تھا،جب پوار 1978 میں کانگریس سے بغاوت کے بعد مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بنے تھےاور ریاست میں کافی مقبول و مضبوط تھے۔شردپوار آج بھی قدآور سیاست دان ہیں۔

دلیپ کماراپنی زندگی میں دو مرتبہ پاکستان گئے اور آبائی وطن پشاور کے قصہ خوانی بازار بھی گئے ،پہلی مرتبہ اپریل 1988 اور دوسری بار 1998 میں گئے تھے،دراصل انہیں نشان پاکستان دینے کا اعلان کیاگیا تھا،لیکن سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے نے اعتراض کیا،اوراحتجاج کے پیش نظردلیپ کمار نے اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی سے ملاقات کی کتاب میں واجپئی جی سے اپنے مراسم کا خصوصی ذکر کیا،اس موقع پر واجپئی نے کہاکہ "آپ ایک فن کار ہیں اور فن کار کے لیے کسی بھی طرح کی سیاسی یا جغرافیائی پابندی نہیں ہونا چاہیئے،آپ نے ہمیشہ انسانی حقوق اور انسانیت کی بقاء کے لیے کام کیا ہے۔آپ جیسے فن کاروں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی رشتہ استوار ہوں گے۔

دلیپ کمار نے راج کپورکی فیملی ،سنیل دت ،دھرمیندر، منوج کمار،پران،اور دیگر اداکاروں کے ساتھ تعلقات کو پیش کیا ہےاور آنجہانی شیوسینا بال ٹھاکرے کے بارے میں دلیپ صاحب کا کہناہے کہ "وہ ‘ٹائیگر’ کے طور پر مشہور تھے ،لیکن میرا خیال ہے کہ آنجہانی شیوسینا سربراہ ایک ‘شیر ببر ‘ تھے،جوکہ قیادت کے ساتھ اپنے پرستاروں کو متاثر کرتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو 1966 سے پہلے سے جانتے تھے ،جب شیوسینا بھی نہیں بنی تھی۔ہم دونوں ایک دوسرے کے پیشے یعنی وہ میرے فن کی اور میں ان کے کارٹون کو پسند کرتا تھا۔مشہورانگریزی شامنامہ مڈڈے نے دودہائی قبل ایک شادی کی تقریب میں دونوں کی ملاقات کی تصویر پر "دوستاروں کا زمیں پر ملن …” کا کیپشن لگایا تھا۔

مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھوٹھاکرے،ان کی اہلیہ اور آنجہانی مینا تائی کا بھی تذکرہ ادب سے کیا ہے اور ادھوکا ایک باصلاحت،باادب اور مہذب انسان بتاتے ہوئے ان کے بہتر مستقبل کی پیش گوئی بھی کی ہے۔بلکہ ان کے انتقال پر بحیثیت وزیراعلی ادھو ٹھاکرے پالی ہل کی رہائش گاہ پہنچے تھے۔

انہوں نے سنجے دت کو جیل سے رہائی دلانے میں اداکار سنیل دت کی قانونی طور پر مدد کرنے کا بھی ذکر واضح طور پر کیا ہے ،دلیپ کمار خود اس معاملے میں پیش پیش رہے تھے۔

ممبئی فسادات کے دوران اور ریلیف کے کاموں میں ان کا اہم حصہ رہا ،جنوبی ممبئی کے معروف تعلیمی ادارہ انجمن اسلام سے تعلیم حاصل کرنے والے دلیپ صاحب نے شولاپور کے قریب لڑکیوں کا اسکول اپنی والدہ۔کے نام کھولا اور اس کی دیکھ بھال احسن خان کرتے تھے۔اب سارا نظام سائرہ بانو کے ہاتھوں میں ہے۔

واضح رہے کہ حال میں مہاراشٹر کی 101،بارسوخ اور عوامی شخصیات میں اوبی سی تحریک کے شبیرانصاری کو بھی شامل کیا گیا ،جن میں مہاراشٹر کے مشہوروسرگرم سماجی ،سیاسی،فلمی ،ثقافتی اور کھیل کود سے وابستہ افراد شامل ہیں اور انہوں نے کہاکہ معروف اداکار دلیپ کمار بھی ایک عرصہ تک اوبی سی مہم شریک رہے تھے۔