حمید عادل
چہرے کو کھلی کتاب کہا گیا ہے جب کہ کچھ چہرے ہوتے ہی کتابی ہیں …کچھ چہرے دنیا کا چہرہ دیکھ کر آخرت کا چہرہ بھول جاتے ہیں تو کچھ چہرے ، چہرہ پر چہرہ لگا کر جیتے ہیں،گویا وہ دو چہروں کے بنا زندہ ہی نہیں رہ سکتے …یہ وہ چہرے ہوتے ہیں جنہیں اپنا اصلی چہرہ تک یاد نہیں رہتا … آئینہ دیکھتے ہیں تو اپنا ہی عکس دیکھ کر کہتے ہیں ’’ میں نے شاید آپ کو کہیں دیکھا ہے ، کہاں دیکھا ہے کچھ یاد نہیں آرہا ہے ۔‘‘
چہرے پر اک چہرہ لگانا سیکھ لیا
آخر ہم نے طور زمانہ سیکھ لیا
امردیپ سنگھ
چہرے پر چہرہ لگا کر جینے والوں کے تعلق سے آپؐ نے فرمایا ’’ لوگوں میں سب سے برا وہ ہے جس کے دو چہرے ہوں، جو کبھی ایک گروہ کے پاس جائے تو ایک چہرہ لے کر جائے اور دوسرے گروہ کے پاس جائے تو دوسرا چہرہ لے کر جائے۔‘‘
وہ آدمی ہی انسان کہلاتا ہے جو ایک چہرے کے ساتھ زندگی گزارے …معروف شاعر سراج اورنگ آبادی نے کیا خوب کہاہے :
دو رنگی خوب نئیں یک رنگ ہو جا
سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا
آج یہ سمجھنا خاصا دشوار ہوچلا ہے کہ کونسا اصلی چہرہ ہے اور کونسا نقلی؟کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جسے ہم اصلی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ نقلی ہوتا ہے اور جسے نقلی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہی اصلی ہوتا ہے ۔ضروری نہیں ہے کہ جو نیک نظر آئے وہ نیک ہی ہو اور ضروری یہ بھی نہیں ہے کہ جو آدمی برا نظر آئے وہ برا ہی ہو …کوئی چہرہ ایسا بھی ہوتا ہے ،جو دوسروں کی باتیں ہوا میں اچھالتا پھرتا ہے،دوسرے آپ کے تعلق سے کیا سوچتے ہیں؟دوسرے آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ غرض وہ ساری باتیں جو ’’موکیمبو‘‘ کو چاہیے ہوتی ہیں، اس کے کان میں انڈیلتا چلا جاتا ہے… اور پھر وہ موقع آتا ہے جب موکیمبو پرجوش انداز میں نعرہ مارتا ہے ’’ موکیمبو خوش ہوا‘‘لیکن موکیمبو کوزیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،اسے یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ جسے وہ ہمدرد سمجھ رہا ہے کل وہی خبری لال، اس کی قبر بھی کھود سکتا ہے … کیوں کہ دو چہرے والے چہرے کا اپنا کوئی چہرہ نہیں ہوتا ، دھوکا ہی اس کا چہرہ ہوتا ہے۔
فلم ’’ سچا جھوٹا‘‘کا ایک سحر انگیز نغمہ ہے ’’ دل کو دیکھو چہرہ نہ دیکھو، چہرے نے لاکھوں کو لوٹا، دل سچا اور چہرہ جھوٹا ‘‘لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسان کی سوچ و فکر ہی نہیں اعمال تک چہرے پر عیاں ہوجاتے ہیں …کہنے والوں نے Face is the index of mind کہا ہے ۔ مشہور فلسفی ارسطو نے انسانی چہرے کا بہت قریب سے جائزہ لیا ہے،ماہر نفسیات جب بھی کسی شخصیت کے کردار کے بارے میں خصوصیات کا تعین کرتے ہیں تو وہ ان کا ابتدائی جائزہ اس شخص کے چہرے پر پائے جانے والے مخصوص تاثرات سے ہی اخذ کرتے ہیں… انسان کا چہرہ کیا ہے؟ انسان کی کھوپڑی Skull کے جس حصے کو نرم گوشت یا Tissues Soft نے ڈھانپ رکھا ہے وہ چہرہ کہلاتا ہے۔ انسان کی پیشانی ، جبڑے، آنکھیں، ناک ہونٹ، ٹھوڑی اور کان چہرے کا حصہ ہیں۔ ان سب سے تاثر مل کر جو پیغام دیتے ہیں وہی چہرے کا تاثر کہلاتا ہے۔آدمی چاہے جو جی میں آئے کہتا رہے، اس کے چہرے کے تاثرات بتا دیتے ہیں کہ وہ اپنے کہے میں کتنا سچا ہے … اگر ہم سیاست دانوں کے چہروں اور ان کے تاثرات کو پڑھنا شروع کریں تو ہم انتہائی دلچسپ اور چونکا دینے وا لے حقائق سے آشنا ہوں گے …فی زمانہ تو سیاست دانوں کے چہروں کو پڑھے بغیر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنا جھوٹ کہہ رہے ہیں …بلکہ کچھ سیاست داںتو کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ’’ وہ تو انتخابی جملہ تھا‘‘
دو چہرے والوں کی جہاں میںجہاں بھرمار ہے وہیں وہ ایپ بھی ہے کہ جس سے کوئی بھی اپنا چہرہ بدل سکتا ہے …حیرت انگیز طور پرلوگ اپنے چہرے کو بھیڑیے نما ، شیطان نما اور کتے نما بنا کر خوش بھی ہو رہے ہیں … سنا ہے ایک اور ایپ ہے جو چہرے کی جنس ہی بدل کررکھ دیتی ہے …تعجب ہے کہ اپنی شخصیت کے ساتھ ایسا بھونڈا مذاق کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو مزہ بھی آرہا ہے …
دوچہروں کی بھیڑ میں سچے اورجھوٹے کو پہچاننا خاصا دشوار ہوچلا ہے …نامور قلمکار محمد اظہار الحق ’’چہرے پر چہرہ‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’اور یہ فقرہ بچوں کو بھی معلوم ہے کہ Man is a social animalتو حیوان جسے ہم آدمی کہتے ہیں کیا انسان بن پاتا ہے ؟اپنے ارد گرد دیکھیے! کیا یہ سب انسان ہیں ؟ کیا ہم سب انسان ہیں ؟ سچ یہ ہے کہ ہم سانپوں کی طرح وحشت میں پھنکارتے ہیں اور اپنے کسی بھائی کو سانپ ہی کی طرح ڈس بھی جاتے ہیں ۔ اونٹ کی طرح سینے میں کینہ پال لیتے ہیں ۔ انسان پر بربریت سوار ہوجائے تو آخراس میں اور بھیڑیے میں کیا فرق رہ جاتاہے ؟ باہر سے وہ انسان دکھائی دے تو اس سے کیا ہوتا ہے ؟ اندر ایک خونخوار بھیڑیا بیٹھا ہوتا ہے ۔ لوگ اس سے اسی طرح خائف ہوتے ہیں جیسے بھیڑیے سے …کچھ لوگ اندر سے لومڑی ہوتے ہیں ، ان کی چالاکی کا کوئی توڑ نہیں ہوتا ۔ کچھ عظیم الجثہ افراد دیکھنے میں طاقتور لگتے ہیں مگر اصل میں بکری ہوتے ہیں ۔ ڈرپوک اور چھپ جانے والے …فرض کیجیے قدرت ایسا نظام وجود میں لاتی کہ اس قسم کے افراد دیکھنے کو سانپ ، بھیڑیا یا لومڑی نظر آئے تو کتنی آسانی ہوتی…لوگ ان سے بچتے، ان کے ساتھ کوئی معاملہ نہ کرتے مگر قدرت نے یہ جانور ان کے اندر بٹھائے اور باہر سے انہیں انسان بنا دیا ۔ کیوں ؟ تاکہ فہم و فراست استعمال کرکے خلق خدا انہیں خود جانچے ۔ ان سے اعراض کرے اور دوسروں کو متنبہ کرے کہ یہ انسان نہیں جانور ہیں ، ان سے بچو…ایک وجہ ان جانوروں کو انسانی شکل عطا کرنے کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قدرت ساری سزا اسی دنیا میں انہیں دینا چاہتی ہوگی۔جس طرح شیطان ،انسانوں کو گمراہ کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہتاہے ، اسی طرح ان جانوروں کو بھی کھلا چھوڑ دیا ، جس طرح شیطان کچھ لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ، اسی طرح یہ انسان نما جانور بھی کچھ لوگوں کو ڈسنے ، کاٹنے ، بھنبھوڑنے اور دھوکا دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔‘‘
ایسے ہی دو فریبی کردار برطانیہ میں پائے جاتے ہیں، جو رشتے میں بھائی لگتے ہیں …جارج برفی ہمارا مطلب ہے مرفی اور بینجمن مرفی …بیروزگار تھے ، اس لیے کہ وہ روزگار سے جڑنا ہی نہیں چاہتے تھے… دونوں بھائیوں نے چوری چکاری اور لوگوں کو چونا لگانا ہی اپنا اوڑپنا بچھونا بلکہ کھانا پینا بنا لیا تھا …چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتے کرتے دل اوب گیا تو دونوں نے ایک دن فیصلہ کیا کہ کوئی بڑا ہاتھ ماریں گے …بدقماش لوگوں کو اوپر والے کا ڈر رہے نہ رہے لیکن اوپر لگے کیمروں کا بڑا ڈر رہتا ہے ،ہردم وہ یہی سوچتے ہیں کہ ’’ اوپر والا دیکھ رہا ہے ‘‘ مذکورہ دو بھائی دو چہروں کے ساتھ پہلے ہی جی رہے تھے لیکن بڑی ڈکیتی کا منصوبہ بنایاتو فیصلہ کیا کہ چہرے پر چہرہ لگائیں گے،جوان ہیں تو بوڑھے ہوجائیں گے… بوڑھے بھی ایسے کہ گنجے نظر آئیں، دونوں نے پورے چہرے کے ماسک پہنے تاکہ وہ گنجے اور بوڑھوںکی شکل اختیار کر سکیں،جب اس سے بھی دل نہیں بھرا تو انہوں نے منہ پر نیلے رنگ کے سرجیکل ماسک لگا ڈالے اورپھر ’’ ارے دیوانو! مجھے پہچانو ، کہاں سے آیا میں ہوں کون؟‘‘ کا نغمہ گنگناتے ہوئے پہنچ گئے زیورات کی دکان پر … چاقو اور کلہاڑی کے زور پر دونوں بھائیوں نے دونوں ہاتھوں سے خوب زیورات لوٹے اور الارم بجنے سے پہلے رفو چکر ہوگئے۔
پولیس سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ان چہروں کی تلاش میں مصروف ہوگئی جن کے حقیقی چہرے کا اسے کچھ پتا نہ تھا …اُدھر چور چوروں کی طرح منہ چھپاتے پھررہے تھے تو اِدھر پولیس لاکھ کوششوں کے باوجود چوروں کوگرفتار نہ کرسکی توخودہی کو چور سمجھ رہی تھی…
کہتے ہیںکہ مجرم کتنا ہی چالاک کیوں نہ ہو کوئی نہ کوئی غلطی کر جاتا ہے … چور بھائیوں نے کوئی نشان تو نہیں چھوڑا تھا لیکن دماغ نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا …چہرے پر چہرہ لگا کر انہیں چوری کرنا تو یاد رہا لیکن وہ اس بات کو بھول گئے کہ وہ چہرے یا ماسک جنہیں لگا کر انہوں نے چوری کی تھی، انہیں اپنے ساتھ کار میں لیے گھوم رہے ہیں …دونوں بھائی کہیں جا رہے تھے کہ پولیس نے ان کی کار کو روکا ، کار کی تلاشی کے دوران دو ماسک برآمد ہوئے، جو ڈکیتی میں مشتبہ افراد نے پہنے ہوئے تھے۔پولیس نے انہیں شک کی بنیاد پر گرفتار کیا اور پھر ماسک کے اندر موجود تھوک کی جانچ دونوں بھائیوں کے ڈی این اے سے مماثل نکلی… عدالت میں پیش ہوئے تو جج نے انہیں مجرم قرار دینے میں محض ایک گھنٹے کا وقت لیا…عدالت نے بڑے بھائی بینجمن مرفی عمر 37سال کو جارج مرفی عمر 28سال سے پانچ سال زیادہ سزا سناکر یہاں بھی ان کے بڑکپن کوبرقرار رکھا… مجموعی طور پر ان دونوں کو 31سال کی سزا سنائی گئی ۔ وہ چہرے جنہیں اپنے چہرے پر لگا کر دونوں بھائیوں نے ڈکیتی کی واردات انجام دی تھی، ان ہی چہروں نے ان کا اصلی چہرہ دنیا کو دکھا دیا …
یونانی فلاسفر ارسطو کے زمانے سے لے کر آج تک انسانی چہرے کے حوالے سے تحقیق کا عمل تسلسل سے جاری ہے…چہرے کی اہمیت کااندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ اسلام نے چہرے پر مارنے سے منع کیا ہے ، حتیٰ کہ اس شخص کے لیے سخت وعید ہے، جس نے کسی جانور کے چہرے پر نشان لگایا اور اسی طرح اس کے چہرے پر مارا… علماے کرام نے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔
روز قیامت کچھ چہرے نورانی ہوں گے اور کچھ تاریک جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ،ان سے کہا جائے گا کہ تم نے ایمان لانے کے بعدکفر کیوں اختیار کیا ؟اور اسلام کے زیر سایہ اتحاد واخوت کی راہ اپنانے کے بعد نفاق و جاہلیت کی راہ کیوں اختیار کی؟ ان کے مقابلے میں وہ مومنین جو متحد و متفق رہے ہوں گے، دریائے رحمت الہی میں ڈوب جائیں گے اور ہمیشہ کے لیے وہاں راحت و آرام کی زندگی بسر کریں گے…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰