حیدرآباد

رمضان کریم کے رخصت ہونے پر غور و فکر کی ضرورت : ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ھاوزنامپلی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے جمعۃالوداع اور رمضان کریم کے رخصت ہوتے مقدس لمحات کے زیرعنوان بتایا کہ ماہ رمضان المبارک کی عظمتوں سے کون واقف نہیں!

حیدرآباد: خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ھاوزنامپلی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے جمعۃالوداع اور رمضان کریم کے رخصت ہوتے مقدس لمحات کے زیرعنوان بتایا کہ ماہ رمضان المبارک کی عظمتوں سے کون واقف نہیں! اِس کے تشریف لانے پر مسلمانوں کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی، زندَگی کا انداز ہی تبدیل ہو جاتا ہے،

مسجدیں آباد ہو جاتیں ہیں اورعبادت وتلاوت کی لذت بڑھ جاتی ہے،نیز سحرو اِفطار کی بھی اپنی اپنی کیا خوب بہاریں ہوتی ہیں!یہ ماہِ مبارَک خوب خوب بارِشِ رَحمت برساتا، مغفرت کی بشارت سناتا اور گنہگاروں کو جہنَّم سے آزادی دِلاتا ہے۔

دنیا کی لاتعداد مساجد کے اندر بے شمار عاشقانِ رسول پورے ماہِ رَمضان شریف کا نیز ہزاروں ہزار عاشقانِ رسول آخری عشرے کا اعتکاف کرتے ہیں،اعتکاف میں ان کی سنتوں بھری تربیت کی جاتی ہے، انہیں نیکیوں کی رغبت اور گناہوں سے نفرت دلائی جاتی ہے۔

عاشقانِ رمضان کو یہ احساس بالخصوص تڑپا کر رکھ دیتا ہے کہ رَمَضانُ الْمبارَک نے اگر چہ آیندہ سال پھر ضرورتشریف لاناہے مگرنہ جانے ہم زندہ رہیں گے یا نہیں، جمعۃ الوداع رمضان کریم کے رُخصت ہوتے مقدس لمحات رحمت و مغفرت کے موسم بہار رمضان کریم کے مقدس اور بابرکت شب و روز کو الوداع کہنے سے قبل ہمیں اس امر کا جائزہ لینا چاہئے کہ اس پُربہار اور حیات بخش موسم کی فیض رسانی سے ہم نے اپنے دامن کو کس حد تک بھرا اور خود کو کتنا فیض یاب کیا۔

قرآن مجید نے اس ماہ مقدس کی مخصوص عبادت یعنی روزوں کا مقصد یہ بتایا ہے کہ ہم ان کے ذریعے تقویٰ کی راہ پر گامزن ہو سکیں، یعنی روزوں کی اس یک ماہی تربیت کے نتیجے میں ہم میں یہ بات پیدا ہونی چاہئے کہ ہم اپنے ہر قول و فعل سے قبل یہ سوچنے لگیں کہ یہ اللہ کی رضا کے مطابق ہے یا نہیں اور اس فکر کی وجہ سے ہم ان تمام اقوال و افعال سے پرہیز کرنے لگیں جو اللہ کو ناپسند ہیں اور یہی تقویٰ کی حقیقت ہے۔

رمضان کے بارے میں حضور ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: یہ صبر اور ہمدردی کا مہینہ ہے اور صبر کے حقیقی معنیٰ ہیں مواقع و مشکلات اور اسباب کی قلت و عدم فراہمی کے باوجود راہ حق پر قائم رہنا، تو ہمیں اس امر کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ ہم میں صبر کی یہ صفت کس حد تک پیدا ہوئی ہے۔

ہم نے اس ماہ میں دوسروں سے ہمدردی کا جذبہ کتنا پیدا کر لیا۔ ضروری ہے کہ ہم آنے والے رمضان کے استقبال کی تیاری آج ہی سے شروع کر دیں اور اگر جذبہ یہ ہو تو پھر اس گزرنے والے رمضان کو الوداع کہتے وقت بہ ظاہر ہماری آنکھیں نم ہو سکتی ہیں، لیکن ہم رنجیدہ نہیں ہیں۔ ہم اس رمضان کو الوداع نہیں کہہ رہے، بلکہ آج ہم آنے والے رمضان کا استقبال کر رہے ہیں۔

a3w
a3w