مضامین

زلزلے کی تباہ کاریوں کے درمیان ترکیہ میں قبل از وقتانتخابات کیوں دنیا کا اہم ترین الیکشن ہونے والا ہے؟

افتخار گیلانی

زلزلے کی تباہ کاری اور اس سے پیدا شدہ ہنگامی صورت حال کے باوجود، ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا بگل بج گیا ہے۔ انتخابات 14مئی کو منعقد ہوں گے اور یہ دنیا میں 2023کا اہم ترین الیکشن ہونے والا ہے، کیوں کہ یہ مصطفےٰ کمال اتا ترک کے بعد ملک کے سب سے طاقتور سیاستدان اور طویل مدت تک حکومت کرنے والے صدرر جب طیب اردغان کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔
ویسے تو اردغان کی جسٹس اور ڈیولپمنٹ یعنی آک پارٹی کے لیڈران نے زلزلہ کے پیش نظر اور اس کی وجہ سے متاثرہ 11 صوبوں میں ایمرجنسی کے نفاذکی وجہ سے انتخابات کو نومبر تک مو¿خر کرنے کے مطالبات کو لے کر بیانات داغے تھے، مگر اردغان نے ان کو قبل از وقت یعنی مئی میں ہی منعقد کرانے کا اعلان کرکے سبھی کو چونکا دیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق زلزلہ سے چونکہ ایک بڑی آبادی اور وسیع علاقہ متاثر ہوا ہے، اس لیے باز آباد کاری کے لیے ضروری تھا کہ ایک مستحکم حکومت قائم ہو، تاکہ اس کو سخت فیصلے لینے میں آسانی ہو اوراس کے لیے عوام کا بھر پور منڈیٹ بھی حاصل ہو۔
سر پر انتخابات کی لٹکتی ہوئی تلوار کی و جہ سے جمہوری نظام میں کوئی بھی حکومت فیصلے کرنے سے کتراتی ہے۔ ان علاقوں کے کئی شہروں اور قصبوں کو مستقل طور پر منتقل کرنے کا پروگرام ہے اور عمارتوں کو بنانے کے ضوابط بھی انتہائی سخت کیے جا رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے اس زلزلہ کے ایک ماہ بعد اس کے مرکز قہر مان مراش نیز غازی انتپ، عثمانیہ اور ادانا صوبوں کے دورہ کرتے ہوئے طمانیت کا احساس ہوا کہ نہ صرف باز آبادکار ی بلکہ ان علاقوں میں تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر کو دوبارہ استوار کرنے کا کام سرعت سے جار ی ہے۔
پچھلی بار اس تباہی کے ایک ہفتہ کے بعد جب میں ان علاقوں کے دورہ پر تھا تو قہرمان مراش کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ ان میں بڑے بڑے گڑھے پڑے ہوئے تھے۔ ٹاوروس پہاڑوں کے سلسلہ اور اس کے دامن میں بسے اس شہر تک پہنچنے کے لیے ادانا سے تین ٹنلوں کو کراس کرنا پڑتا ہے، جن میں شگاف پیدا ہو گئے تھے اور ٹریفک کو معطل کر دیا گیا تھا۔
بس پندرہ دن میں ہی نہ صرف نئی سڑکیں بنائی گئی ہیں، بلکہ ان پر بجلی کے پول اور دوریہ سڑکوں کے بیچ میں اکھڑے پیڑ تک دوبارہ لگائے گئے ہیں۔ بجلی، پانی اور گیس کی ترسیل بھی بحال کر دی گئی ہے اور کئی مقامات سے ملبہ بھی ہٹایا گیا ہے۔ 12 ہزار سالہ قہر مان مراش شہر کو شاعروں کا وطن بھی کہا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ادب و شاعری اس شہر کے باسیوں کی رگوں میں بسی ہوئی ہے۔
اس شہر کی سٹرکوں سے گزرتے ہوئے محسوس ہی نہیں ہو پاتا ہے کہ بس ایک ماہ قبل ہی وہاں شدید زلزلہ آیا ہوگا، تاآنکہ کسی ایسی عمارت پر نظر پڑے، جس کو بلڈوزر گرارہے ہوں یا کسی جگہ ملبہ اٹھایا جا رہا ہو۔ شہر کا مرکز جو تباہ ہو گیا تھا سے ملبہ اٹھانے کا کام مکمل ہو چکا ہے۔
ہاں شہر میں امدادی کارکنوں یا سیکورٹی کے اہلکاروں کے علاوہ کوئی ذی نفس نہیں ہے۔ پوری آبادی یا تو شہر کے نواح میں خیموں میں رہ رہی ہے یا کسی دوسرے صوبہ میں رشتہ داروں یا دوستوں کے ہاں مقیم ہیں۔ میرے قیام کے دوران بھی چار آفٹر شاک آگئے، جس کی وجہ سے آبادی میں خوف و ہراس کاماحول ہے۔ یہ پورا علاقہ کپاس، گندم اور مالٹے کی پیداوار کے لیے بھی مشہور ہیں۔ کپاس کی کھیتی کی وجہ سے کپڑے کی ملیں بھی نظر آتی ہیں۔
قہر مان شہر کے نواح میں خیموں کی بستیوں میں مختلف رضا کار تنظیمیں اور ترکیہ کی مختلف کمپنیاں کھانا اور دیگر ضروریات فراہم کر رہی ہیں۔ دنیا بھر سے جو ریسکو اور سرچ ٹیمیں آگئی تھیں، وہ واپس چلی گئی ہیں۔ مگر اس خطے کے دوردراز علاقوں نیز دیہاتوں میں غیر ملکی رضاکاروں میں آذربا ئیجا نی اور پاکستانی بڑی تعداد میں ابھی بھی کام کر رہے ہیں۔ کہیں پر ملبہ ہٹانے تو کہیں کھانا وغیرہ بانٹنے اور امداد پہچانے کا کام کر رہے ہیں۔
پاکستان کے چھوٹے قصبوں سے بھی آئے ہوئے رضا کار تنظیموں کے نمائندے ریلیف کا سامان قریہ قریہ بانٹ رہے ہیں۔ پنجاب صوبہ کے ڈسکہ تحصیل سے تعلق رکھنے والے چند رضاکار قہرمان میں ایک مقامی تنظیم انسان وقفی کی وساطت سے یونیورسٹی کے گراو¿نڈ میں پناہ لیے ہوئے زلزلہ کے متاثرین میں امداد بانٹتے ہوئے نظر آئے۔
اس ٹیم کے قائد محمد آصف امریکی شہر نیویار ک میں اپنا بزنس چھوڑ کر خود ہی ساز سامان اٹھا کر اس کو تقسیم کر رہے تھے۔ اسی طرح سرجیکل سازسامان کے ایکسپورٹر رخسار چیمہ بھی اس علاقے میں زلزلہ سے متاثراپنے کلائنٹس کی خبر و خیریت لینے اورامداد لے کر وارد ہوئے تھے۔
زبان کے مسئلہ کو لے کر کسی بھی غیر ملکی ٹیم کے لیے ترکیہ کے ان علاقوں میں امدادی کام کرنا آسا ن نہیں ہے۔ یہ مشکل ادانا اور قہر مان کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علموں نے حل کردی ہے۔ وہ نہ صرف کسی بھی ٹیم کے ساتھ رضاکارانہ طور پر شامل ہوکر مترجم کے فرائض انجام دیتے ہیں، بلکہ زلزلہ کے فوراً بعد انہوں نے ترک غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر ملبوں سے زندہ افراد کو ڈھونڈنے کا کام بھی سنبھالا تھا۔ ادانا یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کررہے ذوالفقارعلی اور زراعت کی تعلیم حاصل کرنے والے محمد کامران، جو بس ایک سال قبل ہی ترکیہ آئے ہیں، مگر ترک زبان پر اور اس علاقے کے جغرافیہ اور تاریخ پر ا ن کو اتنا عبور حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ٹیم کے لیے نہ صرف بطور مترجم بلکہ امداد و راحت پہنچانے کا کام کرکے دعائیں بٹور رہے ہیں۔
ادانا چونکہ دیگر صوبوں کے مقابلے کم متاثر ہوا ہے، اس لیے تقریباً تمام ملکوں کی راحت ٹیموں نے اس کو ہی مرکز بنایا تھا۔ اسی شہر میں دنیا کا سب سے قدیم اور ابھی بھی کام کرنے والا رومن دور کا تاش کوپرو پل ہے، جو دوسری صدی کے اوائل میں رومن حکمرانوں نے دریائے سہیون کے اوپر بنایا اور 2007تک اس پر ٹریفک وغیرہ رواں تھا۔ اب یہ پیدل اور موٹر سائیکل سواروں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
دوہزار سالہ یہ پل کئی شدید زلزلے برداشت کر چکا ہے۔ صدیوں سے یہ بحیرہ روم، ایشائے کوچک یعنی اناطولیہ اور فارس کے درمیان رابطہ کا ذریعہ تھا۔ اس شہر کے نواح میں انجلک کے مقام پر ناٹو اور امریکہ کی ملٹری بیس بھی ہے۔زلزلہ کے فوراً بعد مترجموں کی عدم موجودگی کی وجہ سے کئی غیر ملکی ٹیمیں ایر پورٹ پر ہی پھنس گئی تھیں۔ اس وجہ سے صرف یونان، آذربائیجان، قبرص اور چند وسط ایشائی ممالک کی ٹیمیں ہی متاثرہ علاقوں تک پہلے پہنچ پائیں۔
انسان وقفی تنظیم کے عہدیدار چنگیز ارسلان کے مطابق قہرمان یونیورسٹی میں پناہ گزین افراد کو ان کی تنظیم تین وقت کھانا کھلانے کا کام کر رہی ہے۔ تقریبا ایک ہزار افراد کا کھانا پکانے کا کام ازمیر سے تعلق رکھنے والے 75سالہ سابق فوجی مہمت علی قرہ نے اپنے ایک درجن ساتھیوں کی مدد سے سنبھالا ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ زلزلہ کے فورا ً بعد ہی جب تباہی کی خبریں آنا شروع ہوگئیں، تو وہ ازمیر سے ا پنے دوستوں کے ساتھ ایک ہزار کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بڑی مشکلوں کے ساتھ اس علاقے میں پہنچے اور کھانا بنانے کا کام سنبھالا۔ آلو اور پیاز چھیلتے ہوئے یہ زندہ دل سابق فوجی اپنی مہمات کے واقعات اور لطیفے سنا کر پوری ٹیم اور زلزلہ زدگان کو ہمت دینے کا کام کرتا ہے۔
چونکہ نئے شہروں اور گھروں کی تعمیر میں ایک سال سے زائد کا وقفہ لگ سکتا ہے، اس لیے اب عارضی خیموں کی جگہ پرکنٹینروں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ حکومت بھی اب خیموں سے متاثرہ افراد کو نکال کر کنٹینروں میں شفٹ کر رہی ہے، جس میں ایک کمرہ، باتھ روم اور کچن بنائے گئے ہیں۔
اس لیے جو ممالک ابھی بھی خیمے بھیج رہے ہیں، اس کے بدلے اگر کنٹینروں کی تیاری یا اس سے منسلک میٹریل ترکیہ پہنچا سکتے ہیں، تو یہ ایک اہم مدد ہوگی۔ چونکہ ترکیہ کے اس علاقے میں گرمی بھی شدید پڑتی ہے، اس لیے ایک یا دو ماہ بعد خیموں میں رہنا تو ویسے ہی دشورار ہوجائے گا۔