حمید عادل
آج ہم ماضی میں تانک جھانک کرتے ہیں تو ’’ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ‘‘ کا احساس ہوتا ہے … ایس ایس سی کے بعد پتا ہی نہ چلا کہ زندگی کے شب و روز کس تیز رفتاری سے گزرگئے… جب احساس ہوا تو اس وقت تک ہماری شادی ہوچکی تھی ،بچے بڑے ہوچکے تھے، اتنے بڑے کہ ہم خود کوچھوٹا محسوس کرنے لگے…اتنا ہی نہیںزندگی کی بے انتہا مصروفیت کا حصہ بن کر ہم خودہی سے بیگانے ہوچکے تھے…
کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی جیسے
تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا
احمد فراز
انسان کوزندگی مختلف وقتوں میں مختلف رنگوں سے روشناس کرواتی ہے اور ماضی، ہر انسان کا نہایت قیمتی سرمایہ ہوتا ہے ،جسے وہ وقتاً فوقتاً یاد کرتا رہتا ہے …
مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں کہا:’’میری زندگی کے سب سے سہانے شب و روز جس عورت کے ساتھ گزرے وہ عورت میری بیوی نہیں تھی۔ ‘‘
حاضرین کو سانپ سونگھ گیا کہ مولوی صاحب کیا کہہ رہے ہیں ؟تھوڑے توقف کے بعد مولوی صاحب نے کہا:’’ جی، وہ عورت کوئی اور نہیں میری ماں تھی۔‘‘
ایک صاحب کو یہ بات بہت اچھی لگی، انہوں نے سوچا کیوں نہ گھر جا کر اس کا تجربہ کر لے…چنانچہ سیدھا کچن میں گئے جہاں ان کی بیوی انڈے فرائی کر رہی تھی، انہوں نے کہا ’’ میری زندگی کے سب سے سہانے شب و روز جس عورت کے ساتھ گزرے وہ عورت کم از کم تم نہیں …‘‘
چار دن کے بعد جب ان صاحب کے منہ سے پٹیاں اتاری گئیں اور تیل کی جلن کچھ کم ہوئی تو چیخ اٹھے:’’ انسان کو اپنے طور پر جینا چاہیے اور یہ کہ وہ کبھی کسی کی نقل نہ کرے۔‘‘
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
فیض احمد فیض
رات کا وقت تھا،ہم مستی میں چور سنسان راہوں سے گزررہے تھے…اور ہمارے ہونٹوں پر تھا فلم ’’ صدمہ ‘‘کا سحر انگیزنغمہ…
’’ اے زندگی گلے لگا لے…
ہم نے بھی ترے ہر ایک غم کو گلے سے لگایا ہے …ہے ناں…‘‘
ہم ایک ادا سے ’’ ہے ناں‘‘ کچھ اس طرح کہہ رہے تھے جیسے سچ مچ زندگی ہمارے روبرو ہے اور ہم اسے مخاطب کرکے ہاتھ کے اشارے سے سوال کر رہے ہیں …زندگی میں چھپے کرب کواجاگر کرنے والایہ نغمہ ہمیں بے حد پسند ہے …ہم نغمہ تو زندگی والا گنگنارہے تھے لیکن آگے قبرستان تھا، جہاں زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں کیاجاسکتا تھا،مگر اس کو کیا کیجیے کہ قریبی نکڑ پر ہمیں دو سائے لہراتے نظر آئے اور سب سے چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ یہ سائے زنانہ تھے… ہماری تو روح ہی فنا ہوگئی، ہمت اتنی بھی نہ تھی کہ الٹے پیر بھاگ ہی جاتے، بس کھڑے کھڑے آئسکریم کی طرح جم گئے …ہم بمشکل ہکلائے ’’ تت…تت…تم کون ہو ؟اور اس طرح کسی شریف آدمی کار استہ روکنے کا کک …کک کیا مطلب ہے ؟‘‘ دونوں سائے ایک ساتھ قہقہہ لگا کر چہک اٹھے ’’ تم ہمیں نہیں جانتے،ہم توتمہاری زندگی ہیں۔‘‘
’’ کک…کک کیا بکواس ہے ؟‘‘ہم ہکلانے میں فلم ’’ ڈر‘‘ کے شاہ رخ خاں کو بھی پیچھے چھوڑ چکے تھے۔
’’ بکواس کیسا؟ تم ہی تو گنگنارہے تھے اے زندگی گلے لگے لگے اور جب تمہارے روبرو زندگی ہے ، پہچان بھی نہیں پارہے ہو ؟‘‘
’’ مذاق بند کرو اور ہمیں جانے دوبیوقوف سمجھ رکھا ہے کیا ہمیں ؟‘‘
’’ اس میں سمجھنے والی کیا بات ہے ؟‘‘ شوخ و چنچل سائے نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’ کیا مطلب؟ہم بیوقوف ہیں ؟‘‘
’’ پوچھ رہے ہو کہ بتا رہے ہو۔‘‘شوخی کو برقرار رکھتے ہوئے ریمارک کیا گیا ’’’ باتیں تو ہوتی رہیں گی،تم کچھ گلے لگانے والی بات کررہے تھے…‘‘
’’ ہم نے کب کہا ؟‘‘ہم نے جھلاکر جواب دیا۔
’’ کچھ دیر پہلے تم خود لہک لہک کر گارہے تھے ’’ اے زندگی گلے لگا لے، اے زندگی گلے لگا لے۔‘‘
’’ ہم نے زندگی سے متعلق کہا تھا …‘‘
’’ ہم زندگی ہی تو ہیں۔‘‘
’’ ایک انسان کی دو زندگیاں کیسے ہوئیں؟‘‘ ہم تڑخے…
’’ تم فلموں کے شوقین ہو ناں۔‘‘اس بارگم صم دکھائی دینے والے سائے نے ہم پر سوال دے مارا۔
’’ کبھی دیکھا کرتے تھے فلمیں،اب نہیں۔‘‘
’’ماضی میں ڈبل رول والی فلمیں تو دیکھی ہوں گی ۔‘‘
’’ بالکل،دیکھی ہیں۔‘‘
’’ ہم تمہاری زندگی کی جڑواں بہنیں ہیں۔‘‘
وہ واقعی فلم ’’سیتا اور گیتا ‘‘ کی ہما مالینی کی طرح ہوبہوایک تھیں…مگر دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا،ایک سنجیدہ تھی تو دوسری نہایت شوخ …جو سنجیدہ تھی، وہ ٹریجڈی کوئن کہلانے کی مستحق تھی، کہنے لگی ’’ بابو جی ! ہم تمہاری زندگی کے دو روپ ہیں، ایک سنجیدہ اور دوسرا چلبلا… تبھی تو معروف مزاح نگار ڈاکٹر سید عباس متقی نے تم جیسے گل گشت نما انسان کی اندرونی سیر یوں کی ہے:
’’ لیکن جب ہم ان کی شخصیت کو دیکھ کر ان کا لکھا پڑھتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ اتنا خاموش و متین شخص بلا کا شگوفہ طراز ہے۔کسی زاوئیے سے وہ طنز و مزاح نگار معلوم ہی نہیں ہوتے ۔ کم گو، سلیم الطبع اور متین المزاج، لیکن کون جانتا ہے کہ اس بے پناہ سنجیدہ آدمی میں کہیں کوئی ایک بے حد چلبلا شخص بھی بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی وہ طنز و مزاح کے تیر و نشتر سے ساری دنیا کی خبر لے گا۔‘‘
اب ہمیں یہ سمجھنے میں ذرا سی بھی دیر نہ لگی کہ ہمارے روبروہماری زندگی کے دو روپ کھڑے ہیں، ایک میناکماری یا ٹریجڈی کوئن جیسا نہایت سنجیدہ کرداراوردوسرا مسٹرانڈیا کی مس ہواہوائی جیساشوخ و نٹ کھٹ کردار… ٹریجڈی کوئن نے ہمیںمخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ اشکوں کو پی جانے اور مسکرانے کا فن جس کسی نے سیکھ لیا وہ جی گیا …گھٹ گھٹ کر جینا، مرنے سے بھی بدتر ہوتا ہے ۔چارلی چپلن سے لے کر عمر شریف تک اپنی زندگی میں تلخیوں کے باوجود دنیا کو ہنساتے رہے …‘‘
’’ یہ سب ہم سے کیوں کہا جارہا ہے؟‘‘ ہم نے سوال دے مارا۔
’’ تاکہ تم حوصلہ پا سکو،مسکرا کر جی سکو۔‘‘
’’ جی تو رہے ہیں مسکرا کر… ویسے تمہیں ہماری اتنی فکر کیوں ہونے لگی ہے ؟‘‘
’’ کردیا نااحمقانہ سوال،ہم کیوں نہ کریں تمہاری فکر ،ہم آخرزندگی ہیں تمہاری ۔‘‘
ہم اپنے معصوم سوال پربری طرح سے جھینپ گئے…
’’ جانتے ہو،ہم کیوں تم سے روبرو ہوئے ہیں؟‘‘
ہم نے ہونقوں کی طرح سر کوہلا کر نفی میں جواب دیا…دریں اثنا مس ہوا ہوائی ہم سے مخاطب ہوئیں:’’ تمہاری سوچ پر افسوس ہورہا ہے۔‘‘
’’ کیا ہوا ہے ہماری سوچ کو ؟‘‘ ہم نے پھر ایک بار حیرت کا اظہار کیا۔
’’زنگ آلود ہوچکی ہے تمہاری سوچ، جب سے تم نے پڑھا ہے کہ 95فیصدافراد ساٹھ سال کے اندر مرجاتے ہیں اور محض پانچ فیصد افراد60سال کے بعد بھی جیتے ہیں…تم اتاؤلے ہوگئے یہ جاننے کے لیے کہ تمہار ا نام پانچ فیصد افراد میں شامل ہوگا کہ 95 فیصد افرادمیں؟‘‘
’’ اندرکی بات‘‘ باہر کیسے آگئی؟یہ سوال ہمیں خاصا پریشان کرگیا…دراصل چند دن قبل ہم نے معروف قلمکار قاسم علی کا کالم پڑھا تھا ، جس میں ان کا لکھا یہ پیراگراف ہمارے دل پربڑا اثر کرگیا:
’’وابی سابی‘‘ کا فلسفہ یہ بتاتا ہے کہ ہمیں اپنی محرومیوں اور مجبوریوں کو قبول کرنا چاہیے۔ جب ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ میری زندگی میں کچھ چیزیں ناقص ہیں تو اس کے بعدجینا آسان ہوجاتا ہے۔ ہمیں اس لیے بھی کاملیت کے پیچھے بھاگنا نہیں چاہیے کیونکہ ہماری زندگی مستقل نہیں ہے ، اس دنیا میں اب تک اربوں انسان آئے اور اربوں چلے بھی گئے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ایسے تمام افراد جن کی عمر60سال سے اوپر ہے ،اس وقت ان کی شرح صرف پانچ فی صد ہے 95فی صد لوگ ایسے ہیں جو 60سال سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں۔ جب زندگی اتنی نامکمل ہے توپھر ہمیں کیاضرورت ہے کہ ہم کاملیت کے پیچھے ہلکان ہوتے رہیں۔ محرومیاں صرف ہماری زندگی میں ہی نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ جن کے نام کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا ان کی زندگی بھی ادھورے پن کا شکار رہی ہے۔‘‘
مذکورہ سطور کو پڑھنے کے بعد یہ سوال ہمیں بڑی شدت سے ستانے لگا تھا کہ ہم پانچ فیصدمیں شامل ہوں گے یا پھر 95فیصد میں ؟ہم زیر لب بڑبڑائے اگر ہم نے ایسا سوچ بھی لیا تو کیا برا کیا؟
’’ یقینا تم نے کچھ برا نہیں کیا…‘‘مس ہوا ہوائی نے ہمیں ٹوکتے ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا ’’ لیکن مجھے شکایت یہ ہے کہ تمہیں اس بات میں تو بڑی دلچسپی ہے کہ تمہارا شمار پانچ فیصد میں ہوگا کہ 95فیصد میں… لیکن یہ خیال تمہیں چھو کر بھی نہیں گزرا کہ تمہارا شمار نیکوکاروں میں ہوگا کہ گنہگاروں میں….قرآن میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘ مذکورہ آیت میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے جو چیز مطلوب ہے وہ عبادت ہے ۔‘‘
زندگی کی زبانی زندگی کے بعد کی زندگی سے متعلق باتیں سن کر ہمیں اپنی موت بلکہ آخرت یاد آگئی،جس کی تیاری ہمیں اسی زندگی میں کرنی ہے… لیکن ہائے رے انسان کی نادانیاں کہ فانی زندگی پر اعتبار کر بیٹھتا ہے اور جس زندگی کو فنا نہیں ،اس بارے میں ذرا بھی نہیں سوچتا…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰