سیاستمضامین

منی پور میں زعفرانی ٹولے کا جبروتشدد۔ عیسائی کوکی طبقہ کے مقتولین کی لاشوں کو کتوں کے حوالے کردیا گیاعیسائیوں کے قتلِ عام ۔ عصمت دری۔ ہزاروں گرجا گھروں اور مکانات کو نذرِ آتش کردیا گیا

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ ساری ریاست تین ماہ سے جل رہی ہے۔ زعفرانی حکومت پھر بھی خاموش ہے۔
٭ انسانی المیہ پر وزیراعظم کا صرف 35سکنڈ کا تبصرہ۔
٭ کوکی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایم۔ایل۔اے کو شدید خزی اور ان کے ڈرائیور کو ہلاک کردیا گیا۔
٭ 6068 ایف۔ آئی۔آر اور تیرہ ہزار افراد کی گرفتاری۔دی ہندو مورخہ 25؍جولائی۔
٭ یہ واقعات Documented ہیں۔
مضمون کے تمام واقعات حقائق پر مبنی ہیں جن کے ذرائع اخبارات کی رپورٹ اور کئی ٹیلی ویژن انٹرویوز اور خصوصاً ایک انٹرویو ہے جو کچھ دن پہلے مشہور جرنلسٹ کرن تھاپر نے ایک عیسائی سیاست دان مسٹر بابو ورگھیز سے لیا تھا۔ یہ انٹرویو اس حقیقت کا انکشاف کرتا ہے کہ موجودہ حکمران ٹولہ کسی بھی طرح نازی پارٹی سے کم نہیں۔ نازیوں میں کم از کم اتنی انسانیت تو ضرور تھی کہ انہوں نے Ghettos میں یہودیوں کو جلا کر راکھ ضرور کردیا تھا لیکن ان کے مردہ اجسام کو کتوں کے حوالے نہیں کیا تھا۔
منی پور مسلسل تین ماہ سے جل رہا ہے ۔ صرف عیسائی طبقہ (کوکیوں) پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ سارا منی پور ایک میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کررہا ہے ۔ جا بجا بنکرس‘ پل باکس اور خندقیں ہیں جن میں فوجی تربیت یافتہ نوجوان مشین گن‘ رائیفلس اور ریوالوروں سے لیس ہیں۔ خونین فسادات کی شدت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حیدرآباد کی آبادی کا ایک چوتھائی آبادی والی ریاست میں زائداز ایک لاکھ فوج۔ نیم فوجی دستے اور پولیس تعینات ہیں۔ لیکن پھر بھی تشدد پر تادم تحریر کوئی قابو نہیں پایاجاسکا۔ منی پور ریاست بدستور جل رہی ہے اور پتہ نہیں کب تک جلتی رہے گی کیوں کہ ملک کے پردھان منتری نے اب تک اس بارے میں اپنا منہ تک نہیں کھولا ہے۔
منی پور کی آبادی دو گروپس میں منقسم ہے۔ ایک میتھی ہیں‘ جو وادی میں رہتے ہیں اور دوسرے کوکی جو پہاڑوں پر رہتے ہیں۔ ان دوگروپس میں مذہبی فرق ہے۔ کوکی تمام کے تمام عیسائی ہیں اوران کو یوروپین ممالک سے معاشی امداد ملتی ہے جبکہ میتھی وادی میں رہتے ہیں اور وہ تمام کے تمام کٹر ہندو ہیں۔ یہ دونوں گروپس اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ‘ کوکیوں کی خوشحالی اور علمی برتری میتھیوں کو کھٹک رہی تھی اور دونوں گروپس کے درمیان خلیج وسیع تر ہوتی جارہی تھی۔ کوکی طبقہ کو (S.T) درجہ دیا گیا تھا اور انہیں ملازمتوں میں تحفظات حاصل تھے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آر ایس ایس کے (Ideologue) رام مادھو ریاست منی پور میں تین ماہ سے مقیم ہیں اور پتہ نہیں وہ کس مشن پر تھے ۔ مئی کے مہینے میں ہوئے تشدد کی وجہ سے منی پور ہائیکورٹ کا ایک فیصلہ بنا جس میں مرکزی حکومت کو ہدایت دی گئی تھی کہ وادی میں بسنے والے میتھی(ہندو) طبقات کو بھی (S.T.) مراعات دینے کے بارے میں غور کیا جائے۔
اس بات کو پل بھر بھی کوئی یقین نہیں کرے گا کہ ریاستی اور مرکزی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت اس بڑے پیمانے کے ظلم وتشدد ‘ آتشزنی اور قتلِ عام سے واقف نہیں تھی۔ ہندوستان کے جیمس بانڈ اجیت دوبھال تو نیشنل سیکوریٹی اڈوائزرہیں جو پاکستان میں ہندوستان کے جاسوس بن کر سات سال گزارچکے ہیں‘ کیا وہ بھی اس نازک صورتحال سے واقف نہیں تھے کہ انہو ںنے حکومت کو اس کے خلاف کچھ کرنے کو کہا ہو۔ گورنر منی پور جو کہ ایک خاتون ہیں‘ انہوں نے صاف طور کہا کہ ریاستی اور مرکزی حکومت کو انہوں نے ہر روز دوبار کہا تھا کہ خونین فسادات کو روکنے کی کوشش کی جائے لیکن اس کے باوجود بھی مرکزی حکومت بالکل خاموش رہی۔ ایک لاکھ سے زیادہ افواج۔ نیم فوجی دستور اور پولیس نے کوئی ایسی گولی نہیں چلائی جس سے کسی فسادی کی موت واقع ہوئی ہو یا وہ زخمی ہوا ہو۔ فوج اور پولیس اپنے سیاسی آقاؤں کے حکم کی تابع ہے ورنہ فوج اگر چاہتی تو دو گھنٹوں کے اندر امن قائم ہوجاتا۔ ادھر فسادات ہوتے رہے اور عیسائی خون بہتا رہا۔ سینکڑوں گرجا گھر جلادیئے گئے۔ ہزاروں مکانوں کو نذرِآتش کردیا او رنہ جانے کتنے ہزار کوکی طبقہ کے افراد قتل ہوئے اور ان کی عورتوں کو برہنہ پریڈ کروائی گئی۔ ان کے جسموں کو زخمی کیا گیا۔ کھلے عام ان مظلوم عورتوں کی عصمت دری ہوتی رہی لیکن ریاستی اور مرکزی حکومت کو لاعلم رہی۔ ساری ریاست میں انٹرنیٹ بند ہوگیا اور ٹیلی فون لائٹ کاٹ ڈالی گئیں۔ ریاستِ منی پور کا رابطہ ساری دنیا سے کٹ گیا۔ آخرِ کار ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں4مئی2023کے قبائلی خواتین کی برہنگی اور عصمت ریزی کا واقعہ منظرِ عام پر آیا جس نے ساری دنیا کا ضمیر جھنجھوڑ کر رہ گیا۔ اس واقعہ کی صدائے باز گشت برطانوی پارلیمنٹ میں سنائی دی اور وزیراعظم برطانیہ مسٹر رشی سونک کی خصوصی سفیر برائے مذہبی آزادی مسز بروس نے ساری روداد سنائی اور کہا کہ یہ تشدد مذہبی عناد کی وجہ سے ہوا۔ امریکہ نے بھی اس واقعہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ اس شرمناک واقعہ نے ساری دنیا میں ہندوستان کو رسوا کردیاہے۔ عصمت ریزی کا واقعہ گزرے زائد از دو ماہ ہوگئے تھے کہ صرف ایک واقعہ منظر عام پر آیا۔یہاں یہ قیاس لیا جاسکتا ہے کہ ریاستی اور مرکزی حکومت نے جان بوجھ کر ان بہیمانہ واقعات کی پردہ پوشی کی اور جب یہ بات ساری دنیا پر ظاہر ہوگئی تو مودی جی نے اپنی 35 سکنڈ کی تقریر میں اس واقعہ کے ساتھ ریاست چھتیس گڑھ اور راجستھان کے قوانین کے خلاف مظالم کی مذمت کی پھر اس کے بعد نہ ختم ہونے والی خاموشی اختیار کی اور وہ آج تک بھی خاموش ہیں۔ کسی بھی زعفرانی پارٹی کے وزیر نے ان پرسوز واقعات کی مذمت نہیں کی او راپنی تنقید کا رخ کانگریس کی جانب موڑ دیا۔ منی پور کے واقعات2002ء کے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور ان کی املاک کی آتشزنی ‘ خواتین کی عصمت دری کی یاد دلاتے ہیں اور پیغام دیتے ہیں کہ آئندہ وقوع پذیر پونے والے مسلم کش فسادات کس خونریز نوعیت کے ہوں گے۔ ایک طرف قتل و غارت گری ۔ عصمت ریزی آتشزدگی تو دوسری جانب حکومت کی معنی خیز خاموشی ‘ جیسا ہورہاہے ہونے دو۔ بعد میں دیکھیں گے ۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔2020ء کے دہلی فسادات کو سب نے دیکھا۔ امریکن صدر کی موجودگی میں دلی میں مسلمانوں کے مکانات جلتے رہے اوران کا قتل ہوتا رہے۔ وزیراعظم نے آج تک ان فسادات کا تذکرہ نہیں کیا۔
ضمیر کو زخمی اور روح کو مجروح کردینے والے ایسے واقعات پر وزیراعظم ہندوستان کی معنی خیز اور پراسرار خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ جو کچھ بھی ہوا اس کی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس چاہتے ہیں۔ ملک چلتا رہے۔ عصمتیں لٹتی رہیں۔ انسان مرتے ہیں وزیراعظم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ انہیں چیتوں اور مور کی فکر زیادہ ہے۔
بلقیس بانو کیس میں تمام ملزمین کو سزاء کی مدت کی تکمیل سے پہلے ہی رہا کردیا اور ان کی رہائی کے بعد استقبال اس طرح کیا گیا جیسے وہ کوئی عظیم معرکہ سر کرکے آئے ہیں۔ کٹھوا(جموں) میں آٹھ سالہ مسلم لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے مجرمین کا ہیروم کی طرح استقبال کیا گیا۔ گجرات کے مظلومین کی طرح منی پور کے عیسائی مظلوم بھی انصاف کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہیں گے اور ا نہیں انصاف کبھی نہیں ملے گا۔ یہ ہے ہماری جمہوریت جو فی الوقت ایک خونچکاں لاش کی طرح ہے۔
قارئین کرام براہِ کرم یوٹیوب پر مشہور صحافی اور دی وائر کے روحِ رواں مسٹر کرن تھاپر کا مسٹر بابوورگھیز کا لیا ہوا40 منٹ کا انٹرویو ضرور دیکھیں جو منی پور کی ساری پرتیں کھول دے گا جس میں بتایا گیا ہے کہ کوکی عیسائیوں کی لاشوں کو کس طرح کتوں کے آگے ڈال دیا گیا اور کس طرح ہزارہا گرجا گھروں اور مکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔
آخر میں ورگھیز نے نریندر مودی اور امیت شاہ سے کہا کہ اس نازک صورتحال کا جائزہ لیں اور اس قتلِ عام کو روکیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو یہ خونین فساد ایک دن میں ختم ہوجائے گا ورنہ میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاؤں گا کہ آپ بھی اس قتل و غارت گری اور آتشزنی میں برابر کے شریک ہیں۔
یہ انٹرویو انگریزی زبان میں ہے جس کا اردو ترجمہ آپ گوگل پر سن سکتے ہیں۔
زبانی ہبہ کا میمورنڈم کے بارے میں سوال کا جواب
جواب:- غیر منقولہ جائیدادوں کی منتقلی میں رجسٹریشن کی بے انتہا فیس اور محکمہ انکم ٹیکس کو اطلاعات کی فراہمی ضروری ہوتی ہے۔ ادھر آپ نے کوئی جائیداد خریدی یا رجسٹر شدہ گفٹ سے حاصل کی تو انکم ٹیکس کی نوٹس لازمی طور پر آئے گی اگر جائیداد کی قیمت تیس لاکھ سے زیادہ ہوگی۔ لیکن اگر اسلامی طریقہ ہبہ کو اپنایا جائے اور اپنی جائیداد کو اپنے ورثاء میں تقسیم کردیا جائے تو ایسے مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔ آپ کو لاکھوں روپیہ کی رجسٹریشن فیس کی بچت ہوگی اور کام بھی ہوجائے گا اور جائیداد ورثاء میں تقسیم ہوجائے گی۔ ورنہ بعد میں کئی مسائل پیدا ہوں گے۔ خدانخواستہ اگر (UCC) لاگو ہوجائے تو تباہی آجائے گی۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ اسلامی طریقہ ہبہ کو اپنایاجائے تاکہ بعد میں ناانصافیوں کا امکان باقی نہ رہے ۔
زبانی ہبہ میمورنڈم کی اساس پر جائیدادوں کا (Mutation) ہوگا اور تعمیری اجازت ملے گی۔ اگر آپ کے پاس جائیداد کا کوئی رجسٹرشدہ دستاویز نہ ہو اور تعمیری اجازت نہیں مل رہی ہے تو اس طریقہ انتقالِ جائیداد سے آپ کے پاس ایک واضح دستاویز آجائے گا جس کی اساس پر آپ کو تعمیری اجازت مل جائے گی کیوں کہ ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت نے اس اصول کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طریقۂ انتقالِ جائیداد میں رجسٹریشن کی ضرورت نہیں۔

a3w
a3w