ڈاکٹر سیّد احمد قادری
قدرت کا یہ نظام ہے کہ وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھتا جاتا ہے۔ سال آتا ہے گزر جاتا ہے اور اپنی تلخ و شیریں یادوں کا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ گزرے سال میں ہمیشہ کچھ ایسے واقعات ،سانحات اور حادثات رونما ہو جاتے ہیں جو تاریخ کا حصّہ بھی بن جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر 2002,1992,1964,1962,1947 ,2014, وغیرہ کے ذکر سے ہی پوری تاریخ سامنے آجاتی ہے ۔
اس وقت ہم بالکل نئے سال 2023 ءمیں داخل ہوئے ہیں اور ہرایک کی زبان پریہ دعا ہے کہ یہ سال امن و امان کا سال ہو ، غربت ، بے روزگاری ، بے ثباتی ، بے پناہی ، بے بسی سے ہم تمام لوگوں کو اللہ پاک محفوظ رکھے اور ہم جبر و ظلم کی آندھی کے رخ پر امن و آشتی کے چراغ روشن کرنے میں کامیاب ہوں ۔
لیکن یہ بھی اتفاق ہے کہ سال گزشتہ کے جانے سے قبل ہی ملک کے حکمراں نے کئی مثالیں دیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ سال شاندار سال رہا ۔ جس کے جواب میں کانگریس ترجمان پروفیسر گورو ولبھ نے طنزیہ لہجے میں جواب دیا کہ کمائی گھٹی ، روپئے کی قدر میں کمی آئی ، ایکسپورٹ کم ہوا ، مہنگائی بڑھی پھر بھی وزیر اعظم مودی بتا رہے ہیں ”شاندار سال۔ “ ادھر بی ایس پی کی صدر مایا وتی نے بھی ملک کی حکمراں جماعت بی جے پی کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی نے ابھی تک تبدیلی ¿ مذہب ، لو جہاد ، مدرسہ سروے اور ہیٹ اسپیچ جیسے لغو کاموں میں ہی وقت برباد کیا ہے ۔
سال گزر جانے کے بعد اگر گزشتہ سال کا جائزہ لیا جائے توہمیں بہت زیادہ مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اوریہ سوچتا ہوں کہ کاش سال گزشتہ بقول مودی شاندار ہوتا تو آج ہم یقینی طور پر اس سال رونما ہونے والے شاندار واقعات کا ذکر کرتے ہوئے خوش ہوتے ، ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ،لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ویسے ہمیں اس امر کا ضرور اعتراف کرنا چاہیے کہ قدرتی آفات کے آگے انسان بلا شبہ مجبور اور بے بس ہوتا ہے۔ مثلاََ اچانک آنے والی آندھی ، طوفان، سیلاب ، زلزلہ وغیرہ ، لیکن جب حالات ، واقعات ، حادثات اور سانحات دانستہ طور اور created یعنی پیدا شدہ ہوں تو وہ بہت تکلیف دہ اور لائق مذمت ہوتے ہیں ۔ جس کا سلسلہ مسلسل چل رہا ہے ۔ راہول گاندھی ہوں ، رویش کمار ہوں اور اب تو ان کے سُروں میں سُر ملانے والوں میں ورون گاندھی بھی شامل ہو گئے ہیں ۔ان کے ساتھ ساتھ ملک کے سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں دانشور ، ادبائ، فلمی فنکاروں ، سائنسدانوں ،سابق افسران وسابق فوجیوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور غیر ممالک کے حقوق انسانی کے متحرک رضاکاروں کے ذریعہ ملک میں دانستہ طور پر ہندو ، مسلم کیے جانے ان کے درمیان خلیج پیدا کیے جانے ، منافرت بڑھانے ، عدم رواداری ، تشدد اور خوف و دہشت کا ماحول بنائے جانے کی دانستہ کوششوں کی مذمت کیے جانے کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسی دانستہ کوششوں کے باعث ایک طرف جہاں ملک کو سماجی و معاشی طور پر زبردست نقصان ہو رہا ہے وہیں ایسے غیر آئینی اور غیر انسانی شعوری کوششوں سے ملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے ۔ اس لیے کہ ہمارا ملک پوری دنیا میں سب سے بڑے جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے ۔صدیوں سے اس ملک میں مختلف مذاہب ، زبان ، رسم و رواج، ذات پات ،رنگ و نسل کے لوگ مل جل کر رہتے آئے ہیں اور مشترکہ تہذیب و ثقافت کے امین ہیں ، لیکن افسوس کہ مٹھی بھر لوگوں کو ملک کی شاندار روایت سے صرف اس لئے چڑ ہے کہ اس روایت سے ان کے سیاسی مقاصد کے حصول میں رخنہ پڑتا ہے۔ ملک کے بنیادی مسائل پر برسر اقتدار حکومت سے میڈیا اگر سوالات کرتا، تنقید کرتا ، ایسے ناگفتہ بہ حالات پیدا کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے صحافتی فرائض نبھاتا تو شاید ایسی بری حالت نہیں ہوتی، لیکن افسوس کہ ملک کا میڈیا،عام طور پر اپنے کروڑپتی مالکان کے ٹیوننگ پر صحافت کی ساری اخلاقیات ، صحافتی تقاضوں اور معیار کو در کنار کرتے ہوئے رقص کرتا نظر آتا ہے ۔ جس کی مذمت کا سلسلہ بھی مسلسل چل رہا ہے ۔ ابھی ابھی صحافت کے اعلیٰ معیار کے چینل پر رویش کمار جو سیکولرازم پر یقین و اعتماد رکھنے والوں کے درمیان کافی شہرت اور مقبولیت رکھتے ہیں ۔حکومت سے سوال کرنے کی ہمت، جرا¿ت اور اپنے بے لاگ اور بے باک جائزے کے لیے جانے جانا والا ان کا یہ چینل جس کے ایک گھنٹے کے مرتب کردہ پروگرام ’ پرائم ٹائم “ کی صرف اور صرف اس وجہ سے شہرت اور مقبولیت تھی کہ رویش کمار حکومت کی چاپلوسی اور مدح سرائی کرنے کی بجائے ملک کے عوام الناس کے بنیادی مسائل کو اجاگر کیا کرتا تھا ، لیکن حکومت کو چونکہ ایسا کوئی اخبار اور نیوز چینل پسند نہیں جو سچ بتاتا ہو اور سچ دکھاتا ہو ۔ اس لیے گزشتہ کئی برسوں سے بہت سارے اخبارات اور چینلوںکی طرح اسے بھی یرغمال بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن رویش کمار وقت کے دھارے سے مخالف سمت میں چلنے پر یقین رکھتے ہیں اس لیے وہ کسی بھی منہ مانگی قیمت پر جب بکنے کو تیار نہیں ہوئے ،تب حکومت کے لیے اپنی تجوری کو کھولے رکھنے والے اڈانی نے اس پورے چینل کو ہی خرید کر صحافت کی بے باک ، بے لاگ اور حقائق پر مبنی آواز پر قفل ڈال دیے ۔ سچ بیان کرنے والے اس وقت نہ جانے کتنے صحافی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے قید و بند کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔ صدیق کپن ناکردہ گناہ کی کئی سال سزا بھگت کر ابھی ابھی جیل سے باہر نکلے ہیں ، آلٹ نیوز کے محمد زبیر کو نُپور شرما کی حضور محمد ﷺ کے لیے استعمال کئے گئے نازیبا الفاظ کی سچائی دکھانے کی پاداش میں کسی طرح کا جواز نہیں ملا تو ایک پرانی فلم کے منظر کو بنیاد بنا کر انھیں جیل بھیجا گیا ۔ لیکن عالمی دباو¿ اور عدالت کے سخت رویہ کے بعد محمد زبیرکو جیل سے رہا کرنا پڑا۔ حکومت کے اس ظلم و زیادتی سے محمد زبیر کو بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ عالمی منظر نامے پر آ گئے اور انھیں نوبل امن انعام کے لیے ان کا بھی نام نامزد کیا گیا تھا۔ ملک میں آزادی¿ صحافت پر مسلسل پہرے بٹھانے کا ہی یہ افسوسناک نتیجہ ہے کہ عالمی سطح پر یہاں کی آزادی¿ صحافت کا معیار 180 ممالک میں شرمناک حد تک گرتے ہوئے 150 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے ۔ اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار پر برقرار رہنے کے لیے ملک کی اقلیتوں کے ساتھ طرح طرح کے غیر آئینی اور غیر انسانی سلوک کا یہ سلسلہ اس سال بھی پوری شدت سے جاری رہا ۔ موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس ملک پر تقریباََ ہزار سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی، لیکن ان پورے ادوار میں مسلم حکمرانوں کادانستہ طور پر ایسا کوئی کردار و عمل نہیں رہا جسے مذہب کی بنیاد پر دشمنی قرار دیا جائے ۔ اس لیے اب کہا جارہا ہے ملک کی جو تاریخ لکھی گئی ہے وہ غلط لکھی گئی ہے، اس لیے اب نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے ۔ اب تک کتنی تاریخیں بدل بھی دی گئی ہیں اور تبدیل شدہ تواریخ بچوں کے نصاب میں شامل بھی کر لی گئی ہیں ۔ مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے ابھی اپنے حالیہ بیان میں فرمایا ہے کہ ’ہندوستان میں تاریخ غلط لکھی گئی ہے لیکن اب حکومت ہند پوری طاقت کے ساتھ نئی اور درست تاریخ لکھنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ہندوستان کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی تاریخ اور تعلیم ہے ۔ ‘ وزیر تعلیم کے اس بے تکے بیان کے جواب میں ریاست بہار کے سابق وزیر تعلیم اور موجودہ وزیر مالیات وجئے چودھری نے بی جے پی کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ ’ دراصل تاریخ میں کوئی کردار نہ ہونے کی وجہ سے بی جے پی کے لوگ اب بے چینی محسوس کر رہے ہیں ۔ بی جے پی ملک کی تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا چاہتی ہے ۔ یہ گندی ذہنیت کی علامت ہے ، اب تاریخ کو دوبارہ لکھنے سے سچ کیسے بدلے گا ۔ ‘ مسلمانوں کے نام کو ہر ممکن طور پر مٹانے کی پوری کوشش کی گئی ۔ ملک کی تاریخی و ثقافتی وراثت کو مٹا کر ملک کی شاندار پہچان کو ختم کر دینے کی یہ مذموم کوشش ہے۔ جہالت اور نفرت کی انتہا یہ ہے کہ ملک کے فرقہ پرستوں کو علامہ اقبال کی اسی ملک کے لیے کہی گئی دعائیہ نظمیں بھی ناقابل برداشت ہو رہی ہیں ۔ گزشتہ سال نے ملک میںیہ افسوسناک منظر بھی دیکھا کہ اسکول میں ’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ یا ’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری ‘ جیسے ترانے گائے جانے پر اعتراض کیا گیا اور اسکول کے اساتذہ کو اتنے ”بڑے جرم “ کے ارتکاب کی سزا بھی دی گئی ۔ اب تو مسلمانوں کے قاتلوں اور زانیوں کو بھی سنسکاری اور معزز بتاتے ہوئے انھیں عمر قید سے چھڑا کر جو پیغام دیا جا رہا ہے اس سے ملک کے مسلمان خوف و دہشت میں تو مبتلا ہوں گے ہی لیکن اس پیغام سے بیرون ممالک میں کیا امیج بنے گی ؟ کا ش کہ اس پہلو پر لمحے بھر کے لیے بھی سوچا گیا ہوتا۔ گجرات کے سانحہ کو دنیا نے دیکھا اور عالمی سطح پر مذمت کی گئی لیکن اس کی سچائی بتانے والی معروف سماجی کارکن تیستا سیتلواد اور سابق آئی پی ایس افسر آر جی سری کمار وغیرہ کو حوالات میں بھیجے جانے کی بے رحم حقیقت کا بھی یہ سال گواہ بنا ہے ۔ مسلمانوں کے لیے فلاحی کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے دفاتر اور اس تنظیم سے وابستہ اشخاص کے گھروں پر ملک کی 13 ریاستوں میں بیک وقت این آئی اے نے گزشتہ 22 ستمبر کو چھاپہ مارتے ہوئے 106 افراد کو گرفتار کرکے بھی ” بڑا کارنامہ “ انجام دیا ۔کرناٹک میں انتخاب سر پر ہے تو یہاں حجاب پر ہنگامہ کھڑا کرکے منافرت پھیلانے کی کوشش ہوئی ۔انتہا تو یہ ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی نے ریاست کے ماحول کو پوری طرح فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے ریاستی صدر نلن کمار کٹیل نے کارکنوں کو سڑک ، سیوریج جیسے مسائل کی بجائے لو جہاد پر زور دینے کی تلقین کی ہے تاکہ ریاست میں اشتعال پھیلے اور انتخاب میں کامیابی ملے ۔ کشمیر میں 370 ختم کیے جانے کے باوجود حالات قابو میں نہیں ہو پا رہے ہیں ،ایسے میں حکومت اس بے جا اور غیر آئینی فیصلے کو جائز اور درست دکھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، پھر بھی کامیابی بہت دور کھڑی نظر آ رہی ہے ۔ اسی ضمن میں کشمیری پنڈتوں پر کئے جانے والے بے بنیاد مظالم کو دکھانے کے لئے ایک فلم ” دی کشمیر فائل “ حکومت کی سرپرستی میں وویک اگنی ہوتری جیسے ناکام ترین فلم ہدایت کار اور بی جے پی کے ہمنوا اداکار انوپم کھیر کو ہیرو بنا کر تیار کی گئی ، اسے کئی ریاستوں میں ٹیکس فری بھی کیا گیا تاکہ لوگ اس فلم کو زیادہ سے زیادہ دیکھیں اور کشمیریوں کو دہشت گرد تصور کر مار گرائے جانے کو جائز قرار دیں ، لیکن حکومت کی جانب سے ساری کوششوں کے باوجود فلم کو عوامی پذیرائی میسر نہیں ہوئی ،تب حکومت اپنے رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اس فلم کو مقبول ثابت کرنے کے لیے انڈین انٹر نیشنل فلم فیسٹیول میں نامزد کرا ئی اور اسے ایوارڈ دلانے کی بھی کوشش کی گئی ، لیکن ان سب کیے کرائے پر اس وقت پانی پھر گیا جب اس فلم فیسٹیول کے جیوری ہیڈ اور اسرائیلی فلم ساز نادو لاپڈ نے جرا¿ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فلم کو لغو اور پروپیگنڈا فلم قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ جب یہ فلم دیکھی تو میں حیران رہ گیا کہ کشمیر کے مسئلہ پر یہ فلم حکومت کے پیمانوں کو کتنے واضح طریقے سے پیش کرتی ہے ۔ نادو لاپڈ نے یہاں تک کہہ دیاکہ یہ فلم بنیادی طور سے کشمیر میں ہندوستانی پالیسی کو درست ٹھہراتی ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تواس میں فاشزم اور اس پر مبنی عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس متنازع فلم سے حکومت بری طرح سے بیک فٹ پر نظر آئی اور خوب ہنگامہ آرائی ہوئی ۔ حکومت اپنی ناکامیوں اور کمیوں کی پردہ پوشی کا بہترین ذریعہ فلم اور فلم کے اداکار کی شہرت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے ۔ ابھی جب گجرات انتخاب کے نتیجے پر سوال اٹھنے لگے تو اس کے لیے شاہ رخ خان کی ریلیز ہونے والی فلم ”پٹھان “ کے ایک گانا کی مدد لی گئی اور میڈیا نے لوگوں کی اس طرح ذہن سازی کی کہ ہر طرف چرچا بھگوا بکنی تک مرکوز ہو گئی، مہنگائی ، بے روزگاری ، معیشت کی تباہی ، بد عنوانی ، صنعتکاروں کے بینکوں کے ہزاروں ہزار کروڑ روپئے کی معافی وغیرہ جیسے بڑے اور اہم مسئلے وقتی طور پر سرد پڑ گئے ۔ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہم وشوا گرو بننے کا سپنا دیکھ رہے ہیں اور ہمارے ایک سو تیس کروڑ آبادی والے ملک کی 80کروڑ آبادی حکومت کے دیے گئے مفت راشن پر جینے کو مجبور ہے۔
گزرا سال حقوق انسانی کی خلاف ورزی والے قوانین اور عدالتی فیصلوں میں اضافے کا بھی رہا۔ مثلاً تبدیلی¿ مذہب مخالف قانون ، حجاب مخالف فیصلہ اور یکساں سول کوڈ کا نیا نعرہ ۔ دراصل حکومت ایسے ہی ایشوز کو اٹھاکر لوگوں کے اصل مسئلہ سے دور رکھنا چاہتی ہے ، لیکن راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے حکومت کو پریشانی میں ڈال دیا ہے کہ وہ روزانہ ملک کے اصل مسئلہ کو اٹھا کر حکومت کو بے نقاب کررہے ہیں ۔ اب نئے سال میں ہم تمام لوگوں کی یہی خواہش اور دعا ءہے کہ راہول گاندھی ملک کے ہر نفرت بھرے بازار میں محبت کی دکان کھولیں اور پیار و محبت کی یہ دکان پورے ملک میں خوب فروغ پائے اور لوگ امن و سکون کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں ۔
٭٭٭