حمید عادل
عنوان پڑھ کرآپ ہمارے ذہنی توازن پر ہرگزشک نہ کریں اور نہ ہی اسے ٹائپنگ کی کوئی غلطی سمجھیں… ہم تو ’’ کالی بھینس اور سفید جھوٹ ‘‘ہی لکھنا چاہ رہے تھے لیکن وزیراعظم مودی نے بھینس کے تعلق سے اتنا کالا جھوٹ کہا کہ ہمیںاب بھینس ’’سفید ‘‘نظر آنے لگی ہے …
انتخابی موسم ہے اور اس موسم میں وزیراعظم بڑے جوش و خروش کے ساتھ جھوٹ کہہ کر گویایہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے اقتدار کے دس سال جھوٹ ہی پر مبنی تھے اور یہ کہ ان سے بہتر جھوٹ کوئی اور سیاست داں نے کہا ہے او رنہ کوئی کہہ سکتا ہے …
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
کرشن بہاری نور
ایک جھوٹ ہو تو کوئی پکڑے،وزیراعظم نے کانگریس کے انتخابی منشورپر جھوٹ کی ایک جھڑی لگا دی ہے اورکانگریسیوں کی ساری توانائی محض ’’ یہ جھوٹ ہے ، یہ جھوٹ ہے ‘‘کہنے پر خرچ ہورہی ہے…کہیں ایسا نہ ہو کہ مودی کا جھوٹ چل جائے او رکانگریس کا سچ ہار جائے …
ہم بھینس کا ذکر ہرگز نہ کرتے اگر مودی جی نے یہ نہ کہا ہوتا کہ بھائیو او ربہنو! اگر کانگریس اقتدار میں آگئی تو سمجھ لو اگر آپ کے پاس دو بھینسیں ہیں تو ایک بھینس آپ سے کانگریس کی حکومت چھین لے گی… وہ یہیں نہیں رکے، کہنے لگے اگر آپ کے گھر میں دو لوگ ملازمت پیشہ ہیں تو ایک کی نوکری کانگریس کی حکومت چھین لے گی ، اس سے بھی ان کا دل نہیں بھرا تو کہنے لگے کہ اگر آپ کے دو گھر ہیں تو ایک گھر آپ سے کانگریس کی حکومت چھین لے گی… اورپھر اپنے اس کالے جھوٹ پر تڑکا مسلمان کا ذکر کرتے ہوئے لگا دیتے ہیں،یہ اتنا بے تکا مذاق ہے جسے بھونڈا بھی نہیں کہاجاسکتا…جاریہ انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم نے خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آگئی تو آپ سے آپ کا منگل سوتر چھین لیا جائے گا اور اس کو انہیں سونپ دیا جائے گا جن کے زیادہ بچے ہیں …
وزیراعظم پرجھوٹ کا اتنا شدید حملہ ہوا ہے کہ وہ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ انہوں نے ماضی میں نعرہ دیا تھا ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘اب تو یہ حال ہے کہ ’’ ہم تو فقیر آدمی ہیں، جھولا لے کر چل دیں گے‘‘ کہنے والے وزیراعظم کے دل میں اقتدارحاصل کرنے کی ایسی شدید خواہش جاگ چکی ہے کہ اسے ہتھیانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے سے تک نہیں ہچکچا رہے ہیں …
وزیراعظم جس صفائی اور روانی سے جھوٹ کہتے ہیں، ان کا کوئی ثانی نہیں، وہ نہ صرف جھوٹ کہتے ہیں بلکہ اپنے جھوٹ میں سادہ لوح عوام کو شامل بھی کرلیتے ہیں۔ عام طور پرکوئی جھوٹ کہہ کرعوام سے سوال کرتے ہیں ’’کیا آپ کو یہ منظور ہوگا کہ آپ کی ایک بھینس چھین لی جائے ؟‘‘ ،’’کیا آپ کو یہ منظور ہوگا کہ آپ سے آپ کا ایک گھر چھین لیا جائے ؟‘‘اس قبیل کے بے تکے سوالات داغ کر وہ نہ صرف سیاست کو بلکہ اپنے آپ کوبھی داغدار کررہے ہیں۔
ایک لڑکے نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ وہ ہر روز رات کو ایک کالا جھوٹ دیکھتا ہے۔ دوستوں نے اسے مذاق سمجھا اور کہا ’’تو تم کالاجھوٹ دیکھتے ہو؟‘‘
لڑکا نے بڑے شوق سے کہا ’’بالکل!میں ہر روز رات کو ایک کالا جھوٹ دیکھتا ہوں۔‘‘
دوستوں نے محظوظ ہوتے ہوئے پوچھا ’’یہ تو بتاؤ کالا جھوٹ دکھتا کیساہے؟‘‘
لڑکے نے مسکرا کر جواب دیا ’’اس کی آنکھوں میں تاریکی نظر آتی ہے، میرے پاس تو اس کی تصویر بھی ہے۔‘‘
دوستوں نے حیرانی سے پوچھا:اچھا! کالے جھوٹ کی تمہارے پاس تصویر بھی ہے، ہمیںبھی بتاؤ‘‘
لڑکے نے وہ اخبار پیش کردیا، جس میں وزیراعظم راجستھان کے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے منگل سوتروالاجھوٹ کہہ رہے تھے ۔‘‘
اقتدار حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولنا کسی بھی معاشرے میں ایک نا پسندیدہ عمل ہے، کیوںکہ اس سے اعتماد کی کمی اور بداعتمادی پیدا ہو سکتی ہے۔ ایک صحت مند معاشرے میں اقتدار کی بنیاد اعتماد، اخلاقیات اور سچائی پر ہونی چاہیے…لیکن وزیراعظم جس یقین کے ساتھ جھوٹ کہتے ہیںویسا جھوٹ کہنے کی کوئی جرأت بھی نہیں کرسکتا … اب کانگریس کے صدر کھڑگے وزیراعظم سے لاکھ کہتے رہ جائیں کہ ’’ جھوٹ ایک لاکھ بار بھی کہنے سے سچ نہیں ہوجاتا‘‘پی ایم مودی پر اس نصیحت کا کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے ، چنانچہ وہ جھوٹ تواتر سے کہے جا رہے ہیں اور وہ بھی بڑی ایمانداری اور سچائی کے ساتھ کہے جا رہے ہیں … وزیراعظم جھوٹ پر جھوٹ کہے جارہے ہیں اور کھڑگے انہیں خطوط پر خطوط لکھے جارہے ہیں کہ دیکھو آپ نے یہ جھوٹ کہا؟کیا وزیراعظم کے پاس اتنی فرصت ہے کہ وہ کھڑکے کے خطوط کو پڑھیں اور ان سے کوئی نصیحت حاصل کریں؟ وزیراعظم کے جھوٹ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ خود جھوٹ کے انبار لگا رہے ہیں لیکن کانگریس کو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ پارٹی جھوٹی ہے ۔
خیر!بات بھینس کی تھی،اور ہم کالے جھوٹ میں الجھ کررہ گئے …سنا ہے جب سے وزیراعظم نے کہا ہے کہ اگر کسی کے پاس دو بھینسیں ہوں گی تو ایک بھینس کانگریس کی حکومت چھین لے گی…بھینس برادری میں کھلبلی سی مچ گئی ہے ،بھینسیں پریشان ہیں کہ پی ایم مودی کو یہ کیا ہوگیا کہ انتخابی جھمیلوں میں خواہ مخواہ ہمیں الجھا دیا؟ اُس گھر کی بھینسیں خاص طورپر بہت زیادہ پریشان ہیں جس گھر میں تین بھینسیں ہیں ؟
کل ہم راستے سے گزررہے تھے کہ ایک بھینس نے ہمیں آواز دی کہا ’’ سنو‘‘ ہم رک گئے تو پا س آکر کہنے لگی ’’صورت سے صحافی معلوم ہوتے ہو۔‘‘ہم نے حیرت سے پوچھا ’’ کیسے پہچان لیا؟‘‘ کہنے لگی ’’ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کے لیے ’’ کالا اکشر، بھینس برابر ہوتا ہے ،ہم آدمی کی چال اور صورت دیکھ کر تاڑ لیتے ہیں کہ یہ کس قبیل کا ہے ۔‘‘ بھینس کی باتیں سن کر ہم دل ہی دل میں اس کی قابلیت کے قائل ہوگئے …اور کہا’’ ہمیں روکا کیوں ؟‘‘ اتنا کہنا تھا کہ بھینس پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ،اسے اس طرح روتا دیکھ کر ہمیں خود بھی رونا آرہا تھا،ہم نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ’’ بہن! اگر ہمارا سوال برا لگا ہو تو ہمیں معاف کردیں‘‘ کہنے لگی ’’ نہیں نہیں ! کیسی احمقانہ باتیں کرتے ہو، میں تمہارا سوال سن کر نہیں وزیراعظم کی باتیں سن کر دکھی ہوں، انہوں نے بھری سبھا میں کہہ دیا ہے کہ جن کی دو بھینسیں ہوں گی، ایک بھینس کانگریس کی حکومت لے جائے گی لیکن میں جہاں رہتی ہوں، وہاں تین بھینسیں ہیں،اگر حالات بدلے تو پھر مودی جی کے حساب سے کانگریس کی حکومت ڈیڑھ بھینس لے جائے گی،ڈیڑھ بھینس کا مطلب سمجھتے ہونا؟‘‘ آخری جملہ ادا کرتے کرتے وہ پھر ایک بار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی… بیچاری بھینس کے اس معصوم سوال سے ہم بغلیں جھانکنے پر مجبورہوگئے کہ اب اس کو کیا جواب دیں؟ہم نے ہکلاتے ہوئے اس کو حوصلہ دینے کی کوشش کی ’’ بے فکر رہیں، وزیراعظم اتنی عمدگی سے جھوٹ کہہ رہے ہیں کہ کانگریس برسراقتدار آ ہی نہیں سکتی…‘‘
’’ اور اگر برسراقتدار آ گئی تو؟‘‘ بھینس اسی بات پر جمی ہوئی تھی…اس نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ’’ہم بھینسوں نے آخر مودی جی کا کیا بگاڑا تھا؟ ہم تو ہنسی خوشی جی رہے تھے ،پی ایم مودی کو شاید انسانوں کی طرح ہماری خوشی بھی دیکھی نہیں گئی …اب میں تمہیں کیا بتاؤں، میری ایک ساتھی تو رو روکر اتنا دبلی ہوچکی ہے کہ اسے بھینس کہنا بھی مذاق معلوم ہوتا ہے۔‘‘بھینس نے سسک کر کہا۔
ہم نے بھینس کو دوبارہ حوصلہ دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا’’ یہ مت بھولو کہ یہ سب انتخابی جملے ہیں…‘‘
آخری جملہ سن کر بھینس کی آنکھوں میں چمک آگئی ’’ امت شاہ والا انتخابی جملہ؟‘‘
’’بالکل! تم تو بہت جانکاری رکھتی ہو۔‘‘
’’ بھینس ہوں،تمہاری طرح بدھو نہیں!‘‘ بھینس نے چہک کر کہا۔
’’تب تو سچ او رجھوٹ کو بھی خوب سمجھتی ہوں گی۔۔‘‘
’’ بالکل سمجھتی ہوں۔‘‘بھینس نے پرجوش انداز میں کہا ’’ او ریہ کہہ کر اس نے فیر اینڈ لولی پھینک دی کہ ’’ اب مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں نے اسے یہ سوچ کر خریدا تھا کہ انہیں لگا کر گوری ہوجاوں گی تو بھینس رہ کر بھی بھینس نہیں لگوں گی اور پھر کوئی مجھے اپنے مالک سے جدا نہیں کرسکے گا …لیکن سیاست دانوں کے جھوٹ سے کیسا ڈرنا؟تمہارا بہت بہت شکریہ، تم نے میری آنکھیں کھول دیں…‘‘بھینس نے تشکرانہ انداز میں ہماری جانب دیکھا اور اپنی راہ لی…
دوستو! ہمیں ایک جھوٹے شخص کا قصہ یاد آرہا ہے…
ایک گاؤں میں ایک شخص رہتا تھا جو ہمیشہ جھوٹ کہتا تھا… اس کے جھوٹ اتنے مشہور تھے کہ گاؤں والے اسے ‘‘جھوٹوں کا سردار‘‘کہتے تھے۔ایک دن اس نے گاؤں والوں کو بتایا کہ وہ ایک خزانے کا نقشہ پا چکا ہے۔ خزانے کی بات سن کرسب نے اس کی بات پر یقین کر لیا اور اس کے پیچھے خزانے کی تلاش میں نکل پڑے۔جھوٹوں کا شہزادہ انہیں ایک جنگل میں لے گیا اور کہا:’’خزانہ یہاں کہیں دفن ہے، لیکن میں بھول گیا ہوں کہ کہاں!‘‘گاؤں والے دن بھر کھدائی کرتے رہے، لیکن انہیں کچھ نہیں ملا۔ شام کو جب وہ تھک کر واپس لوٹے، تو جھوٹوں کے سردارنے ہنس کر کہا ’’میں تو مذاق کر رہا تھا، خزانہ تو میرے پاس ہے!‘‘گاؤں والے غصے میں آ گئے اور اس سے خزانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ جھوٹے شخص نے جیب سے ایک پرانا سکہ نکال کر دکھایا اور کہا ’’یہ رہا خزانہ، جھوٹ کا سکہ!‘‘گاؤں والوں نے اسے سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور اسے جنگل میں چھوڑ آئے۔ جھوٹوں کا شہزادہ رات بھر جنگل میں بھٹکتا رہا اور صبح کو جب وہ گاؤں واپس آیا، تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ کبھی جھوٹ نہیںکہے گا…
سنا ہے کہ جھوٹوں کا سردار اب گاؤں میں سچائی کا پیغام پھیلاتا ہے، لیکن کوئی بھی اس کی بات پر یقین نہیں کرتا…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰