مضامین

بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

والدین کو اس کا اندازہ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ایسے بچے جب اسکول جاتے ہیں تو ان کی صلاحیتیں مزیدکھلنا شروع ہوجاتی ہیں، لیکن وہ بچے جنہیں دوبرس کی عمر میں اسکرین کا شوقین بنادیا جاتا ہے تو تین برس کی عمر تک ان کی صلاحیتوں میں وہ اضافہ نہیں ہوتا جوکہ اس عمر کے بچوں میں ہونا چاہیے۔

سائنسدانوں نے اس ضمن میںکئی بچوں کو اپنی تحقیق کا حصہ بنایا۔ان کے مطابق دو،تین اور پانچ برس کے بچوں میں کمیونیکیشن ،مختلف مسائل کا حل نکالنے ،مہارت اور شخصی صلاحتیں ابھرنی شروع ہوجاتی ہیں۔

متعلقہ خبریں
بچوں کی ناکامی کا ذمہ دار کون؟
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
اجتماعی قبر سے ایک ہزار ڈھانچے دریافت، ماہرین دنگ رہ گئے
ناجائز مال میں میراث
سرد موسم اور کم عمر بچے، کچھ حفاظتی تدابیر

وہ اپنی بات سمجھنے اور سمجھانے کے قابل ہوجاتے ہیں اور چھوٹے موٹے مسئلے حل کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور ان کی شخصیت بھی نمو پارہی ہوتی ہے۔

والدین کو اس کا اندازہ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ایسے بچے جب اسکول جاتے ہیں تو ان کی صلاحیتیں مزیدکھلنا شروع ہوجاتی ہیں، لیکن وہ بچے جنہیں دوبرس کی عمر میں اسکرین کا شوقین بنادیا جاتا ہے تو تین برس کی عمر تک ان کی صلاحیتوں میں وہ اضافہ نہیں ہوتا جوکہ اس عمر کے بچوں میں ہونا چاہیے۔

اسی طرح اسکرین کے رسیاوہ بچے جنہیں تین برس کی عمر میں آئی پیڈیا ٹی وی دیکھنے کی لت پڑجاتی تو پانچ برس کی عمر تک پہنچتے ہیں تو ان میں مطلوبہ صلاحیتوں کی کمی پائی جاتی ہے۔

کنیڈا کی Calgary  یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ ’’آج کے دور کے بچوں کیلئے ڈیجیٹل میڈیا لازم وملزم ہوگیا ہے اور ایک دو برس کے بچے بھی ان سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔

Jamaپیڈیٹرکس میڈیکل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق2برس کے وہ بچے جو24گھنٹوں سے زیادہ اسکرین دیکھتے ہیں اور تین برس کے بچے جو یومیہ 36گھنٹے اسکرین کے سامنے رہتے ہیں، ان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں متاثرہوتی ہیں اور پانچ برس کی عمر میں جب وہ اسکول جانا شروع کرتے ہیں تو اس دوران بھی وہ روزانہ6 1. گھنٹہ مختلف گیمیس اور ٹی وی اسکرین دیکھتے ہیں۔

 اس تحقیق کے اعداد وشمار بھی برطانوی تحقیق سے مشابہ ہیں۔ اس میں بھی یہ ہی نتائج درج کئے گئے تھے کہ روزانہ اسکرین کے سامنے بیٹھنے والے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے ۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ابتداء کی پانچ برسوں میں بچوں کی شخصیت بڑی تیزی سے نموپانا اور آشکار ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ چند برس بچوں کی نشوونما اور پختگی کے حوالے سے بہت اہم تصور کئے جاتے ہیں، لیکن زیادہ وقت اسکرین پر صرف کرنا بڑھتے ہوئے بچوں کی غیر معمولی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے۔

جب دو یاتین برس کے بچے زیادہ وقت اسکرین کودیتے ہیں تو کھیل کود، مختلف کھلولوں ،موٹر گاڑیوں اور کمیونیکیشن کے ذریعے سیکھنے والی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ کیونکہ بچے بغیر کسی مداخلت اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوئے بغیر مسلسل اسکرین کودیکھتے ہیں۔

اس عمل میں کوئی جسمانی رابطہ یا سرگرمی نہیں ہوتی،تاہم جب بچے کھیلتے ہیں ،فرد سے فرد کا رابطہ استوار ہوتا، بچے بھاگتے دوڑتے ہیں، کھلونوں کوتوڑتے اور جوڑتے ہیں تو دو مختلف جہتوں میں ترقی کرتے ہیں اور ان کی کئی صلاحیتیں پنپنا شروع ہوجاتی ہے جوکہ شخصیت کی نمومیں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔

 اسکرین بچوں اور ان کے والدین اور بہن بھائیوں کے درمیان فاصلہ بڑھاتی ہے اوروہ چیزیں جوآپس کے سماجی رویوں اور رابطوں سے سیکھی جاتی ہیں، ان کا فقدان ہونا شروع ہوجاتا ہےاور یہی سماجی روئیے بچوں کی بڑھتی ہوئی نشوونما کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔24ماہ کے بچے جتنا زیادہ وقت اسکرین کو دیں گے اتنی ہی ا ن کی کارکردگی متاثر ہوگی۔

حالیہ تجربات کے تحت36ماہ کے بچوں کے اسکرین ٹیسٹ سے یہ ثابت ہواہے یہ جتنا زیادہ ان کا اسکرین ٹائم تھا ،اتنی ہی ان کی نشوونما اور سیکھنے کی صلاحیتوں کا اسکور کم تھا۔ برگٹن چائلڈ ہیلتھ ایجوکیشن کے لیکچرر اور ماہر نفسیات ڈاکٹر آرک سنگین نے2017ء کے اپنے تحقیقی مقالے میں انکشاف کیا ہے کہ جو بچے بہت زیادہ اسکرین دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں، ان میںScreen Dependency

Disorder   پیدا ہوجاتا ہے ، امریکی حکومت کی مرتب کردہ ہدایت کے تحت پانچ برس یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں کو صرف ایک گھنٹہ اسکرین دیکھنے کی اجازت ہے۔

2017ء کی تحقیق کے مطابق روزانہ تین یا زیادہ گھنٹے اسکرین یا ٹی وی دیکھنے والے بچوں میں ذیابیطس ٹائپ2کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

تین گھنٹوں سے زیادہ ٹی وی دیکھنے والے بچوں میں انسولین کی مزاحمت بڑھ جاتی ہے۔ ایسے بچوں میںLeptinنامی ہارمون کا اخراج بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ہارمون بھوک کیلئے ہوتا ہے اور اس میں بے ترتیبی کی وجہ سے بھوک بڑھتی ہے اور بچے موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ خطرات لڑکے اور لڑکیوں دونوں کیلئے ہیں۔

4,495 بچے جن کی عمر 9 سے  10برس تھی ،ان پر کئی گئی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اسکرین کوزیادہ وقت دینے والے بچے خواہ وہ ٹی وی دیکھتے ہوں کمپیوٹر یاٹیبلیٹ یا آئی پیڈکے عادی ہوں ،ان میں ذیابیطس کے خطرات موجود رہتے ہیں۔

کنکس کالج کے سائنسدان ڈاکٹر بین کا رڈ کا کہنا ہے کہ اسکرین کی روشنی ،نیند کوبھی متاثر کرتی ہے۔ لہٰذا بالغ افراد ہویا بچے انہیں چاہیے کو سونے سے 90منٹ قبل اسکرین کودیکھنے سے گریزکریں تاکہ وہ بھرپور اور پرسکون نیند حاصل کریں ۔اچھی نیند نہ صرف اگلے روزرفرد کو چاق وچوبند کرتی ہے ، بلکہ چڑچڑاہٹ اور غصے سے بھی بچاتی ہے۔

٭٭٭