طنز و مزاحمضامین

’’سیاست ‘‘ یا ’’سیاہ ست‘‘

حمید عادل

یہ کس نے سوچا تھا کہ آزادی کا امرت مہا اتسو مناتے مناتے ملک کے رہنما تعصب اور نفرت کی سیاست پر اتر آئیں گے …یہ بھی کس نے سوچا تھا کہ ترقی کو تنزل اور تنزل کو ترقی گردانا جائے گا،سچ کو جھوٹ کہا جائے گا اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا جائے گا …
یو ٹیوب پر جب بھی آج کے سیاست دانوںپر طنز کرنے والا کوئی ویڈیو اپ لوڈ کیا جاتا ہے اس میں فلم ’’دیوانے ہوئے پاگل‘‘کا معروف مکالمہ ضرور شامل کیا جاتا ہے ’’یہ سب کیا دیکھنا پڑرہا ہے ،اچھا ہے میں اندھا ہوں‘‘ حالانکہ خود کو اندھا کہنے والا اسرانی کاوہ کردار اندھا نہیں ہوتا…آج حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہم اندھے نہ ہونے کے باوجود اندھے بن چکے ہیں بلکہ ہم تو بہرے اور گونگے بھی کہلائے جاسکتے ہیں …
آج کے سیاست دانوں کی ڈھٹائی کے کیا کہنے کہ ان کے وعدے سچے ہوں نہ ہوں، وعدے وفا نہ ہونے پراتنا سچ کہنے کا وہ حوصلہ تو رکھتے ہیں کہ ’’ وہ توانتخابی جملہ تھا…‘‘حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کا لا دھن ہندوستانواپس لایا گیا اور نہ ہی ملک کے ہر شہری کے کھاتے میں پندرہ بیس لاکھ روپئے جمع ہوئے ،الٹے اربوں روپئے لوٹ کر کچھ لوگ فرار ہوگئے، لیکن پھر بھی عوام کو اپنے نیتاوں سے کوئی شکایت نہیں …عوام اتنے سادہ لوح واقع ہوئے ہیں کہ ’’اچھے دن آئیں گے‘‘کے پرفریب نعرے کو سمجھ نہ سکے کہ کس کے ’’ اچھے دن ‘‘ آنے والے ہیں… آج ایسے سیاست دانوں کی کمی نہیں جو وعدے محض ووٹ بٹورنے کے لیے کرتے ہیں بلکہ آج توکھلم کھلا ووٹ خریدے جارہے ہیں …
بلدیاتی انتخابات کے دوران ایک سیاست دان ووٹ مانگنے کے لیے ایک بوڑھے آدمی کے پاس گیا اور انہیں 1000 روپئے دیتے ہوئے کہا. ‘‘بابا جی. اس بار ووٹ مجھے دیں! ’’
بابا جی نے کہا:’’ بیٹا مجھے پیسے نہیں چاہیے، پر تمہیں ووٹ چاہیے تو مجھے ایک گدھا خرید کے لادو، تمہارا ووٹ پکا…‘‘
سیاست دان کو ووٹ چاہیے تھا،وہ گدھا خریدنے نکل پڑا… مگر کہیں بھی بیس ہزار سے کم قیمت کوئی گدھا نہیں ملا… تو واپس آکر بابا جی سے کہنے لگا : ’’گدھا توبڑا مہنگا ہے، کم سے کم بیس ہزار کا گدھا مل رہا ہے، اس لیے میں آپ کو گدھا تو نہیں دے سکتا پر ہزار روپئے دے سکتا ہوں !‘‘
بابا جی نے کہا:’’بیٹا ! مزید شرمندہ نہ کرو، افسوس ہے آپ نے مجھے گدھے برابر بھی نہ سمجھا…تمہاری نظر میں میری قیمت گدھے سے بھی کم ہے جب گدھا بیس ہزار سے کم میں نہیں بکتا تو میں ہزار روپیوں میں کیسے بک سکتا ہوں؟‘‘
انتخابات کے موسم میں سیاست داں عوام سے بے شمار وعدے کرتے ہیں اور یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ انہیں وفا کرنا ہی نہیں ہے …جس کے بعد عوام انہیں بطور سزا آئندہ الیکشن میں ووٹ نہ دے کر دوسرے سیاست دان کو منتخب کرتے ہیں تاہم ایک ایسا ملک بھی ہیں جہاں سیاست دانوں کو وعدے وفا نہ کرنے پر نہایت انوکھی سزا دی جاتی ہے… انہیں پنجرے میں قید کرکے دریا میں بطور سزا ڈبکی دی جاتی ہے ۔ اطالوعی قصبے ٹرینٹوکے مکین اپنے فریبی سیاست دانوں کوبخشا نہیں کرتے …مکینوں کی جانب سے پنجرے کو صرف ایک سیکنڈ کے لیے دریا میں ڈبویا جاتاہے،مقصد یہی ہوتا ہے کہ سیاست داں کو غلطی کا احساس دلایا جا ئے۔ قصبے کے مکینوں کی جانب سے دی جانے والی سزائیں، اُن سیاست دانوں کا کھلے عام مذاق اڑانا ہے جو اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہتے ہیں …وعدے وفا نہ کرنے والے سیاست دان کو جب بطور سزا دریا میں ڈبویا جاتا ہے تو اس وقت لوگوں کا جم غفیر یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھ رہا ہوتا ہے جب کہ فریبی سیاست داں کی حالت دیدنی ہوا کرتی ہے …وہ بظاہر دریا میں ڈبکی لگا رہا ہوتا ہے لیکن اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی حالت چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کی سی ہوگئی ہے ۔عین ممکن ہے اردو کے معروف محاورے ’’چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے‘‘ سے متاثر ہوکر ہی وعدہ خلافی کرنے والے سیاست دانوں کو ڈبکی دی جاتی ہو…جو بھی ہو، ٹرینٹومیں اس رسم کو ’’ٹونکا کہا جاتا ہے ،جو روایتی طورپر 26جون سے پہلے آخری اتوار کو ہوتی ہے۔گزشتہ سال یہ 19جون کو منائی گئی تھی تاہم یہ رسم رواں سال 25جو ن کو منعقد کی جاسکتی ہے…یہ کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن ہے بڑی ہی دلچسپ …اس رسم سے سیاست داں کو احساس ندامت ہونہ ہو ٹرینٹو کے مکینوں کویہ اطمینان ضرور حاصل ہوتاہوگاکہ جس سیاست داں نے ان کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا،ہم نے اس کا بدلہ لے لیا…
وہ بھی ہند کے کیا لال تھے کہ ملک میں ایک ٹرین حادثہ ہوتا اور لال بہادر شاستری اس حادثے کی ذمے داری کو قبول کرتے ہوئے استعفیٰ پیش کردیتے ہیں، آج آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں لیکن کوئی مستعفی نہیں ہوتا ،کرپشن میںسراپا ملوث پائے جاتے ہیں لیکن استعفیٰ نہیں دیتے …آج ملک کے حالات بدل گئے ہیں،بھلے ہی ہمارا ملک فاقہ کشی کے انڈکس میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہولیکن ملک کی ترقی سیاست دانوں کے رہن سہن سے پرکھی جاسکتی ہے… آج پی ایم مودی کے 4.3 کروڑ روپے کے سوٹ کو گنیز بک میں جگہ مل چکی ہے،ملک کے پی ایم 12.5کروڑ روپیوں کی کارمیں گھومتے ہیں،ایک لاکھ تیس ہزار کا قلم،لاکھوں روپئے مالیت کی گھڑی اور ایک لاکھ چالیس ہزار روپے مالیت کی عینک پہن کر سورج سے تک آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں…لیکن سادگی ایسی کہ لال بہادر شاستری کی سادگی بھی شرما جائے ،کہتے ہیں ’’ ہم تو فقیر آدمی ہیں، جھولا لے کر چلے جائیں گے‘‘
معروف صحافی روہنی سنگھ ’’کیا سیاست اب محض طاقت اور دولت کا منافع بخش پیشہ ہے؟‘‘ میں رقم طراز ہیں:
پچھلی دو دہائیوں سے نئی دہلی میں ہندوستانی سیاست کو کور کرتے ہوئے مجھے یہ احساس تو ہوگیا ہے کہ اس خطے میں سیاست سے بہتر کوئی اور منافع بخش پیشہ شاید ہی ہوسکتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ایک مفلس اور نادار فرد پر جب سیاست کی دیوی مہربا ن ہوجاتی ہے، تو راتوں رات دولت کی دیوی اس کی چوکھٹ کو چوم لیتی ہے۔
چند برس قبل حق اطلاعات قانون اور امیدواروں کے ذریعے فائل کیے گئے حلف ناموں اور دیگر ذرائع سے حاصل کیے گئے دستاویزات کے ذریعے معلوم ہو اکہ ایک رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ کی دولت میں پانچ سالوں میں 50ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح لوک سبھا کے ممبران کے حلف نامے جو میں نے چیک کیے ان کے مطابق 2009 اور 2014 کے درمیان اوسطاً ایک ممبر کی آمدنی میں 1200گنا اضافہ ہوا تھا۔ اگر ان کے مشاہرہ کا جائزہ لیا جائے، تو ہندوستان میں ایک ممبرپارلیمنٹ کو تمام الاونس اور تنخواہ کے ساتھ بس ماہانہ ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب رقم ملتی ہے۔ جو اس کے ایک دن کے خرچ سے بھی کم رقم ہوتی ہے۔ سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔ماضی کی طرح سیاسی پارٹیاں اب عوامی چندہ پر چلتی ہیں نہ الیکشن میں نامزد امیدوار اپنے حلقہ میں چندہ کی کوئی مہم چلاتا ہے۔ ان حالات میں وافر تعداد میں یہ فنڈز کون فراہم کرتا ہے، ایک معمہ ہے؟ 2024کے عام انتخابات میں ہندوستان میں ایک ٹریلین روپے خرچ ہونے کے امکانات ہیں۔
مہاتما گاندھی نے 1947 ء میں اس وقت کے کانگریسی وزرائے اعلیٰ کوسادگی اپنانے کی تلقین کی تھی۔ اپنے خط میں انہوں نے لکھا تھا:
’’کانگریسیوں کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ سادگی پر ان (گاندھی) کی ہی اجارہ داری ہے۔جس کا مظاہرہ وہ1920 سے دھوتی کی صورت میں کر رہے ہیں۔ میں حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمرؓکی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں رام اور کرشن کو مثال کے طور پر اس لیے پیش نہیں کرسکتا کہ یہ ماقبل تاریخ کے نام ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مہا رانا پرتاپ اور شیوا جی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے لیکن اس بات پر اختلاف ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کیا طرز عمل اپنایا…البتہ پیغمبراسلامؐ،حضرت ابوبکرؓاورحضرت عمرؓکے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے… پوری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی، اس کے باوجود انہوں نے جس طرح کی جفاکش اور سادہ زندگی گزاری اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے گورنروں کو بھی موٹا کپڑا پہننے اور موٹا آٹا کھانے کی ہدایت دی تھی۔ اگر کانگریسی وزراء بھی اسی سادگی اور کفایت شعاری کو برقرار رکھیں گے جس پر وہ1920 سے گامزن ہیں تو اس سے ہزاروں روپے بچیں گے،جس سے غریبوں کی امیدیں روشن ہو سکتی ہیں اور خدمات کے آہنگ میں تبدیلی آسکتی ہے۔
میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سادگی کا مطلب بدحالی ہر گز نہیں، سادگی میں ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے جسے اس خوبی کو اپنانے والے بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ پاک صاف اور باوقار رہنے کے لیے پیسے کی ضرورت نہیں پڑتی… دکھاوا اور نمائش بالعموم فحاشی کے مترادف ہوتے ہیں۔‘‘
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہاتما گاندھی کی ان نصیحتوں کویورپی ممالک کے سیاست دانوں نے حرف بہ حرف اپنا لیا ہے لیکن ہمارے لیڈروں نے ان تعلیمات کو بہت پہلے سے بھلا رکھا ہے جس کا انجام آج عوام کو بد حالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
(اقتباس ختم ہوا)
دوستو!چمن بیگ کی باتیں چمن ٹائپ ہونے کے باوجود کبھی کبھی دل میں اتر جاتی ہیں… موصوف کا دعویٰ ہے لفظ ’’سیاست ‘‘کا پہلا حصہ ’’ سیا‘‘ دراصل ’’ سیاہ ‘‘ ہے ، جس کے معنی ’’کالا‘‘ کے علاوہ نا مبارک‘‘ بھی ہیں اور ’’ ست‘‘ حاصل یاعرق کو کہتے ہیں …‘‘ اور پھرچمن بیگ لفظ ’’ سیاہ ست‘‘ کا خلاصہ کچھ اس طرح کرتے ہیں ’’نامبارک کا حاصل‘‘جب عمل ہی نامبارک ہو توپھراس کے مبارک ہونے کی بھلا کیسے توقع کی جاسکتی ہے ؟سیاہ کرو یا سفید، سیاست دانوں کا حق ہوتا ہے …‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰