ڈاکٹر سیّد احمد قادری
اسلام اور مسلمان کے سلسلے میں حالیہ دنوں میںکچھ ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جو ایک طرف اسلام کے چاہنے والوں کو خوش کرنے والی ہیں تو دوسری جانب اسلام اور مسلمان دشمنوں کو کچھ زیادہ ہی پریشان کرنے والی ہیں۔ان چند اہم خبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد اس بات کا احساس بہت شدت سے قائم ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر اسلام کی صحیح اور حقائق پر مبنی تصویریں پیش کی جائیں اور لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ لفظ ’اسلام‘ دراصل عربی لفظ ’ سلم ‘ سے اخذ ہے ، جس کے معنیٰ ہی ”امن“ کے ہے۔ یعنی اسلام ایک ایسا مذہب ہے ، جس کی بنیاد ہی امن و سلامتی ہے۔ یعنی ظلم، تشدد، استحصال اور دہشت گردی کا یہ مذہب سخت مخالف ہے ۔ مذہب اسلام ،جو کسی بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہو، سایہ دار اور پھل دار درخت تک کو کاٹنے سے منع کرتا ہو ، جگہ جگہ صلہ رحمی کی ہدایت دیتا ہو، عورتوں ، بچوں اوربزرگوں کے ساتھ خاص طور پر محبت اور پیار سے پیش آنے کی ترغیب دیتا ہو ۔ وہ مذہب اسلام،منافرت، دہشت اور تشددکو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ ایسا مذہب جو امن، سلامتی، دوستی،اخوت، یکجہتی، اتحادواتفاق پر مکمل یقین رکھتا ہو، اس مذہب کے ماننے والے ایسی غیر انسانی حرکات کے کیسے مرتکب ہو سکتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کے اندر خوف خدا نہ ہو اور جو شخص بھی اسلام کے ان بنیادی امور پر یقین نہیں رکھتا ہو ، وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ہے ۔یہی وہ حقائق ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی اسلام کی تعریف کرنے میں پیچھے نہیں رہتے اور دنیا کے مختلف خِطّوں میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔
لیکن دوسری جانب اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں اسلام اور مسلمان کے خلاف منصوبہ بند سازشیں رچی جا رہی ہیں ۔ ہمارے ملک میں بھی ایسی فضا بنانے میں گزشتہ چند برسوں میں تیزی آئی ہے کہ اس ملک کا مسلمان ملک دشمن ، انسان دشمن ، ملک کے جمہوری اقدار کا دشمن ہے۔ ایسی سازش اور کوششوں کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اسلام کی بڑھتی مقبولیت سے بھی اسلام دشمن عناصر میں حد درجہ بے چینی اور بے قراری پائی جا رہی ہے،جس کے باعث وہ اسلام کی مخالفت میں طرح طرح کی زہر افشانیاں کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا ملک ہندوستان تو اس وقت اسلام اور مسلمان کی مخالفت کا مرکز ہی بنا ہوا ہے ۔ موجودہ حکومت کو لگتا ہے کہ اقتدار پر بنے رہنے اور اپنے ایجنڈوں کو نافذ کرنے کے لیے ملک کے مسلمانوں کی مخالفت ہی نہیں بلکہ ان سے دشمنی ضروری ہے،تاکہ ملک میں فرقہ واریت کی فضا قائم رہے اور وہ ملک کے لوگوں کو یہ تاثر دیتے رہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو روکنا بہت ضروری ہے، اگر نہیں روکا گیا تو یہ اقلیت یہاں کی اکثریت پر حاوی ہو جائیں گے ۔ انتہا تو یہ ہے کہ اس ملک کا وزیر داخلہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے یہ کہنے میں ذرا بھی نہیں جھجھکتا اور شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ گجرات میں 2002ءمیں فرقہ وارانہ فساد اور ہزاروں مسلمانوں کا قتل کرانے کے پیچھے دراصل یہاں کے مسلمانوں کو سبق سکھانا مقصد تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اس وقت ہر طرح سے سیاسی ، سماجی ، معاشی ، اقتصادی ، تعلیمی اور صنعتی طور پر کمزور ، بے دست و پا اور بے وقعت کیے جانے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کبھی رام مندر ، لو جہاد ، گھر واپسی ، گو¿ مانس ، گو¿ رکشا ، وندے ماترم ، 370 کا خاتمہ ، طلاق ثلاثہ، مسلم پرسنل لا ¿ ، شہریت قانون ، یونیفارم سول کوڈ وغیرہ کے نام پر مسلسل نہ صرف خوف و دہشت میں مبتلا ¿ کیا جا رہا ہے بلکہ بات بات پر انھیں گالیوں اور مغلظات سے نوازتے ہوئے انھیں پاکستان بھیجا جاتاہے ۔ گجرات میں تو یہاں کے مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے ہی مذکورہ بدترین مسلم کش فساد کے زانیوں اور قاتلوں کو باعزت جیلوں سے آزاد کراکر انھیں معزز اور سنسکاری قرار دے کر مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دیکھو تم پر مظالم کرنے والے ہمارے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں ۔
ایسے مظالم کے خلاف بلا شبہ اسی ملک میں ایسے لوگ بھی ہیںجو سیکولرازم پر یقین رکھتے ہیں اور ملک کی تہذیبی روایات کے امین ہیں۔ یہ لوگ ملک کے اندر بڑھتی منافرت ، فرقہ واریت ، خوف ، دہشت ، عدم رواداری اور مظالم کی آئے دن مذمت کرتے رہتے ہیں۔ بیرون ممالک میں بھی اکثر و بیشتر بڑے پیمانے پر ایسی غیر انسانی، غیر آئینی اور غیر جمہوری کوششوں اور حکومت کی خاموشی پر لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوئٹریس ، سابق امریکی صدر بارک اوباما ، موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ساتھ کئی ممالک کی سیاسی ، سماجی شخصیات ، دانشور ، فنکار وغیرہ بھی ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ایسے ناروا سلوک پر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اپنا احتجاج اور اعتراض درج کرانے میں پیچھے نہیںرہتے ، لیکن ملک کی موجودہ حکومت پر ان باتوں کا کوئی اثر دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ۔ملک کے مسلمانوں سے نفرت کی انتہا یہ ہے کہ انھیں مسلمانوں کے نام پرقائم شہروں کے نام اور عمارتوں کے نام بھی پسند نہیں اور اس غریب ملک کے کروڑوں روپئے خرچ کرتے ہوئے ان ناموں کو بدلنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مغل حکمراں ہندوستان آئے اور یہاںسینکڑوں برس تک حکومت کی اور اپنے دور حکومت میں ہمیشہ ملک کی ترقی اورتحفظ اور گنگا جمنی تہذیب کو ترجیح دی۔ ان مغلوں نے اس ملک میں اتنے سارے کام کیے ہیں کہ آج بھی اس کے نقوش جا بجا موجود ہیں ، جن پر فخر کیا جاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مغلوں نے اپنے دور حکومت میں ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی کی یکجہتی اور رواداری کی جو شاندار مثالیں قائم کی ہیں ، وہ آج بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔تاریخ کے اوراق ان مثبت کوششوں کی بابت بھرے پڑے ہیں ۔ ابھی ابھی کل پرسوں ہی کرناٹک کے ایک سبکدوش ڈسٹرکٹ جج وسنت ملا ساوالاگی نے وجئے پورہ میں راشٹریہ سوہارد ویدیکا اور دیگر کئی سیکولر تنظیموں کے اشتراک سے منعقد ہونے والے ایک سیمینارجس کا مقصد ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے اور اسے فروغ دینے کے تحت منعقد کیا گیا تھا ،جس میں بڑی بے باکی سے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ مغلوں کے دور حکومت میں اگر مغل بادشاہ ہندوو¿ں کے خلاف ہوگئے ہوتے تو ہندوستان میں ایک بھی ہندو نہیں بچتا ۔جسٹس وسنت ملا ساوالاگی نے موجودہ حکومت کے اس نظریہ اور پھیلائی گئی افواہ اور غلط بیانی کی تردید کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ سینکڑوں سال ملک پر حکمرانی کے باوجود مسلمان اقلیت میں کیوں ہیں ؟ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے یہ کیا وہ کیا ،انھیں ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی کے سات سو سالہ تاریخ کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کہتی ہے ۔ جسٹس وسنت ملا ساوالاگی نے مغل بادشاہ اکبر اعظم کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اکبر نے اپنے محل میں بھگوان کرشنا کا مندر بنا رکھا تھا ،جسے لوگ آج بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ جسٹس وسنت ملا ساوالاگی نے یہاں تک کہہ دیا کہ رام اور کرشن جیسے ہندو دیوی دیوتا محض کہانیوں کے کردار ہیں وہ تاریخی شخصیات نہیں ہیں ، بلکہ اصل تاریخی شخصیت تو حکمراں اشوک تھا۔ مسلم حکمرانوں پر لگائے گئے اس الزام کی بھی انھوں تردید کی کہ مندروں کو مسجدوں میں تبدیل کیا گیا۔ مگر مندروں کی تعمیر سے قبل حکمراں اشوک نے 84 ہزار بودھ وہار تعمیر کرائے تھے ،وہ کہاں گئے ، وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب کچھ ہو گیا۔ موجودہ سسٹم پر بھی جسٹس وسنت ملا ساوالاگی نے اعتراض جتاتے ہوئے کہا کہ آئین نے جو ہدف طئے کیا ہے وہ بہت ہی صاف اور واضح ہیں مگر ان اہداف کو حاصل کرنے میں سسٹم ناکام ہے ۔ ان تمام حالات سے نبرد آزما ہونے کی تلقین کرتے ہوئے جسٹس وسنت ملا ساوالاگی نے یہ بھی مشورہ دیاکہ ہمیں اپنی آواز صحیح دھنگ سے بلند کرنی ہوگی ۔ جسٹس وسنت ملا ساوالاگی کی تقریر کا ویڈیو بہت تیزی سے وائرل ہو رہا ہے جس سے متعصب اور فرقہ پرستوں کے درمیان بے چینی لازمی ہے۔
ادھر برطانیہ سے آنے والی ایک خبر ” برطانیہ میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے “ نے بھی چونکا دیا ہے ۔ برطانیہ کے قومی شماریات کے دفتر ( ONS ) سے جاری ہونے والی دس سالہ مردم شماری 2021 ءکی رپورٹ رشی سونک کے برطانوی وزیر اعظم بننے کے کچھ ماہ بعد اس رپورٹ کا ایک حصہ جاری کیا گیا ہے جو مذہب اور نسلی شناخت کو ظاہر کرتے ہوئے یہاں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کو دکھایا گیا ہے ۔ اس مردم شماری پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا ہے کہ یقینی طور پر برطانیہ متنوع ثقافت کا حامل ملک ہے اور اس کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں جہاں ہر طرح کے مذہب کے لوگ رہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں مسیحی عبادت گاہ یارک کے آرچ شپ اسٹیفن کوٹریل کہتے ہیں کہ یہ کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی کا تناسب کم ہو رہا ہے ۔
برطانیہ سے آنے والی یہ خبر فرقہ پرستوں کو ضرور متحوش کر سکتی ہے ، لیکن برطانیہ کی حکومت ، عوام اور مسیحی عبادت گاہ کے یارک وغیرہ کی ذہنی وسعت اور انسانی اقدار کی داد دینی ہوگی کہ ایسی رپورٹ کو بھی بڑی خوش دلی سے قبول کیا اور کسی طرح کا اعتراض اور احتجاج ظاہر نہیں کیا ۔ برطانیہ کی اس خبر کے ساتھ ہی امریکہ کی ایک خبر بھی زہر آلود اذہان کے لوگوں کی راتوں کی نیند حرام کر سکتی ہے ۔ امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں حکومتوں غیر سرکاری قوتوں نے اپنے عقائد اور مذاہب کی بنیاد پر کئی لوگوں کو ہراساں ،خوف زدہ کرنے کے ساتھ ساتھ جیل میں بند کرنے اور انھیں قتل بھی کیا ۔ انٹونی بلنکن نے اس ضمن میں کہا کہ کچھ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کی مذہبی آزادی کو دبایا گیا ہے ۔ایسے اقدام تفریق پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تحفظ کو کمزور اور سیاسی استحکام سمیت امن کے لیے خطرہ ہیںاور امریکہ ایسے الزامات کی زد میں آنے والے ممالک کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا اور مذہبی آزادی کی شدید خلاف ورزیوں میں ملوث یا ایسے اقدامات کو برداشت کرنے کی وجہ سے خاص تشویش والے ممالک ( سی پی سی) میں شامل کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ امریکہ کی یہ وارننگ چین ، روس وغیرہ جیسے ان تمام ممالک کے لیے ہے جو مسلسل مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔اس خبر کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ مذہب کی بنیاد پر مذہبی آزادی کو سلب کرنے کی دانستہ کوشش کے ہمیشہ خلاف رہا ہے، جس کا اظہار اور اعلان ابھی ابھی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کیا ہے ۔ چند سال قبل جب میں امریکہ گیا تھا اس وقت بھی میں نے محسوس کیا تھا کہ امریکہ میں ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اس لیے یہاں دوسرے کئی مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلام مذہب بھی اپنی پوری خصوصیات اور شناخت کے ساتھ نہ صرف موجود ہے ، بلکہ متاثر کرنے میں بھی کامیاب ہے۔ جس کی خبریں اکثر میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ اگر یہاں کے پانچویں کلاس کے بچّوں کے نصاب میں شامل تاریخ کی کتاب پر بھروسہ کیا جائے تو یہ امریکہ ہی ہے ، جہاں سب سے زیادہ لوگ اسلام قبول کرتے ہیں، جس کی اہم وجہ یہاں کے مسلمانوں کا اسلامی شعار کو اپناتے ہوئے ایک مثالی مسلمان کی طرح زندگی گزارنا ہے۔
یہ باتیں ایسی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے بلا شبہ خوش کن ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان صرف نام کے مسلمان نہ رہیں بلکہ اپنے کردار و عمل سے یہ ثابت کرتے رہیں کہ وہ قران اور حدیث کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کے پابند ہیں اور دیگر تمام مذاہب کی عزت و احترام لازمی طور پرکرتے ہیں ۔٭٭